حقانی القاسمی
(چوتھی وآخری قسط)
ہندی میں ہری ونش رائے بچن نے ’مدھوشالا‘ کے عنوان سے اس کا ترجمہ کیا تو انگریزی میں سوامی گووند تیرتھ نے ‘The Nector of Grace’ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔بیدار بخت نے اپنے مضمون ’خیام کے ترجموں پر ایک نظر‘28؎میں تمام تراجم کا جائزہ لیا ہے جن میں فٹز جرالڈ، پرم ہنس یوگانند اور رابرٹ گلیوز، ایڈورڈ ہنری ون فیلڈ، رچرڈ لہ گالی این، جان چارلس ایڈورڈ بُو اِن، پیٹرایوری، جان ہیتھ سٹبز وغیرہ کے انگریزی ترجموں کا جہاں ذکر کیا ہے وہیں اردو ترجموں کے حوالے سے انھوں نے راجہ مکھن لال، قزلباش دہلوی، سید یعقوب الحسن واقف مراد آبادی، خواجہ محمد امیر صبا اکبرآبادی، عبدالحمید عدم، غلام دستگیر شہاب، عصمت جاوید، عادل اسیر دہلوی، محشر نقوی کے علاوہ میراجی کے ترجموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ :
’’میراجی اپنے کچھ مسودے اخترالایمان کے پاس چھوڑ گئے تھے جن میں سے ایک خیام کی رباعیوں کے ترجمے کا تھا۔ اس مسودے کے لیے میراجی نے فٹز جرالڈ کے ترجموں کے پیپر کتاب کا استعمال کیا تھا جس کے ایک صفحے پر انگریزی ترجمہ تھا اور سامنے والے صفحے پر اوپر کی طرف خیام کی فارسی رباعی اور پرچے پر میراجی نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر چپکائی ہوئی تھی اور نیچے اپنا ترجمہ بھی اپنے ہاتھ سے لکھ دیا تھا۔ یہ مسودہ اخترالایمان سے مغنی تبسم لے گئے تھے اب خدا جانے یہ اصل مسودہ کہاں ہے؟ مگر میں نے اخترالایمان کی اجازت سے اس کا ایک عکس اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا— اپنے دستور کے مطابق میرا جی نے اپنی تحریر کے ہر صفحے کی پیشانی پر سنسکرت میں اوم لکھ دیا ہے۔ میراجی کے خیام کی بتیس رباعیوں کے ترجمے کتابی شکل میں ’خیمے کے آس پاس‘ کے عنوان سے فٹز جرالڈ کے ترجموں اور جیلانی کامران (1926-2003) کے تعارف کے ساتھ 1964 میں شائع ہوئے۔ یہی ترجمے جمیل جالبی (1929-2019) کے مرتب کردہ کلیاتِ میرا جی میں بھی شامل ہیں۔ میراجی نے اپنے ترجمے فٹز جیرالڈ کے ترجموں سے کیے ہیں جیسا کہ ’خیمے کے آس پاس‘ میں ان کے خود نوشتہ مختصر دیباچے سے ظاہر ہے۔‘‘
خیمہ اس لیے کہ خیام کاکلام ہے نیز خیمے سے زندگی کے قافلے کے اس چل چلاؤ کا تلازمۂ خیال بھی ہے جو عمر خیام کی شاعرانہ ذہانت کی نمایاں خصوصیت ہے اور آس پاس ترجمے کی رعایت ہے۔ ‘‘29؎
بیدار بخت لکھتے ہیں کہ:
’’میرے پاس جس قلمی مسودے کا عکس ہے اس میں 46 رباعیوں کے ترجمے ہیں جن میں صرف 17 ترجمے ’خیمے کے آس پاس‘ میں شامل ہیں۔ اس حساب سے میرا جی کے 29 ترجمے ایسے ہیں جو ابھی تک کہیں شائع نہیں ہوئے۔‘‘ 30؎
میراجی نے عمر خیام کی رباعیات کاترجمہ ’خیمے کے آس پاس ‘کے عنوان سے کیا جو 1964میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ انھوں نے فٹزجرالڈ کے انگریزی ترجمے کو بنیاد بنا کر 32رباعیوں کا ترجمہ قطعے کی ہیئت میں کیا ہے اور اس ترجمے کی خوبی یا خرابی کہیے کہ بقول شافع قدوائی’’اس ترجمے میں ہندوستانی ثقافت کی آمیزش ہے‘‘۔31؎
اس میں اردو فارسی کے بجائے ہندی الفاظ کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے خیام کی شاعری کی اصل روح سے آشنائی نہیں ہو پاتی۔ خیام کے مزاج سے ان کا ترجمہ ہم آہنگ نہیں ہو پاتا۔ کچھ ایسی ہی بات بیدار بخت نے بھی کہی ہے کہ:
’’میراجی نے خیام کی رباعیوں کو چولی لہنگا پہنا کر ہندوستان میں لاکھڑا کردیا ہے۔‘‘
ترجمے کے نمونے ملاحظہ فرمائیں ؎
بھور کابھوت جو بھاگا میرے کان بجے یوں بھور بھئے
میں تو جانوں مئے خانے میں کوئی پکارا‘ رام ہرے!
جگمگ جگمگ مندر اپنے من کے اندرہے تیار
باہر بیٹھا جھومے پجاری‘ اس مورکھ سے کون کہے
¡
داتاکے ہر کارے تھے وہ آگ میں جن کو لوگ جلائیں
سادھ اور گیانی سوچ سوچ کر جو بھی ہم کو بات بتائیں
نیند سے اٹھ کر کہی کہانی ‘ ساتھی ان کے سنیں سنائیں
کہہ کر اپنی اپنی بانی سب کے سب پھر سو جائیں
¡
سچ اور جھوٹ میں مان لے منوا بال برابر ہیرا پھیری
ایک بول میں چھپا خزانا جان سکی کب بِدیا تیری!
