Home نقدوتبصرہ میرا جی کے تراجم-حقانی القاسمی

میرا جی کے تراجم-حقانی القاسمی

by قندیل

(تیسری قسط)
وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ:
”دامودر گپت کی پیروی میں آج ہم ایسی چیزیں ہر گز نہ لکھیں گے لیکن ایسی چیزیں پڑھیں گے ضرور تا کہ ہماری دنیا میں وہ ماحول ہی نہ رہنے پائے جو محض لذت کو حیات بنا دیتا ہے۔“
دامودر گپت نے اس کتاب میں جس طرح روحانیت اور جنسیت کے امتزاج کے ذریعے معاشرتی تضادات (Contradictions) کو واضح کیا ہے وہ آج بھی ایک معاشرتی حقیقت ہے۔ آج کے عہد میں Art of seductionپر کتابیں لکھی جا رہی ہیں Robert Greeneکی کتاب The Art of Seductionبیسٹ سیلر مانی جاتی ہے اور نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی اس موضوع پر کتابیں تحریر کر رہی ہیں۔ سیما آنند کی کتاب Art of Seductionاس باب میں قابل ذکر ہے۔برطانیہ کی خاتون ناول نگار Erika Leonardجو اپنے قلمی نام E.L.Jamesسے مشہور ہے۔اس نے Fifty shades of greyجیسا اروٹک ناول لکھاہے جو بیسٹ سیلر میں شمار کیاجاتاہے۔ دامودر گپت نے جس موضوع کا انتخاب کیا تھا وہ آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ اسی لیے میراجی کی ترجمہ کردہ کتاب ”نگار خانہ“پر سعادت حسن منٹو نے لکھتے ہوئے کہا تھا:
”چکلوں کا لین دین بنیادی طور پر ایک ساہی رہتا ہے۔اس میں دوسری منڈیوں کے لین دین کی سی تبدیلیاں پیدا نہیں ہوتیں مرد کی فطرت میں آج ہم کیا تبدیلی محسوس کرتے ہیں کوئی بھی نہیں۔ اس کا لباس بدل گیا ہے، اس کی وضع قطع بدل گئی ہے مگر جب وہ عورت کے پاس جاتا ہے تو وہ وہی مرد ہوتا ہے جو آج سے صدیوں پہلے تھا۔ عورت کو حاصل کرنے کے طریقے بھی اس کے وہی پرانے ہیں۔مرد نے جنسی لحاظ سے کوئی انقلاب انگیز ترقی نہیں کی معدے اور جنس کے معاملے میں جیسا وہ پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔“20
منٹو نے یہ بھی لکھا:
”عورت خواہ بازاری ہو یا گھریلو خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا کہ مرد اس کو جانتا ہے یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی۔ اس کے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا“21
اور حقیقت یہی ہے کہ دامودر گپت نے اپنی کتاب ”کٹنی متم“ میں عورتوں سے متعلق نئے انکشافات کیے ہیں جو آج بھی اتنے ہی سچ ہیں جو صدیوں پہلے تھے۔
میرا جی نے دو ہزار سال پرانی اتنی اہم کتاب کا ترجمہ انگریزی سے کیا ہے۔ اگر انھوں نے اردو میں ترجمہ نہ کیا ہوتا تو اردو طبقہ ایک شہکار فن پارے سے محروم ہوجاتا۔ دامودر گپت کی یہ کتاب شانتی نتھ مندر بھنڈار میں تھی اس کو از سر نو ایک مغربی اسکالر ڈاکٹر پٹرسن (Peterson) نے 1883 میں دریافت کیا۔ جے پور کے پنڈت درگا پرساد جی نے اس کے دو نسخے دریافت کر کے اسے 1887 میں شائع کروایا۔ اردو حلقے کے لیے یہ بیش قیمتی تحفہ تھا اردو میں نیاز فتح پوری نے ترغیباتِ جنسی کے نام سے ہیولاک ایلس کی ایک کتاب کا ترجمہ کیا ہے مگر دامودر گپت کی بات ہی الگ ہے۔یہ کتاب مشرق کی رومانی اور جنسی ذہنیت کی پوری تصویر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ میرا جی نے کس انگریزی کتاب سے اس کا ترجمہ کیا ہے تو ڈاکٹر رشید امجد کا خیال ہے کہ یہ ایک انگریزی انتھولوجی میں شامل تھی جس کا نام تھا Romances of the eastجب کہ ناصر عباس نیر کا کہنا ہے کہ یہ پی پی ماتھرس کے ترجمے کا ترجمہ ہے۔بہر حال اس بحث سے قطع نظر یہ ایک اچھا ترجمہ ہے جس سے اس وقت کی خواتین کی حالتِ زار کاپتہ چلتا ہے اوریہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اس عہد میں بیویوں سے زیادہ طوائفوں کی اہمیت تھی۔ جو معاشرے میں ایک آدرش بن گئی تھی۔ یہ کتاب ہدایت نامہئ جنس ہے جس کے تعلق سے بہت سی کتابیں ہر زبان میں لکھی جا چکی ہیں۔خاص طورپر ’لذت النسا‘ جیسی کتابیں اب عام ہیں۔ارتھ شاستر کی طرح کام شاستر ہمارے معاشرے کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ قدیم زمانے میں مذہب،عشق اور جنس میں کوئی تضاد نہیں تھا۔یہ کتاب اس کا بھی مظہرہے۔
