( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
نبیرۂ اعلیٰ حضرت مولانا توقیر رضا خان کے بیان کی سرخی پر جب لوگوں کی نظر پڑی ہوگی تو انہیں یقیناً کچھ اچھا نہیں لگا ہوگا ، لیکن جب مولانا کی شرط دیکھی ہوگی تو سکون محسوس ہوا ہوگا ۔ خبر تھی کہ مولانا توقیر رضا خان نے فلسطینیوں کی مدد کرنے کے لیے ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کی ستائش کی ہے ، اور یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی مدد کے لیے تیار ہیں ۔ یقیناً بہتوں نے یہ سوچا ہوگا کہ کہیں مولانا موصوف بھی اس ملک کے کچھ علمأ کرام کی طرح مودی کی گود میں جاکر تو نہیں بیٹھ گیے ! معروف نیوز اینکر رویش کمار کی دی ہوئی اصطلاح ’ گودی میڈیا ‘ میں ایک ذرا سی تحریف کر کے ایسوں کو ’ گودی علمأ ‘ کہا جا سکتا ہے ۔ ’ گودی علمأ ‘ کی فہرست میں کون کون ہیں ، اس سوال کا جواب سارا ملک جانتا ہے ، اس لیے یہاں کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ خیر ، مولانا توقیر رضا خاں نے اپنی شرط سے یہ واضح کر دیا کہ وہ اگر وزیراعظم مودی کی ستائش کر رہے ہیں ، یا اگر بی جے پی کی حمایت کی بات کر رہے ہیں ، تو آنکھ بند کر کے نہیں کر رہے ہیں ، ان کے پاس اپنی شرط ہے کہ وہ اسی صورت میں بی جے پی کی حمایت کر سکتے ہیں کہ مودی کی حکومت اسرائیل کا ساتھ چھوڑ کر فلسطین کے ساتھ کھڑی ہو جائے ۔ مولانا موصوف کو خوب اندازہ رہا ہوگا کہ مودی حکومت ان کی یہ شرط کبھی نہیں مانے گی ۔ مانے بھی کیسے ! یہ حکومت تو ابتدا ہی سے ’ وی اسٹینڈ وتھ اسرائیل ‘ کا نعرہ لگا رہی ہے ، اور جب اقوام متحدہ میں موقعہ فلسطین کی حقیقی حمایت کا آتا ہے تو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے ۔ یہ کہہ دینا کہ ’ ہم فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں ہیں ‘ یا اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں پیش کی گئیں چند ایک معمولی قراردادوں کی حمایت کر کے ، اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر کے کہ ہم فلسطینیوں کا خیر چاہتے ہیں ، مودی حکومت اپنی اسرائیل نوازی چھپا نہیں سکتی ۔ خیر یہ دو ملکوں کی خارجہ پالیسی کا معاملہ ہے اور ملک کے سربراہ خوب سمجھتے ہیں کہ ملک کے لیے بہتر کیا ہے ۔ لیکن یہ بات تو خوب واضح ہے کہ ہندوستان کا جھکاؤ فلسطین نہیں اسرائیل کی طرف ہے ۔ کچھ لوگ ’ وائس آف گلوبل ساؤتھ سمٹ ‘ میں پی ایم مودی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھیں وزیر اعظم نے فلسطین کی حمایت میں کیا خوب تقریر کی ہے ! انہوں نے یہی تو کہا کہ ’’ فلسطین ، اسرائیل جنگ میں شہریوں کی ہلاکتیں قابلِ مذمت ہیں ‘‘ ، لیکن کیا یہ کافی ہے ؟ یقیناً شہریوں کی ہلاکتیں قابلِ مذمت ہیں ، لیکن فلسطین میں تو نسل کشی ہو رہی ہے ، بچے قتل کیے جا رہے ہیں ، اس نسل کشی کو اسرائیل میں ہونے والی ہلاکتوں کے ساتھ جوڑ کر پیش کرنا کیا درست ہے ؟ اس کے باوجود پی ایم کا شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسرائیل میں ہونے والی ہلاکتوں کے ساتھ فلسطین میں ہونے والی ہلاکتوں کا کچھ تو ذِکر کیا ۔ بات مولانا توقیر رضا خان کے بیان اور شرط سے شروع ہوئی تھی ؛ بیان جس پر کچھ لوگ ناک بھوں چڑھا رہے ہیں ، جبکہ اس بیان کی ستائش کرنی چاہیے کہ کوئی تو ہے جس نے یہ جانتے ہوئے کہ حکومت میں اسرائیل نوازوں کا زور ہے اور سیاسی مقاصد کے لیے اس جنگ کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا ہے ، الیکشن تک میں اسے موٖضوع بنا دیا گیا ہے ، یہ کہنے کی ہمت کی کہ اسرائیل کا ساتھ چھوڑ کر حکومت فلسطین کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو وہ بی جے پی کی حمایت کے لیے تیار ہیں ۔ آج کی سیاست میں ’ شرائط ‘ ضروری ہیں ، مسلمان عرصۂ دراز سے بنا کسی مطالبے ، بنا کسی طرح کی شرط کے صرف سیکولرزم کی بنیاد پر اپنے ووٹ دیتے چلے آ رہے ہیں ، اچھا ہی کیا ، لیکن مولانا توقیر رضا خان نے ایک راہ دکھا دی ہے کہ سیاسی پارٹی کوئی بھی ہو اس کے سامنے شرطیں رکھی جا سکتی ہیں ۔ مسلمان قائدین اور عوام جن سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دیتے چلے آ رہے ہیں ان ہی کو ووٹ دیں ، لیکن کچھ تو اپنی شرطیں رکھیں ، کچھ تو اپنی بھلائی کے لیے ، بہتری کے لیے مطالبے کریں ! مولانا توقیر رضٓا خان کے مشروط بیان کا یہی پیغام ہے ۔ یقیناً مزید علمأ کرام ہیں جو فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں ، مولانا ارشد مدنی نے تو حماس کے حق میں بھی آواز بلند کی ہے ۔ ان سب کا مقصد حکومت کو یہ بتانا ہے کہ فلسطین کا مسٔلہ اس ملک کے مسلمانوں کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس کا تعلق ان کے عقیدے سے اور ان کی مذہبی روایات سے وابستہ ہے ، لہذا اس ملک کے لوگوں کو ، یہاں کے سیاست دانوں کو اور حکمرانوں کو چاہیے کہ اِن کے جذبات کا احترام کیا جائے ، اور اسرائیل – فلسطین کی جنگ میں کسی ایک فریق کے ساتھ وابستگی کا کھلا مظاہرہ کر کے ملک میں فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں کی راہ ہموار نہ کی جائے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)