Home نقدوتبصرہ میرا جی کے تراجم-حقانی القاسمی

میرا جی کے تراجم-حقانی القاسمی

by قندیل

(پہلی قسط)
تلخیص
میراجی ایک عظیم تخلیق کار کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مترجم بھی تھے۔ انھوں نے عالمی ادبیات کے علاوہ سنسکرت شاعری کے بھی عمدہ ترجمے کیے ہیں۔ ترجمہ نگار کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت مسلم ہے۔ انھوں نے اپنے تراجم کے ذریعے مشرقی تہذیبی روایات سے اپنے ذہنی انسلاکات کا ثبوت دیا ہے اور زیادہ تر ترجموں میں تہذیبی مقامیت کو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کے ترجمے کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ انھوں نے اصل خیال کو مکرر تخلیق کیا ہے۔میراجی کے ترجمے کا ایک خاص مقصد تہذیبی اور ثقافتی مجادلے کو مکالمے میں بدلنا اور غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا سدباب کرنا تھا۔ میراجی کے تراجم کے حوالے سے تنقیدی حلقے میں گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن ان کے تمام تراجم کے تعلق سے ایک مبسوط گفتگو کی ضرورت تھی۔ اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ میراجی کے تراجم کے مجموعے ’مشرق و مغرب کے نغمے‘،’خیمے کے آس پاس‘، ’نگار خانہ‘ کی روشنی میں میراجی کے تراجم کا مجموعی جائزہ لیا جائے۔
کلیدی الفاظ
میراجی، مشرق، مغرب، علامت پسندی، ہندو اساطیر، سنسکرت شاعری، چنڈی داس، امارو، ودّیاپتی، نگارخانہ، دامودرگپت، خیام، بھرتری ہری، تہذیبی مقامیت، ہندوستانی ثقافت، لسانی امتزاجیت، تصرف، آزادی، کٹنی متم، جمالیاتی متن، روحانیت، جنسیت، شرنگار شتک،فرانسا ولاں، طامس مور، بادلیر، میلارمے۔
——————
ترجمہ دیواروں کو توڑ کر نئے در بنانے کا عمل ہے اور یہی کائنات کی فکری وحدت اور مشترکہ انسانی وراثت کی تفہیم و تعبیر کا سب سے مضبوط وسیلہ ہے۔ ترجمہ ہی کے ذریعے تہذیبی مغائرت اور ثقافتی اجنبیت،یگانگت اور قربت میں بدل جاتی ہے اور عالمی احساس کی وحدت کا امکان بھی پیدا ہوتا ہے۔ ترجمہ ذہن و فکر کی تبدیلی کا بھی محرک ہوتا ہے اورتہذیبی اور ثقافتی تصادم کوتفاہم اور ترابط میں بدلنے کا ذریعہ بھی۔ شاید اسی وجہ سے زمانہئ قدیم سے ترجمے کی ایک مربوط اور مستحکم روایت رہی ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمے ہوتے رہے ہیں۔ 1؎
دوسری اقوام و ملل کے افکار و اقدار سے آگہی کے لیے ترجمے ہی کو ایک زینہ بنایاگیا ہے۔ جیساکہ مغل شہزادہ داراشکوہ2؎ نے ’سر اکبر‘ کی صورت میں 52اپنشدوں کا ترجمہ کیا اور اسلام وہندومت کے مشترکہ عناصر کی جستجوکی۔بیت الحکمت بغداد میں ترجمے کا سب سے عمدہ تجربہ کیا گیا اوردنیا کی مختلف زبانوں کی اہم کتابوں کے ترجمے کیے گئے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت کے بغداد میں سنسکرت سے عربی میں ترجمہ کرنے والوں کی کثیر تعداد تھی جن میں سے تقریباًسترہ مترجمین کا تعلق ہندوستان سے تھا۔3؎بیت الحکمت سے ہی منکہ،کنکہ،گودرہندی،ابن دہن ہندی،کلب رائے وغیرہ کا تعلق تھااورشاید سنسکرت کی کتابوں کے ترجموں کا اثر تھا کہ عربی شاعری میں نہ صرف ہندی کے الفاظ بلکہ افکار بھی شامل ہوگئے۔ ابوالعلا معری4؎ جیسا شاعر بھی ہندوستانی فکر سے اتنا متاثر ہواکہ اپنے اوپر گوشت خوری کو حرام کر لیا۔ جس کی طرف علامہ اقبال نے بھی اشارہ کیا ہے ؎
کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معری
پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات
اک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا
شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہو مات
یہ خوان تر و تازہ معری نے جو دیکھا
کہنے لگا وہ صاحب غفران و لزومات
اے مرغ بیچارہ ذرا یہ تو بتا تو
تیرا وہ گنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات؟5؎
اس طرح کی معاشرتی روشن خیالی اور علمی خرد افروزی ترجمے کے بغیرممکن ہی نہیں۔ترجمہ ہی سے کشادگیِ قلب و نظر پیدا ہوتی ہے۔اسی سے احساس کو افلاک اور تخیل کو نئی زمینیں ملتی ہیں۔
محمد ثناء اللہ ڈار6؎ المعروف بہ میراجی (1912-1949)کو اس حقیقت کا ادراک تھا اسی لیے انھوں نے تخلیق کے ساتھ ساتھ ترجمے سے بھی اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔اسی سے ان اجنبی اور نامانوس جزیروں تک پہنچ گئے جہاں تک رسائی شاید آسان نہ ہوتی اور شاید ترجموں کی وجہ سے ہی ان کے تخیل اور تخلیق کو ایسے نئے آفاق ملے کہ دانشوروں کے لیے بھی میرا جی کے ذہن کا سراغ پانا مشکل ہو گیا۔ انھیں بھی سادیت پسند جنس زدہ،مجلوق اور اباحی شاعر کہا گیا۔ ان کی حقیقی ذات کو سمجھنے کی صحیح طور پرکوشش نہیں کی گئی۔انگریزی میں گیتا پٹیل نے میراجی کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔میراجی پر ان کی وقیع کتاب
Lyrical Movements, Historical Hauntings on gender, colonialism and desire in Miraji’s Urdu Poetry
کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔
جس طرح میرتقی میر نے کہا تھاکہ ؎
سہل ہے میر کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا ایک مقام سے ہے
یہی بات میرا جی کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے کہ سہل ہے میرا جی کا سمجھنا کیا۔میرا جی کی تخلیق کو سمجھنا مشکل سہی مگر ان کے ترجمے کی تفہیم بالکل دشوار نہیں ہے۔ ان کی تخلیق میں جتنی رمزیت،ابہام اوراشاریت ہے ان کے ترجمے میں اتنی ہی سلاست،سادگی اور شفافیت ہے۔
میرا جی کا ذہن منتشر تھا اور وہ بہت سی الجھنوں کا شکار تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے ترجموں کے ذریعے تہذیبی انتشار کو دور کرنے کی کوشش کی اور اپنے الجھے ہوئے ذہن سے دنیا کو ایک مربوط اور منظم نظامِ فکر دیا۔ ان کے ترجموں کا مقصد ثقافتی اور تہذیبی مغائرت کو دور کرنا اور متناقض بیانیے میں مفاہمت کی ایک راہ تلاش کرنا تھا۔ ان کی ذات کئی ٹکڑوں اور خانوں میں منقسم تھی مگر انھوں نے مختلف تہذیبوں اور قوموں کے درمیان تقسیم اور تفریق کو ختم کرنے کی کوشش کی اور مشترکہ انسانی احساس کی شمع روشن کی۔ گلوبل گڈ ول اور بین تہذیبی یگانگت پر زور دیا اور تمام تہذیبی روایتوں اور بیانیوں کے امتزاج سے ایک مشترکہ انسانی کائنات کاتصوربھی پیش کیا۔ انگریزی ناول نگار اور شاعر Joseph Rudyard Kipling (30 دسمبر 1865۔ 18 جنوری 1936)کے اس خیال کواپنے ترجمے کے ذریعے مسترد کیاکہEast is east and west is west. and never the twain shall meet.۔میرا جی نے مشرق و مغرب کے تہذیبی اور تخلیقی بیانیے میں مشارکت کو تلاش کرکے مشرق ومغرب کے تخلیقی احساس کی یکسانیت سے بھی روشناس کرایا۔
