Home ستاروں کےدرمیاں مولانا سہیل احمد ندوی ایک عظیم شخصیت-محمد منہاج عالم ندوی

مولانا سہیل احمد ندوی ایک عظیم شخصیت-محمد منہاج عالم ندوی

by قندیل

امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

یہ دنیا ہے،فانی ہے،یہاں کسی کودوام نہیں،ہرذی روح کو فناہونا ہے،باقی رہنے والی ذات باری تعالیٰ کی ہے،‘‘ ان اللہ حی لایموت’’ اسے کبھی موت نہیں آئے گی،جس نے اس دنیا میں آنکھیں کھولی ہیں ان کو ایک نہ ایک دن اپنی آنکھیں بند کرنی ہوں گی اوراپنے زندگی کے ایام پورے کرنے کے بعدآخرت کے سفر پر جاناہی ہوگا،مگر زندگی میں کبھی ایسے لوگ بھی ہمارے درمیان سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں؛جن کی یادیں اور باتیں ہمیشہ زندگی میں یادآتی رہتی ہیں،جسے بھول پانا انسان کے لیے آسان نہیں ہوتا،انہیں شخصیات میں ایک اہم شخصیت امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم وامارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر ٹرسٹ کے سکریٹری جنرل اور مولانا منت اللہ رحمانی پارامیڈیکل انسٹی ٹیوٹ و مولانا سجا د میموریل اسپتال اوردارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے سکریٹری نہایت ہی فعال قابل قدر شخصیت حضرت مولانا سہیل احمد ندوی صاحبؒ کی تھی،جنہوں نے فراغت سے لیکر اب تک کی پوری زندگی امارت شرعیہ کے لیے وقف کردی تھی،جنہوں نے اپنی ساری صلاحیتوں اور توانائیوں کو ان اداروں کے لیے صرف کیا،اورہر ممکن کوشش کی کہ جو ذمہ داری ان کے سر امیر شریعت،ذمہ داران امارت شرعیہ نے دی حتی الوسع اسے نبھانے کی کوشش کی اوراس میں کامیاب رہے،جب کبھی کوئی حکم ملا سرتسلیم خم کیا،اطاعت امیر کو اپنا لازمی عنصر سمجھا،کیا سردی،کیاگرمی،کیا بارش،کیا پانی،کیا بیماری کسی بھی چیز نے ان کے عزم وحوصلہ میں اضمحلال نہیں آنے دیا،وہ ہردم رواں ہرلمحہ جواں کی طرح کام کرتے تھے،ابھی بھی وہ جس سفر میں تھے اپنی بیماریوں سے جوجھ رہے تھے،مگر سامنے اسلامی شریعت کاتحفظ اوردین کی بقا کا مسئلہ تھا،انہوں نے اپنے مرض کی پرواہ کیے بغیر اپنے امیر کی اطاعت میں رخت سفر باندھ لیا،مگر شاید ہی کسی کواندازہ ہواہوگا کہ انہوں نے اپنا یہ سفر آخرت کی طرف باندھ لیا،اورایسی موت آئی کی دنیا رشک کناں ہے،ایسی موت کہ جس پر فرشتہ بھی مچل اٹھے کہ کس شخص کو گلے لگایاہے اور کس کی روح کو قبض کیا ہے،کاش کہ ایسی موت ہرایک کو نصیب ہو،حالت سجدہ میں انسان خدا کے سب سے زیادہ قریب ہوا اوراللہ تعالیٰ اپنے پاس بلالے،ایساہی معاملہ مرحوم مولانا سہیل احمدندوی کے ساتھ پیش آیا۔آپ یوسی سی جیسے اہم مدعاکو لیکر اڈیشہ کے سفر پر تھے لوگوں کو دین وایمان کی حفاظت کے لیے بیدارکررہے تھے کہ خود ہی راہی عدم ہوگئے اور باری تعالیٰ کے دربارمیں مورخہ26/جولائی 2023ء کو سجدہ کی حالت میں چلے گئے،اناللہ واناالیہ راجعون۔آپ کے انتقال کی جب خبر ملی تو کسی کو یقین بھی نہیں ہورہاتھا،ہوتا بھی کیسے؟صبح ۸/بجے زوم ایپ پر میٹنگ حضرت امیر شریعت وذمہ داران امارت شرعیہ کے ساتھ میٹنگ میں شریک رہے،ساتھ ہی اپنے ہم منصب نائب ناظم امارت شرعیہ جناب مولانا مفتی محمد سہراب ندوی صاحب سے ساڑھے گیا رہ بجے فون پر بات کی کاموں کی نوعیت اورحال احوال سے واقف کرایا،پھر ظہر کی نماز میں سجدہ کی حالت میں یہ واقعہ پیش آیا۔

