Home تجزیہ مزید کچھ بات بی جے پی کی! -شکیل رشید

مزید کچھ بات بی جے پی کی! -شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

ایک خواب بی جے پی اور نریندر مودی نے ایسا بھی دیکھا تھا ، جس کا ذکر کیا جانا چاہیے ؛ مسلم قیادت کے خاتمے کا خواب ۔ لیکن اس بار ۲۴ مسلمان الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں ۔ پہلے خبر آئی تھی کہ ۲۷ مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی ہے ، پھر یہ تعداد کم ہوکر ۱۵ پر جا پہنچی تھی ، لیکن اب ۲۴ مسلمانوں کے لوک سبھا پہنچنے کی حتمی خبر آ گئی ہے ۔ یقیناً لوک سبھا میں مسلمانوں کی تعداد کم ہوئی ہے ، لیکن صفر نہیں ہوئی ہے ، جس کا کہ بی جے پی ، نریندر مودی اور امیت شاہ وغیرہ سپنا دیکھ رہے تھے ۔ کُل ۷۸ مسلمان مختلف سیاسی پارٹیوں سے الیکشن میں کھڑے کیے گیے تھے ، جن میں سے ۲۴ جیتے اور ۵۴ کو ہار کا منھ دیکھنا پڑا ۔ گزشتہ لوک سبھا میں یہ تعداد ۲۶ تھی ، گویا کہ ۲ مسلم نمائندے اس بار کم ہوئے ہیں ، لیکن ۲۰۱۴ء کے ۲۳ مسلم نمائندوں کے مقابلے یہ تعداد اب بھی زیادہ ہے ۔ اس بار ۲۴ مسلمانوں کا لوک سبھا میں پہنچنا یقیناً ایک کرشمہ ہے ، کیونکہ اُن سیاسی پارٹیوں نے بھی ، جو خود کو سیکولر کہتی ہیں ، بی جے پی ، مودی اور امیت شاہ و یوگی ادتیہ ناتھ کی زہریلی انتخابی مہم کے دباؤ میں بہت کم مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا ۔ لیکن کم ٹکٹ پانے کے باوجود مسلم امیدواروں کی کارکردگی بہتر رہی ۔ بہتر اس معنیٰ میں کہ کئی ایسی سیٹیں تھیں جہاں منصوبہ بند طریقے سے مضبوط مسلم امیدوار کے مقابلے کئی کئی مسلم امیدوار کھڑے کر دیے گئے تھے ، مقصد مسسلم ووٹوں کو تقسیم کرنا تھا ، اور ووٹ تقسیم بھی ہوئے ۔ یہ حربہ مضبوط غیر مسلم امیدواروں کو ہرانے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ، لہذا بہت سی سیٹوں پر معمولی ووٹوں کے فرق سے مسلم امیدوار بھی ہارے اور ’ انڈیا ‘ الائنس کے غیر مسلم امیدوار بھی ۔ ہمیشہ کی طرح مایا وتی کی پارٹی بہوجن سماج پارٹی ( بی ایس پی ) نے زیادہ نقصان پہنچایا ۔ مایا وتی نے مضبوط مسلم امیدواروں کے خلاف ایسے مسلمانوں کو امیدواری دی تھی جو بھلے جیت نہ سکیں لیکن اچھے خاصے ووٹ کاٹ سکیں ، اور ایسا ہی ہوا ۔ بی ایس پی نے اس الیکشن میں ایک سیٹ پر بھی کامیابی حاصل نہیں کی ، اور اپنی شکست کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑ دیا ، ساتھ ساتھ یہ دھمکی بھی دے دی کہ آئندہ وہ سوچ سمجھ کر مسلمانوں کو ٹکٹ دیں گی ! کاش کوئی مایا وتی سے پوچھ سکتا کہ ان کی اپنی ذات کے ووٹ کہاں گیے ، اور کیوں نہ دلتوں کو بی ایس پی کی ہار کا قصوروار ٹھہرایا جائے ؟ یہ مسلمانوں کے ووٹوں کی طاقت تھی جس کے بَل پر وہ ایک بار نہیں چار بار اترپردیش کی وزیراعلیٰ بنی تھیں ۔ لیکن وہ اپنی ہار کا ، اپنی ناقص منصوبہ بندی کا ، اور بی جے پی کے اشارے پر ناچ کر خود کو کمزور کرنے کا الزام مسلمانوں کے سر مڑھ رہی ہیں ! مایا وتی نہ جیتنا چاہتی تھیں ، اور نہ مسلمانوں کو جِتانا چاہتی تھیں ، وہ جِس کے اشارے پر ناچ رہی تھیں اسی کو کامیاب کرانا چاہتی تھیں ، لیکن اپنے کھودے گڑھے میں وہ خود جا گریں ، اور شاید اب اس گڑھے سے کبھی نہ نکل پائیں ۔ مسلم ووٹروں نے مایا وتی کی چال کو خوب سمجھ لیا تھا ، اور دلتوں نے بھی ، اسی لیے دونوں کے ووٹ سماج وادی پارٹی کو گیے ، اور لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر نہیں ہو پائی ۔ لوک نیتی – سی ایس ڈی ایس کے سروے کے مطابق اس بار کانگریس کی طرف مسلمان ووٹر راغب رہے جس کے نتیجے میں کانگریس کا فیصد ۲۰۱۹ء کے ۳۳ کے مقابلے اس بار فیصد ۳۸ رہا ، اور اس کے حلیفوں کا فیصد ۱۲ سے بڑھ کر ۲۷ ہو گیا ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بی جے پی ، بالخصوص نریندر مودی کو طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا ، ۴۰ فیصد مسلم خواتین کے ووٹ کانگریس کی جھولی میں پڑے ! بی جے پی کی انتخابی مہم اس قدر منفی ، زہریلی اور فرقہ وارانہ تھی کہ اس کے جیتنے والے اراکین پارلیمنٹ میں نہ تو ایک مسلمان ہے ، نہ ہی کوئی سکھ اور نہ ہی کوئی عیسائی ہے ! اب بی جے پی صرف کٹر ’ ہندتوادیوں ‘ کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے ، لیکن ’ ہندوتوادیوں ‘ میں وہ ہندو شامل نہیں ہیں جو ’ انڈیا ‘ الائنس کے ساتھ رہے ہیں ، اور ان کی بڑی تعداد ہے ۔ لہذا اگر یہ کہا جائے کہ بی جے پی کو فرقہ پرستی پھیلانے کا فائدہ نہیں نقصان ہوا ہے تو غلط نہیں ہو گا ۔ اس ملک کے عوام کا زوردار تھپڑ بی جے پی اور اس کے لیڈروں کے منھ پر پڑا ہے ، وہ نہ مسلم قیادت ختم کر پائی ہے ، نہ اپوزیشن کو کمزور کر سکی ہے ، نہ ہی اقلیتوں کا اعتماد جیت سکی ہے اور نہ ہی زہریلا پرچار اس کے کام آیا اور نہ آئندہ آئے گا ، لہذا اب بی جے پی ہوش کے ناخن لے ، اپنے زہریلے پرچار پر روک لگائے اور سارے سنگھی ایجنڈے کو چھوڑ دے ، کہ اب اسی پر اس کے سیاسی مستقبل کا دارومدار ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like