تو اپنی سی جوکھوں کرلے پہنچ پائے تو اسی کھوج میں
اسی بول سے ہوجائیں گے ناتھ کے درشن سانجھ سویری32؎
میرا جی کے اس ترجمے کی خرابی یہ ہے کہ انھوں نے خیام کے اصل متن کے بجائے ایک متبادل متنی اظہار کو ترجمے کی اساس بنایا جس نے خود ہی بہت سے مقامات پر حسبِ ضرورت تحریف اور تصرف سے کام لیا ہے۔ اس کے برعکس جن مترجمین نے خیام کے فارسی متن کو پیشِ نظر رکھا ہے ان کے ترجموں میں ادائے خیال کے ساتھ ساتھ لطفِ سخن بھی ہے۔مثلاً عمر خیام کی یہ رباعی دیکھیے ؎
گر بادہ خوری تو باخرد منداںخور
یا باصنمے لالہ رخ و خنداں خور
بسیار مخور درد مکن فاش مساز
اندک خوردگہہ گہہ پنہا ںخور
اس کے بہت ترجمے کیے گئے ہیں مگر سید عبد الحمید عدم نے بہت ہی خوبصورت ترجمہ کیا ہے ؎
پھولوں کے ساتھ ناچ ستاروں کے ساتھ پی
یا سادگی پسند نگاروں کے ساتھ پی
افزوں نہ پی خراب نہ ہو ہوش مت گوا
تھم تھم کے چھپ چھپ کے سہاروں کے ساتھ پی
میرا جی کے ترجمے میں وہ جمالیاتی حظ نہیں ہے جو دوسرے ترجموں میں ملتا ہے۔بہر حال عمر خیام سے میرا جی کی ذہنی وابستگی ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے خیام کا انتخاب کیا۔
میراجی نے مشرق و مغرب سے ہر اس شاعر کا انتخاب کیا جو ان کے ذہن اور مزاج سے میل کھاتا تھا۔شاید انھیں مشرق ومغرب کے شاعروں میں اپنے جیسے ذہن اور مزاج کی جستجو تھی اور اسی جستجو کے سفر میں ان کی ذہنی ملاقاتیں ایسے شاعروں سے ہوئیں جن سے ان کی زندگی اور ذہن کی مناسبت اور مماثلت رہی ہے۔ میرا جی ان شاعروں کی زندگی اور تخلیق میں اپنے جذبے اورخیال کا عکس تلاش کرتے تھے۔میرا جی نے اپنے 37برس 5مہینے9دن کی مختصر سی زندگی میں23مختلف زبانوں کے شعرا کی تقریباًڈھائی سونظموں کے نثری معریٰ اور آزاد ترجمے کیے اور ان ترجموں میں اپنی تخلیقی ہنر مندی اور لسانی و ترسیلی مہارت کا بھی ثبوت دیا۔ انھوں نے بیشتر ترجموں میں اپنی لفظیات اور تلازمات کے ذریعے تصورِ ہندوستانیت اور آریائی روح اور مزاج کو زندہ رکھااور اردو کے مخصوص تہذیبی لسانی مزاج سے مغرب کے شعری افکار کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ترجمے میں آزادہ روی سے کام لیا۔اجنبی تشبیہات، استعارات اور علامات کو مانوس رنگ عطا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مرکزی خیال اور مفہوم کو باقی رکھا مگر لفظیات،استعارات کو تبدیل کر دیا،کہیں کہیں اسمائے معرفہ کو بھی بدلنے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے کہ شاعری کے ترجمے میں بہت ساری دشواریاں حائل ہوتی ہیںاور کبھی کبھی ترجمے کی وجہ سے تخلیق کا جمالیاتی حسن بھی مجروح ہوتا ہے۔ تخلیق کی اصل کیفیت بھی قائم نہیں رہ پاتی اس کے باوجود میرا جی کے تراجم کی اہمیت اور معنویت کو تسلیم کرنا پڑے کا کہ انھوں نے آزاد ترجمے میں بھی تخلیقیت کے جوہر دکھلائے ہیں اور نفسِ خیال کو کہیں بھی مرنے نہیں دیا۔ اظہار مطالب اور ادائے خیال کے لحاظ سے ان کے ترجمے کامیاب کہے جا سکتے ہیں۔
میرا جی کے ترجمے کی سب سے بڑی خوبی لسانی امتزاجیت ہے۔ ہندی اور اردو الفاظ کی آمیزش کا ایک خوب صورت تجربہ جو ہندی اور اردو کے لسانی تنازع کے عہد میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے اسی زبان میں ترجمہ کیا جسے ہندوستانی کہاجا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے ترجموں کے ذریعے اس تنازعے کا سد باب کر دیا جو اردو اور ہندی کے نام پر جاری ہے۔ میرا جی نے خود ’’کٹنی متم ‘‘کے اشتہار میں یہ لکھا تھا کہ ’’اسے اس زبان میں ترجمہ کیا ہے جسے پڑھنے کے بعد کل ہند زبان کے تنازعے کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔‘‘ 33؎
میرا جی کا یہ بیان آج کے عہد کے لیے ایک میزان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اسی روش کو اختیار کیا جائے توشاید ہندی اردو تنازعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے کیونکہ ہندی اور اردو دونوں ایک دوسرے کو خوب صورت اور سندر بناتی ہیں اور میراجی کے ترجمے کی خوبصورتی کا راز بھی یہی ہے۔ ان کے ترجمے کی ایک اور خو بی تہذیبی مقامیت بھی ہے، جسے شافع قدوائی Cultural Domesticationکہتے ہیں۔ مگر حد سے زیادہ مقامیت پر اصرار اور اس کا اظہار غلط ہے۔ اس لیے شافع قدوائی کا یہ خیال اور سوال بہت اہم ہے کہ’’ روانی اور سلاست وغیرہ اچھی خوبیاں ہیں مگر ترجمہ پڑھ کر یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ ہم کسی غیر زبان کا فن پارہ جواس کی مخصوص ثقافت اور نظریۂ حیات کا زائیدہ ہے پڑھ رہے ہیں۔‘‘34؎
فرانسا ولاں عظیم فرانسیسی شاعر کا یہ ترجمہ دیکھیے اور محسوس کیجیے کہ میراجی نے کس درجہ تصرف سے کام لیا ہے۔ سارے کردار اور اسما ہی بدل دیے۔آخر ایک فرانسیسی شاعر کو رادھا، کنہیا، میرا اور میواڑ سے کیا سروکار ہوسکتا ہے ؎
کہاں ہیں کنہیا کی سب اب گوپیاں؟
برندا کے بن کی ہری ڈالیاں؟
ہواؤں سے ہل ہل کے ہیں نوحہ خواں!
