Home قومی خبریں مظہر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ناول پرقومی سمینار

مظہر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ناول پرقومی سمینار

by قندیل

نئی دہلی:انسانوں سے جتنا رشتہ ناول کا ہے اتنا کسی اورصنف کا نہیں،حقیقت کا ادراک فلسفہ و سائنس سمیت تمام علوم و فنون میں ہوتا ہے لیکن وہاں یہ عمل جزوی ہوتا ہے۔حقیقت کا کلی عرفان صرف ناول میں ہی ممکن ہے۔سیاسی شعور کے بغیر ناول کا ایک لفظ بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ناول کوداستان کا ارتقا نہیں قرار دیا جا سکتا داستان زندگی کا جشن ہے جب کہ اس کے بر عکس ناول ایک ایسی موت کا بیانیہ ہے جس کا خالق تنہائی کا ڈسا ہوا فرد ہوتا ہے۔ان خیالات کا اظہار عہد حاضر کے ممتاز فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی اردو اکادمی اور شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اشتراک سے مظہر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ”اکیسویں صدی میں اردو ناول کا بدلتا منظر نامہ“کے افتتاحی اجلاس میں صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کیا۔کلیدی خطبے میں پروفیسر مولا بخش نے کہا کہ مجھے آج کا ہر ناول نگار شاہین باغ میں بیٹھا نظر آتا ہے۔اکیسویں صدی کے اردو ناول کثیرالآہنگ اسالیب کے ذریعہ انسانیت کی شناخت کی تلاش پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ناول سے تاریخیں بھی بدلی ہیں اور حالات بھی بدلے ہیں۔میرے نزدیک ناول اُم الاصناف ہے۔آج کا سچ ہمیں روشنی نہیں دیتا بلکہ اندھا کر دیتا ہے لیکن اس سچ کو دیکھنے کی بصیرت ناول عطا کرتا ہے۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی صحیح معنوں میں ناول کی صدی ہے۔اس عہد کا جو بھی آشوب ہو سکتا ہے ان سب کو ناول نے اپنے قالب میں جذب کر لیا ہے۔اس لیے میں ناول کو اس عہد کی سچی تاریخ اور سچی آواز سے بھی تعبیر کرتا ہوں۔مہمان اعزازی پروفیسر شہزاد انجم نے اکیسویں صدی کے اہم ناولوں کے حوالے سے کہاکہ ان ناولوں سے زبان و اسلوب اور موضوعات و مسائل کے نئے امکانات روشن ہوتے ہیں۔یہ تمام ناول اپنے عہد کی سماجی اور تہذیبی دستاویز ہیں۔معروف نقاد اور مظہر فاؤنڈیشن انڈیاکے صدر پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی صحیح عکاسی تمام تر بد قماشیوں،خوشیوں اور دکھوں کے ساتھ ناول میں ہی ممکن ہے۔انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ پُر آشوب حالات میں یہ سمجھتے ہیں کہ علمی و ادبی سر گرمیاں نہیں ہونی چاہیے وہ ادب کی تعریف اور اس کے سرو کار سے نابلد ہیں۔ناول سے زیادہ اپنے ماحول،حالات اور انسانی آلام کو کس وسیلے سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ممکن ہے کل احتجاج کرنے والے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں لیکن ایک سچے فن کار کااحتجاج اس کے بعد بھی اس کے باطن میں جاری رہے گا۔افتتاحی اجلاس کی نظامت کے فرائض سمینارکے کنوینر ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی نے انجام دیے۔پروگرام کا آغاز ڈاکٹر شاہنواز فیاض کی تلاوت اور اختتام عرفان احمد کے اظہار تشکر پر ہوا۔اس موقع پر انجم عثمانی،نگار عظیم، نسیم احمد نسیم، ندیم احمد، عمران احمد عندلیب،شاہ عالم،محمد علیم، ابو ظہیر ربانی، معید الرحمن، ناظمہ جبیں، خالد مبشر، جاوید حسن، عادل حیات، سمیع احمد، ثاقب عمران، نعمان قیصر، محضر رضا، عبدالرحمن،خان رضوان،نوشاد منظر،قرۃ العین اور مناظرکے علاوہ کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات موجود تھے۔

You may also like

Leave a Comment