Home تجزیہ مولانا طارق جمیل کو معافی کیوں مانگنی پڑی؟

مولانا طارق جمیل کو معافی کیوں مانگنی پڑی؟

by قندیل

سہیل انجم
کیا کوئی دعا متنازع ہو سکتی ہے اور کیا کسی کے دعا کرانے سے اتنا بڑا طوفان کھڑا ہو سکتا ہے کہ دعا کرانے والے کو لوگوں سے معافی مانگنی پڑ جائے۔ عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے لیکن حال ہی میں ایسا ایک واقعہ ہوا ہے اور مملکت خداداد پاکستان میں ہوا ہے۔ ایک دعا کے خلاف اس قدر ہنگامہ برپا ہوا کہ دعا کرانے والے کے سامنے لوگوں سے معافی مانگنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں بچا۔ دعا کرائی تھی مولانا طارق جمیل نے۔ وہی مولانا طارق جمیل جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں اور اپنی تبلیغ و تقریر کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ جن کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہوئے بعض سیاست داں اور فلم اسٹار فخر محسوس کرتے ہیں۔ انہی مولانا طارق جمیل کو ایک ٹیلی ویژن پروگرام کے دوران دعا اور دعا سے قبل خطاب کی یہ سزا بھگتنی پڑی کہ برسرِکیمرہ معافی مانگ کر جان چھڑانی پڑی۔
دراصل گزشتہ دنوں پاکستان میں ’احساس ٹرانسمیشن‘ کے تحت ایک بڑا ٹی وی پروگرام ہوا جو کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ اس میں وزیر اعظم عمران خان، ان کے کئی وزرا اور کئی بڑے صحافی بھی شامل تھے۔ یہ پروگرام تمام نیوز چینلوں پر لائیو دکھایا جا رہا تھا۔ پروگرام کے دوران ملک و بیرون ملک سے کروڑوں روپے کا چندہ ہوا۔ مولانا طارق جمیل کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ البتہ وہ اپنے گھر سے اس میں شریک تھے۔ پروگرام کے آخر میں مولانا صاحب سے کہا گیا کہ وہ دعا کرا دیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے مجھے اتنی دیر تک بٹھائے رکھا تو میں بھی کچھ وقت لوں گا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک مختصر سا خطاب کیا اور پاکستانی معاشرے میں درآئی برائیوں پر روشنی ڈالی۔ پھر انھوں نے انتہائی رقت آمیز انداز میں دعا کروائی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا دامن گناہوں سے بھرا ہوا ہے۔ جھوٹ سے فرقہ واریت سے قتل و غارت سے۔ بے حیائی سے بے پردگی سے۔ ہم ایک جھوٹی قوم ہیں۔ ایک ظالم قوم ہیں۔ ہماری عدالتیں ظالم ہیں۔ ہمارے قوانین ظالم ہیں۔ ہم برائیوں میں لت پت ہیں۔ ہماری عورتیں بے حیائیوں میں لت پت ہیں۔ ان کے کپڑے چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ انھوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار ایک ٹی وی چینل کے مالک نے مجھ سے کہا کہ مولانا کوئی نصیحت کیجیے۔ میں نے کہا کہ چینل پر جھوٹ بولنا بند کر دیجیے۔ اس نے کہا کہ اگر جھوٹ بند ہو گیا تو چینل بند ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کا میڈیا جھوٹا ہے۔سب سے زیادہ جھوٹ میڈیا پر بولا جاتا ہے۔ ۲۲ کروڑ عوام میں بتائیے کتنے سچے ہیں۔ اس موقع پر انھوں نے عمران خان کی تعریف کی اور کہا کہ انھیں اجڑا چمن ملا ہے اور صرف ایک سچا آدمی کیا کر سکتا ہے۔ مولانا نے رزق حلال کمانے پر زور دیا۔ جھوٹ کو برائی کی جڑ قرار دیا اور امانت داری کا درس دیا۔ ان کے بیان کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اصل میں یہ وبا (کروناوائرس) ہمارے گناہوں کی سز اور خدا کا عذاب ہے۔ ہمارے معاشرے میں چونکہ ناچتی ہوئی عورتوں کی بے حیائی بڑھ رہی ہے تو ایسے میں خدا ہمیں کیونکر معاف کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ اس وبا سے مر رہے ہیں یا اللہ تو انھیں شہادت کے درجے پر فائز کر دے۔ انہوں نے خود کو بھی مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ اے میرے رب شاید میں اپنی قوم کی صحیح تربیت نہیں کر پایا۔
جس وقت مولانا یہ دعا کروا رہے تھے عمران خان کے ساتھ بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں کے چہرے اشک آلود تھے تو حامد میر جیسے بڑے صحافیوں کے چہروں پر چھائی ناگواری آسانی سے پڑھی جا سکتی تھی۔ دعا کے ختم ہونے کی دیر تھی کہ پورے ملک میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ مولانا کے مخالفین تیغ بے نیام بن کر سامنے آگئے اور ان سے معافی کا مطالبہ کرنے لگے۔ دوسری طرف ان کے حامی بھی کھل کر میدان میں آگئے۔ حامد میر اور مولانا مخالف دوسرے صحافیوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ انھوں نے تمام میڈیا اور صحافیوں کو جھوٹا کیوں کہا۔ انھوں نے چینل کے اس مالک کا نام کیوں نہیں بتایا جس نے ان سے نصیحت کے لیے کہا تھا۔ کچھ لوگوں نے مولانا کو ابن الوقت قرار دیا اور ان کو حکمرانوں سے دوستی گانٹھنے کا طعنہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف کی بھی تعریف کر چکے ہیں، پرویز مشرف کی بھی اور عمران سے ان کی دوستی ہے۔ ’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ لگانے والی آزاد خیال خواتین بھی میدان میں آگئیں اور خواتین کے چھوٹے ہوتے کپڑوں اور ان کی بے حیائیوں کے ذکر پر ان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سوشل میڈیا پر بھی ایک طوفان بے ہنگام کا منظر تھا۔ مولانا کے خلاف اور ان کے حق میں بھی کالم لکھے جانے لگے۔ حامد میر نے حکمراں ابو جعفر عبد اللہ بن محمد المنصور اور اما ابو حنیفہ، امام مالک اور امام جعفر صادق کے واقعات پر مبنی اپنے کالم میں لکھا کہ جہاں ایسے حق پرست علمائے دین موجود تھے کہ وہ حکمرانوں کا حکم ماننے کے بجائے سزا کو اختیار کر لیتے تھے وہیں ایسے علما بھی تھے جو اپنی خوشامد کے باعث حکمرانوں کے منظور نظر بن گئے تھے۔ حامد میر نے لکھا کہ وہ فقیر بہتر ہے جو کسی امیر کے آستانے پر حاضری نہ دے۔ تاہم انھوں نے اس کالم میں مذکورہ واقعہ کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن کالم کا بین السطور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ مولانا طارق جمیل پر طنز و تشنیع کے تیر چلائے جا رہے ہیں۔ معروف کالم نگار یاسر پیرزادہ نے لکھا کہ جیسے عوام ہوں گے ویسی ہی دعا ہوگی۔ انھوں نے مولانا طارق جمیل پر حملہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اگر یہ وبا جھوٹ اور بے حیائی کی وجہ سے پھیلی تو سب سے پہلے تبلیغی جماعت اور زائرین کیوں اس کا نشانہ بنے۔ یہ عجیب وائرس ہے کہ پھیلا تو عورتوں کی بے حیائی کی وجہ سے ہے مگر زیادہ تر مرد اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر وائرس پھیلنے کا معیار بے حیائی ہے تو پھر یہ وائرس مکہ مکرمہ میں کیوں پھیلا۔ ہم ظالم ہیں، لالچی ہیں، جھوٹے، دغا باز اور فحش لوگ ہیں تو پھر خدا سے کس منہ سے دعا کر رہے ہیں کہ یہ وبا موڑ دے۔ مولانا نے تمام ثبوت ہمارے خلاف دیے۔ قوم لوط کی مثال بھی جڑ دی تو پھر اللہ ہماری کیوں سنے۔ ایک طرف آپ فرماتے ہیں کہ خدا کا عذاب ہے دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس بیماری سے مرنے والے شہید ہیں۔ گویا یہ عذاب ہماری بے راہ روی اور بے ایمانی کے نتیجے میں آیا اور جو اس کی زد میں آیا وہ شہید ٹھہرا اور کیا بطور مومن ہمیں شہادت سے بچنا چاہیے یا اسے گلے لگانا چاہیے‘۔ لیکن ایک خاتون کالم نگار اور مصنفہ ملیحہ ہاشمی نے لکھا ’میں بحیثیت خاتون مولانا صاحب کا برملا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ انہوں نے دلیری کے ساتھ معاشرے کے فتنے کو بے نقاب کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس عوام کا حصہ ہوں جو مولانا صاحب کی محبتوں اور پرخلوص دعاو ¿ں کی مقروض ہے۔ جن مسائل کی نشاندہی آپ نے کی وہ ہمارے معاشرے میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور جو آپ پر ذاتی نوعیت کے حملے کر رہے ہیں ان میں بھی ہیں۔ یہاں تو آئینہ دکھایا بھی نہیں اور برا بھی مان لیا گیا۔ سچ کہتے ہیںچور کی داڑھی میں تنکا‘۔ اور بھی دوسرے کالم نگاروں نے اور سوشل میڈیا یوزرس نے مولانا کا جم کر دفاع کیا۔
کئی روز کے ہنگامے کے بعد بالآخر ایک اینکر محمد مالک نے ان کو اپنے پروگرام میں پکڑ ہی لیا۔ انھوں نے مولانا سے سوال پوچھا اور کہا کہ آپ نے جو کچھ کہا تھا کہیے تو میں ٹیپ چلا کر سنوا دوں۔ مولانا طارق جمیل نے فوراً کہا کہ نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔میں معافی چاہتا ہوں۔ انھوں نے اس ایک جملے سے پورے تنازعے کے باب کو بند کر دیا۔ ان کی اس معافی پر بھی دو گروپ بن گئے۔ ایک نے کہا کہ ان کو معافی نہیں مانگی چاہیے تھی انھوں نے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ دوسرے نے کہا کہ ’مولانا رمضان کے مبارک مہینے میں جاہلوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے معافی مانگ لی اور اس سے ان کا قد اور بلند ہو گیا‘۔ حالانکہ اگر بغور دیکھا جائے تو مولانا نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔ انھوں نے جن برائیوں کا ذکر کیا وہ نہ صرف پاکستان کے بلکہ تقریباً پوری دنیا کے مسلمانوں میں موجود ہیں۔ اس معافی نے میری نگاہ میں بھی ان کا قد بلند کر دیا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment