2020 کی ہولی کا تہوار کبھی کا ختم ہوا لیکن ‘شاہین باغ’ کی ہولی کا ذکر ابھی جاری ہے۔میرا ارادہ اس پر کچھ لکھنے کا نہیں تھا۔لیکن اس سلسلے میں مولانا سجاد نعمانی کی طرف سے ایک ویڈیو اپیل جاری ہوئی ہے، اس نے مجھے اظہارِ خیال پر آمادہ کردیا۔
15 دسمبر 2019 کو جامعہ کے نہتے اور پُر امن طلبہ پر پولیس کے تشدد کی کوکھ سے پیدا ہونے والے ‘شاہین باغ’ نے احتجاج کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔پوری دنیا میں یہ احتجاج ظالموں کے خلاف مظلوموں کی مضبوط ترین آواز بن گیا تھاـ اس احتجاج نے ‘چہاردیواری میں بند’مسلم خواتین کی ‘بے بسی’ کا تصور بدل دیا تھا۔ یہ احتجاج ملک بھر میں جدوجہد کی ایک طاقتور ترین علامت بن گیا تھا ۔شاہین باغ کی اتباع میں ملک بھر میں درجنوں مقامات پر نئے شاہین باغ قائم ہوگئے تھے۔
ان مظاہروں کی خوبی یہ تھی کہ ان کا کوئی ایک قائد نہیں تھا مگر مظاہرہ میں شریک ہر فرد ایک قائد سے کم نہ تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ان مظاہروں کا پہلا شکار ‘ مسلم قیادت ہی ہوئی۔ پچھلے تین ماہ سے ہندوستانی مسلمان قیادت کے بغیر گزارا کر رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ Leaderless مظاہرے ایک کمی کا احساس کراتے رہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ اتنے دنوں تک مظاہرین آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ظلم کے خلاف اسی لئے ڈٹے رہے کہ ان کا کوئی قائد نہ تھا۔
مجھے اصل عنوان پر واپس آنا ہے۔ لیکن اس سے پہلے یادِ ماضی کے طور پر کچھ پچھلی باتوں کا ذکر ضروری ہے۔
6 دسمبر 2019 کو میں نے اس سلسلے کا پہلا پوسٹ یہ لکھا تھا: حکومت سی اے بی کو ‘سرکار بنام مسلم’ بنانا چاہتی ہے لیکن مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اسے ‘مسلم بنام سرکار’ نہ بننے دیں۔۔ تاہم ایک موثر قومی تحریک کا قیام بہت ضروری ہے۔
میں نے 17 دسمبر کو ‘دست بستہ ہنگامی اپیل’ کے عنوان سے لکھا کہ میرا یقین ہے کہ پُرامن مظاہرین میں شرپسند عناصر کو بھیجا جا رہا ہے۔۔ دوسری طرف کالج اور مدارس کے طلبہ کے جذبات مسلسل برافروختہ ہورہے ہیں ۔ان مظاہروں کی باضابطہ کوئی قیادت نہیں کر رہا ہے۔۔۔ جبکہ ان کے مخالف شرپسند عناصر بھی منظم ہیں اور فورسز بھی مستعد ہیں ۔ایسے میں مندرجہ ذیل تین عناصر سے دست بستہ ہنگامی درخواست ہے:
1- تمام مسلم جماعتوں کے تمام بڑے قائدین اور علماء کرام غیر مسلم دانشوروں اور وکیلوں کو ساتھ لے کر صدر جمہوریہ سے وقت لے کر انہیں ایک عرض داشت پیش کریں ۔ مناسب سمجھیں تو وزیراعظم سے بھی مل لیں۔ مظاہرین محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی مذہبی اور ملی قیادت کچھ نہیں کر رہی ہے اس لئے ان کے یہاں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
2- سوشل میڈیا پر سرگرم احباب ضروری خبریں ضرور ارسال کریں لیکن غیر مصدقہ فوٹوز اور مبالغہ آمیز خبریں ہرگز ارسال نہ کریں ۔
3- تمام اسٹوڈنٹس اور طلبہ سے درخواست ہے کہ ریلیوں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چل کر جانے والے مظاہروں کا اہتمام نہ کرکے اب کسی ایک مقام پر بیٹھ کر خاموش احتجاج کریں اور علاقے کے ہم خیال غیر مسلم بزرگوں کو ضرور ساتھ لیں۔فرقہ پرست اور شرپسند عناصر کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔۔۔ 15 دسمبر کی شب دہلی کے پولیس ہیڈ کوارٹرز پر ہونے والا کامیاب احتجاج اس کی ایک مثال ہے۔
