Home تجزیہ میرا مطالعہ –  ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

میرا مطالعہ –  ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

 

ماہ نامہ النخیل کراچی کے مدیر محترم جناب ابن الحسن عباسی کی خواہش ہے کہ میں اپنے مطالعہ کے بارے میں کچھ باتیں ان کے قارئین کے سامنے پیش کروں ۔ مجھے ایسے کسی کام میں تکلّف ہوتا ہے ، کیوں کہ اس میں کہیں نہ کہیں ، خواہی نہ خواہی ، خود ستائی کی باتیں آجاتی ہیں ، لیکن ان کی خواہش کے احترام میں اپنے ذوقِ مطالعہ اور اس کے ارتقا کے بارے میں چند باتیں عرض کررہا ہوں ۔

 

میرا وطن ہندوستان کی ریاست اترپردیش کا شمالی ضلع بہرائچ ہے ۔اس کا شمار تعلیمی ، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے پس ماندہ علاقوں میں ہوتا ہے ۔ میری تعلیم والدِ محترم کی رہینِ منّت ہے ۔ وہ جماعتِ اسلامی ہند کے ارکان میں سے تھے ۔ ان کی اپنی تعلیم تو انٹر میڈیٹ ہی تک ہو سکی تھی ، لیکن انہوں نے میری تعلیم میں غیر معمولی دل چسپی لی ۔ چھ برس کی عمر میں انھوں نے میرا داخلہ جماعت کے سابق مرکز رام پور میں اس کی قائم کردہ ابتدائی درس گاہ میں ، جس کا نام ’مرکزی درس گاہ جماعت اسلامی ہند رام پور‘ تھا، کروادیا تھا ۔ اس وقت تک میں جماعت کے تیار کردہ نصاب کی درجہ چہارم تک کی کتابیں پڑھ چکا تھا ، لیکن عمر کم ہونے کی وجہ سے درس گاہ میں میرا داخلہ درجۂ چہارم ہی میں کردیا گیا اور وہاں میں نے پانچ برس تعلیم حاصل کی ۔

 

میرے ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھانے میں والد محترم کا اہم کردار ہے ۔ مجھے یاد ہے ، انھوں نے مجھے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’خطبات‘ کے خاصے حصے ازبر کرا دیے تھے ۔ ان کے پاس جماعت کا اچھا خاصا لٹریچر موجود تھا ، جسے میں نے اس وقت سے پڑھنا شروع کردیا تھا جب اخذ و فہم کی صلاحیت ابھی پختہ نہیں ہوئی تھی ۔ انھوں نے میرے غیر درسی مطالعہ کا خصوصی اہتمام کیا ۔ دو(۲) چھوٹی چھوٹی الماریاں خرید کر میرے پاس رکھوائیں اور انھیں غیر درسی دینی کتابوں سے بھر دیا ، جب کہ اس وقت پوری درس گاہ میں سیکڑوں لڑکوں میں سے کسی کے پاس الماری کیا ، چند کتابیں بھی غیر درسی مطالعہ کے لیے نہیں تھیں ۔ انھوں نے میرے ایک استاد کو ہدایت کر رکھی تھی کہ جماعت کے اشاعتی ادارہ ’مرکزی مکتبہ اسلامی‘ سے جو بھی کتاب شائع ہو ، خرید کر مجھے دے دی جائے ۔ مجھے یاد ہے ، 1975 کے اوائل میں مولانا مودودیؒ کی کتاب ’سیرت سرور ِ عالم‘ مکتبہ سے شائع ہوئی تو میرے استاد نے وہ بھی خرید کر مجھے دے دی تھی ۔ اس وقت میری عمر صرف گیارہ برس تھی ۔ رام پور سے کئی تحریکی رسالے نکلتے تھے : نور ، الحسنات ، بتول ، ہادی ، حجاب ، ذکریٰ ۔ والد صاحب نے یہ تما م رسالے میرے نام جاری کروا دیے تھے اور میں ان کا مطالعہ بہت شوق سے کیا کرتا تھا ۔

 

