مولانا وحیدالدین خان کی ڈیڈھ دو درجن کتابیں پڑھ رکھی ہیں،ان کا جریدہ الرسالہ کئی سال پڑھتا رہا، جب یہ تذکیر کے نام سے شائع ہوتا تھا، تب بھی اس کے بہت سے شمارے پڑھے، اس کی فائل بھی یاد پڑتا ہے ایک بار کہیں سے لی تھی۔ مولانا کی فکر سے واقف ہیں، بہت بار اس پر دوستوں سے بحث مباحثے ہوتے رہے۔ ان کی بعض آرا پر تحفظات رہے، ہم کیا اور ہمارا اختلاف کیا، بس یہ سمجھئے کہ ان پہلوئوں پر ان کے دلائل سے ذہن یکسو نہیں ہوپایا۔
اس سب کے باوجود کالم لکھنے سے پہلے سوچا کہ آج ان کی کچھ کتابوں کو پھر سے پڑھا جائے۔ پچھلے کئی گھنٹوں سے یہی کام جاری ہے۔ شائد آج رات اسی میں بیت جائے۔ مولانا کی بیشتر کتابیں میرے پاس موجود ہیں، ان کے عقیدت مندوں کا حلقہ جو پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کے انتظامات کرتا ہے، انہوں نے کچھ کتابیں پی ڈی ایف میں بھیجی تھیں، دو سال پہلے لاہور کے کتاب میلے سے کتاب معرفت بھی لی تھی، آخری کتاب کا نام غالباً خدا کی تلاش ہے، وہ البتہ نہیں پڑھ سکا۔
اس تفصیل کا مقصد اپنی تعریف کرنا ہرگز نہیں، بتانا یہ تھا کہ مولانا وحیدالدین خان ایک بڑے سکالر تھے، وہ عبقری تھے، ان پر کچھ لکھنے سے پہلے ان کی شخصیت سے انصاف تو کیجئے۔ یوں بچکانہ انداز میں سٹیٹمنٹ اور تبصرے جڑنے سے پہلے ان کی کچھ کتابیں پڑھ لینی چاہئیں۔
سب سے اہم بات جو سمجھنی چاہیے کہ مولانا وحیدالدین خان کی فکر کے کئی اجزا ہیں، یوں سمجھئے باقاعدہ سے الگ الگ شعبے ہیں۔ ان کی ابتدائی کتب کا بالکل ہی مختلف رنگ ہے۔ جو لوگ ان پرتنقید کر رہے ہیں اور دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ جگہ جگہ چپکاتے پھر رہے ہیں، وہ مولانا کی کتاب عظمت صحابہ پڑھیں،عظمت قرآن، عظمت مومن، قرآن کا مطلوب انسان، قال اللہ وقال الرسولﷺ، قیامت کا الارم وغیرہ پڑھیں تو بالکل ہی مختلف تاثر بنے گا۔
ان کے بعض ترقی پسند مداحین مولانا کی سوشلزم اور مارکسزم پر تنقید پڑھ کر شائد حیران رہ جائیں گے۔ مولانا کی اس حوالے سے تین کتابیں ہیں، اسلام اور سوشلزم ،سوشلزم ایک غیر اسلامی نظریہ ، مارکسزم (جسے تاریخ نے رد کر دیا)، یاد رہے کہ قوسین والے الفاظ مولانا کے ہیں میرے نہیں۔
اسی طرح مولانا کا تبلیغی جماعت پر ایک پمفلٹ اور بعض تقاریر ہیں، تبلیغی جماعت اور اس کے امیر کی ستائش کرتے رہے ہیں ، تعدد ازدواج پر مولانا کی رائے ایک روایت پسند مولوی کی ہے، انہوں نے ڈٹ کر اس کی حمایت کی اور دلائل دئیے ہیں۔ دوسری طرف عورت معمار انسانیت پڑھیں تو خواتین ان کی مداح ہوجائیں گی۔ ’’طلاق اسلام میں‘‘ بھی مولانا کی ایک الگ سے کتاب ہے۔
مولانا کی ڈائریاں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اتنی مفید، عمدہ اور دلچسپ اقتباسات، ٹکڑے بہت کم دیکھنے کو ملیں گے۔ میرے پاس پی ڈی ایف میں ایسی چار ڈائریوں کی کتابیں ہیں، سال ہیں تراسی چوراسی، نواسی نوے، اکانوے بانوے، ترانوے چورانوے۔ نہایت دلچسپ کتابیں ہیں۔
ان کی کچھ کتابیں انسانی زندگی اور ہیومن ڈویلپمنٹ پر ہیں، جس وجہ سے کچھ لوگ ان پر موٹیویشنل سپیکر ہونے کی پھبتی کس رہے ہیں۔ افسوس کہ ایسے ناقدین نے انسانی شخصیت کی تعمیر اور صلاحیتوں کو سنوارنے کے کام کو اتنا معمولی سمجھا۔ راز حیات اس حوالے سے ان کی بہت مشہور کتاب ہے۔ کتاب زندگی ، سفر حیات۔ تعمیر حیات، تعمیر کی طرف، رہنمائے حیات ، تعمیر ملت، تعمیر انسانیت وغیرہ۔
ان کا ایک پہلو جماعت اسلامی سے الگ ہونا اور سید مودودی کی فکر پر تنقید ہے۔ اس حوالے سے ایک کتاب بڑی مشہور ہوئی، تعبیر کی غلطی۔ سید مودودی اور جماعت اسلامی کے فلسفہ پر یہ اچھی علمی تنقید ہے۔ اس کا خلاصہ ’’اسلام کی سیاسی تعبیر‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔
ان کا ایک اور اہم کام ترجمہ قرآن اور تفسیر تذکیر القرآن ہے۔ مولانا وحید الدین شائد وہ واحد عالم دین ہیں جنہوں نےعربی متن کے بغیر صرف ترجمہ قرآن شائع کیا ہے۔ اس کی جو افادیت ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں، اگرچہ ہمارے ہاں اس کی روایت نہیں رہی۔ ممتاز مفتی کے الفاظ میں اسے بیڈ بک یعنی اپنے سرہانے رکھا جا سکتا ہے، سوتے اٹھتے اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے کہ عربی متن کی وجہ سے جو خاص قسم کا تقدس اور احترام لازمی سمجھا جاتا ہے، صرف اردو یا انگریزی ترجمہ میں وہ پابندی نہیں رہتی۔
مولانا کی قرآن ، حدیث اور سیرت پر کئی کتابیں ہیں۔ پیغمبر انقلاب ﷺ، عظمت قرآن، مطالعہ قرآن، مطالعہ حدیث، مطالعہ سیرت، معرفت قرآن وغیرہ۔
ان کی کچھ کتابیں اسلام کا تعارف ہیں اور فکری نوعیت رکھتی ہیں۔ فکر اسلامی، عقلیات اسلام، دین کامل، دین وشریعت، دین کیا ہے، شہادت امت مسلمہ کا مشن وغیرہ۔
مولانا وحیدالدین خان کا لٹریچر کا خاصا بڑا حصہ ، یوں سمجھئے ایک تہائی سے زیادہ تو خالصتاً دعوتی ہے۔ بطور داعی وہ غیر مسلموں کو، ملحدین اور تشکیک پسندوں کو رب کی طرف بلاتے ہیں، ان کا استدلال حیران کن ہے، عام فہم زبان میں وہ روزمرہ زندگی کی دلیلوں سے لوگوں کواس جانب بلاتے ہیں۔ اسلام ایک عظیم جدوجہد، اسلامی دعوت، اسلام دین فطرت، اسلام ایک تعارف، اسلامی زندگی، اسلام دورجدید کا خالق، ایمانی طاقت، انسان اپنے آپ کو پہچان، حل یہاں ہے، حقیقت کی تلاش ، دعوت الی اللہ، خاندانی زندگی، دعوت حق، دعوت اسلام ، دین انسانیت، دین کامل، دینی تعلیم، راہ عمل وغیرہ۔
ان کی بعض کتابوں کے مخاطب علما ہیں۔ ایک کتاب بڑی مشہور ہوئی علما اور دور جدید، اس موضوع پر ان کی کئی کتابوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔
کچھ کتابیں خالصتا بھارتی مسلمانوں یا انڈین پس منظر میں ہیں۔ ہندوستانی مسلمان، ہندوستان آزادی کے بعد، یکساں سول کوڈ، ہند پاک ڈائری ،فسادات کا مسئلہ وغیرہ۔ بابری مسجد اور بعض دیگر امور پر ان کی آرا سے مدرسہ دیوبند اور بھارتی علما کی اکثر تنظیمون کو سخت اختلاف رہا ہے۔
مولانا وحیدالدین خان کی فکر کا ایک اہم جز مومن کو آخرت کی طرف مائل کرنا، روز آخرت کی تیاری کی ترغیب دینا اور یہ سمجھانا ہے کہ دنیا میں آخرت کے لئے کمائی کی جائے۔ یہ کام مولانا نے غیر معمولی محنت، مہارت اور بار بار مثالوں سے کیا۔ ان کی بعض کتابوں میں اسی وجہ سے تکرار اور یکسانیت بھی در آئی۔ آخرت کے حوالے سے کئی باقاعدہ کتب ہیں، آخری سفر، آخرت کا سفر، اللہ اکبر، الربانیہ (حیات بشری کا ربانی طریقہ)،انسان کی منزل، انسان اپنے آپ کو پہچان، راہ عمل وغیرہ۔
مذہب اور سائنس، مذہب اور جدید چیلنج، تجدید دین،اسلام پندرویں صدی میں وغیرہ ان کی چند ایسی کتابیں ہیں جس میں جدید دور کے چیلنجز کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ ان کی بعض آرا کی وجہ سے ان کو سرسید یا دوسرے متجدین سے ملا دیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں ایسا کرنا اوورسمپلی فکیشن ہے اور یہ درست نہیں۔