میرا جی نے ترجموں کی کتاب ’مشرق و مغرب کے نغمے‘(اکادمی پنجاب لاہور،1958)میں اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس مجموعے میں امریکہ، روس، فرانس، انگلستان، چین، کوریا، روم، جرمنی، جاپان، یونان اورہندوستان کے تخلیق کاروں کے ترجمے کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان شاعروں کا تنقیدی تعارف بھی کرایا ہے۔اس کتاب میں مشرق و مغرب کے ان حساس اور درّاک ذہنوں کا اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ بہت سی متضاد اور متناقض چیزیں تخلیقی سطح پرایک ہو سکتی ہیں۔ احساس کی سطح پر ہم آہنگی یا اتحاد مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ مشرق و مغرب میں بعد القطبین کے باوجود جذبات اور خیالات کی سطح پر یکسانیت کا امکان ہے۔ایس اے مہدی نے اپنی کتاب Parallelism in english and urdu poemsمیں انگریزی اور اردو کے شعرا کے خیالات کی یکسانیت اور یکرنگی کے حوالے سے بڑی عمدہ گفتگو کی ہے۔7؎میرا جی نے جن شعرا کا انتخاب کیا ہے ان میں گو کہ جغرافیائی اور لسانی یکسانیت نہیں ہے مگر کہیں کہیں ایک نقطہئ اشتراک ضرور نظر آتا ہے۔ کلی یکسانیت تو ایک زبان کے شاعروں میں بھی نہیں مل سکتی مگر عمومی انسانی جذبات میں یکسانیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا، خاص طور پر عذاب اور خواب میں بڑی یکسانیت ملتی ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں کے خواب اور دکھ درد ایک جیسے ہوتے ہیں اور شاعری بنیادی طور پر انسانی خوابوں اور دکھوں کاہی ترجمان ہوتی ہے۔
’مشرق و مغرب کے نغمے‘ میں میراجی نے جن شاعروں کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بیشتر عالمی ادبیات میں امتیازی حیثیت کے حامل ہیں۔امریکہ کا ملک الشعرا والٹ وٹمن، روس کا ملک الشعرا پشکن، پندرہویں صدی کا عظیم فرانسیسی شاعر فرانساولاں، مغرب کا ایک مشرقی شاعر طامس مُور، انگلستان کا ملک الشعرا جان مینس فلڈ، انیسویں صدی کا عظیم فرانسیسی شاعر چارلس بادلیر، چنڈی داس، ایڈ گرایلن پو، لی پو، سیفو، سٹیفا نے میلارمے، امارو، کیٹولس، ڈویچ ایس لارنس، ہائینے اور دی برانٹی سسٹرس وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ میراجی نے کوریا کی قدیم شاعری کے تراجم بھی کیے ہیں جن میں لی چونگ، لی ان لو، پوئے پونگ، کواک کو، لی چان یون، پی وہانگ، پی کیو یو، لی سونگ ان، یول کوک وغیرہ شامل ہیں۔ میراجی نے بارہویں عیسوی کے جہاں گرد اورخانہ بدوش یوروپی طلبا کے لاطینی گیت کے ترجمے بھی کیے ہیں۔
میرا جی نے مشرقی اور مغربی طرزِ احساس کو سمجھنے کی پوری کوشش کی اور وہ صرف ایک ہی تہذیبی وفکری محور و مرکز میں محصور نہیں رہے۔ انھوں نے تنوع میں اس وحدت کی تلاش کی جو ان کا ذہنی مقصود و مطلوب تھا۔انھوں نے جہاں ملارمے، بودلیر اور پو سے اپنا ذہنی رشتہ جوڑا وہیں چنڈی داس، امارو، بھرتری ہری اور میرا بائی سے بھی۔ جہاں فرانسیسی علامت پسندی کوسراہاوہیں ہندو اساطیر و علامات پر بھی ان کی نظر رہی۔