رام پور کے اساتذہ نے میرے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز کیا ۔ تمام اساتذہ جماعت اسلامی کے مشن سے وابستہ تھے ۔ وہ بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت پر خصوصی دھیان دیتے تھے اور انھیں دینی کتابوں اور رسائل کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے تھے ۔اس معاملے میں خاص طور سے جناب عرفان خلیلی ، مولانا محمد سلیمان قاسمی ، مولانا محمد ایوب اصلاحی جیراج پوری اور جناب ابو المجاہد زاہد کا اہم کردار ہے ۔

 

اس کے بعد میری آئندہ تعلیم کے لیے والد صاحب نے مولانا ابو اللیث ندوی اصلاحی امیر جماعت اسلامی ہند سے مشورہ کیا ۔ ان کی ہدایت اور رہ نمائی میں میرا داخلہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ہو گیا ، جہاں میں نے نو(۹) برس تعلیم حاصل کرکے عالمیت اور فضیلت کی اسناد حاصل کیں ۔ میری ذہنی و فکری تربیت میں ندوہ کے اساتذہ کا غیر معمولی حصہ ہے ۔ ندوہ میں داخلہ ہوتے ہی مجھے مولانا شمس الحق ندوی کی سرپرستی حاصل ہوگئی ، جو ندوہ کے ترجمان پندرہ روزہ ’تعمیر حیات‘ کے ایڈیٹر تھے ۔ [ وہ اب بھی اس کے ایڈیٹر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے ۔ ] دیگر اساتذہ ، مثلاً مولانا شہباز اصلاحی ، مولانا شفیق الرحمٰن ندوی ، مولانا واضح رشید ندوی وغیرہ سے بھی مطالعہ کے سلسلے میں خاص طور پر مجھے ہمت افزائی اور رہ نمائی ملتی رہی ۔ ان کے علاوہ مولانا محمد مرتضیٰ مظاہری کا ، جو ان دنوں کتب خانہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے ناظر تھے ، خاص تعاون حاصل ہوا ۔ مجھے یاد ہے کہ ندوہ میں داخلہ کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی میں نے کتب خانہ سے علامہ شبلی نعمانی ؒ کی سیرت النبی کی پہلی جلد نکلوائی ۔ کتاب کے اجرا کے وقت ناظر کتب خانہ کے سامنے حاضری ضروری تھی ۔ کتاب لے کر ان کی خدمت میں پہنچا تو انہیں بڑی حیرت ہوئی کہ اتنا چھوٹا سا بچہ اس کتاب کا کیا کرے گا ؟ انھوں نے مجھ سے سوالات شروع کردیے ۔ میرے جوابات سے انہیں اطمینان ہوا تو بڑی مسرّت کا اظہار کیا ۔ پھر تو میرے لیے کتابوں کے اجرا میں بڑی آسانی ہوگئی اور وہ ضابطہ سے ہٹ کر مجھے بہت سی سہولیات پہنچانے لگے ۔

 

ندوہ میں طلبہ کے مطالعہ کے لیے بہت سہولیات تھیں ۔ چھوٹے بچوں کے لیے انجمن الاصلاح کی لائبریری ، بڑے بچوں کے لیے جمعیۃ الاصلاح کی لائبریری ، ان لائبریریوں میں دینی اور ادبی کتابوں کے وافر ذخیرہ کے ساتھ ملک و بیرونِ ملک سے دینی و علمی مجلات کثرت سے آتے تھے ۔ اس کے علاوہ مکتبۃ النادی العربی میں عربی کتابوں کا بہت قیمتی ذخیرہ تھا اور عالم عرب کے خاصے مجلات و جرائد بھی آتے تھے ۔ان تمام لائبریریوں سے میں نے بھرپور استفادہ کیا ۔ اس سلسلے میں مجھے اپنے حلقۂ احباب سے بھی خوب تعاون ملا ۔ میرے دوستوں کا ایک ایسا حلقہ بن گیا تھا جو مطالعہ کا بہت شوقین تھا ۔ ہم مطالعہ کرتے ، بعد میں ایک دوسرے کے سامنے اپناحاصلِ مطالعہ پیش کرتے اور اس پر بحث کرتے ، اس طرح ایک دوسرے کے خیالات کو جاننے کا موقع ملتا ۔

ندوہ میں علامہ شبلی نعمانی ، مولانا سید سلیمان ندوی ، مولانا عبد السلام ندوی ، مولانا عبد الباری ندوی ، مولانا عبد الماجد دریابادی ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریباً تما م ہی کتابیں پڑھ ڈالیں ۔ زیادہ وقت دینی کتابوں کے مطالعہ میں لگایا ، کچھ ادبی کتابیں بھی پڑھیں ۔ نسیم حجازی کے خاصے ناول پڑھ ڈالے ۔ اسی طرح ایک زمانے میں ابن صفی کے ناول پڑھنے کا بھی چسکا لگا ۔ ان کی جو کتاب بھی ہاتھ لگتی تھی،پڑھ ڈالتا تھا ۔

 

ایک بات کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا کہ ایک خاص سبب سے مجھے مطالعہ کرنے کا زیادہ موقع ملا ۔ وہ یہ کہ میری زبان میں بہت زیادہ لکنت تھی ، اتنی کہ میں ایک جملہ بھی روانی سے نہیں بول سکتا تھا۔ [ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اب یہ عیب تقریباً ختم ہو گیا ہے۔] ایسا شخص عزلت نشین ہوجاتا ہے ، لوگوں سے کم ملتا جلتا ہے اور گوشۂ تنہائی میں رہنا زیادہ پسند کرتا ہے ۔ ایسا ہی میرے ساتھ ہوا ۔ چنانچہ میں نے لوگوں سے الگ تھلگ رہ کرزیادہ سے زیادہ مطالعہ کو اپنا شیوہ بنا لیا ۔ایک بات میرے ذہن میں یہ بھی بیٹھ گئی تھی کہ تقریر کرنا میرے لیے ممکن نہیں ، اس لیے مجھے اچھی تحریر لکھنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ، اس کے لیے وسعتِ مطالعہ ضروری ہے ۔

 

ندوہ سے فراغت کے بعد مجھے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ وہاں میرا داخلہ اجمل خاں طبیہ کالج میں ہوا ، جہاں میں نے دس برس گزارے اور بی یو ایم ایس اور ایم ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ علی گڑھ میں طب کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اسلامیات سے میرا رشتہ نہ صرف برقرار رہا ، بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا ۔ اس میں دو شخصیات کا کلیدی کردار ہے ۔ ایک پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی ندوی ، جومسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ اسلامیات میں استاد تھے ۔ انھوں نے میری بہت ہمّت افزائی کی اور اسلامیات میں لکھنے پر ابھارا ۔ دوسرے مولانا سید جلال الدین عمری ، جومسلم یونی ورسٹی کیمپس کے پڑوس میں واقع ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے سکریٹری تھے ۔ انھوں نے بہت محبت آمیز برتاؤ کیا ۔ انھوں نے میری طبی تعلیم تو جاری رہنے دی ، لیکن مسلسل میری کاؤنسلنگ کرتے رہے کہ آپ اسلامیات میں اچھا کام کر سکتے ہیں ، آپ سے ملّت کو بہت فائدہ پہنچنے کی امید ہے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ طیبہ کا لج کے امتحان سے فراغت کے اگلے دن ہی میں نے ادارۂ تحقیق جوائن کرلیا ۔ وہاں ستّرہ(17) برس گزارنے کے بعد گزشتہ آٹھ برس سے جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں خدمت انجام دے رہا ہوں ۔ مولانا عمری سے اب تک قریبی تعلق استوار ہے اور میری حیثیت ان کے شاگرد کی سی ہے ۔ میری تعلیم کے تیسرے مرحلے میں میری شخصیت کی تشکیل میں مولانا عمری کا قابلِ قدر کردار ہے ۔ انھوں نے طریقۂ مطالعہ و تحریر میں میری قدم قدم پر رہ نمائی کی ۔ علی گڑھ میں دورانِ قیام اور خاص طور پر ادارۂ تحقیق سے وابستگی کے بعد میں نے اسلامیات کا خوب مطالعہ کیا اور عربی مراجع کے مطالعہ کے ساتھ اردو میں اسلامیات کے اہم مصنفین کی کتابیں پڑھ ڈالیں ۔

 

پسندیدہ مصنفین اور ان کی کتب کی فہرست درج کرنی تو دشوار ہے ۔ کچھ نام اوپر آگئے ہیں ۔ ادارۂ تحقیق میں ملک و بیرونِ ملک کے تقریباً اسّی(80) رسائل و مجلات آتے تھے ۔ وہ سب میری نظر سے گزرتے تھے اور ان کے اہم علمی مضامین کا میں مطالعہ کرتا تھا ۔ ہندوستان کے اردو رسائل و جرائد میں معارف ، برہان ، الفرقان ، زندگی ، دعوت ، تہذیب الأخلاق ، فکر و نظر ، بحث و نظر ، نقد و نظر ، شاعر ، الحسنات ، ذکریٰ ، حجاب ، الاسلام ، نوائے اسلام ، ترجمان الاسلام ، ترجمانِ دار العلوم ، المظاہر ، محدث ، حیات نو ، علوم القرآن ، نظام القرآن اور پاکستان کے رسائل میں ترجمان القرآن ، محدث ، حکمتِ قرآن ، میثاق ، فکر و نظر ، الحق ، جسارت ، تکبیر ، فرائیڈے اسپیشل ، شمس الاسلام اورنقطۂ نظر وغیرہ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملتا تھا ۔

 

زمانۂ طالب علمی میں مجھے اکثر رات میں سکون سے مطالعہ کا وقت ملتا تھا ۔ عشاء کی نماز کے بعد تین چار گھنٹے تو عموماً ، ورنہ کسی موضوع پر مواد جمع کرنے کی دھن ہو، یا کوئی اہم یا دل چسپ کتاب ہاتھ لگ گئی ہو تو پوری پوری رات اس کی نذر ہوجاتی تھی ۔ ادارۂ تحقیق سے وابستہ ہونے کے بعد دفتری اوقات میں بھی مطالعہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا ۔ کسی موضوع پر لکھنا ہوتا تو اس سے متعلق مواد جمع کرنے کے بعد متعلقہ کتابوں کا مسلسل مطالعہ کرتا اور اس سے فارغ ہونے کے بعد ہی قلم اٹھاتا ۔ مطالعہ کی رفتار کا انحصار کتاب کے موضوع پر ہوتا تھا ۔ جس کتاب کو غور سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا پڑتا اس میں زیادہ وقت لگتا اور عام کتابوں کے مطالعہ کی رفتار تیز رہتی ۔ میں دورانِ سفر بھی مطالعہ کا عادی رہا ہوں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کم آمیزی میرے مزاج کا حصہ بن گئی ہے ۔ اجنبی مسافروں سے میں گھل مل نہیں پاتا ۔ اس بنا پر سفر میں بھی کتابیں میری بہترین رفیق ہوتی ہیں ۔

 

نئے لکھنے والوں اور نوجوانوں کو میرا مشورہ ہے کہ آوارہ مطالعہ سے بچیں ۔ یہ رویّہ درست نہیں ہے کہ جو کتاب بھی ہاتھ لگ جائے ، اسے پڑھ جائیں ، بلکہ منتخب (Selected) مطالعہ کی عادت ڈالیں ۔

دوسری بات یہ کہ صرف ہلکی پھلکی کتابوں ، قصے کہانیوں اور ناولوں کے مطالعے پر اکتفا نہ کریں ، بلکہ سنجیدہ علمی اور دینی کتابوں کو بھی اپنے مطالعہ میں شامل رکھیں ۔ دونوں طرح کی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے اور دونوں کی اپنی اپنی افادیت ہے ۔

تیسری بات یہ کہ عمومی مطالعہ کے ساتھ اختصاصی مطالعہ کو بھی اپنے پروگرام میں شامل کریں ۔ اختصاصی مطالعہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک شخصیت کی تمام کتابیں پڑھ جائیں ، یا کسی ایک موضوع کی تمام اہم کتابوں کا مطالعہ کریں ۔

چوتھی بات یہ کہ مطالعہ کے سلسلے میں صرف اپنے ذوق پر انحصار نہ کریں، بلکہ کسی صاحبِ علم شخصیت کی رہ نمائی میں مطالعہ کیا کریں اور وقتاً فوقتاً اس سےمشورہ کرتے رہا کریں ، بلکہ ایک سے زیادہ شخصیات سے رہ نمائی حاصل کرنا بہتر ہوگا ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment