مترجم:ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی
وحید خیون مشہور عراقی شاعر ہیں۔ وہ ناصریہ کے شیوخ بازارمیں واقع گوشۂ کرمہ بنی سعد میں 1969ء میں پیدا ہوئے۔ وہ انٹر نیشنل یونی ورسٹی لندن کے دراسات عالیہ کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ وہ 1988ء سے عراقی ادیبوں اور قلم کاروں کی جنرل یونین کے ممبر ہیں۔ وحید خیون نے نو عمری میں ہی شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا۔ انھوں نے عرب اور بیرون عرب کے متعدد عربی اخبارات میں جو ادبی اور سیاسی مضامین لکھے اس کی وجہ سے، انھیں علمی اور ادبی حلقوں میں بے پناہ مقبولیت ملی۔ وحید خیون نے کئی ملکی اور عالمی تقریبات میں بھی شرکت کی۔ وہ 1990ء سے 1994ء تک مجلہ آفاق عربیہ بغداد میں ایک صحافی کے طور پر کام کر تے رہے۔ انھوں نے سیاسی حالات کی ابتری بھی دیکھی۔ اور اس کا سخت نوٹس بھی لیا۔ خبون سابق عراقی حکومت کی حمایت میں لکھنے کی وجہ سے بر سر اقتدار پارٹی کے ہاتھوں عراق سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔
وحید خیون کی زندگی اور شعری وادبی خدمات کے بارے میں 1992ء میں شائع ہونے والی معجم، معجم البابطین میں روشنی ڈالی گئی ہے، یہ فرہنگ معاصر عرب شعرا کی حیات اور کارناموں کا احاطہ کر تی ہے۔ ان کے درج ذیل شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ (1) مدائن الغروب1988ء بغداد (2) طائر الجنوب، 1996ء دمشق (3) اغانی القمر2000ء مصر۔ جب کہ ان کچھ شعری مجموعے ابھی منتطر اشاعت ہیں۔ جن میں اغانی العشرین، اغانی الصبر، اغانی النسیان، موت تحت دموع المطر، انفاس ودموع، اور ایام عاصفۃ قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے نثر نگاری میں بھی طبع آزمائی کی کوشش کی ہے۔حقیقتی ان کی عمدہ نثری تحریروں پر مشتمل ہے۔ ان کا ایم اے کا مقالہ المؤثرات السلبیہ فی فصاحۃ الشعر العربی المعاصر بھی ابھی شائع نہیں ہو سکا ہے۔
انھوں نے حب الوطنی کے نغمے گائے ہیں اور عراق سے فراق اور اس سے دوری کے احساسات کواپنے اشعارمیں اجاگر کیا ہے۔ ان کی کئی نظمیں ایسی ہیں، جن میں یہ غم پوری طرح منکشف ہو کر سامنے آیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے مزاحمت اور حب الوطنی پر مبنی نظموں کے ترجمے:
بغداد کے نام
میں یہ چاہتا ہوں کہ
میں اپنا سارا سامان اٹھاؤں
اور باندھ لوں اپنا گٹھڑبھی
اور ہمیشہ کے لیے بغداد کی راہ لے لوں
ہم کب تک اپنوں سے دوری کی اذیت بر داشت کر تے رہیں گے
نہ جسموں میں روح کا گزر ہے
اور ہماری روحوں کا بھی ہمارے جسموں سے کوئی رشتہ نہیں
ہم کب تک الگ تھلگ رہیں گے
یہاں ہماری آل و اولاد ہیں، نہ آباؤ اجداد
ہم کب تک بچے کی طرح رہیں گے
کیوں کہ بچے جلا وطنی میں اپنی مٹی کی محبت میں مرے جا رہے ہیں
اے بغداد!
روے زمین پر کتنے دجلہ ہیں؟
اور کتنے ہیں کھجور کے باغات؟
اس روئے زمین پر کتنی عربی جیسی زبانیں ہیں؟
اس دنیا میں کتنے ذی قار(1) جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں؟
اور کتنے بغداد ہیں؟
فاصلے طویل ہو چکے ہیں
اور میں مجبور و ناچار اپنے غموں کو اٹھائے پھر رہا ہوں
اپنے اوقات، اپنے اشعار اور اپنے نغموں کو لیے پھر رہا ہوں
ان ہواؤوں سے میرے پھیپھڑے اچاٹ ہو چکے ہیں،
جو میرے جگر کو زخمی کیے دے رہی ہیں
میں اعظمیہ میں بلا تعیین کئی گھنٹوں سے کھڑا ہوں
میں ہرر اہ چلنے والے کو غور سے تک رہا ہوں
اور ہر راہ رو کے بوسے لے رہا ہوں
میں بوسے لے رہا ہوں
اس شہر کی سڑکوں پر چلنے والے سارے جان دار اور بے جان کی پیشانی کے
میں جدائی کے ایام میں بھی، بغداد میں ہی سانس لے رہا ہوں
رنا!اگر لوگ تم سے میرا حال چال پوچھیں
توتم کسی تردد کا شکار نہ ہونا میری ہجرت کے واقعے کو لوگوں سے بیان کرتے ہوئے
اے رنا! تم یہ کہہ دینا کہ یہ پرندہ بے گھر ہے
نہ اس کا کوئی خواب ہے، نہ اس میں محبت کی آگ روشن ہے
نہ اس کے پر صحیح سلامت ہیں اور نہ اس کا کوئی آشیانہ ہے
اور تم یہ بھی عرض کر دینا کہ ہوا جو ہونا تھا
کسی زمانے میں
یہاں رہتے تھے دو پرندے
جن میں دو انسان اپنے نغمے بکھیرا کر تے تھے
انھوں نے بت پرستی سے انکار کر کے
دوسرے ملکوں میں جاکر محبت کے ترانے سناتے رہے
اور اس اجنبی ملک میں
انھوں نے جلا وطنی کا درد جھیلا
بے روح جسموں کے ساتھ
اور بے جسم روحوں کے ساتھ
اور جب سارے بت گر گئے
تب وہ پرندہ اپنے غموں کا جہاں اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے
اجنبی ملک کی شعری تقریب میں غموں کے مر ثیے سنانے لگا
اس نے دیکھا کہ ایک مادہ چڑیا سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے
جھوم جھوم کر محبت کے نغمے سناتی رہی
وہ اسی پرندے کے ملک سے آئی تھی
اس کے ملک کے بحر وبر، شجرو حجر اور دریا کے ساحلوں سے گزرکر
اس پرندے نے اس کی آنکھوں، اس کی زلفوں سے محبت کی
اور اس کے ہونٹوں، اس کے دانتوں اور جسم کے گوشوں پر اپنا دل قربان کر دیا
اس نے اس کے حسین چہرے کی وجہ سے بغداد سے محبت کی
اس کی محبت کے نتیجے میں انسانوں سے محبت کی
اور اس نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اب وہ لوٹ کر جا ئے گا
تا کہ اس کو اپنی جلا وطنی کی داستان سنا سکے
اور پرندے اور بتوں کے واقعات بیا ن کر سکے
رنا!تم کہو اے پرندے!
تم بغداد پر اپنا جسم و جاں لٹاتے تھے
اور پھر بھی بغداد کو خیر باد کہہ دیا
تم نے بغداد کی خاطر محبت کی
اور تم کہوکہ اس نے بغداد کے کوہ و بیابان سے دور
ایک عمر بغیر پیدائش کے گزار دی
لیکن وہ ایک دن بھی زندہ نہ رہ سکا
یہاں تک کہ بغداد لوٹ آیا
٭٭٭
غریب الوطنی کی عید
عید آئی ہے
اور میں ہمیشہ کی طرح یکہ اور تنہا ہوں
اپنے بازاروں کے لیے،
اپنے عذاب گزیدہ وطن کے لیے
اور اپنے مردوں اور عورتوں کے لیے
اے انگور کی بیلیں اور اے کہکشاں، تمھیں کون دیکھ رہا ہے؟
کیا کوئی ہے، جو تمھاری باتوں کو سن سکے
جنگ کا بگل بجا دیا گیا، کون ہے جس کی اندر طبلوں کی تھاپ سننے کی خواہش نہ ہو؟
چرند و پرند اور معصوموں کے دلوں پر دستک دی گئی
اے میرے وطن!
میرے پیر کٹے ہوئے ہیں
میرے راستے گم ہیں
اچانک ہوا چل پڑی
تم میں کون ہے جو گندمی رنگ کی محبوس لڑکی سے محبت کرے
میں نے پرانے نغمے گنگنائے
میں نے پرانے شہروں اور لاہائی(۲) میں اپنے نغمے چھیڑے
میں نے خوب صورت یورپ میں نغمے سنائے
میں ٹھنڈ میں لپٹی ہوئی گرمی میں نغمہ سرا ہوا
میں ٹھنڈ میں لپٹی ہوئی گرمی میں نغمہ سرا ہوا
اے عراق تمھارے بغیر یہ دن کتنے سرد ہیں
دنیا میں بے شمار ممالک ہیں لیکن سبھی قبیح المنظر ہیں
دنیا میں بے شمار ممالک ہیں لیکن سبھی قبیح المنظرہیں
کیا ہمارا ترک وطن ایک جرم ہے؟
میرے راستے گم ہیں
میرے راستے گم ہیں
محبوب پر محلات کی کھڑکیاں بند ہیں
اگر چہ میں دور سے گزروں اے عراق
اگر چہ میں دور سے گزروں اے عراق
میں نے آواز لگائی، اے بغداد! اے ذی قار!
اے سماوہ (۳)کے کھجو ر کے درخت! اے عراق!! مگر کوئی جواب دینے والا نہیں
اے سماوہ کے کھجو ر کے درخت! اے عراق!! مگر کوئی جواب دینے والا نہیں
میں غریب الدیار ہوں
میرے پاس بیوی بچے ہیں، نہ گھر اور نہ محبوب
میرے پاس بیوی بچے ہیں، نہ گھر اور نہ محبوب
سوائے نوحہ کناں ستاروں کے جو کہہ رہے ہیں
اے گزرے ہوئے ماہ و سال پر رونے والے
اے گزرے ہوئے ماہ و سال پر رونے والے
اگر تم اپنے محبوب کے لیے آنسو بہا رہے ہو
تو چاند کا بھی کوئی محبوب نہیں
تو چاند کا بھی کوئی محبوب نہیں
میرا خون شعلوں میں تبدیل ہو رہا ہے
میں سو رہا ہوں اور میرا خون شعلہ سوں سلگتاجا رہا ہے
میں سو رہا ہوں اور میرا خون شعلہ سوں سلگتاجا رہا ہے
آگ کی طرح، میں نے اپنی عمرکے قیمتی ماہ و سال بربادی کی نذر کر دیے
اور خانما برباد لوگ کب تک سوتے رہیں گے؟
اور خانما برباد لوگ کب تک سو تے رہیں گے؟
میرے پاس بچے ہیں، نہ گھر اور نہ محبوب
یہاں تک کہ عراق کے بارے میں مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مجھ سے دور ہے
یہاں تک کہ عراق کے بارے میں مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مجھ سے دور ہے
میں سوچ رہا ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ میں کیا سوچ رہا ہوں
میں خوب صورت یورپ میں گنگناتا رہا: اے وطن! میرے پاس آجا
میں خوب صورت یورپ میں گنگناتا رہا: اے وطن! میرے پاس آجا
اے میرے وطن کتوں کو کتوں پر حکومت کرنے کے لیے چھوڑ دو
ان پڑھ اور بے عقل سیاست داں کھنڈرات اور تباہی کے ہی مستحق ہیں
ان پڑھ اور بے عقل سیاست داں کھنڈرات اور تباہی کے ہی مستحق ہیں
تم باہر آؤتاکہ ہم آسمانوں کو ہی بچھونا بنا لیں
جلا وطنی میں کشتیاں، ملاح اور پانی سبھی کچھ ہیں
جلا وطنی میں کشتیاں، ملاح اور پانی سبھی کچھ ہیں
کیا ہوتا اگرتم بھی اے وطن میرے پاس آتے
تاکہ ہم دوست بن جاتے
تا کہ ہم دوست بن جاتے
٭٭٭
عراقی ستار
ہم نے بہت دیر تک گنگنایا
ہماری انگلیوں کی تان سے ستارعاجزآگیا
اور لوٹنے والوں کے نغموں سے ہمارے کان رنجور وملول ہو گئے
ہم نے مراجعت کی
تاکہ ہم ان سے مل سکیں جن کے لیے ہم مردہ ہو چکے تھے
اور اجاڑ گھروں سے مل سکیں
اور ہم ہر چیز پر پڑی ہوئی دھند سے مل سکیں
ہم نے مراجعت کرتے ہوئے بہت دیر تک گنگنایا
اور ہم لوٹنے والے نہیں تھے
ہم نے بہت دیر تک ساز چھیڑا
ستار اگر بابل کا نہ ہو
تو وہ سننے والوں کو ہر گز اچھا نہیں لگے گا
اگر ہم نے عراقی ستار کو گم کردیا ہے
تو عراق کاستار، یعنی غم موجودہے
حواشی:
(1)ذوقار عراق کا ایک مشہور خطہ ہے۔ اس سے ماقبل اسلام کے ایک جنگی واقعے کی طرف اشارہ ہے، جس میں اہل فارس کے مقابلے میں عربوں کو فتح ہاتھ لگی تھی۔ شاہ فار س کسری نے عرب بادشاہ نعمان بن منذر سے اس کی بیٹی نکاح میں مانگی تھی۔ نعمان نے اس کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔ زید بن عدی نے، جس کے باپ کو نعمان نے قتل کر وادیا تھا، ا س موقع کو غنیمت جان کراپنے باپ کے قتل کا انتقام لینے کے لیے شاہ کسری کے کان بھرے کہ عرب اتنے خود سر اورمغرور ہیں کہ وہ فارس والوں کو اپنی بیٹی نکاح میں دینا پسند نہیں کر تے۔ جب کسری نے نعمان کو طلب کیا تو نعمان نے خوف کے مارے اپنی مدد کے لیے مختلف عرب قبائل کے دروازے پر دستک دی۔ لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ آخرش نعمان ذوقار آیا اور وہاں بنو شیبان کے سر براہ ہانی بن مسعود سے ملاقات کی اور سارا ماجراکہہ سنایا۔ نعمان نے اس کو پناہ دینے کے ساتھ اس کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی کہ تم خود شاہ فارس کے دربار میں جاکر معذرت کرلو۔ اگر وہ تمھارا عذر قبول کر لے، تو تم اپنے ملک واپس چلے جاؤ اور اگروہ انکار کر دے تو موت ترک وطن سے زیادہ بہتر راستہ ہے۔ جہاں تک تمھاری عورتوں، بچوں اور مال و اسباب کی بات ہے، تو میں اپنی جان اور مال کی طرح ان کی طرح حفاظت کروں گا۔ اس نے ہانی کی تجویز پر عمل کر تے ہوئے شاہ کسری کے دربار میں حاضری دی، لیکن اس نے اپنی سفاکیت کا ثبوت دیتے ہوئے ہاتھی کے پیروں تلے اس کو کچلوا دیا۔
اس کے بعد شاہ کسری نے، نعمان کی عورتوں اور مال و اسباب کا مطالبہ کیا۔ ہانی بن مسعود نے اپنے عہد کی پاس داری کر تے ہوئے حوالگی سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ جنگ کی نوبت آگئی۔کسری نے اپنی مسلح افواج ذوقار روانہ کر دی۔ نعمان کے مال واسباب کی حوالگی کی بات چیت بھی ناکام رہی۔ ہانی نے بھی اپنی فوج میدان میں اتار دی۔ دونوں لشکر میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ پہلا دن تو شاہ کسری کی فوجوں کے نام رہا۔ لیکن اگلی صبح جب دوبارہ جنگ شروع ہوئی، تو عربوں نے اپنی مثالی بہادری کا مظاہرہ کر تے ہوئے شاہ کسری کی فوجوں کو پسپائی پر مجبور کرد یا۔ یہ دن واقعہ ذی قار کے نام سے تاریخی کتابوں میں محفوظ ہو گیا۔ عرب شعرا نے اس فتح پر خوب جشن منایا۔
(2)لاہائی، مغربی ہالینڈ کا ایک شہر ہے۔ 2004ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس کی کل آبادی۸۶۵۹۶۴ہے۔ اس کا رقبہ 100/ کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ امسٹرڈم اور روٹرڈم کے بعد لاہائی، ہا لینڈ کا تیسرا بڑا شہر کہلاتا ہے۔یہاں کئی عالمی تنظیموں کادفتر واقع ہے۔ عالمی محکمۂ انصاف کا صدر دفتر یہیں ہے۔ اس شہر میں کارخانوں اور فیکٹریوں کی تعداد بہت کم ہے۔
(3)سماوہ جنوبی عراق کا ایک شہر ہے، جو دریائے فرات کے کنارے پر آباد ہے۔ یہ دارالسلطنت بغداد سے جنوب مغرب کی طرف 280/ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ کھجور کے باغات کا ایک بڑا رقبہ اس شہر کے اطراف میں پڑتا ہے۔ یہ شہرکھجوروں کے لیے ہی عراق میں جانا جاتا ہے۔ نخل السماوہ کے عنوان سے بہت سے نغمے بھی عراق میں مشہور ہیں۔ 2003ء کے جنگ کے بعد سماوہ کو جاپانی افواج کامر کز بنادیا گیا تھا، تاکہ اس شہر کی باز آبادکاری کے ساتھ، اس کے بنیادی ڈھانچے کو بحال کیا جا سکے۔