مصنف: ڈاکٹر مفتی محمد اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی، استاذ دار العلوم دیوبند
صفحات: 95
سنہ اشاعت: شعبان المعظم 1444ھ = مارچ 2023ء
ناشر: شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم دیوبند
کرونا وائرس (کوڈ – 19) کی وجہ سے ملک میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیمی نظام معطل چل رہا تھا، مادر علمی دار العلوم دیوبند میں بھی تعلیمی سلسلہ منقطع تھا اور طلبہ اپنے گھروں پر تھے؛ مگر اساتذۂ کرام کا قیام؛ اب بھی دار العلوم دیوبند میں تھا، تبھی دار العلوم دیوبند کے انتظامیہ کی جانب سے اساتذۂ دار العلوم کے ذمے دو کام سپرد کیے گئے: ایک مساجد میں اصلاح معاشرہ پر بیانات کی ذمے داری؛ دوسرے اساتذہ سے اکابر یا متقدمین علمائے دیوبند کی کتابوں پر تحقیق و تعلیق اور نئے موضوعات یا عنوانات پر از سر نو کتابوں کی تالیف و تصنیف۔ اس دوسرے کام کے لیے ”تحقیق و تالیف کمیٹی“ کے عنوان سے باقاعدہ ایک کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی، جس کے لیے بہ حیثیت سرپرست مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوریؒ کا انتخاب عمل میں آیا (افسوس کہ باقاعدہ طور پر اس سلسلے کی کسی تصنیف کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی قاری صاحب اس دار فنا سے دار بقا کی طرف رحلت فرما گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون)۔ بہت سے اساتذہ نے اپنی اپنی دلچسپی کے تحت عناوین کا انتخاب کیا۔
اسی پس منظر میں ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی نے بھی اپنے لیے یہ خیال کرتے ہوئے مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ کی حیات و خدمات پر مواد جمع کرنے کا ارادہ کیا کہ ایسے اکابر کا انتخاب کیا جائے، جن پر لکھا ہی نہیں گیا ہے؛ یا کم لکھا گیا ہے، پھر انھوں نے اپنا یہ ارادہ مہتمم دار العلوم دیوبند مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی حفظہ اللہ و رعاہ کے سامنے ظاہر کیا تو انھوں نے اس ارادے کی تحسین کی اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اس طرح کی کئی اور شخصیات پر کام کیے جانے کی طرف توجہ دلائی اور اس کی ضرورت کو بتلایا۔
مہتمم صاحب کی حوصلہ افزائی کے چند دنوں بعد ان کے والد ماجد مرحوم و مغفور ہو گئے، تو ذہنی اضمحلال کا شکار ہو گئے اور پورے گھر کی ذمے داری ان کے سر آ گئی، تبھی ”تحقیق و تالیف کمیٹی“ کے کنوینر اور شیخ الہند اکیڈمی کے نگراں مولانا مفتی عمران اللّٰہ صاحب قاسمی غازی آبادی کے مسلسل اصرار سے مؤلف موصوف نے کام شروع کیا اور کتاب کی تحسین و اضافۂ مواد کے سلسلے میں دار العلوم دیوبند کے مؤقر استاذ حدیث اور ماہنامہ دار العلوم دیوبند کے مدیر اعلیٰ مولانا محمد سلمان بجنوری اور شیخ الہند اکیڈمی کے استاذ مولانا مفتی محمد سلیمان قاسمی خوشحالپوری کے مشوروں کا بھی ساتھ رہا۔
زیر تبصرہ کتاب کے اندر مقدمے میں مصنف نے اولاً اختصار کے ساتھ ”سوانح“، ”تذکرہ“، ”خاکہ“، ”آپ بیتی“ اور ”خود نوشت“ کے مابین کے فرق کو واضح کیا ہے، سوانح نگاری میں رائج خرابیوں کو بیان کرکے درست اور معتدل راہ کی رہنمائی کی ہے، پھر انھوں نے اپنی کتاب کے مشمولات کو بیان کرتے ہوئے کتاب کی وجہ تالیف کی صراحت کی ہے۔
