بچوں اور نوجوان قاری کے ارتقائی شعور کے لیے ادب تخلیق کرنے کی ضرورت: ڈاکٹر شمس اقبال
نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے صدر دفتر میں بچوں کے ادب کی تشکیل کے ممکنہ عصری زاویوں اور جہات پر تخلیق کاروں کی میٹنگ منعقد ہوئی۔ اس میٹنگ میں ملک کے مختلف گوشوں سے نمائندہ تخلیق کاروں کو مدعو کیا گیا ۔ تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ قومی اردو کونسل جہاں ادب، تاریخ، تہذیب وثقافت وغیرہ پر کتابیں شائع کرتی ہے وہیں بچوں اور نوجوانوں کے لیے بھی تخلیقات کی اشاعت اپنا فرض سمجھتی ہے۔ قومی اردو کونسل اردو کا واحد ادارہ ہے جو تمام عمر کے لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے کتابیں شائع کرتی ہے۔ قومی اردو کونسل نے درسی اور غیر درسی ہر طرح کی کتابیں شائع کی ہیں۔ میٹنگ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آپ کے مشورے سے ہمیں روڈ میپ تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ آج ہم اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ اسے مزید کیسے بہتر بنایا جائے اور آپ ایسے مشورے دیں جن کو سامنے رکھ کر کونسل ایک روڈ میپ تیار کرسکے۔آج انٹرنیٹ، سیفٹی یا حفاظتی تدابیر، مالیاتی خواندگی، صنفی مساوات، جسمانی اثباتیت، باہمی مسائل، تنوع، ہجرت، سائنس فکشن، خاندانی نامیات وغیرہ موضوعات پر بچوں کے مزاج اور نفسیات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کتاب تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔
اس موقعے پر معروف ناول نگار پروفیسر خالد جاوید نے بچوں کے لیے ایسے ادب کی تخلیق پر زور دیا جس سے بچوں میں سائنسی مزاج پیدا ہو اور وہ منطقی طور پر چیزوں کو دیکھ سکیں اور غور وفکرکرسکیں۔ ‘اللہ میاں کا کارخانہ’ کے مصنف محسن خان نے کہا کہ بچوں کی تربیت کے لیے ایسی چیزیں تخلیق کرنی چاہئیں جو بچوں کو راغب کرسکیں اور کتاب پڑھنے کی طرف ان کے ذوق و شوق کو بڑھا سکیں۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ جس طریقے سے انگریزی میں تین کٹیگری میں بچو ں کا ادب تخلیق کیا جاتا ہے اسی طریقے سے اردو میں بھی ہونا چاہیے۔ بچوں کی تخلیق میں مافوق الفطرت عناصر کی جگہ زندگی سے جڑی چیزوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے آدیواسی بچوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ ماہر تعلیم اور فکشن نگار پروفیسر غضنفر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی اردو کونسل کی طرف سے اس پہل کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ کونسل نے ایسے تخلیق کاروں کو مدعو کیا جن کا تعلق درس و تدریس سے بھی ہے۔ یہ بچوں کی ضروریات کو زیادہ سمجھتے ہیں، بچوں کا ادب تخلیق کرتے وقت بچوں کی ذہنی سطح کا خیال رکھا جانا بے حد ضروری ہے ورنہ بچو ں کی دلچسپی ختم ہوجاتی۔ انھوں نے بچوں کے لیے بنیادی لغت برائے ادب اطفال (Basic-Vocabulary)،مشترکہ تہذیب، محاورے، ضرب المثل اور گرامر وغیرہ کی کتابیں تیار کرنے پر بھی زور دیا، نیز انھوں نے کہا کہ بچوں کے لیے ایسی دلچسپ کتابیں ہونی چاہئیں جو اخلاقیات بھی سنوارے اور مشترکہ تہذیب و ثقافت سے بھی بچوں کو آگاہ کرے۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد (سابق وائس چانسلر، مولانا مظہرالحق، عربی و فارسی یونیورسٹی، پٹنہ) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ کتابوں کی طرف بچے اور نوجوان نسل کو راغب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے اسکولوں میں مقابلہ جاتی پروگرام وغیرہ کرائے جاسکتے ہیں۔ قومی اردو کونسل کو اسکولوں میں سروے کرانا چاہیے اور اس کے مطابق بچوں کا ادب تخلیق کیا جانا چاہیے کہ بچوں کو کہاں کس طرح کے ادب کی ضرور ت ہے۔ سینئر افسانہ نگار ڈاکٹر نگار عظیم نے اپنی تقریر میں کہا کہ بچو ں کے ساتھ ساتھ والدین اور سرپرستوں کے لیے بھی کتابیں تحریر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بچوں کے مسائل اور ضرورتوں سے آگاہ ہوسکیں۔ مشہور داستان گو اور ڈرامانگار جاوید دانش نے اِن کلاس ڈراما ریڈنگ اور اسٹوری ٹیلنگ کمپٹیشن وغیرہ پر زور دیا۔ آجکل کے سابق مدیر خورشید اکرم نے کہا بچوں کے لیے ایسا ادب تخلیق کیا جانا چاہیے جو بچوں میں انسانی اور سائنسی فکر پیدا کرےاور وہ منطقی طور پر چیزوں کے اندرون میں داخل ہوکر غور و فکر کرسکیں۔ ڈاکٹر قاسم خورشید نے کہا کہ آج ہمیں فیلڈ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ گلوبل ورلڈ نے گاؤں اور شہروں کی دوری کو ختم کردیا ہے، جو بھی ادب ہم تخلیق کریں اس میں بچوں کی شمولیت کا خیال رکھیں۔ ڈاکٹر محمد علیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دیہی علاقو ں کے بچو ں کے مسائل کو پیش نظر رکھ کر بھی ادب تخلیق کیا جانا چاہیے۔ان کے علاوہ ڈاکٹر سید ظفر اسلم، ڈاکٹر پرویز شہریار، ڈاکٹررخشندہ روحی، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا اورڈاکٹر حبیب سیفی اور ڈاکٹرثروت خان نے بھی اظہارِ خیال کیا اور بچوں کے ادب کے متعلق اپنے گراں قدر مشوروں سے نوازا۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر (اکیڈمک) ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی کے شکریے پر میٹنگ کا اختتام ہوا۔
میٹنگ میں قومی اردو کونسل سے ڈاکٹر مسرت (ریسرچ آفیسر)، محمد بہلول وغیرہ موجود رہے۔ تکنیکی تعاون محمد افروز نے پیش کیا۔