کلدیپ نائر (14/8/1923- 23/8/2018) مشہور صحافی، کالم نگار، انسانی حقوق کے سرگرم کارکن، مصنف، برطانیہ میں ہندوستان کے سابق (ہائی کمشنر) سفیر اور سابق ممبر راجیہ سبھا کی وفات کی چھٹی برسی ہے۔
حقیقی جمہوریت اور سیکولرازم کے لیے وہ آخری دم تک لکھتے رہے اور کوشش کرتے رہے۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر دہلی میں ایک پروگرام میں اپنی صدارتی خطاب میں کہا تھا کہ پچھلے کئی برسوں سے ملک میں فرقہ پرستی پروان چڑھ رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں کانگریس کے دور حکومت میں فرقہ پرستی کا وجود نہیں تھا، لیکن ان دنوں فرقہ پرستی کی نوعیت بدلی ہوئی ہے۔ اس کی شدت میں اضافہ کے ساتھ یہ نوٹس کیا جا رہا ہے کہ لبرلز کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔ فرقہ پرستی کے خلاف لکھنے اور بولنے والوں کو اور پرامن بقائے باہمی کے لیے کوشش کرنے والوں کو الیکٹرانک میڈیا اسپیس نہیں دیتا ہے جبکہ پرنٹ میڈیا بہت کم اسپیس دیتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ اقلیتی طبقہ اپنے آپ کو بے یارومددگار محسوس کر رہا ہے۔ ان کے اندر سینس آف ان سیکورٹی عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ اقلیتی طبقے کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک، اور زیادتی کے خلاف جب ہم جیسے لوگ آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں اطمینان کا احساس ہوتا ہے کہ اپنی لڑائی لڑنے کے لیے وہ اکیلے نہیں ہیں اکثریتی طبقہ کے بہت سارے انصاف پسند لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مختلف پروگراموں میں اس مفہوم کی باتیں ان سے سننے کا اتفاق ہوا ہے۔
جو باتیں انہوں نے چھ سال قبل کہی تھی وہ آج بھی لفظ بہ لفظ صحیح ہیں۔ اقلیتوں کے مسائل کے لیے صرف اقلیتوں کا آواز اٹھانا اتنا مؤثر نہیں ہوتا جس قدر انصاف پسند غیر مسلموں کا یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے فرقہ پرست عناصر ملک میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ انصاف پسند غیر مسلم بھی آواز اٹھاتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں کہ کہیں ان پر اقلیت نواز کا لیبل نہ لگا دیا جائے اور ٹرول نہ کیا جائے۔
حالات کتنے بھی سنگین ہوں، راستے کتنے بھی تاریک ہوں، زندگی کا سفر جاری رکھنے کے لیے اکثریتی فرقہ کے انصاف پسند لوگوں کے ساتھ راستے نکالنے ہوں گے۔
قومی یکجہتی پر جلسے، سیمینار اور پدیاترا کی افادیت کتنی بھی کم لگے، ہر ماہ کسی نہ کسی شہر میں ملی تنظیموں کو اس کے انعقاد کے لئے کوشش کرنی چاہیے ۔ ملک گیر سطح پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے متحرک ہونا چاہیے۔ مٹھی بھر لوگوں نے ذرائع ابلاغ کو یرغمال بنا کر یا کسی اور طریقہ کو اختیار کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک کا سواد اعظم اسی خیال کے ہیں، اس بھرم کو توڑنا ہوگا۔ بہت سے انصاف پسند لوگ اقدام کۓ جانے کے منتظر ہو سکتے ہیں وہ مناسب پلیٹ فارم کی تلاش میں ہو سکتے ہیں۔۔۔۔ رابطہ کے بغیر ملک و ملت کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔
ملی اتحاد کے لئے میٹنگیں عموماً انتخابات کے پیش نظر منعقد ہوتی ہیں اسی لیے اس کی افادیت بھی محدود وقت تک باقی رہتی ہے۔ ہمارا مسئلہ وقتی نہیں ہے۔ اس لیے اس کا وقتی حل نہیں دائمی حل درکار ہے۔ دائمی حل کے لیے اکثریتی فرقہ کے انصاف پسند لوگوں کو ساتھ لے کر برسراقتدار جماعت اور اپوزیشن کے لیڈروں سے ملاقات کرنا اور صحیح صورت حال سے واقف کرنا میمورنڈم پیش کرنا اور ان سے یقین دہانی حاصل کرنا کیوں چھوڑ دیا گیا ہے !
جہاں تک ما وراء عدالت سزا بل ڈوزر اور موب لنچنگ وغیرہ کا تعلق ہے، دانشوری کہتی ہے کہ یہ سب الیکشن میں پولرائزیشن کے مد نظر ہے اس لئے جذباتی ردعمل کا اظہار نہ کرنا بہتر ہے۔ تو انتخابات تو اب تقریباً سالہاسال ہوتے رہتے ہیں ؛ کبھی مرکزی حکومت کے لیے جنرل الیکشن، تو کبھی ریاستی اسمبلی کے لیے کبھی اس ریاست میں تو کبھی اس ریاست میں، تو مصلحت کے تقاضے کب تک پورے کیے جائیں گے ! ملی تنظیموں کے سربراہان کب تک ارباب اقتدار اور اپوزیشن سے ملاقات ملتوی کرتے رہیں گے ! عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا وقت کب آئے گا!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)