میرا جی نے مشرقی شعریات اور جمالیات سے اپنی گہری دل چسپی کا ثبوت دیتے ہوئے بھرتری ہری کے شتکوں کا ترجمہ بھی کیاہے۔ جو یوگیوں کے سر تاج تھے اور جنھیں سنسکرت کے تمام شاستروں پر عبور تھا۔یہ وہی بھرتری ہری ہیں جن کے ایک شعر کا ترجمہ علامہ اقبال کے ”بالِ جبریل“کے سر نامے پر ہے:
”پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
علامہ اقبال نے فلک زحل پر ان سے ملاقات کی اور رومی نے ان کا یوں تعارف کرایا
آں نوا پردازِ ہندی را نگر
شبنم از فیضِ نگاہ او گہر
بھرتری ہری کا نیتی شتک بھی ہے اور شرنگار شتک بھی، ویراگیہ شتک بھی۔ بھرتری ہری سنسکرت کا اتنا اہم شاعر ہے کہ ڈسکن اسکارٹ، جان بوغ، شری اربندو گھوش اور باربرا اسٹولر ملر نے انگریزی میں ان کاترجمہ کیا ہے۔اس کے علاوہ ریاضی کے پروفیسر ڈی ڈی کوشمبی نے بھی سنسکرت کا سارا کلام انگریزی میں منتقل کر دیا ہے۔اردو میں ’جذبات بھرتری ہری‘ کے عنوان سے راجستھان کے اسسٹنٹ کمشنر جے کرشن چودھری ایم اے ایل ایل بی نے تقریباً 85 قطعات کا ترجمہ کیا ہے۔ یوسف ناظم نے ’ارمغانِ سنسکرت بھرتری ہری اردو میں‘ کے عنوان سے منظوم ترجمہ کیا ہے اور امتیاز الدین نے بھرتری ہری کاترجمہ ’شاعر اعظم: بھرتری ہری‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ کتاب اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ سے 1983 میں شائع ہوئی۔ عبدالستار دلوی نے بھی ترجمہ کیا ہے۔ اثر لکھنوی نے 5 اشلوکوں کا ترجمہ کیا ہے تو تلوک چند محروم نے 10 اشلوکوں کا ترجمہ کیا ہے۔ ساحر سنامی نے شرنگار شتک اور ویراگ شتک کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے جو ’گل صد رنگ‘ حصہ دوم میں شامل ہے۔پروفیسر صادق نے بھرتری ہری کے پہلے اردو مترجم بابو گوری شنکر لال اختر، رگھوویندر راؤ جذب، اوررگھوناتھ گھئی کا بھی ذکر کیا ہے۔22؎ اس طرح دیکھا جائے تو بھر تری ہری اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔میرا جی نے بھی بھرتری ہری کے شتکوں کا ترجمہ کیا ہے اس ترجمے کی وجہ بھرتری ہری سے میرا جی کی ذہنی مناسبت بھی ہو سکتی ہے کہ بھرتری نے بھی محبت میں دھوکے کھائے، معشوق فریبی کے شکار ہوئے اور اسی لیے راج پاٹ چھوڑ کر جنگل کی راہ لی۔ بھرتری کو لگا کہ اس دنیا میں ہر شخص خلوت کا سودائی اور لذت کا شیدائی ہے یہ۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ بھرتری ہری کو رانی پِنگلا سے عشق تھا۔ اس نے رانی پنگلا کو امرپھل دیا تو رانی نے سیناپتی کو دے دیا جس پر وہ فریفتہ تھی۔ سیناپتی نے اپنی معشوقہ راج نرتکی کو وہ امر پھل دے دیا۔ راج نرتکی سیناپتی کے سائیس سے پیارکرتی تھی، اس نے وہ امر پھل سائیس کو دے دیا۔ سائیس نے سوچا کہ یہ امر پھل میرے کس کام کا۔ اس نے راجہ بھرتری ہری کو دے دیا۔ یہ دیکھ کر راجہ کا دماغ چکرا گیا اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ یہ عشق و محبت کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے دھوکہ ہے۔ تبھی سے اس نے جنگل کی راہ لے لی۔
میراجی نے بھرتری ہری کے حوالے سے دنیا کو محبت کی شاعری کا اہم نمونہ دیا ہے۔ بھرتری ہری واقعی رومان اور محبت کے شاعر ہیں۔ شرنگار شتک ان کی عشقیہ شاعری کا خوبصورت نمونہ ہے۔ یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
دیدنی ہے بدن کا حسن و جمال
اس کا مکھڑا ہے چندرما کی مثال
بھونروں کی طرح بال گال کمل
چھاتیوں میں ہے ہاتھیوں کا جلال