اس کے بعد 22 دسمبر کو میں نے لکھا کہ یو پی کے دہشت زدہ لوگ قائدین تک پیغام پہنچانے کی فرمائش کر رہے ہیں
مگر کوئی نظر نہیں آتا ۔
23 دسمبر کو پھر میں نے ‘اللہ کے لئے مدد کو باہر نکلیں’ کے عنوان سے لکھا کہ میں مندرجہ ذیل قائدین اور جماعتوں سے مخاطب ہوں:
مولانا ارشد مدنی’مولانا محمود مدنی’سید احمد بخاری’سید سعادت اللہ حسینی’اسد الدین اویسی’شفیق الرحمٰن برق’مولانا توقیر رضا خان’نوید حامد’ قاسم رسول الیاس’ ڈاکٹر تسلیم رحمانی’امانت اللہ خان’ جمعیت علمائے ہند کے دونوں گروپ’ جامع مسجد مشاورتی کونسل’ جماعت اسلامی ہند’ مجلس اتحاد المسلمین ‘ سماجوادی پارٹی ‘اتحاد ملت کونسل’مسلم مجلس مشاورت ‘ویلفیر پارٹی آف انڈیا’مسلم پولٹکل کونسل’ عام آدمی پارٹی + دہلی وقف بورڈ
یوپی سے مسلسل دہشت زدہ لوگ درخواست کر رہے ہیں کہ حالات بہت خراب ہیں’ ان کی مدد کریں ۔یہ وقت سیاسی اور سماجی قائدین کے اشتراک عمل کا متقاضی ہے۔خدا کے لئے ایک ساتھ جمع ہوکر کوئی لایحہ عمل بنائیے۔۔۔ یوپی کے خود سر اور منتقم مزاج وزیر اعلی کے خلاف وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ سے شکایت کریں ۔۔۔ قومی میڈیا کے سامنے آکر بتائیں کہ انہیں مظلوموں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔
میں نے 5 جنوری 2020 کو جے این یو پر نقاب پوش غنڈوں کے حملہ کے تناظر میں”شاہین باغ” کے منتظمین سے’ عنوان کے تحت لکھا کہ "سرکاری غنڈے کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔۔۔ نہتے مظاہرین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھئے۔
پھر "تیرا میرا رشتہ کیا- لا الہ الا الله” جیسے نعروں کے تناظر میں 13 جنوری کو لکھا کہ "سیاسی احتجاج میں مذہبی نعرے لگنے لگیں تو سمجھ لیجئے کہ آپ کی صفوں میں دُشمن گُھس گئے ہیں۔ ایسے احتجاج ہمیشہ نقصان پر ختم ہوتے ہیں ـ
15 دسمبر 2019 سے 13 جنوری 2020 تک کی جانے والی اِن عاجزانہ گزارشات پر کسی نے کان نہیں دھرا۔۔۔ یہاں تک کہ مظاہروں کے حامی کئی نامور ہندو قلم کاروں اور سماجی کارکنوں نے ہندی اور انگریزی کے اخبارات میں اس پر لکھا اور مظاہروں میں مذہبی نعرے لگائے جانے پر ناگواری کا اظہار کیا۔لیکن اس وقت کسی اہلِ علم نے توجہ نہیں دی۔شاہین باغ اور اس جیسے دوسرے مظاہروں میں جھوم جھوم کر نعت ومنقبت تک پڑھی گئیں ۔ کسی نے نہیں کہا کہ ایسی سرگرمیوں سے دوسرے طبقات یا تو منحرف ہوجائیں گے یا پھر وہ بھی اپنی رسومات میں آپ کو شامل کریں گے۔
سچی بات یہ ہے کہ رفتہ رفتہ ملک بھر کے یہ مظاہرے ایک خاص پہچان کے دائرہ میں سمٹتے چلے گئے ۔ 22 جنوری کو سپریم کورٹ میں سی اے اے اور جامعہ کے طلبہ پر تشدد کی سنوائی تھی، لہذا 21 جنوری کی شب کچھ برقعہ پوش خواتین سپریم کورٹ کے باہر مظاہرے پر بیٹھ گئیں ۔ میں نے تڑپ کر لکھا کہ ” بہادر ماں بہنو ! ظالموں کے ایوان تمہاری للکار سے لرز اٹھے ہیں۔ مگر سپریم کورٹ کے باہر تمہارا بیٹھنا انہیں مضبوط بنادے گا۔ میری اس عرض کی تائید قبلہ سجاد نعمانی صاحب نے بھی کی۔۔۔ کچھ احباب کی کوششوں سے یہ خواتین اٹھنے پر آمادہ ہوگئیں ـ
25 جنوری کو میں نے لکھا کہ بے ہنگم اور بدزبان ٹی وی اینکر دیپک چورسیا کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے تحریک کے خیر خواہ نہیں ہیں۔۔۔ یہ وہی ہیں جو بہکاکر ‘دادیوں’ کو لیفٹیننٹ گورنر کے یہاں لے گئے اور جنہوں نے تحریک کے خیر خواہ اور بے لوث ‘قانونی معاون’ محمود پراچہ کو بھی نہیں بخشا ۔ یہ وہی ہیں جن کی ‘داڑھیاں’ ناف تک پہنچ گئی ہیں لیکن جو بی جے پی کے ترجمان ارون کمار سنگھ کے گھر ‘بیعت’ کرنے بھی پہنچے تھےاور ہاں یہ وہی ہیں جو ‘دادیوں’ کی پریس کانفرنس کے دوران خاتون صحافیوں کو مسلسل ٹوکتے رہے جو بد دل ہوکر چلی گئیں۔ یہ کہہ کر دامن جھاڑ لینے سے بات نہیں بنے گی کہ ایسے "اکّا دکّا” واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور یہ کہ تحریک سے ان کا کوئی لینا نہیں ۔
اب شاہین باغ کے تعلق سے بے چینی بھی بڑھنے لگی۔خود آس پاس کے رہنے والے اس کے خلاف بولنے لگے۔ کچھ شرپسند لوگ جمع ہوکر آبھی گئے ۔ چھوٹے موٹے احتجاج بھی ہوئے۔جامعہ اور شاہین باغ میں گولی چلنے کے واقعات بھی ہوئے۔نوئیڈا سے دہلی کا ہر روز سفر کرنے والوں نے بھی اپنی بے چینی اور پریشانی ظاہر کی۔اُدھر دہلی اسمبلی کی انتخابی سرگرمیاں بھی جاری تھیں ۔لہذا 2 فروری کو میں نے لکھا کہ بہادر ماں بہنیں پوری دنیا کو اپنا پیغام پہنچا چکیں۔اب دوسروں کی پریشانی کے تئیں کوئی پُروقار تدبیر بھی سوچی جائے ـ
12 فروری کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی اور جج حضرات نے زبانی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کرنا آئینی بنیادی حق ہے لیکن سڑکیں بند نہیں کی جاسکتیں۔۔ اگلی سماعت کی تاریخ 17 فروری طے ہوئی ۔ میں نے لکھا کہ سپریم کورٹ نے اپنا ارادہ واضح کردیا ہے۔۔ 17 فروری سے پہلے کچھ سوچ سکتے ہیں تو ضرور سوچئے۔
اتنا کہنا تھا کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد نے بھی گالیوں کا انبار لگادیا۔۔۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس عمل میں وہ بھی شریک تھے جو جامعہ جیسی دانشگاه میں پڑھاتے ہیں ۔
15 فروری کو شاہین باغ کے حوالے سے محمود پراچہ کے علاوہ ایک اور وکیل صاحب نمودار ہوئے اور ایک اردو اخبار نے ان کا یہ بیان شائع کیا کہ 17 فروری کو ہونے والی سماعت میں پیش ہونے کا انہیں مجاز بنایا گیا ہے۔ لہذا شاہین باغ کے اصل وکیل وہی ہیں ۔اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔
لہذا 15 فروری کو میں نے لکھا کہ شاہین باغ کے تعلق سے میری تشویش آغاز پر کبھی نہیں تھی بلکہ میری فکر انجام کے تئیں ہے۔بے سمتی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔
17 فروری کو سپریم کورٹ میں پھر سماعت ہوئی ۔میں نے لکھا کہ سپریم کورٹ نے احتجاج کے عوامی حق کو شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کرکے ایک طرف جہاں عدل وانصاف کی لاج رکھ لی وہیں دوسری طرف بی جے پی کے اُن بد زبان لیڈروں کے منہ پر بھی زوردار طمانچہ رسید کردیا ہے جو CAA, NRC اور NPR کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو منہ بھر بھر کر گالیاں دے رہے تھے اور انہیں وطن دشمن قرار دے رہے تھے۔۔لیکن عدالت نے اپنا وہ تبصرہ پھر دوہرایا جو گزشتہ 10 فروری کو اس نے کیا تھا۔ یعنی احتجاج کے لئے عوامی راستہ نہیں روکا جاسکتا۔