جامعۃ الفیصل ، راجہ کا تاج پور (بجنور) میں رابطہ ادب اسلامی ہند کا 39 واں سمینار حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمہ اللہ کی حیات و خدمات پر منعقد ہوا – اس کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔
جامعۃ الفیصل کے بانی مولانا سراج الدین ندوی علمی دنیا کی معروف شخصیت ہیں – سرگرم سماجی زندگی گزارنے کے ساتھ تصنیف و تحقیق کے میدان میں بھی آپ کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے – اسلامیات کے مختلف پہلوؤں پر آپ کی تصانیف مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی ، ملّت اکیڈمی سرکڑہ ، بجنور اور دیگر اشاعتی اداروں سے طبع ہوچکی ہیں – آپ کا ایک اہم کام ابتدائی اور ثانوی سطح کے درجات کے لیے دینی نقطۂ نظر سے مختلف مضامین کی نصابی کتابوں کی تیاری اور اشاعت ہے – جامعۃ الفیصل کو قائم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے ، لیکن آپ کی سربراہی میں وہ تیزی سے ترقی کے مراحل طے کررہا ہے – یہاں دو تین برس قبل ادبِ اطفال پر ایک بڑا سمینار ہوا تھا ، اب رابطہ ادب اسلامی کے تحت یہ دوسرا سمینار ہورہا ہے۔
اس سمینار میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ، مظاہر علوم سہارن پور ، جامعہ شاہ ولی اللہ پھلت مظفر نگر ، دار العلوم تاج المساجد بھوپال ، جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ اور دیگر متعدد مدارس و جامعات کے ذمے داران ، اساتذہ اور نمایاں شخصیات شریک ہوئیں – افتتاحی اجلاس کی صدارت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی کی – مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی سکریٹری رابطہ نے رپورٹ پیش کی – کچھ مہمانانِ خصوصی کو تاثرات پیش کرنے کا موقع دیا گیا ، جن میں پروفیسر محسن عثمانی ندوی ، پروفیسر شفیق احمد ندوی ، پروفیسر محمد حسان خاں ، مولانا محمد طاہر مدنی ، مولانا عامر شادی اور مولانا شاہد الحسنی مظاہر علوم کے صاحب زادے (نام یاد نہیں رہا) خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔
راقمِ سطور سے بھی اظہارِ خیال کی خواہش کی گئی – میں نے عرض کیا کہ برِّصغیر ہند میں آزادی کے بعد ادبِ اسلامی کی آواز بلند کرنے میں دو اداروں کا اہم کردار ہے : ایک تحریک اسلامی ہند کے وابستگان کا قائم کردہ ادارۂ ادبِ اسلامی ہند اور دوسرا مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی تحریک پر قائم ہونے والا ادارہ ‘رابطہ ادب اسلامی’ – مولانا علی میاں نے بہت پہلے ادب اسلامی کا نعرہ بلند کیا تھا اور اس کا بہت واضح فکر پیش کیا تھا – دار العلوم ندوۃ العلماء میں1981 میں ادب اسلامی پر پہلا بین الاقوامی سمینار منعقد ہوا تھا ، جس میں عالم عرب کے چوٹی کے ادباء نے شرکت کی تھی – اس کے چند برس کے بعد ‘رابطۃ الادب الاسلامی العالمیۃ’ کے نام سے ایک بین الاقوامی فورم تشکیل پایا تھا – اس کی برِّصغیر شاخ کے تحت اب تک 38 سمینار ہوچکے ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ ایک زمانہ تھا جب ادب پر بے دین اور اشتراکیت زدہ لوگوں کا قبضہ تھا – زلف و رخسار اور شراب و شباب کی باتوں کو ادب سمجھا جاتا تھا – اسلامی فکر پیش کرنے والے ادباء کو خاطر میں نہیں لایا جاتا تھا ، بلکہ ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا – لیکن الحمد للہ حالات بدل گئے ہیں ، یہاں تک کہ اب ادبِ اسلامی کا اعتراف کیا جانے لگا ہے اور اس سے وابستہ ادباء کی کاوشوں کو اہمیت دی جانے لگی ہے –
آخر میں میں نے نوجوان قلم کاروں کو مخاطب کرکے کہا کہ ہمیں یہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ادب کیا ہے؟ سپاٹ اور بے جان تحریروں کو ادب نہیں کہا جاتا – کسی موضوع پر لکھی جانے والی ہر تحریر کو ادب میں شامل نہیں کیا جاتا – ادبی تحریر میں دو خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہے : ایک یہ کہ وہ سادہ اور سلیس ہو – دوسرے یہ کہ اس میں فنّی خوبیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔
مولانا بلال حسنی نے اپنے صدارتی خطبے میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی خدمات کا تذکرہ کیا ، ادب اسلامی کے میدان میں ان کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی اور ان کی تحریروں کی ادبی خوبیاں بیان کیں۔
اس موقع پر دو کتابوں کا اجرا عمل میں آیا : ایک مولانا سراج الدين ندوی کی کتاب ‘جو اکثر یاد آتے ہیں’، جو کچھ شخصیات پر مولانا کے تاثراتی مضامین کا مجموعہ ہے – ناشر : دار الکتاب دیوبند ، صفحات : 336 ، قیمت : 300 روپے – دوسرا بچوں کے ماہ نامہ ‘اچھا ساتھی’ کا مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نمبر ، جس میں مولانا کی شخصیت پر بچوں کے لیے بہت آسان زبان میں لکھے گئے مضامین جمع کیے گئے ہیں – صفحات : 128 رنگین ، قیمت :75 روپے۔
مقالات کے اجلاس بعد نماز مغرب اور کل ظہر تک چلیں گے – مولانا سراج الدین ندوی نے بتایا کہ 60 مقالات موصول ہوئے ہیں ۔