تزئین و ترجمہ : حامد عتیق سرور
قبانی کی بظاہر سات یا نو بند کی یہ طویل نظم عاشق کی اسی بے بسی کی تصویر ہے جسے حافظ نے مجبوری و دعوائے گرفتاریِ الفت کہا تھا ۔ دست تہ سنگ آمدہ کی یہ تصویر دیکھیں ۔ ہر چند کہ کہاں نزار قبانی ، کہاں عربی زبان ، کہاں ہم اور کہاں کی ہماری سمجھ ۔ کچھ کا کچھ بن گیا ہے ۔
(1)
بھلا یہ کیسے ممکن ہے
کہ کوئی بھی مجھے دیکھے
مگر پھر بھی تمہیں پہچان نہ پائے
مرے ہاتھوں کی ریکھاوں میں تیرے نام کے سارے کے سارے حرف دکھتے ہیں
کئی باتوں کی شاید جانجاں تردید ممکن ہے
مگر دل میں بسے محبوب کی خوشبو نہیں چھپتی
وہ پیاری موہنی لڑکی
جو میرے اندروں میں رقص کرتی ہے
تو اس کے قدو قامت ، عارض ولب کو
اور اس کی تال کو اور ساز کو
لوگوں سے نہاں ، خاموش سا رکھا نہیں جاتا
مری جاناں
تمہارا حسن وہ ازلی حقیقت ہے
کہ جس پہ کوئی بھی دو رائے اور تمحیص مہمل ہے
(2)
مری جاناں
تمہیں کیسے چھپاوں میں
کہ میری اور تمہاری
یہ جو جیتی جاگتی اور گنگناتی سی محبت ہے
زمانے پر عیاں ہے
عیاں ہے یوں کہ جیسے
آگ سے جلتا ہوا جنگل
جسے کچھ بیسیوں چینل
مسلسل اپنے ٹی وی پر دکھاتے ہوں
(یہاں کے سب صحافی بس
تمہارے خوبرو پیکر سے اخبارات کا ٹائٹل بنانا چاہتے ہیں
مجھے یونان کا ہیرو بتا کر اور تمہیں دیوی بنالیں گے
تمہارا اور میرا عشق اسکینڈل بنا کر
نوٹ چھاپیں گے)
(3)
یہ ہم تم، جائیں تو جائیں کہاں آخر
سبھی چائے کے کھوکھوں کو زبانی یاد ہیں ہم تم
سبھی ہوٹل کے بیروں کو ہماری صورتیں ازبر
سبھی فٹ پاتھ کے پتھر
تمہارے اور مرے اک ساتھ چلتے
پاوں کی آہٹ سے واقف ہیں
یہ ہم تم جائیں تو جائیں کہاں آخر
ہمارا عشق دنیا پر عیاں ایسے
کہ جیسے ریتلے ساحل پہ گھر کی بالکونی ہو
کہ جیسے آبگینے میں سنہری ، تیرتی مچھلی
(4)
یہ میری بے بسی دیکھو
کہ میری شاعری میں لوگ تم کو ڈھونڈ لیتے ہیں
جو میری نظم پڑھ لے
وہ تمہاری آنکھ کی گہرائیوں کو جانچ لیتا ہے
مرے گھر کے پتے سے لوگ تیرے سرخ ہونٹوں کی
ضیا کو جان جاتے ہیں
درازوں میں مری الماریوں جب کوئی جھانکے
تمہیں سویا ہوا پائے
مرے کمرےکے کاغذ
کہ جن پر نامکمل شعر لکھے ہیں
کوئی پڑھ لے تو
تمہاری عادتوں کو جان جائے گا
یہ میری بے بسی دیکھو
(5)
خدا کا واسطہ، مجھ کو سکھا دو
تمہیں کیسے میں اپنے دائرے کی قید میں رکھوں
(رہائی کی جہاں ،صورت بھی عنقا ہو)
تمہارے جسم پر میں اک بنفشی مارکر لے کر
کہو تو دستخط کر دوں؟
(کہ تم اب صرف میری ہو)
خدا کا واسطہ مجھ کو سکھا دو
تمہیں کیسے میں اپنے عشق کی تحویل میں رکھوں
(کہ جیسے کوئی جملہ آخری نقطے میں ہر دم قید رہتا ہے )
پھر اس کے بعد سمجھا دو
تمہاری آنکھ کی بارش میں بھیگوں – ڈوب نہ جاوں
تمہارے مشک و عنبر میں بسے قالب سے لپٹوں -ہوش میں رہ لوں
فراز_ تن سے لڑھکوں – منتشر ہونے سے بچ جاوں
(6)
اے میری دلبریں جاناں
مری ان روزمرہ عادتوں سے یوں نہ جھلکو
قلم سے اور کاغذ سے
مری چابی کے گچھے سے
مری کافی سے ، چائے سے
مرے کپڑوں سے ، ٹائی سے
مری ہر بات میں تم ہو
کہ یوں اچھا نہیں لگتا
(مجھے ایسے ہی لگتا ہے)
کہ جیسے میں تمہاری انگلیوں سے شعر لکھتا ہوں
تمہاری آکسیجن سے میں جیسے سانس لیتا ہوں
تمہارے نیم وا ہونٹوں سے جیسے مسکراتا ہوں
یہ میں ہوں یا کہ تم ہو، سوچ کر آنسو بہاتا ہوں
(7)
اے دل میں جاگزیں لڑکی
ادھر آو
ذرا سی دیر کو بیٹھو
کہ اب ہم پیار کی اس جنگ کے نقشے کو دیکھیں گے
وہ نقشہ جو کہ تم نے خود پرستانہ
کسی منگول کی صورت بنایا ہے
(کہ جس،میں فتح کا امکان سو فیصد تمہارا ہے)
خدا وندوں کی طرح کے، اختیار _ کن سے باز آو
چلو آپس میں بیٹھیں
عشق کا آئین _ نو لکھیں
چلو یہ فیصلہ کر لیں
تمہاری چشم _ نازاں کی حکومت تا بہ کے ہے ؟
کہاں تک ، شہر_ غم میرا؟
سمندر ، پانیوں میں کس جگہ تک تم ہی حاکم ہو ؟
کہاں تک جوئے خوں میری ؟
بدن پر میرے ، تیری حکمرانی کس گھڑی تک ہے؟
(اور شب میں کس گھڑی اک بار پھر سے حکمرانی ابتدا ہوگی )
ہمارے پاس بیٹھو
جنگ کے کچھ ضابطے لکھیں
اگر میں جیت جاوں تو
(اگر چہ غیر ممکن ہے!)
تمہیں باندی نہیں بننا
اگر تم جیت جاو تو
(حقیقت – جس کو ہونا ہے )
تمہارے بیسیوں مفتوحہ ملکوں میں
مجھے چھوٹی سی آبادی نہیں ہونا
کہ پچھلی تین صدیوں سے
میں استعمار کی طاقت کا باغی ہوں
تمہارے حسن کی اس سامراجی قید سے آزادی کی خواہش ہے۔
محبت میں مجھے شاید کسی عزت کی خواہش ہے
مگر تم ہو کہ میری بات کو سنتی نہیں ہو
مگر تم ہو کہ میری ذات کی سنتی نہیں ہو