عدالت نے مظاہرین سے گفتگو کے لئے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے کی قیادت میں ایک ٹیم تشکیل کردی ہے۔سنجے ہیگڑے بہت صاف ستھری شبیہ کے حامل سیکولر انسان ہیں ۔اگلی سماعت 24 فروری کو ہوگی۔عدالت نے دو باتیں اور کہی ہیں : ان میں سے ایک بات بعینہ وہ ہے جو اس خاکسار نے 2 فروری کو کہی تھی۔ عدالت نے کہا کہ مظاہرین اپنا پیغام پہنچا چکے اور شاہین باغ کا مظاہرہ بہت دنوں سے جاری ہے۔ عدالت کے مذکورہ بالا دو سطری تبصرہ کو کئی بار پڑھئے۔ اس کے بین السطور کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگر جلد نہ سمجھا گیا تو پھر بہت دیر ہوجائے گی۔ عدالت نے اپنی دوسری بات میں اس کو بھی واضح کردیا ہے۔
عدالت نے دوسری جو بات کہی ہے وہ ظاہری طور پر کتنی ہی سادہ بات ہو لیکن اپنے معانی ومفہوم کے اعتبار سے وہ بہت تشویشناک ہے۔ عدالت نے کہا کہ "اگر (ثالثی کی کوشش سے) مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر ہم صورتحال سے نپٹنے کے لئے یہ معاملہ حکام پر چھوڑدیں گے۔” یہ آخری بات اپنے وسیع تر مفہوم میں انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔ اس سے پہلے کہ سپریم کورٹ ہاتھ کھڑے کردے بصیرت کو جگانا پڑے گا۔
اُدھر مشرقی دہلی میں بھی خواتین مظاہروں کا اہتمام کر رہی تھیں ۔ لیکن ایک مظاہرہ موجپور میٹرو اسٹیشن کے نیچے یعنی انتہائی مصروف عام شاہراہ پر بھی شروع کردیا گیا۔
24 فروری کو جہاں ایک طرف سماعت تھی وہیں دوسری طرف ملک میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی تھے۔لیکن اس سے پہلے ہی بی جے پی کے بدزبان لیڈر کپل مشرا نے جو کھلی دھمکی دی وہ سب کے سامنے ہے۔اُس نے عام شاہراہ سے مظاہرہ ہٹانے کے لئے پولیس کو تین دن کا الٹی میٹم دیا۔لیکن اسی رات شرپسندوں نے مارکاٹ شروع کردی۔ پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
10 مارچ کو میں نے لکھا کہ دن بھر باخبر افراد سے ملاقاتیں رہیں۔ ‘شاہینوں’ کی فکر نے بے چین کردیا۔ نقصان بہت ہوچکا۔ مزید نقصان ہمارے تعاقب میں ہے۔ باعزت تدبیر پر بات کرنے کو کوئی تیار نہیں ۔ اصحابِ رائے خاموش ہیں ۔ جُہلاء کا تسلّط بڑھ رہا ہے۔ غیر یقینی نتیجہ کا تصور ہی بہت خوفناک ہے۔
مولانا سجاد نعمانی کو شاہین باغ میں جلائی جانے اور کھیلی جانے والی ہولی پر بجا طور پر تشویش ہے۔ لیکن اس سے بہت پہلے یہاں ہون بھی ہوچکا ہے۔جی ہاں ہَون۔ کھلے عام’ سب کے سامنے ۔ ٹی وی کی اسکرینوں پر۔
یہ حکومت بے حس ہی نہیں بے رحم بھی ہے۔یوپی’ دہلی اور کرناٹک میں اس کے نمونے مل چکے ہیں ۔ عدالتوں نے اپنا رویہ دکھا دیا ہے۔ جسٹس مرلی دھر نے بے مثال حوصلہ دکھایا تو انہیں دہلی سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ریٹائرڈ چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے راجیہ سبھا کی نامزدگی قبول کرکے بتادیا کہ بابری مسجد کا کتنا سستا سودا کردیا گیا۔
حالات بہت غیر معمولی ہیں ۔ تدابیر بھی غیر معمولی اختیار کرنی ہوں گی۔جتنا ضروری انسانی جانوں کا تحفظ ہے اُتنا ہی ضروری عقیدے کا تحفظ بھی ہے۔دونوں کاموں کے لئے اربابِ علم ودانش کو آگے آنا ہوگا۔ورنہ ہَون کا بھی دائرہ بڑھے گا اور دَہن کا بھی اور پھر روکنے کی کوئی کوشش کارگر نہ ہوگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)