مولانا وحیدالدین خان کی فکر اور ان کی کچھ آرا سے یقینا اختلاف کیا جا سکتا ہے، اس پر تنقید بھی کی جا سکتی ہے، شدید تنقید بھی کر سکتے ہیں۔ اس سب کے لئے مگر ضروری ہے کہ مولانا کے نظام فکر کو سمجھا جائے، جب تک آپ ان کی فکر کے سٹرکچر کو نہیں سمجھیں گے، اس فریم ورک کے اندر جا کر نہیں دیکھیں گے، آپ غلط نتائج اخذ کریں گے ۔ یاد رہے کہ خاکسار مولانا کی فکر کے ان اجزا پر اپنی کم علمی اور کم فہمی کے دائرے میں مقید رہ کر جو کچی پکی نقد ہوسکتی ہے، وہ ضرور کرے گا۔ اللہ نے چاہا تو اسی وال پر یہ ہوتا رہے گا۔
دیانت داری کا تقاضا مگر یہ ہے کہ مولانا کی فکر کے جو طاقتور اجزا ہیں، جنہوں نے لاکھوں پڑھنے والوں کو متاثر کیا انہیں رب کی طرف موڑا، اس ذات باری سے جوڑا، قرآن فہمی، حدیث فہمی کی ترغیب دی، ان تمام باتوں کا بھی اعتراف کیا جائے۔
مولانا وحیدالدین ایک عبقری تھے، ان پر نقد کرنے سے پہلے براہ کرم اپنی سطح کچھ بلند کر لیں۔ مولانا کی تمام کتابیں پی ڈی ایف میں دستیاب ہیں، خود ان کے اپنے حلقے کے لوگ انہیں پھیلاتے ہیں۔ یہ پائریسی کا مسئلہ بھی نہیں بنے گا۔ تھوڑی سی زحمت کر کے مختلف حصوں کی نمائندہ کتب ہی پڑھ لیں، ورق گردانی ہی کر ڈالئیے۔
ایک معروف مدرسے کے فتوے اور مولانا کے بعض علمی تفردات سے ون لائنر نکال کر جگہ جگہ چپکانے سے انصاف نہیں ہوسکے گا۔ یہ سب کتابیں جو میں نے اوپر گنوائی ہیں، ان میں کہیں مولانا نے قارئین کو ترغیب نہیں دی کہ وہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے حوالے سے ان کی رائے یا امام مہدی، دجال پر سوچ یا بعض دیگر حوالوں سے ان کی ذاتی رائے پر الگ فرقہ یا گروہ بنائیں۔
مولانا وحیدالدین خان کی کچھ باتیں بھارتی پس منظر میں ہیں، وہاں مسلمانوں کی حیثیت اقلیت کی ہے انہیں اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے گروہ ہندووں کے ساتھ گزارا کرنا ہے ، پوسٹ بابری مسجد منظرنامے میں وہاں جو شدت در آئی ، جس کی انتہا اب وزیراعظم مودی کے دور میں جھلکتی ہے، اس میں مولاناوحیدالدین خان نے اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق ایک لائحہ عمل تجویز کیا۔ مجھے، آپ کو یا کسی کو بھی اس سے اختلاف ہوسکتا ہے، وہ کیجئے، مگر پہلے اصل بات اور اس لائحہ عمل کے پیچھے اسباب کو سمجھ تو لیجئے۔
مولانا کی فکر کا کارنر سٹون یا بنیادی جز اعراض یعنی ٹکراو سے بچنے کا نظریہ ہے۔ وہ اس حوالے سے بہت آگے چلے جاتے ہیں، اتنا کہ آدمی گاہے جھنجھلانے لگتا ہے۔ صبر کی تلقین چبھنے لگتی ہے، جذبات اور ردعمل کی آگ بھڑکتی ہے۔ مولانا وحیدالدین خان کے تمام مشورے اور تجاویز تب عبث لگتے ہیں، صلح حدیبہ پر ان کا غیر معمولی اصرار یا اس سے والہانہ وابستگی ناقابل فہم لگتی ہے۔ میرے بھی ایسے ہی جذبات ہیں، مگر ایسا کرنے کے لئے بھی مولانا کا نظام فکر سمجھنا ضروری ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے رہے ۔
پاکستان، تحریک پاکستان اور قائدین پاکستان کے حوالے سے مولانا کا نقطہ نظر بڑا شدید، غیر ضروری حد تک جارحانہ اور نامناسب رہا ہے۔ ہمیں اس سے شدید اختلاف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اقبال کے ساتھ مولانا نے ناانصافی برتی۔
مولانا وحیدالدین خان ہمیشہ دوسروں کو ردعمل کی نفسیات سے بچنے کا مشورہ دیتے رہے، مگر قائدین تحریک پاکستان کے حوالے سے وہ ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوئے بلکہ اس دلدل میں گردن گردن تک دھنستے چلے گئے۔ اور بھی کئی چیزیں ہیں جن سے ڈٹ کر اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مگر پھر وہی بات کہ مولانا وحیدالدین خان کی علمی دنیا میں بہت کچھ اہمیت اور بھی ہے، جسے نظرانداز کرنا آسان نہیں۔