یہی کررہی ہیں وہ ہر دم فغاں،
کہاں وہ زمانے، کہاں اب وہ دور!
ہے بن کا سماں اور اب رنگ اور!
کہاں ہے مراری کی رادھا کہاں؟
کہاں ہے وہ جنگل کی شاما، کہاں؟
کہاں رام چندر کی سیتا، کہاں؟
وہ میواڑ بستی کی میرا کہاں؟
وہ جلوے نگاہوں سے اب کھوگئے!
کہیں دور جاکر سبھی سوگئے!
کہاں ہیں وہ اِندر کی پریاں کہاں؟
کہ جن سے بنا راگ سارا جہاں؟
جوانی سے ان کی جہاں تھا جواں؟
جوانی گئی، اب، جوانی کہاں؟
ہیں تاریکیاں ذہن پر چھا گئی!
اُداسی سے ہے روح گھبرا گئی!
کہاں ہے وہ اوما؟ کہاں ہے ستی؟
کہاں بھگوتی اور پاروتی…؟
کہاں ہے بہادر کی روپامتی؟
ہوئی عشق کی آگ میں جو ستی!
نہیں، آہ دنیا میں اب رانیاں!
یہ دنیا ہے رہنے کی بستی کہاں؟
سوئمبر کی سنجوگتا ہے کہاں؟
بتائے کوئی آج اس کا نشاں؟
برندا کے بن میں جو تھیں نغمہ خواں،
کہاں ہیں کنھیا کی سب گوپیاں؟
ہوا عشق کا نام، بیتی سی بات!
عدم ہوگئی زندگی کی وہ رات!
پرانا عروجِ شہانہ گیا،
جوانی کا رنگیں فسانہ گیا،
وہ اندازِ روز و شبانہ گیا!
زمانہ گیا، وہ زمانہ گیا!
گیا حسن خوبانِ دل خواہ کا!
ہمیشہ رہے نام اللہ کا…!35؎
نظموں کے ترجمے میں آزادی اورتصرف سے سبھی نے کام لیا ہے اور شاید یہ مجبوری بھی ہے کیونکہ بقول جوش ملیح آبادی شاعری ایک ایسا جادو ہے جس کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ شاعری آبگینہ ہے اور ترجمہ گہن، شاعری شیشہ ہے اور ترجمہ پتھر اور کچھ ایسی ہی رائے ممتاز ناقد قمر جمیل کی بھی ہے:
’’مشہور ہے کہ شاعری کا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ جب شاعری کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو جو چیز ترجمے میں رہ جاتی ہے وہ خود شاعری ہوتی ہے۔ ‘‘ رابرٹ فراسٹ کا خیال ہے کہ ’’شاعری وہی تو چیز ہے جو ترجمے میں رہ جاتی ہے۔ شیلے خود اچھا مترجم تھا مگر کہتا تھا کہ اصل متن اور ترجمے میں مطابقت ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ شاعری دراصل الفاظ میں نہیں بلکہ الفاظ کے تلازمات میں ہوتی ہے۔ ترجمہ کرتے وقت اصل زبان کے الفاظ نہیں آتے اس لیے شاعری ان الفاظ کے ساتھ اصل زبان میں رہ جاتی ہے۔ شاعری میں اس زبان اور کلچر کی روح ہوتی ہے جس زبان میں شاعری کی جاتی ہے اس کا دوسری زبان میں ترجمہ اس لیے ناممکن ہوتا ہے کہ اس کا تعلق دوسرے کلچر سے ہوتا ہے۔‘‘36؎
یہی وجہ ہے جو انگریزی سے کامیاب ترجمے کیے گئے ہیں ان میں بھی کہیں نہ کہیں تصرف سے کام لیاگیا ہے۔ نظم طبا طبائی کی’ گورغریباںکو شہکار سمجھاجاتا ہے مگر اس میں بھی کہیں نہ کہیں آزادہ روی سے کام لیا گیا ہے۔ اس لیے آزادہ روی اور تصرف ترجمہ نگاروں کی ایک مجبوری ہے۔ میرا جی نے اپنے ترجموں میں مجموعی تاثر اور مرکزی خیال کو قائم رکھا ہے اور یقیناً یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
ترجمے کے حوالے سے میرا جی کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس کینن کو توڑا ہے جو انگریزوں نے مسلط کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا ترجمہ بنیادی طور پر میکانکی نہیں تخلیقی ہے۔ جسے مکرر تخلیق کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ڈاکٹر رشید امجد کا بھی یہی خیال ہے کہ ’’میراجی کے تراجم زبان کی سلاست وروانی اور مفہوم وفضائے ابلاغ کی وجہ سے ترجمے محسوس نہیں ہوتے۔یوں لگتاہے جیسے انھوںنے اصل خیال کو مکرر تخلیق کیاہے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ترجمہ اردو زبان کا نہ صرف ایک حصہ بن جائے بلکہ اس کے سماجی اور ثقافتی رویوں میں بھی اس طرح ڈھل جائے کہ اس میں کسی طرح کی اجنبی بو باس باقی نہ رہے۔‘‘37؎
فیض احمد فیض کی رائے ہے کہ:
’’میراجی کے ترجمے ایک گراں قدر تخلیقی کارنامہ ہیں۔ میراجی نے جس انداز سے ادب عالم کے حسین نمونے ہم تک پہنچائے وہ محض ترجمہ نہیں ایجاد ہے۔‘‘38؎
میرا جی اپنے تراجم میں انتخاب،ابلاغ اور ترسیل تینوں مرحلوں سے بخوبی گزرے ہیں، انتخاب میں جہاں اپنی ذہنی مناسبت کا ثبوت دیا ہے وہیں ابلاغ میں تفہیمی و ادراکی ذکاوت اور ترسیل میں لسانی مہارت کا۔ مولانا صلاح الدین احمد نے میراجی کے ترجموں کے حوالے سے بہت معتدل رائے دی ہے کہ :
’’میراجی کے تراجم کی سب سے دلآویزخصوصیت یہ ہے کہ وہ موضوع کے اعتبار سے اپنی زبان بدل لیتے ہیں اگر چہ اسلوبِ بیان نہیں بدلتے۔ آپ ان کے دو مختلف پاروں میں بالکل مختلف المزاج الفاظ پائیں گے لیکن جس انداز سے وہ بیان کے رشتے میں پروتے ہیں ایک شدید انفرادی کیفیت رکھتا ہے اور آپ ہزار مختلف پاروں میں بھی ان کے پارۂ فن کو علاحدہ کرسکتے ہیں۔‘‘ 39؎
تخلیق کے حوالے سے میرا جی کو یاد کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن ترجمے کے حوالے سے انھیںضرور یاد کیا جائے گا کہ انھوں نے ترجموں کی صورت میںوہ عالمی دریچہ کھول دیا ہے جس سے تازہ ہوائیں آتی ہیں جو ذہن اور احساس کو منور اور معطر کر جاتی ہیں۔ اور شاید یہی کھلی ہوئی کھڑ کیاں ان غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کا سد باب کرسکتی ہیں جو ایک دوسرے کی تہذیب اور معاشرت سے عدم واقفیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور مذہبی وتہذیبی مجادلہ کو مکالمہ میں بدل سکتی ہیں اور ترجمے کے ذریعے ہی بقول ناصر عباس نیر’’ مشترکہ انسانی تہذیب کا خواب پورا کیا جاسکتاہے۔‘‘40؎
حواشی اور حوالے
1؎ ترجمے کی وجہ سے ہی ہمارے علمی اور تہذیبی سرمایہ میں اضافہ ہوا۔ پہلے ترجمے ثقافتی اور علمی تبادلے کے لیے ہوا کرتے تھے مگر اب ترجمہ دنیا کی ضرورت ہے۔ عالمی تجارت کا سارا انحصار ترجمے پر ہے۔ اس لیے اب ترجمے کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور اس کے تعلق سے نئے نئے مطالعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ترجمہ کے نظری اور عملی مباحث کے تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے: مرزا حامد بیگ کی کتابیں، مغرب سے نثری تراجم (مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد)، کتابیاتِ تراجم، ترجمے کا فن۔قمر رئیس، ترجمہ کا فن اور روایت (تاج پبلشنگ ہاؤس، جامع مسجد دہلی 1976)، خلیق انجم، فن ترجمہ نگاری (انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی 1996)، پروفیسر ظہورالدین فن ترجمہ نگاری (سیمانت پرکاشن دریاگنج نئی دہلی 2006)، فہیم الدین احمد، علم ترجمہ نظری اور عملی مباحث (اردو ٹرانسلیشن اکیڈمی حیدرآباد 2017)
2؎ محمد داراشکوہ مغل شہنشاہ شاہجہاں کا بڑا بیٹا جس کی ولادت 20 مارچ 1615کو اجمیر شہر کے قریب ساگر تال جھیل میں ہوئی۔ یہ باغِ شاہی کا پہلا پھول تھا جو بہت منتوں کے بعد پیدا ہواتھا۔ داراشکوہ صاحب سیف و قلم تھا مگر تصوف سے زیادہ لگاؤ تھا۔ سکینۃ الاولیا، سفینۃ الاولیا، حسنات العارفین، رسالہ حق نما، مجمع البحرین ان کی اہم تصانیف ہیں۔ داراشکوہ کا سب سے بڑا کارنامہ ہندو مسلم اعتقادات، تصورات، روحانی روایات اور تصوف اور ویدانت میں ہم آہنگی کی جستجو ہے۔ مجمع البحرین اسی نوع کی کتاب ہے۔ داراشکوہ نے ہی سب سے پہلے 52 اپنشدوں کا ترجمہ سنسکرت سے فارسی میں کرایا جو سرِّ اکبر یا سرِّ الاسرار کے نام سے شائع ہوا اور اسی فارسی ترجمے کی بنیاد پر دنیا بھر کی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ اپنشد کو مغربی دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا دارشکوہ کے سر ہے۔ داراشکوہ کی بیشتر کتابوں کے ترجمے اردو میں ہوچکے ہیں۔ ’سفینۃ الاولیا‘ شہزادہ محمد داراشکوہ قادری کی ایک بہت اہم کتاب ہے جس میں انھوں نے حضورؐ، خلفائے راشدین، ائمہ کرام، ازواج مطہرات اور نیک خواتین اور اولیائے کرام کے جامع حالات درج کیے ہیں۔ اس فارسی کتاب کا ترجمہ محمد علی لطفی نے کیا تھا جو نفیس اکادمی کراچی سے شائع ہوچکا ہے جس کے بہت سے ایڈیشن منظرعام پر آچکے ہیں۔ ’سکینۃ الاولیائ‘ داراشکوہ کے پیر حضرت میاں میر اور ان کے خلفا کے احوال پر مشتمل ہے۔ اس کا ترجمہ پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی نے کیا ہے جو ناز پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوا۔ رسالہ ’حق نما‘ بھی ایک اہم کتاب ہے جس کا ترجمہ عادل اسیر دہلوی نے کیا اور یہ کتاب ملک بک ڈپو دہلی سے 2013 میں شائع ہوئی۔ ان کی اہم کتاب ’مجمع البحرین‘ ہے جو سنسکرت میں ’سمدر سنگم‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ روما چودھری نے کیا تھا۔ ہندی میں اچاریہ بابو لال شاستری اور جگن ناتھ پاٹھک نے کیا۔ اردو میں ’مجمع البحرین‘ کا ترجمہ 1872 میں ’نورعین‘ کے عنوان سے گوکل پرساد رسا نے کیا تھا۔ یہ ترجمہ لکھنؤ میں چھپا۔ پروفیسر ایم محفوظ الحق جنھوں نے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کیا ہے انھوں نے بھی اس کے اردو ترجمے کا ذکر یوں کیا ہے:
An Urdu Translation of Majma-ul-Bahrain’ entitled Nur-i-Ain by one Gocul Prasad was Lithographes at Lucknow (1872) but unfortunatily i could not secure a copy of that اور Amalendu De جنرل سکریٹری ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ نے بھی اس اردو ترجمے کا ذکر کیا ہے۔ عادل اسیر دہلوی نے اس ترجمے کے علاوہ اردو میں سجاد علی میکش تھانوی، یونس شاہ گیلانی، محمد عمر اور تنویر احمد علوی کے ترجموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ حال میں ’مجمع البحرین‘ کا ترجمہ پروفیسر طلحہ رضوی برق نے کیا ہے جو قومی اردو کونسل سے شائع ہوا ہے۔ داراشکوہ شاعر بھی تھا اس لیے ان کی رباعیات کا ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس کے مترجم عادل اسیر دہلوی ہیں اور یہ کتاب ملک بک ڈپو دہلی سے 2011میں شائع ہوئی ہے۔ محمد دارا شکوہ کی شخصیت کے حوالے سے انگریزی اور دیگر زبانوں میں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: پروفیسر شکیل الرحمن، محمد داراشکوہ (نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی 2012)، محمد سلیم، داراشکوہ: احوال و افکار (مکتبہ کارواں لاہور)، محمود علی: داراشکوہ (شفیق میموریل اسکول، دہلی 1999) داراشکوہ کی شخصیت پر قاضی عبدالستار کا ایک ناول داراشکوہ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔
3؎ تفصیل کے لیے دیکھیے: اورنگ زیب اعظمی، عہد عباسی میں ترجمہ نگاری: تاریخ و تحقیق (مرکزی پبلی کیشنز، نئی دہلی 2019)،عربی سے ترجمہ، نایاب حسن قاسمی۔
4؎ ابوالعلا معری عباسی دور کا معرو ف شاعر و فلسفی تھا۔ دیوان سقط الزند، لزوم ما لا یلزم، رسالۃ الغفران ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ بچپن میں چیچک کی وجہ سے ان کی آنکھ جاتی رہی۔ معری اپنے نظریات و تصورات کی وجہ سے معتوب بھی رہے۔ وہ آدم بیزار تھے۔ ابوالعلا معری کوبہت سے لوگ برہمنیت کا ہمنوا اور ہندو فلسفے کا قائل سمجھتے ہیں، ملحد و زندیق قرار دیتے ہیں، وہ بنیادی طور پر (Anti natalist)تھے اسی لیے انھوں نے دنیوی آفات سے اپنی اولاد کو بچانے کے لیے شادی نہیں کی تھی۔ انھیں مسور کی دال پسند تھی اور وہ سبزی خور تھے۔ پال اسمتھ نے Al-Maarri, Life and Poems کے نام سے ان کا تعارف و ترجمہ دیا ہے۔ علامہ اقبال نے ان کی سبزی خوری کے حوالے سے اشعار لکھے تھے۔ اس تعلق سے کئی تحریریں شائع ہوچکی ہیں جن میں مکاتبہ فی ترک اکل اللحوم لابی العلا المعری قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ Journal of Royal Asiatic Society, 1902 میں ایک اہم تحریر بھی شائع ہوئی ہے: D.S. Margoliouth, Abul Ala- Ma’arris correspondence on Vegetarianism۔ ابوالعلا معری پر مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: تاریخ ادب عربی استاد احمد حسن زیات، مترجم: ڈاکٹر سید طفیل مدنی (ایوان کمپنی نخاس کہنہ، الہ آباد 1985)
5؎ علامہ اقبال: کلیاتِ اقبال (اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 1981) ص 448-449