ترجمے کے باب میں میرا جی نان کنفرمسٹ تھے، کسی نظریہ یاروشِ خاص کے اسیر نہیں رہے۔ میراجی نے جن مغربی شاعروں کے ترجمے کیے ہیں ان میں سے بیشتر کے ترجمے اردو میں بھی ہو چکے ہیں کہ اردو میں انگریزی سے ترجموں کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ غلام مولا بخش قلق میرٹھی کے جواہر منظوم سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور پھر مترجمین کی ایک بڑی تعداد سامنے آتی ہے جن میں بانکے بہاری لال (منتخب انگریزی نظموں کے منظوم تراجم، 1869)، نظم طباطبائی، ضامن کنتوری (ارمغان فرنگ)، دھرم سروپ (صدائے بازگشت)، عباس کاظمی (بہارِ انگلستان)، امیرچند بہار (نسیم مغرب)، سید شاکر علی جعفری (جام بہ جام)، شبنم گورکھپوری (بادہئ مغرب) کے نام بھی ہیں۔ڈاکٹر حسن الدین احمد نے ’ساز مغرب‘ کے سات حصوں میں 681منظوم ترجمے شامل کیے ہیں جو مختلف رسائل وجرائد اور کتابوں میں شائع ہوئے۔ عالمی ادبیات وغیرہ کے ترجمے بہ کثرت ہوئے ہیں۔ بیشتر شہکار اردو میں ترجمہ ہو چکے ہیں خاص طور پر والٹ وِٹ مین، پشکن، بودلیئر— میں یہاں صرف میرا جی کے ان ترجموں پر زیادہ زور دینا چاہوں گا جو انھوں نے سنسکرت سے کیے ہیں خاص طور پر امارو۔ چنڈی داس اور ودیا پتی کے ترجمے اردو میں کم ہوئے ہیں اور ان سے اردو کا ایک بڑا طبقہ ناواقف ہے۔یہاں جملہ معترضہ کے طور پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ اردو میں سنسکرت سے ترجمے کی ایک مستحکم روایت رہی ہے۔ رامائن اور بھگوت گیتا کے سب سے زیادہ ترجمے اردو میں ہی ہوئے ہیں۔8؎ ویدوں اور اپنشدوں کے ترجموں کے علاوہ کوٹلیہ کی ارتھ شاستر،ہتوپدیش، کالی داس کی شکنتلا، کمارسنبھو، رگھوونش، مالویکا، بھبھوتی کی مالتی مدھو اور گیت گوبند وغیرہ کے بھی ترجمے ہو چکے ہیں۔ میرا جی نے ہند آریائی مزاج ہونے کی وجہ سے سنسکرت کے ان شاعروں کا انتخاب کیا اور ان اہم شعرا کا تعارف اردو حلقے سے کرایا اور ہماری قدیم تہذیبی اور ثقافتی حسیت سے بھی روشناس کرایا۔ دراصل سنسکرت کے ان ترجموں کے پیچھے میرا جی کا ایک خاص ذہن کار فرماتھا۔ وہ مشرقی تہذیبی روایات سے اپنے ذہنی انسلاکات کا ثبوت دینا چاہتے تھے اور ان میں وہ اپنے مابعدالطبعیاتی عشق اور جنسیت کا بھی جواز تلاش کر رہے تھے۔
قدیم سنسکرت ادب میں عشقیہ شاعری کی ایک مضبوط روایت رہی ہے۔ امارو بھی عشقیہ شاعری کا ایک بڑا نام رہا ہے۔Erotic love کے حوالے سے اس کی ایک الگ شناخت ہے۔یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں Andrew Schellingنے ’امارو شتک‘ کاترجمہ Erotic love poems from india کے نام سے کیا ہے۔امارو کی پوری شاعری شرنگار رس سے بھری ہوئی ہے اس میں برہ اور ملن کی بڑی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔ آنند وردھن نے بھی اس کی بڑی تعریف کی ہے۔میراجی لکھتے ہیں:
”امارو شتک۔ امارو کی سو نظموں کو ہندوستان بلکہ دنیا کی عشقیہ شاعری میں ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔ امارو کی شاعری نے سنسکرت ادب میں پہلی بار اس حقیقت کو منوایا کہ صرف محبت ہی کو شاعری کا بنیادی موضوع بنا کر گونا گوں نغمے چھیڑے جاسکتے ہیں۔“9؎
امارو کی کچھ نظموں کے ترجمے ملاحظہ ہوں ؎
جب سے تم چلی گئی ہو کسی نے مجھ سے تمہاری بات نہیں کی
لیکن ہوا جب گزر رہی تھی تو میں نے تمہارا نام کہا
اور ایک شخص مر رہا تھاتو اس کے سامنے بھی میں نے تمہارا نام لیا
میری پیاری!اگر تم زندہ ہو تو کسی دن ہوا کا گزر تمہارے پاس سے ہوگا
اور اگر تم مر چکی ہو تو اس شخص کی روح تمہیں بتا دے گی کہ مجھے تم اب بھی یاد ہو

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment