(دوسری قسط)
”میں کوئی نادان نہیں،
میرے سامنے جھوٹ کہنا بیکار ہے،
مجھے تمھارے سینے پر بیرن کے بوسوں کے نشان دکھائی دے رہے ہیں۔“
لیکن میں بہت زور سے اُسے اپنے سینے سے بھینچتا ہوں
تاکہ وہ نااندیشانہ نشان مٹ جائیں!
اور وہ انھیں بھول جائے
¡
جب سے میں نے اس کے ہونٹوں کو پہلی بار چوما ہے، میری پیاس دُگنے زور
سے بھڑک اٹھی ہے،
لیکن اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں،
اُن بوسوں میں ایک سلونا پن تھا!
¡
محبت کی خوشبوؤ! محبت کی مسکراہٹو!
اے سورج کے جلال! اور اے تاروں بھری رات کی شوکت!
موت کے مقابلے میں تم مجھے ہیچ نظر آتے ہو!
لنکا کی لڑکیو! سارتھ کے تاڑ کے درختو! مار کی ندیو! کمل میں شاہدانے کے
درختوں میں ہوا کے گیتو- میں تمھیں الوداع کہتا ہوں!10
اسی طرح انھوں نے میتھلی کے عظیم وشنو شاعر ودیا پتی11 کاترجمہ کیا ہے جس میں انھوں نے کرشن اور رادھا کی محبت کا احوال لکھا ہے۔ اس میں بھی ہجر و وصال کا بیان ہے۔ترجمے کے نمونے ملاحظہ ہوں:
کیسے سکھ پائے رادھا کا دکھیا،زرد شریر
کام دیو کے چنچل ہاتھوں نے چھوڑے تھے تیر
دورکسی بستی میں پہنچی، سپنوں کا تھا ساتھ
اور پہلو میں کاہن تھے،ہاتھوں میں تھامے ہاتھ
کالے پھولوں والے بھنورے، ان سے کہیو جائے
رات دنا کا درد تمہارا اب تو سہا نہ جائے
راجہ شیو جو لکشمی دیوی کا سرتاج کہائے
میرے دکھ کو بس وہ جانے۔ودّیا پتی سنائے“
¡
رُک رُک کر وہ بول رہی تھی،
شرم سے اس کی آنکھ جھکی تھی!
لاج سے بات ہوئی کب پوری،
لب پر آئی بات ادھوری!
آج تھی اس کی چال انوکھی،
اک پل مانی، اک پل روٹھی!
بات سنی جب رنگ بھاؤ کی،
زور سے موندیں آنکھیں اپنی!
ایک جھلک میں اُس نے دیکھا،
پریم کا ساگر آنکھوں میں تھا!
جب دیکھا منہ چوم ہی لے گا،
رُخ بدلا رادھا نے اپنا!
چاند کنول کو گود میں لے کر،
ڈوب گیا مستی میں یکسر!
ہاتھ کمر پر دیکھا اپنی،
ڈر کر چونکی، جھجکی، سمٹی!
دھیان اچانک جی میں آیا،
مال مدن کا چھن جائے گا!
جب پوشاک پریشاں دیکھی،
دونوں ہاتھ سے گات چھپائی!
سب سنگار دکھائی دیتے،
ہیرے موتی، ہار اور گجرے،
اس پر بھی پوشاک سنبھالے!
سیج سے سندر ڈر کر بھاگے،
سن کے کوئی کیا جانے، سمجھے؟12
میرا جی نے سہجیہ فرقے کے ترجمان اور رادھے شیام کے نغمہ خوان چنڈی داس13 کے گیتوں کا بھی ترجمہ کیا جس کا عقیدہ تھا کہ جنسی محبت ہی سے خدا کی طرف دھیان لگایا جا سکتا ہے۔ چنڈی داس کواپنی محبوبہ رامی دھوبن (رامونی)سے بڑی محبت تھی۔چنڈی داس مندر کا پروہت تھا اور برہمن بھی۔ایک دھوبن سے محبت کرنے کے جرم میں کفارہ ادا کرنے کے لیے اسے برادری سے نکال دیا گیا۔ لیکن رامی کی محبت اس کے دل میں اور بڑھتی گئی۔اس نے رامی کو ساتھ لے کر وطن چھوڑ دیا۔ وہ رامی کے لیے عشقیہ گیت لکھتا تھا،اس لیے رادھا کرشن کے استعارہ سے اپنے ذاتی تجربہ کو گیتوں میں ڈھالتا تھا۔ بنگالی چنڈی داس سے میراجی کی دل چسپی کی ایک وجہ شایدبنگال کی لڑکی، ایف سی کالج لاہور کی طالبہ میرا سین سے محبت رہی ہوگی اسی وجہ سے میرا جی نے چنڈی داس کا انتخاب کیا ہے کہ دونوں کے عشق کی داستان تقریباً ایک جیسی ہے۔ چنڈی داس کے گیت کے ترجموں سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
اُس کی آنکھوں میں ہے بس شیام کی موہن مورت
اس کی آنکھوں میں نہیں اور کوئی بھی صورت
کان میں نام اگر ہے تو وہ اک شام کا ہے
دل میں بھی دھیان اگر ہے تو اسی نام کا ہے
اس نے پہنا ہے لباس اپنے بدن پر کالا
نیلے پھولوں سے بنائی ہے اک اچھی مالا!
اس کے سینے کی سجاوٹ کے لیے ہے نیلم!
اور وہ کہتی ہے مری سانولی، سجنی، پیتم!
”آ! بس آجا، مرے آغوش میں آجا سجنی!
انگ سے اپنے مرا انگ لگا جا سجنی!“
وہ تو اک اونچے گھرانے کی ہے سندر بیٹی
ہر گھڑی دل ہے اور اس دل میں ہے اک بے چینی!
اُس کا دل موہ لیا تم نے، تم ہی نے مادھو!
یاد کرتی ہے وہ ہر وقت، ہمیشہ تم کو
دور ہوتا ہی نہیں دھیان تمھارا موہن!
دل میں ہے دھیان ہر اک آن تمھارا موہن!
دیکھو، دیکھو، وہ جو صورت تھی کنول کی صورت
اب وہ سنولا گئی، مرجھاگئی موہن مورت
اس کی آنکھوں سے بہی آتی ہے انسون دھارا
اور ان آنسوؤں سے بہہ گیا کاجل سارا
اُس کے بس ہی میں نہیں کیسے بھلائے تم کو؟
رحم کی بات ہے، رحم آئے تو آئے تم کو
نیند سے خالی ہیں اب، خالی ہیں اس کی راتیں
دکھ سے بھرپور ہیں، دکھ والی ہیں اُس کی راتیں
شیام سندر! ارے ہاں شام! ذرا سچ کہنا
بس میں ہے، بس میں تمھارے ہی تو دارو اُس کا
اور اب سن لو کہ یوں کہتا ہے چنڈی داسا
اس طرح چین نہ پائے گا جو دل ہے پیاسا
چند ہی دن میں بس اب ہوگا تمھارا بندھن
پاس آجائیں گے اور تم سے ملیں گے موہن!14
ایک نثری ترجمہ بھی دیکھیے:
¡
”اے میری محبوب! میں نے تیرے قدموں میں آکر پناہ لی ہے، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ میرے جلتے ہوئے دل کو ٹھنڈک پہنچائیں گے۔ میں تیرے اس حسن کا پجاری ہوں جس سے مقدس دوشیزگی ابل رہی ہے اور جو کسی نفسانی خواہش کو برانگیختہ نہیں کرتا۔
جب میں تجھے نہیں دیکھتا تو میرا دل بے چین رہتا ہے اور جب میں تجھے دیکھ لیتا ہوں تو میرے دل کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ اے دھوبن! اے میری محبوبہ تو تو میرے لیے ایسے ہے جیسے بے بس بچوں کے لیے ان کے ماں باپ!
برہمن دن میں تین بار پوجا کرتا ہے، اسی طرح میں تجھے پوجتا ہوں۔ تو میرے لیے اس گائتری کے مانند مقدس ہے جس سے ویدوں کی تخلیق ہوئی۔ میں تجھے سرسوتی دیوی سمجھتا ہوں جو گیتوں کو تحریک دیتی ہے۔ تو تو میرے لیے پاربتی دیوی ہے— تو میرے گلے کا ہار ہے— تو میرے لیے آکاش بھی ہے اور دھرتی بھی۔ تو ہی میری پاتال ہے اور تو ہی میرا پربت— نہیں نہیں تو تو میری کائنات ہے۔ تو میری آنکھوں کی پتلی ہے۔ تیرے بغیر میرے لیے ہر چیز تاریکی کے مانند ہے— میری آنکھیں تو تجھے دیکھنے ہی سے تسکین پاتی ہیں۔ جس روز تیرا چاند سا چہرہ نہیں دیکھتا میں ایک بے جان انسان کی مانند ہوتا ہوں۔ میں تو ایک پل کے لیے بھی تیرے حسن و رعنائی کو نہیں بھول سکتا۔ مجھے بتا دے کہ میں کس طرح تیری نظرِ کرم کا مستحق بنوں۔تو ہی میرا منتر ہے اور تو ہی میری پرارتھناؤں کا نچوڑ۔ تیرے دوشیزہ حسن کے لیے میرے دل میں جو چاہت ہے اس میں جسمانی خواہش کا کوئی بھی عنصر نہیں ہے۔ چنڈی داس کہتا ہے کہ دھوبن کی محبت پارس پتھر سے پرکھا ہوا سچا سونا ہے۔“15؎
مشرقیت سے میرا جی کا لگاؤ انہی شاعروں پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ انھوں نے اپنے ہند آریائی مزاج اور ہندو اساطیر اور علامات سے شیفتگی کا ثبوت دامودر گپت کی کتاب’کٹنی متم“ سے بھی دیا ہے جسے شمبھلی مٹم بھی کہا جاتاہے۔یہ’نگار خانہ‘16؎کے عنوان سے مکتبہ جدید لاہور سے 1905میں شائع ہوا۔یہ کلاسکی سنسکرت ادب کا ایک شہکار ہے۔ واتسائن کے کاما سوتر کی طرح ایک Erotic Text ہے۔ اس کا مصنف دامودر گپت ہے جس کے بارے میں کلہن نے ’راج ترنگنی‘ میں لکھا ہے کہ نویں صدی میں کشمیر کے راجا جیاپیداونیا یادتیاکے دربار میں ایک اعلا منصب پر فائز تھا۔ کشمیر کے اس راجا نے 31سال تک حکومت کی۔اس کتاب میں دامودر نے اپنے ذاتی مشاہدات پیش کیے ہیں اور شاہی دربار کی زندگی کی برہنگی کوبے نقاب کیاہے۔
بنیادی طور پر اس کتاب کا تعلق Art of seductionسے ہے۔ اس کا مرکزی کردار مالتی ہے جو سرو گن سمپن ہے مگر دولت مند نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہتی ہے۔اس لیے ایک تجربہ کار کٹنی وکرالا کے پاس جاتی ہے اور اس سے مردوں کے رجھا نے کا گر سیکھتی ہے۔ وکرالا اپنے تجربے کی روشنی میں مالتی کودام الفت میں پھنسانے اور مردوں کے شہوانی جذبات کو برانگیختہ کرنے کے سارے حربے بتاتی ہے۔اس کتاب میں انگ ودیا بھی ہے اور شریر وگیان بھی، رتی چکر بھی ہے اور سم رت بھی۔ مردوں کو اپنے دامِ حسن میں پھنسانے کے سارے حربے اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں۔لیکن یہ کتاب صرف شہوانی جذبات کو بر انگیختہ یارجھانے کے طریقوں پر ہی مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ نویں صدی کے ہندوستان کی سماجی، سیاسی، ثقافتی دستاویز بھی ہے۔ اس میں اعلا سوسائٹی کے اخلاقی زوال اور انحطاط Moral Depravity کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اسے زیادہ تر لوگوں نے ایک شہوانی متن کے طور پر دیکھا ہے مگر حقیقت میں ایک طوائف کے ذریعے اس وقت کے ہندوستانی سماج کی مکمل تصویر پیش کی گئی ہے۔ اے ایم شاستری نے اپنی کتاب
Seen in the Kuttanimata of Damodara Gupta India as
میں اس کتاب کا تنقیدی محاکمہ کرتے ہوئے اس وقت کی پولیٹکل تھیوری، وشنو ازم،عبادات، اعتقادات، خاندان، شادی،عورت کی حیثیت، رتبہ، قحبگی، بدکاری، ملبوسات، زیورات، آرائشِ جمال، مشروبات،مقامات غرض کہ معاشرے کے ہر پہلو کا ذکرکیا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ دامودر گپت نے اس وقت کے سماج کی عکاسی کرتے ہوئے بہو جنیPolygamyیعنی کثرت ازدواج کا بھی ذکر کیا ہے۔اس کہانی کا کردار مالتی کہتی ہے کہ برسات کی رات میں اپنے محبوب سے مل نہیں پائی کہ وہ اپنی بیبیوں میں مصروف تھا اور اس نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت کی ہزاروں عورتیں ایک ہی شخص میں دل چسپی رکھتی تھیں۔ دامودر گپت نے اشاروں اشاروں میں یہ بھی بتا دیا کہ اس وقت کے کشمیر میں Meat Dite رائج تھی، وشنو کے پیروکار بھی ممسا رس پیتے تھے۔ مرد وں اور عورتوں میں شراب نوشی عام تھی، طوائفیں جنسی عمل کے بعد تھکان دور کرنے کے لیے اس وقت کا لحمینہ استعمال کرتی تھیں۔اس کتاب میں کئی ٹوپوگرافکل ریفرینس بھی ہیں۔بنارس،پاٹلی پترا اور راجستھان کے ابو کا اس کتاب میں خاص طور سے ذکر آیا ہے۔ اس کہانی کا لوکیشن یا محل وقوع بنارس ہے جو مقدس و متبرک اسطوری شہر کہلاتا ہے جہاں انسانوں کو مکتی ملتی ہے۔ دامودر نے اس نگری کابہت خوبصورت منظر کھینچا ہے۔ جس کا ترجمہ بہت ہی خوب صورت اور سلیس انداز میں میرا جی نے کیا ہے:
”کاشی نگری دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہے، بھلے دنوں کی کون سی بات ہے جو یہاں نہیں، یہاں کے ہر باسی کی آنکھیں اپنی مکتی کی طرف لگی ہوئی ہیں پھر اس نگری میں وہ لوگ بھی رہتے ہیں جن کے دل کامنا سے بھرپور ہیں اور جن کی روحوں پر جسموں کا پھندا پڑا ہوا ہے اور جنھیں جسمانی خوشیوں کی کھوج ہے اور اس نگری کی ہر منگلا مکھی یوں سمجھو جیسے شیو کا روپ دھارے ہوئے ہے۔یہاں کی ہوا پھولوں بھری چوٹیوں سے بھری ہوئی ہے،مالتی اسی کاشی نگری کی رہنے والی ہے۔جب یہ نوخیز نو عمر طوائف جہاں دیدہ طوائف وکرالا کے گھر جاتی ہے تو وکرالا اسے مردوں کورجھانے کے گر سکھاتے ہوئے بتاتی ہے: ”دیوتاؤں کی آگیا سے اب بھی تیری کمر نازک ہوتے ہوئے بھی بوجھل سے بوجھل مردوں کو پریم کے دسویں دوار تک پہنچا سکتی ہے جہاں موت کی دیوی براجمان ہے۔ اب بھی تیری ناف کے نیچے بالوں کی ہر لکیر کام دیو کی کمان کی چلے کی طرح جھکاؤ کھائے ہوئے اچوک تیر چلا رہی ہے۔ اب بھی تیرے بڑے بڑے چوڑے چکلے کولہوں کی من موہنی وادی گھلے ملے رنگوں کے روپہلے اور سنہرے چری ہار کی طرح مردوں کے دلوں کو لبھا تی ہے۔“17
”اس دھرتی پر کوئی ایسا ہے جس کے دل میں تنوں کی سی سنہری رانوں کی کامنا نہ جاگ پائے کس کے من میں اس پیڑ کی چاہ جنم نہ لے گی، یہ پیڑ تو جوانی کی چاہت کے پھل ہی کے لیے بنایا گیا تھا۔ تیری رانیں ہاتھی کی سونڈ کی طرح ہیں میری پیاری، میری سندری۔اب بھی تیری رانیں دہرے ڈنٹھلوں کے ایسی ہیں اورہر کسی کے دل کو موہ لیتی ہیں۔کون ایسا ماں کا جایا ہے جو ایسے استھان پر پیاس بجھانے نہ آئے“18
کٹنی مٹم میں جمالیاتی پیکر تراشی بھی ہے۔ جسمانی اعضا ومفاتن کا بیان بھی ہے۔ میرا جی نے اس کتاب کے جمالیاتی متن میں ڈوب کر ترجمہ کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں بلکہ مکرر تخلیق ہے۔ ایک قدیم سنسکرت شہکار کو اتنے خوبصورت انداز میں اردو کا پیرہن عطا کرنا یقینا ان کا کمال ہے۔ میرا جی نے شاید اپنے جنسیاتی ذوق و شوق کی وجہ سے اس متن کا انتخاب کیا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ میرا جی نے اس کی وضاحت کی ہے کہ”اس کا مقصد لذت کوشی نہیں بلکہ قدیم ہندوستان کے گھناؤنے چہرے کی نقاب کشائی ہے۔“19
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)