6؎ میراجی کا اصل نام محمد ثناء اللہ ثانی ڈار ہے۔ ان کے والد منشی محمد مہتاب الدین محکمہ ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔ شریعت کے نہایت پابند اور پنج وقتہ نمازی اور والدہ کا نام زینب بیگم عرف سردار بیگم ہے۔ 25مئی 1912 کو پیدا ہوئے۔ وہ میٹرک پاس بھی نہیں تھے مگر شعر و ادب میں ان کو امتیاز حاصل ہے۔ وہ ادبی دنیا لاہور سے بحیثیت نائب مدیر وابستہ رہے۔ آل انڈیا ریڈیو دہلی میں خدمات انجام دیں۔ ماہنامہ ’ساقی‘ میں ادبی کالم لکھے۔ ان کی تصانیف میں میراجی کے گیت (مکتبہ اردو لاہور، 1943)، میراجی کی نظمیں (ساقی بک ڈپو دہلی 1944)، گیت ہی گیت (ساقی بک ڈپو، دہلی 1944)، پابند نظمیں (کتاب نما راولپنڈی 1968)، تین رنگ (کتاب نما راولپنڈی 1964)، مشرق و مغرب کے نغمے (اکادمی پنجاب لاہور 1958)، اس نظم میں (ساقی بک ڈپو، دہلی 1944)، نگار خانہ (مکتبہ جدید، لاہور 1950)،خیمے کے آس پاس (مکتبہ جدید لاہور، 1964) قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’کلیات میراجی‘ نے عنوان سے پورا شعری انتخاب شائع کیا ہے جو اردو مرکز لندن سے 1988 میں شائع ہوا۔ 3 نومبر 1949 کو ممبئی میں میرا جی کا انتقال ہوا۔ میری لائن قبرستان میں انھیں دفن کیا گیا۔ اخترالایمان نے لکھا ہے کہ ’’ان کے جنازے میں صرف پانچ آدمی تھے۔میں، مدھوسودن، مہندرناتھ، نجم نقوی اور میرے ہم زلف آنند بھوشن۔‘‘(میراجی کے آخری لمحے، مشمولہ نقوش لاہور، نومبر 1952) ، میراجی کی شخصیت اور فن پر کئی اہم کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں رشید امجد کی میراجی شخصیت اور فن (پاکستان)، شافع قدوائی کی ’میرا جی‘ (ساہتیہ اکادمی، دہلی 2001)، ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’میراجی ایک مطالعہ‘ (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 1991)، کمار پاشی کی ’میراجی: شخصیت اور فن‘ (ماڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی، 1991)، شمیم حنفی کی میراجی اور ان کا نگارخانہ (دلی کتاب گھر،دہلی 2013)، محمد حمید شاہد کی ’راشد، میراجی، فیض‘ (مثال پبلشرز فیصل آباد، 2014)، ناصر عباس نیر کی ’اس کو ایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں، میراجی کی نظم اور نثر کے مطالعات‘(اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کراچی) قابل ذکر ہیں۔ ان کی نثری تحریروں کا ایک انتخاب شیما مجید نے ’باقیاتِ میراجی‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔کچھ رسالوں نے بھی میراجی پر خصوصی شمارے اور گوشے شائع کیے ہیں جن میں حیدر قریشی کے ’جدید ادب‘ جرمنی کا میراجی نمبر قابل ذکر ہے۔میراجی پر تحقیقی مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں۔ہانی السعید کی اطلاع کے مطابق پنجاب یونیورسٹی لاہور، 2003میں تقدیس زہرہ نے ’مشرق و مغرب کے نغمے: حواشی و تعلیقات‘ کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھا ہے تو جی سی یونیورسٹی لاہور سے سعدیہ جاوید نے ’میرا جی کے تراجم‘ پر تحقیقی کام کیا ہے۔
7؎ بحوالہ سید حسن الدین احمد،انگریزی شاعری کے منظوم اردو ترجموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (ولا اکادمی، حیدرآباد 1984)
8؎ پروفیسر شارب ردولوی لکھتے ہیں کہ گیتا کے ترجمے اور تفسیریں دنیا کی بیشتر زبانوں میں مل جاتی ہیں لیکن اردو میں اس کے ترجمے جس تعداد میں ملتے ہیں اتنے شاید کسی دوسری زبان میں نہ ہوں۔ یہ ترجمے نظم و نثر دونوں میں ہیں اور ان ترجموں کے کرنے والے ہندو مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ ’بھگوت گیتا‘ کے جن ترجموں کی اب تک نشاندہی ہوچکی ہے ان کی تعداد 29ہے جن میں 13 نثری ترجمے ہیں اور 16 منظوم ہیں۔ ان میں چار ترجمے مسلمان مترجمین کے کیے ہوئے ہیں۔ مثلاً دل کی گیتا، ترجمہ: دل محمد، بھگوت گیتا، ترجمہ: خلیفہ عبدالحکیم، شریمد بھگوت گیتا، ترجمہ: حسن الدین احمد، بھگوت گیتا یا نغمہ خداوندی، ترجمہ: محمد اجمل خان (اردو میں جین بدھ سکھ اور ہندو مذاہب کی کتابیں، مشمولہ: نندکشور وکرم، عالمی اردو ادب دہلی، دھارمک نمبر2013، ص 18) اسی طرح رامائن کے سب سے زیادہ ترجمے اردو میں ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اجے مالوی کی تحقیق کے مطابق اردو زبان میں 101 رامائن شائع ہوچکی ہے جن میں پہلی اردو رامائن شنکر دیال فرحت کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: اجے مالوی ’ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز‘۔
9؎ مشرق و مغرب کے نغمے، ص 64
10؎ جمیل جالبی: کلیات میراجی، ص 767-68
11؎ ودیاپتی میتھلی اور سنسکرت کے ایک عظیم شاعر تھے۔ ان کا تعلق دربھنگہ ضلع کے تھانہ بینی پٹی کے ایک گاؤں سے تھا۔ وہ راجہ کیشور اور کرتی سنگھ کے دربار سے بھی وابستہ رہے۔ سنسکرت زبان میں ان کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں ’کیرتی لتا‘ ، ’بھوپری کرما‘، ’پرس پرتیکشا‘ مشہور ہیں۔ ان کا شاہکار ’پداولی‘ ہے جو میتھلی زبان میں ہے۔ ان کے تعلق سے منظر شہاب (جمشیدپور) نے لکھا ہے کہ ’’پداولی حسن وعشق کا مرقع ہے۔ ودیاپتی نے اپنے زورِ تخیل اور ندرتِ بیان سے اس میں ایک عجیب طلسم بھر دیا ہے۔ تصویرکشی میں ان کی مثال دنیائے ادب میں بہت کم ملے گی اور تشبیہوں کے تو وہ خود باشاہ ہیں۔‘‘ پداولی میں کرشن اور رادھا کی محبت کا بیان ہے۔ ودیاپتی کے حوالے سے ساہتیہ اکادمی کی طرف سے ہندوستانی ادب کے معمار کے تحت انگریزی میں راماناتھ جھا کا مونوگراف 1973 میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ منظر شہاب نے اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’اور پھر بیاں اپنا‘ (نرالی دنیا پبلی کیشنز دریاگنج، نئی دہلی 2000) میں ودیاپتی میتھلی ادب کا عظیم فنکار کے عنوان سے بہت وقیع مضمون تحریر کیا ہے۔
12؎ جمیل جالبی: کلیات میراجی، گیت، ص 791-92
13؎ چنڈی داس ایک بنگالی شاعر جنھوں نے رادھا کی محبت کا نغمہ لکھا۔ یہ ایسا شاعر تھا جس کا ہیومنزم پر یقین کامل تھا۔ وہ انسانیت کو سب سے بلند سمجھتے تھے۔ ان کے بارے میں بہت سے تضادات ہیں جس کی تحقیق ہنوز نہیں ہوپائی ہے۔ ساہتیہ اکادمی نے ہندوستانی ادب کے معمار کے تحت سوکمار سین کا مونوگراف انگریزی میں شائع کیا ہے۔
14؎ جمیل جالبی: کلیاتِ میرا جی، گیت ص 809-10
15؎ جمیل جالبی: کلیاتِ میرا جی، ص 814-15
16؎ مبشر احمد میر نے ’میراجی کا نگارخانہ‘ کے عنوان سے وقیع مضمون تحریر کیا ہے جو ’جدید ادب‘ جرمنی کے میراجی نمبر میں شامل ہے۔
17؎ شمیم حنفی: میراجی اور ان کا نگارخانہ، دہلی کتاب گھر، دہلی، 2013، ص 87-88
18؎ ایضاً، ص 92
19؎ بحوالہ رشید امجد ’میراجی شخصیت اور فن‘ ص 237
20؎ شمیم حنفی: میراجی اور ان کا نگارخانہ، دہلی کتاب گھر، دہلی، 2013، ص 85
21؎ ایضاً، ص 86
22؎ پروفیسر صادق، بالِ جبریل کے سرنامے کا شعر مشمولہ ’تنقیدی اور تحقیقی مضامین‘ (کتابی دنیا، ترکمان گیٹ، دہلی 2014)، ص 127
23؎ عمر خیام کا پورا نام غیاث الدین ابوالفتح عمرو بن ابراہیم ہے۔ وہ ملک خراسان کے مردم خیز خطہ نیشاپور میں 18مئی 1048 میں پیدا ہوئے۔ نساجی ان کا آبائی پیشہ تھا مگر والد نے خیمہ دوزی کا پیشہ اختیار کیا ۔ علم ہیئت، فلکیات، الجبرا اور اقلیدس میں اسے کمال حاصل تھا۔ خیام خراسان کے بادشاہ ملک شاہ کی اس آٹھ رکنی کمیٹی کا ایک رکن تھا جس نے ’جلالی تقویم‘ تیار کی تھی جس پر آج کی ایرانی تقویم کا انحصار ہے۔ یہ گرے گورین کلینڈر سے قریب ہے۔ عمر خیام کو خمریات کا امام سمجھا جاتا ہے اور ان کی رباعیات پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ بہت کم ایشیائی شاعر کو یورپ میں اتنی شہرت، مقبولیت اور عزت نصیب ہوئی۔خیام کی وفات 4 دسمبر 1131 عیسوی کو ہوئی۔ ان کی تصانیف میں رسالہ مکعبات، رسالہ جبر و مقابلہ، رسالہ شرح ما اشکل من مصادرات اقلیدس، زیچ ملک شاہی، رسالہ مختصر در طبیعیات، میزان الحکم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ عمر خیام کے حوالے سے اردو میں کتابیں اور مقالے شائع ہوتے رہے ہیں۔ سید سلیمان ندوی کی کتاب ’خیام‘ جو دارالمصنّفین اعظم گڑھ سے شائع ہوئی ہے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ مولانا عبدالباری آسی نے رباعیاتِ عمر خیام پر ایک نظر کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے جو مکتبہ دین و ادب لکھنؤ سے 1966 میں شائع ہوئی ہے۔ عشرت رحمانی نے ان پر ایک تاریخی ناول لکھا ہے اور عزیز احمد نے ایک ڈراما تحریر کیا ہے۔