مولانا سہیل احمد ندوی کی پیدائش ان کے گاؤں بگہی دیوراج ضلع چمپارن میں 5/جون1962ء میں شکیل احمد کے گھر ہوئی، ان کاگھرانہ کافی خوشحال اور دیندار گھرانہ تھا،ان کے آباؤاجداد نے خاص کر ان کے دادا جناب عدالت حسین کا شمار مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے،گاندھی کی نے جب نئے آندولن کی شروعات کی تو ان کے گھر پرقیام رہتا،انہوں نے اپنی تعلیم کا باضابطہ آغاز جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمر ا سے کیا،جہاں انہوں نے حفظ مکمل کرنے کے بعد ابتدائی فارسی وعربی کی تعلیم جامعہ اسلامیہ بتیا سے حاصل کی،اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انہوں نے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور بڑے بڑے علماء سے کسب فیض کیا،دارالعلوم میں کچھ ناگزیر حالات کے بعد اپنے آبائی وطن لوٹ آئے اورپھر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا رخ کیا،جہاں انہوں نے اپنی تعلیم کی تکمیل کی،اللہ تعالیٰ نے ان کو بے پناہ صلاحیتوں سے سے نواز اتھا،وہ اپنے صف کے ذہین،ممتاز اورمحنتی طالب علم شمار کیے جاتے تھے،دوران طالب علمی وہ بچوں کی انجمن ”جمعیۃ الاصلاح“کے ناظم بھی رہ چکے ہیں، تقریروتحریر میں بھی کافی درک رکھتے تھے،باری تعالیٰ نے بہت ساری خوبیوں اورصلاحیتوں سے نواز ا تھا، وہ نڈر اور بے خوف رہاکرتے تھے،قرآن پاک کی تلاوت ان کا معمول تھا، سفر میں گاڑیوں پر بھی اس کو اپناتے،صدقہ کو تو اپنا لازمی حصہ سمجھتے تھے،اگر کسی دن وہ خود سے کسی غریب،فقیر کی مدد نہ کرلیتے تو پریشان رہتے،بسااوقات کسی کو تاکید کرکے اپنی طرف سے صدقہ اداکرنے کے لیے کہتے،جس کے امارت شرعیہ و ٹیکنیکل و ہاسپیٹل کے کارکنان گواہ ہیں،لوگو ں سے ملنے کا انداز بڑانرالہ تھا،کیا بچہ،کیا بوڑھا،کیا چھوٹے کیا بڑے ہرایک سے تپاک سے ملتے،بڑے پیار اور محبت کابرتاؤ کرتے،عاجزی اور نرمی سے اپنے چھوٹے کو بھی ”بھائی،بھیا“ کہنے میں دریغ نہیں کرتے تھے،غرض کی بہت ساری خوبیاں تھیں جو اللہ نے ان کو عطا کی تھیں،یقینا ایسے انسان کا ہمارے بیچ سے اٹھ جانا جہاں پر ان کے اہل خانہ کا نقصان ہے وہیں پر ہم جیسے چھوٹوں کا بھی خسارہ ہے،جب وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فارغ ہوکر آئے تو امارت شرعیہ کے اکابر نے ان کی صلاحیتوں کو پرکھ لیا امیر شریعت رابع حضرت مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ نے امارت شرعیہ میں آپ کی بحال فرمائی اور باضابطہ طورپر امارت شرعیہ سے منسلک ہوگئے،اورامارت شرعیہ کے کاموں میں لگ گئے،دن بہ دن ان کی ذمہ داریوں اور کاموں میں اضافہ ہوتاچلا گیا جسے پوری زندگی خوش اسلوبی سے نواز ا،گویا انہوں نے اپنی زندگی کو امارت شرعیہ کے لیے وقف کردیا اوراپنی زندگی میں پانچ امراء شریعت کے ساتھ کام کیا اورامارت شرعیہ کے کارواں کو آگے بڑھانے میں اپنی ہرممکن کوشش کی،اس وقت حضرت مولانا بحیثیت سکریٹری جنرل امارت شرعیہ ٹرسٹ کے تمام اداروں کو دیکھ رہے تھے اورامیر شریعت کی نگرانی میں پورری فکرمندی کے ساتھ آگے بڑھا رہے تھے،چاہے مولاناسجادمیموریل اسپتال ہو یامولانا منت اللہ رحمانی ٹکیکنیکل انسٹی،پارامیڈیکل ہویا دارالعلوم الاسلامیہ کی ذمہ داری بڑی خوش اسلوبی سے اپنے کاموں کو انجام دیا،اوردین وشریعت کی حفاظت کرتے کرتے دوران سفر کٹک اڈیشہ میں سجدہ کی حالت میں جان جان آفریں کے سپرد کی۔ آپ کی وفات کی خبر جیسے ہی امارت شرعیہ میں پہونچی ہرایک پر گویاسکتہ ساطاری ہوگیا،تمام کارکنان وذمہ داران غموں سے بوجھل ہوگئے،ہرایک سوگوار ہوگیا۔ان کی وفات کا اثر حضرت امیر شریعت مدظلہ پر بھی پڑاآپ اپنے تعزیتی بیان میں کہتے ہیں کہ: ”امارت شرعیہ کے نائب ناظم،میری متحریک وفعال ٹیم کے ایک فرد حضرت مولانا سہیل احمد ندوی صاحب ؒ اس دارفانی سے کوچ کرگئے،ہم سب اس اندوہناک خبر پر ان کے اہل خانہ کے ساتھ غم میں برابر کے شریک ہیں“

سچ کہوں تو کسی کو یقین تک نہیں ہورہا تھا کہ حضرت مولانا اب ہمارے بیچ نہیں رہے؛مگر بات وہی کہ موت کا کوئی بھروسہ اورٹھکانہ نہیں،اس کا کسی کوکوئی اندازہ نہیں کہ کب؟کہاں اور کس حالت میں موت کا فرشتہ پیام اجل لیے سامنے آجائے،سچ ہے کہ موت ایک حقیقت اور اٹل شئے ہے،جس کا تلخ جام ہرایک ذی روح کوپینا ہے،اس سے کسی کو رستگاری نہیں،بس فرق اتنا ہے کہ آج ان کی تو کل ہماری باری ہوگی سچ کہا ہے ‘‘ کل شئی ہالک الاوجھہ’’ (سورۃالقصص:۸۸) کہ اس ذات خداوندی کے علاہ سب سب کو فنا ہوجاناہے، بس یہ ہے کہ ہم سب کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اپنے دامن کو گناہوں سے بچاکر اس زندگی کو اللہ کی طاعت اوران کی فرمانبرداری میں لگادینی چاہیے۔ مرزا شوقؔ لکھنوی نے کہاہے کہ:

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

خیر آپ کی لاش کو کٹک سے ایمبولینس کے ذریعہ امارت شرعیہ لایاگیا،جہاں پر آپ کے آخری دیدار کے لیے پٹنہ،قرب وجوار کے علاوہ امارت شرعیہ کے تمام اداروں کے کارکنان کی بھیڑ لگی ہوئی تھی،پھرامارت شرعیہ کے احاطہ میں آپ کی ایک نماز جنازہ امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم جناب مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب نے پڑھائی؛جبکہ ان کی آخری نماز حضرت مولانا محمد شمشاد صاحب رحمانی قاسمی نائب امیر شریعت بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ نے ان کے آبائی وطن بگہی دیوراج ضلع مغربی چمپارن میں شیخ عدالت حسین ہائی اسکول کے احاطہ میں پڑھائی اورآبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے،درجات کو بلند کرے اور ان کے اہل خانہ کو صبر واستقامت نصیب فرمائے نیز امارت شرعیہ کو ان کا نعم البدل عطافرمائے آمین یارب العالمین۔

You may also like