کتاب کے مشمولات:
(1) مولانا اکبر آبادیؒ کی ولادت اور ان کا خاندانی تعارف، (2) زمانۂ طالب علمی؛ خصوصاً دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی، زیر نصاب کتابوں اور ان کے اساتذۂ کرام سے ان کے تعلق یا اساتذۂ کرام کے نزدیک ان کی قدر و منزلت کا تذکرہ، (4) دینی علوم کی تحصیل کے بعد کن کن دانش گاہوں میں انھوں نے عصری علوم حاصل کیے؟ اس کا بیان، (5) تعلیم سے فراغت کے بعد کی زندگی کا تذکرہ کہ کہاں کہاں ان کی ملازمت رہی اور کن کن دانش گاہوں سے ان کی تدریسی یا انتظامی وابستگی رہی، (6) انھوں نے مادر علمی دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن رہتے ہوئے، مادر علمی کے لیے کیا کیا خدمات انجام دیں؟ اس کی وضاحت، (7) شیخ الہند اکیڈمی کے قیام میں ان کا کیا رول رہا اور اس کے لیے ان کی کیسی خدمات رہیں، اس کا تذکرہ، (8) ان کے اسلوب نگارش، ان کی تبصرہ نگاری اور اداریہ نگاری کا تجزیہ، (9) ندوۃ المصنفین، دہلی کے تئیں ان کی علمی و قلمی خدمات کا تذکرہ، (10) علمی اسفار اور اعزازات و مناصب کا تفصیلی تذکرہ۔ تلک عشرۃ کاملۃ
مؤلف موصوف کا اردو زبان و قلم سے گہرا رشتہ ہے اور تصنیف و تالیف سے ان کی وابستگی دیرینہ ہے، ماقبل میں ان کی کئی قلمی کاوشیں منظر عام پر آ چکی ہیں؛ جیسے: طرازی شرح سراجی (فارسی، پشتو اور بنگلہ زبانوں میں بھی جس کے ترجمے ہو چکے ہیں)، ”کلیات کاشف“ کی ترتیب و تحشیہ، خاصیاتِ فصولِ اکبری کی تحقیق و تعلیق کے ساتھ اردو میں مستقل اشاعت، مالا بد منہ کا سلیس اردو ترجمہ، ”النور الفائض علی نظم الفرائض“ یعنی علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے منظوم رسالے اور اس پر مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ کے لکھے ہوئے تتمے کا اردو ترجمہ و تشریح اور رسالہ ”ایمان بچائیے!“۔
”ایم فل“ اور ”پی ایچ ڈی“ کے لیے پیش کیے گئے ان کے دو مقالے ”چند منتخب علمائے دیوبند کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ“ اور ”علمائے دیوبند کی اردو سوانح نگاری کا تنقیدی جائزہ (آزادی سے قبل)“ کے عنوان سے بھی ہیں، جنھیں شائع کیا جائے تو دو ضخیم اور وقیع کتابیں تیار ہو جائیں۔ اسی طرح مختلف رسالوں اور سیمیناروں میں پیش کیے گئے ان کے مقالوں کو جمع کیا جائے، تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو جائیں۔
ان سب کے علاوہ دار العلوم دیوبند میں کئی سالوں سے ترجمۂ قرآن مجید کا ایک حصہ بھی ان سے متعلق ہے، جس کے ساتھ ساتھ کئی سالوں سے ترجمۂ قرآن پر بھی کام کر رہے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب اپنے مواد، ترتیب، اسلوب، طباعت اور ٹائٹل وغیرہ کے لحاظ سے بہترین ہے۔ امید ہے کہ قارئین اسے بصد شوق قبولیت کے ہاتھوں لے کر اس سے استفادہ کریں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ مؤلف موصوف کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور ان کے بیان و قلم سے پورے عالَم کو سیراب کرے۔ آمین