24؎ فٹز جرالڈ کو مغرب کا عمر خیام سمجھا جاتا ہے اور وہ اپنے اسی ترجمے کی وجہ سے زندہ جاوید ہے۔ محمد اسحاق نے لکھا ہے کہ ’’عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ فٹز جرالڈ نے سب سے پہلے Fraser Magazine میں چھپنے کے لیے بھیجا تھا لیکن جب دو سال تک نظمیں شائع نہ ہوئیں تو فٹز جرالڈ نے انھیں واپس لے لیا اور اس مجموعے کو خود اپنے خرچ سے شائع کیا لیکن کتاب فروخت نہ ہوئی اور کتب فروش کوآرچ نے کتب خانے کے باہر ایک پیسہ والے طاق میں رکھ دیا۔ خوش قسمتی سے اسے راسیٹی نے مول لیا اور اپنے دوستوں سے بھی اس کے خریدنے کی استدعا کی اور اس طرح اس کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔‘‘ تفصیل کے لیے دیکھیے: محمد اسحاق ایم اے، مترجم خیام، ایڈورڈ فٹز جرالڈ، (مطبوعہ ماہنامہ ’زمانہ‘ کانپور، جولائی دسمبر 1935)، مشمولہ خیام شناسی، مرتبہ: اخلاق احمد آہن۔
25؎ ضیاء احمد: خیام کی مقبولیت، مشمولہ خیام شناسی، مرتبہ: اخلاق احمد آہن۔
26؎ رباعیاتِ خیام کے اس پہلے اردو مترجم کے حوالے سے قیصر سرمست لکھتے ہیں ’’راجہ مکھن لال نہ صرف فارسی کے جید عالم تھے بلکہ ہندو مسلم اتحاد کا بے مثل نمونہ بھی۔ انتہائی درجے کے بے تعصب، علومِ اسلامی اور تصوف سے انھیں بے حد لگاؤ تھا، زبانِ فارسی سے انھیں بے پناہ دلچسپی تھی اور اس زبان کے حصول کے لیے انھوں نے ایک ایرانی نژاد عورت سے شادی بھی کرلی تھی۔ فارسی شعرا میں عمر خیام ان کا سب سے پسندیدہ شاعر تھا۔ ‘‘
دیکھیے: قیصر سرمست، عمر خیام کی رباعیات کا پہلا مترجم، مشمولہ خیام شناسی، مرتبہ: اخلاق احمد آہن، (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2017 )۔
27؎ رباعیاتِ خیام کے اس ترجمے کے حوالے سے ضیاء احمد لکھتے ہیں ’’رباعیاتِ خیام کا ترجمہ جو شوکت بلگرامی نے کیا ہے وہ درحقیقت اردو کا شاہکار سمجھے جانے کا مستحق ہے۔ یہ اگر کوئی مستقل چیز ہوتی تو بھی قابل قدر تھی لیکن یہ خیال کرکے اس کی وقعت اور بڑھ جاتی ہے کہ یہ ترجمہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ ترجمہ کہیں کہیں خیام سے ٹکر کھاتا ہے۔‘‘ (بحوالہ خیام شناسی)سید کاظم علی شوکت بلگرامی فرزند حاجی منشی سید علی حسن بلگرامی ایک عمدہ شاعر بھی تھے۔ ان کے اس ترجمے کی تعریف مہاراجہ سر کشن پرشاد، نواب عمادالملک بہادر، مولوی سید حسین بلگرامی،مولوی حبیب الرحمن خاں شیروانی اور شمس العلماء نواب سید امداد امام صاحب نے بھی کی ہے۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد بہادر نے لکھا کہ ’’میںحضرت شوکت کو ایک مدت سے جانتا اور ان کی طباعی اور معجز طرازی کو مانتا ہوں لیکن اس ترجمے سے ان کی قادرالکلامی کا جیسا ثبوت مجھے ملا ہے اس سے پہلے نہ ملا تھا۔‘‘ نواب عمادالملک نے لکھا کہ سید کاظم علی صاحب شوکت بلگرامی نے چند رباعیاتِ عمرخیام کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اور قابل قدر ترجمہ کیا ہے اور لطف یہ ہے کہ رباعی کا ترجمہ رباعی میں کیا ہے۔‘‘ یہ ترجمہ ریختہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے ۔ اس کے ابتدائی صفحات میں ان عمائدین کے تاثرات بھی درج ہیں۔
28؎ تفصیل کے لیے دیکھیے : بیدار بخت:خیام کے ترجموں پر ایک نظر، رسالہ جامعہ، ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ، اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، جنوری -مارچ2019
29؎ ایضاً، ص 80-81 30؎ ایضاً، ص 81
31؎ شافع قدوائی: میرا جی، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی2001، ص 109
32؎ جمیل جالبی: کلیاتِ میراجی، ص ص760
33؎ بحوالہ رشید امجد، میراجی، ص 238
34؎ شافع قدوائی: میراجی، ص 103
35؎ جمیل جالبی: کلیاتِ میراجی، ص ص 912-14
36؎ قمر جمیل، جدید ادب کی سرحدیں (جلد دوم)، مکتبہ دریافت کراچی، 2000، ص 112
37؎ رشید امجد، میراجی: فن اور شخصیت، ص 241
38؎ جمیل جالبی: کلیاتِ میراجی (فلیپ)
39؎ شافع قدوائی: میراجی، ص 106
40؎ ناصر عباس نیر: میراجی کے تراجم، مشمولہ تناظر شمارہ نمبر 2، ناصر عباس نیر نے اس مضمون میں ترجمے کی روا یت اور میراجی کے تراجم کے حوالے سے بہت اہم نکات کا احاطہ کیا ہے۔ ان کی یہ رائے بہت اہم ہے کہ ’’میراجی کے تراجم کی فضا کثیر الثقافتی پس منظر اور ہمہ دیسی زاویے سے عبارت ہے۔‘‘