نئی دہلی: اردو اکادمی دہلی کی جانب سے اکادمی کے قمر رئیس سلور جبلی آڈیٹوریم، کشمیری گیٹ، دہلی میںطنزیہ و مزاحیہ شعری نشست کا انعقاد کیا گیا۔جس میں بطورمہمانِ خصوصی ڈاکٹر محمد علی ربانی، کلچرل کونسلر، خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران، نئی دہلی نے شرکت کی۔ مشاعرے کی صدارت اردو اکادمی،دہلی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر خالد محمود اور معروف صحافی اسد رضانے کی۔ مشاعرے کا باضابطہ آغاز شمع روشن کرکے کیا گیا۔
ڈاکٹر محمد علی ربانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ شاعری اللہ کی کرشمائی نعمت ہے، اللہ کسی پر کرم فرماتا ہے تو وہ اپنی باتوں کی ترجمانی اشعار کے ذریعہ کرتا ہے۔ شاعری دنیا کے اہم فن کا نام ہے۔دنیا میں کسی بھی قوم اور ملت کی قد و قامت کو دیکھنے کے مختلف پیمانے ہوا کرتے ہیں ، اس کی پیمائش کا ایک پیمانہ شاعری بھی ہے۔اشعار نے ہندوستان اور ایران کے تہذیبی اور تمدنی رابطے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اشعار کے ذریعہ بہت سارے حقائق اور تاریخ کا بھی اندازہ ہوتا ہے، اگر انہیں اشعار کے طور پر محفوظ نہیں کیا گیا ہوتا تو اس تاریخ کا ہمیں اندازہ نہیں ہوتا۔شاعری کو معاشرے کا آئینہ دار سمجھا جاتا ہے۔اس دور میں طنزو مزاح سے تعلق رکھنے والے شعرا کا اہم کردار ہے۔
پروفیسر خالد محمودنے تمام شرکا اور اردو اکادمی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ اس قسم کی نشست ہوتی رہنی چاہئے تاکہ ادبی فضا بحال رہے۔اردو اکادمی ،دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے ڈاکٹر ربانی کا شکریہ ادا کیاکہ وہ اکادمی کی دعوت پر یہاں تشریف لائے۔ انھوں نے تمام شعرا ئے کرام اور سامعین کا استقبال کر تے ہوئے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی توجہ کے سبب ہی اردو اکادمی اپنی تمام کارگزاریاں ادا کررہی ہے۔ اس شعری نشست میں احمد علوی، عمران دھامپوری، اقبال فردوسی، وجے متل، عبدالرحمن منصور اور شاہد گڑبڑ نے طنزیہ و مزاحیہ اشعار پیش کیے۔ شعرائے کرام کے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:
اک رخصتِ نکاح ملی وہ بھی چار کی
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
(خالد محمود)
فخرِ ملت بنے تھے مشکل سے
فخر سے ف ہٹا دیا تونے
(اسد رضا)
میرا یقین نہیں ہے تو منھ دھوکے دیکھ لو
تم چودھویں کا چاند ہونے آفتاب ہو
( احمد علوی)
جب مجھے دردِ کمر یاد آیا
ان کی مالش کا ہنر یاد آیا
(اقبال فردوسی)
عشق کا بھوت ترے سر سے اتر جائے گا
بے نقاب اس کو اگر دیکھ لے ڈر جائے گا
( عمران دھامپوری)
وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم انقلاب لائیں گے
بغیر پوچھے جو گھر سے نکل نہیں سکتے
(عبدالرحمن منصور)
اداس ہیں جو حسین چہرے
میں ان کو ہنسنا سکھا رہا ہوں
(انس فیضی)
اپنا کہہ کر شعر پڑھوں تو کیا کر لے گا
منچ پے آکر نہیں ہٹوں تو کیا کر لے گا
(وجے متل)
