( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
چونکہ موضوع ، خدائے سخن میر تقی میرؔ کے فارسی لطائف کا ، اردو ترجمہ ہے ، لہذا پہلے ایک لطیفہ پڑھ لیں ، میرا نہیں ، میرؔ کا فارسی لطیفہ اردو میں : ’’ ایک شخص مرزا مظہر جانِ جاناں کے پاس آیا اور کہا : ’ ایک ہوا مجھے یہاں لآئی ہے ‘ ۔ وہاں ایک ظریف بیٹھا تھا ، اس نے پوچھا ’ کہاں سے؟‘ مرزا صاحب نے کہا ’ وہیں سے جہاں سے خارج ہوتی ہے ‘ ۔‘‘
مزید ایک لطیفہ : ’’ ایک روز حکیم شیخ حسین شہرت جو بہت معروف تھے ، ایک شاہی خواجہ سرا کے گھر گیے ۔ وہاں ایک شخص موجود تھا جس کو مقعد کی ایک بیماری تھی ۔ اس نے علاج کے لیے حکیم صاحب سے رجوع کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس کا علاج تو آسان ہے لیکن اس گھر میں کسی کے خصیے محفوظ نہیں ۔‘‘
یہ دو لطیفے ، میرؔ کے مزید لطائف کے مقابلے ، پڑھنے میں عام سے لگتے ہیں ، لیکن یہ سچ ہے کہ میرؔ کے باقی کے لطائف میں سے اکثر فحش ہیں ، ایسے لطائف جنہیں عام طور پر ’ نان ویج ‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ لطائف میرؔ کی فارسی خود نوشت ’ ذکرِ میرؔ ‘ میں شامل تھے ، لیکن جب مولوی عبدالحق نے نثار احمد فاروقی سے ’ ذکرِ میر ‘ کا اردو ترجمہ کروایا تو ان تمام لطائف کو حذف کر دیا ۔ آسان زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ ’ ذکرِ میرؔ ‘ کو سنسر کر دیا ۔ ’ ذکرِ میرؔ ‘ انجمن ترقی اردو ( ہند ) نے شائع کی تھی ۔ ’ ذکرِ میرؔ ‘ کے فارسی ایڈیشن میں بھی ، جِسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے شائع کیا تھا ، یہ لطائف نہیں تھے ۔ لیکن اس بار ’ ذکرِ میرؔ ‘ کا جو ایڈیشن شائع ہوا ، اس میں میرؔ کے فارسی لطائف کے اردو ترجمے شامل ہیں ۔ انجمن کے جنرل سکریٹری اطہر فاروقی نے خصوصی طور پر ان لطیفوں کو صدف فاطمہ سے ترجمہ کروایا ، جو ’ انجمن ‘ کے مجلّے ’ اردو ادب ‘ کی معاون مدیر ہیں ۔ ترجمہ شائع ہونے کے بعد ایک سوال یہ اُٹھا کہ مولوی عبدالحق نے ’ ذکرِ میرؔ ‘ کے اردو ایڈیشن کو کیوں سنسر کیا تھا ؟ کیوں انہوں نے لطائفِ میرؔ کتاب میں شامل نہیں کیے تھے ؟ اس کا جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ ’ اس لیے کہ لطائف فحش تھے ‘ ۔ اس پر یہ سوال اٹھا ہے کہ ’ پھر اوریجنل فارسی کے ’ ذکرِ میرؔ ‘ میں یہ لطیفے کیسے شامل تھے ، اور پڑھنے والوں کو یہ لطیفے کیوں فحش نہیں لگے ؟ ایک سوال یہ بھی ہے ، کہ کیا ادب میں ایسی سنسر شپ کو درست مانا جا سکتا ہے ؟ انجمن کے جنرل سکریٹری اطہر فاروقی کا ماننا ہے کہ ’’ انجمن کے جنرل سکریٹری کے طور پر مگر انہیں ’ ( مولوی عبدالحق کو ) یہ حق بالکل نہیں تھا کہ وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر کی خود نوشت سوانح کے آخری حصے کو حذف کر دیں ۔‘‘ بہت سے دانشوروں کا یہی خیال ہے ۔ میں ان سوالوں میں نہیں پڑوں گا ، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ کسی ادب پارے پر ، پسند نہ آنے پر تنقید تو کی جا سکتی ہے لیکن اسے سنسر کرنا نامناسب ہے، اور مولوی عبدالحق کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ جن لطائف کی بات ہو رہی ہے ان سے کہیں زیادہ فحش میرؔ کا کلام ہے ( کُل کلام کی بات نہیں ہو رہی ہے) لیکن ہمارے دانشوروں نے ، نقادوں نے اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے علماء نے ( جن کی ایک بڑی تعداد ہے) کبھی نہیں کہا کہ میرؔ کے کلام کو سنسر کیا جائے ۔ میرؔ نے کیوں یہ لطائف شامل کیے اس پر اور انجمن سے شائع ’ ذکرِ میرؔ ‘ کے نئے ایڈیشن میں شامل میرؔ کے لطائف کے ترجمہ پر کوئی بات کرنے سے پہلے ’ اردو ادب ‘ کے میر تقی میرؔ نمبر میں شائع انگریزی کے شاعر رنجیت ہوسکوٹے کی ، جنہوں نے میرؔ کے ۱۵۰ منتخب اشعار کا انگریزی ترجمہ کیا ہے ، ایک تقریر کے اردو ترجمہ کی چند سطریں پیش کروں گا : ’’ ان لطائف میں بعض فحش لطائف ناشائستہ قصوں پر مشتمل ہیں ، مگر یہ سوچ کر ہی حیرانی ہوتی ہے کہ جس حسّیت نے ایک سلطنت کے زوال کا ماتم کیا وہی اس قسم کے درست مذاق سے مسرور بھی ہو سکتی تھی ، یہ زاویہ ہمیں اس معاشرے کے بارے میں نئے سرے سے غور کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔‘‘
مذکورہ سطریں پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں یہ سوال کلبلانے لگا ، کہ بھلا میرؔ نے ان لطائف کو اپنی خود نوشت سوانح میں جگہ کیوں دی تھی ؟ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ’ ذکرِ میرؔ ‘ کے لطائف میرؔ کے دور کی ثقافت ، معاشرت اور تہذیب اور خود میر اور ان کی شاعری کو سمجھنے کی کلید ہیں ۔ ان لطائف سے یہ پتا چلتا ہے کہ میرؔ کا دور ، آج کے دور کے مقابلہ میں کس قدر ’ اوپن ‘ یا یوں کہہ لیں کہ زیادہ کھلا ڈھلا تھا ۔ اور اس کھلے ڈھلے معاشرے میں ہر چھوٹا بڑا فرد مصائب اور آفات کو فراموش کرنے کے لیے اس طرح کے لطائف سے محظوظ ہوتا تھا ۔ جنہوں نے یہ لطائف پڑھے ہیں انہیں پتا ہے کہ ان لطائف میں میرؔ نے اپنے زمانے کے روساء ، امراء ، قابلِ تعظیم سمجھی جانے والی شخصیات ( جن کے نام لطائف میں آئے ہیں ) کے نام لیے ہیں ، جبکہ ان لطائف میں لوطیوں اور اغلام بازوں کا بھی ذکر ہے ! شاید اس طرح میرؔ یہ بتانا چاہتے تھے کہ ، ادب میں وہ کسی بھی طرح کی سنسر شپ کے قائل نہیں ہیں ، اور جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سنا ہے وہ سب ان کے قلم سے نکلے گا ۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میرؔ ایک زوال پذیر تہذیب کو اس کی انتہائی شکل میں ، ان لطائف کے ذریعے بھی اور اپنے کلام کے ذریعے بھی ، لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے ۔ ماہرینِ میرؔ کو اس پر غور کرنا چاہیے ۔
صدف فاطمہ نے اِن لطائف کا بہت خوب صورت ترجمہ کیا ہے ۔ وہ اِن لطائف کے بارے میں خود کیا سوچتی ہیں ، اس سوال کا انہوں نے جواب ’ عرضِ مترجم ‘ میں دیا ہے ۔ وہ لکھتی ہیں : ’’ جِس معاشرے میں اردو کا سب سے بڑا شاعر ایسے لطائف لکھتا ہے ، اور اعتراض نہیں ہوتا ، اس معاشرے کے ذہن کو سمجھنے اور ان سماجی اور سیاسی محرکات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جہاں ایسے لطائف قابلِ قبول تھے ۔‘‘ وہ مزید لکھتی ہیں : ’’ یہ لطائف محض پھکڑبازی یا ہزل گوئی نہیں بلکہ اس دور کی حقیقی زندگی کا مزاحیہ بیانیہ ہیں جہاں ہر کردار ، ہر واقعہ کسی تاریخی شخصیت اور تاریخی واقعے کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ زندگی صرف حزن و غم سے عبارت نہیں ۔ یاس و نا امیدی کے پہلو بہ پہلو روزمرہ کی کثیف زندگی میں کچھ واقعے یا جملے یوں بھی ادا ہو جاتے ہیں کہ ان سے دیر تک محظوظ ہوا جا سکتا ہے ۔‘‘
صدف فاطمہ نے اِن لطائف کے ترجمہ پر بھی بات کی ہے ۔ وہ لکھتی ہیں : ’’ میں نے ترجمے میں بعض لطائف کے ذیل میں یہ کوشش البتہ کی ہے – اور یہ جانتے ہوئے کی ہے کہ ایسا کرنا اچھی بات نہیں – کہ زبان کو ایسا رکھا ہے کہ قاری لطائف سے وہ لطف نہ لے سکے گا جو میرؔ کا مقصد تھا ۔‘‘ لیکن انہوں نے ان لطائف پر نظر ثانی کی ، اور انہیں ایسی صورت دی کہ قاری ان لطائف سے وہی لطف لے سکے جو میرؔ کا مقصد تھا ۔ لطائف نظر ثانی کے بعد ’ اردو ادب ‘ کے میر تقی میرؔ نمبر میں شامل کیے گیے ہیں ۔ میں نے لطائف کے وہ ترجمے بھی پڑھے ہیں جو ’ ذکرِ میرؔ ‘ میں شامل ہیں ، اور وہ بھی جو میرؔ نمبر میں ہیں ، دونوں کا لطف الگ الگ ہے ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدف فاطمہ کا پہلے والا ترجمہ ایک طرح کا ’ ٹریلر ‘ تھا ، اور نظر ثانی کے بعد یہ پوری ’ فلم ‘ ہے ۔ ترجمہ لاجواب ہے ، اس قدر کہ بعض لطائف اپنی فحاشی کے باوجود قلب پر گراں نہیں گزرتے ۔ اردو ترجمہ کے ساتھ فارسی کے لطائف بھی دیے گیے ہیں تاکہ پڑھنے والوں میں جنہیں فارسی آتی ہے وہ ترجمہ کے معیار کو پرکھ سکیں ۔ حواشی بڑی محنت سے لکھے گیے ہیں جو لطائف کے حوالے سے میرؔ کے دور کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔ صدف فاطمہ کو اس ترجمہ کے لیے بہت بہت مبارک ہو ۔ اور اطہر فاروقی کو بھی مبارک ہو کہ انہوں نے لطائف کا ترجمہ کرایا ، اور شائع بھی کیا ، یہ ہمت کا کام تھا ۔ اردو کے بعد صدف فاطمہ نے لطائف کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی کیا ہے ، جو جلد شائع ہوگا ۔ انگریزی پر یاد آیا کہ سی ایم نعیم صاحب نے ’ ذکرِ میرؔ ‘ کا انگریزی ترجمہ کیا ہے جس میں یہ لطائف شامل ہیں ، ان کا ترجمہ لاجواب ہے ، لیکن اردو والوں کو لطف اردو ترجمہ پڑھنے میں ہی آئے گا ۔