کل بے جے پی کے نئے صدر کے انتخاب کی تقریب میں وزیر اعظم نے بی جے پی کے کارندوں کو خطاب کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے شہریت ترمیمی ایکٹ کے حق میں مظاہروں کو کوریج نہیں دیےجانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ہمیں واسطوں سے تعاون کی امید نہیں اور ویسے بھی ہمیں مدد سے جینے کی عادت نہیں،اس لیے آپ لوگ کسی واسطے کے بغیر لوگوں سے رابطہ قائم کریں۔
غالباً یہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کا اثر ہے کہ بعض میڈیا اور صحافی جو مودی بھکت کی حد تک حکومت کی ہر پالیسی کی نہ صرف حمایت بلکہ اس کی ستائش میں توانائی صرف کرتے تھے، انہوں نے بھی کسی نہ کسی وجہ سے اپنے اوپر سے بھکتی کی چھاپ مٹانے کی طرف قدم اُٹھانا شروع کیا ہے اور اسی لئے حکومت اور پارٹی کی نظر میں بعض میڈیا کا رویہ معاندانہ اور غیر منصفانہ بتایا گیا۔
در اصل دیانت دار اور معتبر صحافت حکومت اور عوام کے درمیان ایک واسطہ ہوتی ہے، جو عوام کے مسائل، توقعات اور خدشات کو حکومت تک پہنچاتی ہے، حکومت کی اچھی اور عوام دوست پالیسیوں کی خبر کو اجاگر کر کے عوام تک پہنچاتی ہے اور عوامی مفاد کے خلاف حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں عوام میں غیض وغضب بے چینی اور احتجاجی مظاہروں سے حکومت کو باخبر کرتی ہے۔ جو اخبار، چینل یا ذرائع ابلاغ کا کوئی بھی پلیٹ فارم اپنے اس فریضہ منصبی کو ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں ان کی مقبولیت میں کمی آجاتی ہے اس لئے کہ ایسے ذرائع ابلاغ کی معتبریت اور مصداقیت مشکوک ہو جاتی ہے اور انہیں بتفاوت درجات پیڈ میڈیا ، گودی میڈیا اور بازارو میڈیا وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔
آزاد اور ذمہ دار صحافت سے ارباب اقتدار کا خوف زدہ ہونا اس کی آواز دبانے کی کوشش کرنا یا اسے خریدنے کی کوشش کرنا عام بات ہے خاص طور پر تیسری دنیا کے ان ممالک میں جہاں معلنہ استبدادی نظام ہو یا ” جمہوریت کے غلاف” میں منتخب حکومت ہو۔
صحافیوں کا یہ مجبوری بتانا کہ بڑے صنعتی گھرانوں نے میڈیا کو خرید لیا ہے اور وہ گھرانے حکومت نواز ہیں، ناقابل قبول جواز ہے۔ یہ ذمے داریوں سے فرار ہے اور پیشہ ورانہ دیانت داری کے منافی ہے۔ ستر اور اسی کی دہائی میں انڈین ایکسپریس، صنعتکار گوینکا گھرانے کی ملکیت ہونے کے باوجود، اس اخبار کے صحافیوں نے اپنی شرائط پر کام کیا اور صنعتکار مالک نے اندرا گاندھی کے دباؤ میں اخبار میں مداخلت کرنے سے انکارکردیا۔ ایک طرف جہاں یہ اخبار کے مالک کی اصول پرستی کو نمایاں کرتا ہے وہیں یہ صحافیوں کا اپنے پیشے سے انصاف کے عزم مصمم کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی اخبار سے وابستہ ارون شوری جن کو میگساءسے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
بھگتی کی بھی ایک حد ہوتی ہے اس حد سے آگے بڑھنا علی الاعلان ضمیر فروشی کے زمرے میں آ جاتا ہے اور کوئی تاویل اور توجیہ کام نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور کالم نگار تولین سنگھ اور رائٹر چیتن بھگت جیسے اشخاص اورٹائمز آف انڈیا جیسے اخبارات نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف اداریے اور مضامین لکھ رہےہیں۔دوسری طرف رویش کمار نہ صرف میگسیسے ایوارڈ سے سرفراز ہوئے بلکہ ان کی مصداقیت اور مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی قبیل کے وہ صحافی حضرات بھی جنہیں حکومت سے سوال کرنے اور آزاد صحافی ہونے کی سزا ملی ان کا ذکر نہ کرنا انصاف نہیں ہوگا،ان میں نمایاں پرسون واجپائی اور ابھیسار شرما ہیں۔ اسی طرح ان غیر جانبدار صحافیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو نیوز پورٹل کے ذریعے پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہےہیں ان میں ونود دوا، ارملیش اور اسوتوش کے علاوہ کئی لوگ قابل ذکر و ستائش ہیں۔