مشاعرے کی نظامت کے فرائض طنزو مزاح کے حوالے سے مشہور نوجوان شاعرانس فیضی انجام دیے۔ پروگرام میں ادبا و شعرا کے علاوہ اکادمی کی گورننگ کونسل کے ارکان میں ڈاکٹر جاوید رحمانی، اسرار قریشی، نفیس منصوری اور رفعت علی زیدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔
ڈاکٹر محمد علی ربانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ شاعری اللہ کی کرشمائی نعمت ہے، اللہ کسی پر کرم فرماتا ہے تو وہ اپنی باتوں کی ترجمانی اشعار کے ذریعہ کرتا ہے۔ شاعری دنیا کے اہم فن کا نام ہے۔دنیا میں کسی بھی قوم اور ملت کی قد و قامت کو دیکھنے کے مختلف پیمانے ہوا کرتے ہیں ، اس کی پیمائش کا ایک پیمانہ شاعری بھی ہے۔اشعار نے ہندوستان اور ایران کے تہذیبی اور تمدنی رابطے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اشعار کے ذریعہ بہت سارے حقائق اور تاریخ کا بھی اندازہ ہوتا ہے، اگر انہیں اشعار کے طور پر محفوظ نہیں کیا گیا ہوتا تو اس تاریخ کا ہمیں اندازہ نہیں ہوتا۔شاعری کو معاشرے کا آئینہ دار سمجھا جاتا ہے۔اس دور میں طنزو مزاح سے تعلق رکھنے والے شعرا کا اہم کردار ہے۔
پروفیسر خالد محمودنے تمام شرکا اور اردو اکادمی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ اس قسم کی نشست ہوتی رہنی چاہئے تاکہ ادبی فضا بحال رہے۔اردو اکادمی ،دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے ڈاکٹر ربانی کا شکریہ ادا کیاکہ وہ اکادمی کی دعوت پر یہاں تشریف لائے۔ انھوں نے تمام شعرا ئے کرام اور سامعین کا استقبال کر تے ہوئے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی توجہ کے سبب ہی اردو اکادمی اپنی تمام کارگزاریاں ادا کررہی ہے۔ اس شعری نشست میں احمد علوی، عمران دھامپوری، اقبال فردوسی، وجے متل، عبدالرحمن منصور اور شاہد گڑبڑ نے طنزیہ و مزاحیہ اشعار پیش کیے۔ شعرائے کرام کے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:
اک رخصتِ نکاح ملی وہ بھی چار کی
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
(خالد محمود)
فخرِ ملت بنے تھے مشکل سے
فخر سے ف ہٹا دیا تونے
(اسد رضا)
میرا یقین نہیں ہے تو منھ دھوکے دیکھ لو
تم چودھویں کا چاند ہونے آفتاب ہو
( احمد علوی)
جب مجھے دردِ کمر یاد آیا
ان کی مالش کا ہنر یاد آیا
(اقبال فردوسی)
عشق کا بھوت ترے سر سے اتر جائے گا
بے نقاب اس کو اگر دیکھ لے ڈر جائے گا
( عمران دھامپوری)
وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم انقلاب لائیں گے
بغیر پوچھے جو گھر سے نکل نہیں سکتے
(عبدالرحمن منصور)
اداس ہیں جو حسین چہرے
میں ان کو ہنسنا سکھا رہا ہوں
(انس فیضی)
اپنا کہہ کر شعر پڑھوں تو کیا کر لے گا
منچ پے آکر نہیں ہٹوں تو کیا کر لے گا
(وجے متل)
مشاعرے کی نظامت کے فرائض طنزو مزاح کے حوالے سے مشہور نوجوان شاعرانس فیضی انجام دیے۔ پروگرام میں ادبا و شعرا کے علاوہ اکادمی کی گورننگ کونسل کے ارکان میں ڈاکٹر جاوید رحمانی، اسرار قریشی، نفیس منصوری اور رفعت علی زیدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