زندگی کا لطف ہے گر زندگی کا جوش ہو
یہ تقاضائے جوانی ہے تو مدہوش ہو
یا اکیلے میں بہت کم سن سے ہم آغوش ہو
یا کسی جنگل میں جاکر بربط خاموش ہو

پہلے تو نہیں نہیں سے تھوڑا اٹھلائے
پھر سست بدن گود میں آنے سے لجائے
پھر خواہش وصل سے وہ ہوکر سرشار
دریائے محبت میں مزے لے کے نہائے
(ترجمہ: امتیاز الدین)
میراجی کے ترجمے کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
”یہ نازنین کون ہے جس سے مزے لوٹ کر اسے پھر چھوڑ دیا گیا ہے اور جو بدن کے پسینے سے چمٹے ہوئے کپڑوں اور ڈانواں ڈول نگاہوں کو لیے صبح سویرے کسی ڈری ہوئی بد گمان ہرنی کی طرح ادھر ادھر پھرتی ہے۔“ میراجی نے ترجمے میں سادگی اور سلاست کا خیال رکھا ہے اور مفہوم کی بڑی خوبصورت ادائیگی کی ہے۔
عمر خیام23 سے بھی شایدمیرا جی کی ایک ذہنی مناسبت تھی کہ خیام کو مے اور معشوق کا شاعر سمجھا جاتا ہے جب کہ خیام ایک مہندس اور ہیئت داں تھا۔ ماہر فلکیات مگر اہل مغر ب نے خمریات کی وجہ سے اس کی خوب پذیرائی کی۔ ڈاکٹر تھا مس ہائڈ، مسٹر وان ہیمر، ولفرڈ ہاکسن اور فٹز جرالڈ (Edward J. Fitzerald) 24؎نے اس کے اتنے خوب صورت ترجمے کیے کہ مغرب میں وہ عوام و خواص کا مقبول شاعربن گیا۔اس کی رباعیات کے مصور ایڈیشن شائع ہوئے۔ اس کے نام پربرطانیہ میں لٹریری سوسائٹی قائم کی گئی۔ اہل مغرب کی قدر دانی کے بعد اہل مشرق نے بھی ان پر توجہ کی۔ رباعیاتِ خیام کے ترجمے: جرمن، فرانسیسی، روسی اور دیگر زبانوں میں ہوئے۔ ضیاء احمد لکھتے ہیں:
”ممالک فرنگ میں جن بے شمار مستشرقین نے خیام کی شاعری پر قلم اٹھایا، مبسوط شرحیں اور مقالے لکھے اور تذکرہ و تنقید کا فرض انجام دیا ان میں ٹامس ہائڈ، پروفیسر کریشٹن زن، ایم ایچ بیسٹسن، موسیو والن ٹن زوکوفکی، مسٹر راس ڈاکٹر فریڈرک روزن، این ایچ، این ایچ ڈول اور مسز کیڈل کے نام خاص طو رپر قابل ذکر ہیں۔“25
اردو میں خیام کی رباعیات کے بہت سے ترجمے ہوئے۔ سب سے پہلا ترجمہ راجہ مکھن لال26؎ شاہجہاں پوری حیدر آباد کا ’نذر خیام‘ کے نام سے 1958 میں شائع ہو ا۔ حضرت افسر الشعراء آغا شاعر قزلباش دہلوی نے ”خم کدہ خیام“ (شیخ مبارک علی تاجر کتب لاہور، 1927) کے نام سے ترجمہ کیا۔ ان کے علاوہ سید کاظم علی شوکت بلگرامی نے ”مئے دو آتشہ“27؎ (1932)۔ علامہ اسرار حسن خان شاہجہاں پوری نے ’بادہئ خیامِ‘، میر ولی اللہ بی اے، ایل ایل بی نے ’کاس الکرام‘ اور عادل اسیر دہلوی نے ”نغمہئ خیام“ کے نام سے ترجمے کیے۔ان کے علاوہ مولوی سید محمد لائق حسین قوی امروہوی مالک و ایڈیٹر سوز و ساز دہلی کا تاج الکلام (1924) مولوی حافظ جلال الدین جعفری زین الدین مدرس اوّل عربی و فارسی گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج الہ آباد کا رباعیاتِ حکیم عمر خیام،(مطبع انوارِ احمدی الہ آباد)، خیام الہند پروفیسر واقف لیکچردیال سنگھ کالج دلی وغیرہ نے اس کے ترجمے کیے۔ڈاکٹر عبدالرشید اعظمی (قومی اردو کونسل) نے سنہ 2007 میں فٹرز جیرالڈ کے انگریزی متن کو بنیاد بنا کر خیام کی 110 رباعیوں کا نثری نظم میں ترجمہ کیا جس کی اشاعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دلی نے کی۔ اس کے متوازی فٹز جیرالڈ کا اصل انگریزی متن بھی درج ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment