Home ستاروں کےدرمیاں مولانا نور عالم خلیل امینی:مِرے گُلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب- نایاب حسن

مولانا نور عالم خلیل امینی:مِرے گُلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب- نایاب حسن

by قندیل

(۱۱؍ویں قسط)

نوے کی دہائی میں ہی(۱۹۹۲۔۱۹۹۵) بوسینیا اور ہرزیگووینا کے لاکھوں مسلمانوں کو سربوں نے قتل کیا،ہزاروں مسلم خواتین کی آبرو ریزی کی گئی،لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور بے شمار بچوں کی اسمگلنگ کی گئی، انھیں عالمی انسانی منڈی میں بیچا گیا۔ اس موقعے پر بھی مولانا نے اپنا فکری،صحافتی،انسانی و اسلامی فریضہ پورے احساسِ ذمے داری کے ساتھ ادا کیا اور’’سنکون مذنبین أمام اللہ والتأریخ لو عادت البوسنۃ أندلسا جدیدا‘‘(اگر بوسینیا نیا اندلس بن جاتا ہے،تو ہم سب تاریخ کی نظر میں اور خدا کے یہاں گناہ گار قرار دیے جائیں گے) جیسے مضامین میں عالمی اداروں اور انسانیت نوازی کا ڈھونگ کرنے والے ملکوں اور اداروں کے نفاق و مسلم دشمنی کو واشگاف کرتے ہوئے خود اسلامی دنیا کی بے حسی اور دیوثیت پر ضربیں لگائیں۔

اسی طرح عراق کے خلاف امریکی سازش کو بھی مولانا نے لگاتار اپنی تحریروں کے ذریعے بے نقاب کیا اور مسلسل لکھتے رہے کہ صدام حسین لاکھ برا ہے،مگر وہ عربی و اسلامی قوم سے ہے،عراقیوں کا اپنا ہے،سو اس کی اصلاح کے لیے خود اس کی قوم سے کوئی جیالا نکلے،مگر اس کو منظرنامے سے ہٹانے کے لیے جو قوتیں سرگرمِ عمل ہیں،ان کی نیتیں ٹھیک نہیں اور وہ عراق کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ نائن الیون حادثے کے بعد امریکہ نے اسلامی دنیا کے خلاف جس قسم کی عالمی فضا بندی کی تھی،اس میں انصاف پسند مبصرین اور حقیقت نگار اصحابِ قلم کی تعداد وآواز غیر مؤثر ہوکر رہ گئی تھی،سو بولنے والے بولتے رہے اور لکھنے والے لکھتے رہے،جبکہ عالمی طاقت ہونے کے شیطانی زعم میں مبتلا امریکہ اپنی تمام تر طاقت و قوت اور بین الاقوامی تایید و حمایت کے ساتھ دنیا کو خطرناک ہتھیاروں اور تباہی سے بچانے کے ہمدردانہ و انسانیت نواز نعرہ بلند کرتے ہوئے ۱۹؍مارچ ۲۰۰۳ کو عراق پر چڑھ دوڑا اور چند مہینوں میں اس کی اینٹ سے بجاکر رکھ دی۔ آج جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ عراق میں کیا چل رہا ہے اور خطرناک ہتھیار رکھنے کے الزام میں اس پر بم و بارود انڈیلنے،صدام حسین کو قید اور پھر تختۂ دار تک پہنچانے، اب تک کئی غیر مستحکم کٹھ پتلی حکومتیں بنوانے ،شیعہ سنی تفریق و افتراق کی آگ بھڑکانے اور آئی ایس آئی ایس کا نیا عفریت کھڑا کرنے کے علاوہ امریکہ نے وہاں کیا کیا ہے۔

فلسطین تو مولانا کے دل و دماغ میں بستا تھا،انھوں نے عالمِ اسلام کے ملکوں میں سب سے زیادہ فلسطین کے بارے میں لکھا۔ وہاں رونما ہونے والی ادنی سے ادنی تبدیلی بھی ان کی نظرمیں رہتی تھی اور گویا وہ فلسطین کی روز مرہ کی خبروں سے واقف رہتے تھے۔ انھوں نے گزشتہ چالیس سال کے دوران تمام عالم اسلام کو پیہم یاد دلایا کہ فلسطین کے تئیں ان کے ذمے داری کیا ہے اور اسرائیلی ظؔلم و جبر اور سلب و نہب کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا فلسطینی شہری ہی نہیں ؛ روئے زمین کے ہر مسلمان؛بلکہ ہر انصاف پسند فردِ بشر کا اخلاقی و انسانی فریضہ ہے۔ انھوں نے آزادیِ فلسطین کے لیے جدوجہد کرنے والے ہر شخص اور تنظیم کی پر زور حمایت و تائید کی اور اسلامی دنیا کو اسی کی تاکید بھی کرتے رہے۔ انھوں نے فلسطین کی تہذیبی،ثقافتی،مذہبی،جغرافیائی،سیاسی و سماجی خصوصیات، سانحات، واردات، تغیرات و انقلابات،صہیونی تسلط و مظالم کی پوری تاریخ  پر اتنا لکھا کہ ۶۶۱ صفحے کی ایک ضخیم کتاب تیار ہوگئی،جو۲۰۰۸ میں عربی اور اردو دونوں زًبانوں میں شائع ہوئی۔اس کتاب کو عالم عربی واسلامی میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور مسئلۂ فلسطین سے دلچسپی رکھنے والے تمام حلقوں میں اسے متعلقہ موضوع پر جامع ترین دستاویز قرار دیا گیا۔ تب سے اب تک اس کے کئی ایڈیشن آئے اور عربی و اردو میں دسیوں تبصرے لکھے گئے،آسام یونیورسٹی سے اسی کتاب پر ۲۰۱۳ میں پی ایچ ڈی بھی کی گئی ہے۔ کنگ خالد ملٹری اکیڈمی کے پروفیسر یوسف کامل خطاب نے اکیڈمی کے مجلے میں اس پر چھ صفحات کا نہایت مبسوط اور سیر حاصل تبصرہ کیا تھا،اس میں انھوں نے کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں لکھا:

’’ومؤلف الكتاب هو أحد أولئك المفكرين المسلمين الذين نبض قلبهم بحب فلسطين، وانشغل فكره بقضيتها، وتألّم ضميره لما يحدث لشعبها على أيدي الصهاينة النازيين، واجتاح الأسى جوانحه لما يتعرّض له مسرى رسول الله (صلى الله عليه وسلم) ومعراجه من انتهاكات صارخة ومحاولات حثيثة خبيثة لهدمه وتدميره، وإقامة (هيكل اليهود) المزعوم على أنقاضه؛ فجعل من قضية فلسطين همّه الدائم وشغله الشاغل، وطفق منذ العام (1982م) يتتبع أخبارها، ويراقب أحداثها، ويحصي تطوراتها، وينقل ذلك كله – منطلقًا من رؤية إسلامية واعية – إلى قراء اللغتين: العربية والأردية – اللتين يتقنهما المؤلف – عبر مؤلفاته الفكرية العديدة، ومقالاته المتعددة التي نشرت – وما تزال تنشر – على صفحات المجلات العربية والباكستانية والهندية، وخصوصًا مجلة (الداعي) الشهرية، التي يتولى المؤلف رئاسة تحريرها منذ (27) عامًا،

أزعم أننا أمام سجِلٍّ مكتمل للقضية الفلسطينية، منذ أن كان قدوم اليهود الصهاينة إلى أرض فلسطين ليدنسوا ثراها الطاهر بإقامة كيانهم الغاصب على أرضها، ، وحتى تحوّل هذا الكيان المحتل إلى قوة إقليمية عظمى في المنطقة، تعربد فيها كيفما شاءت؛ وتعتدي فيها على من تريد.

وتبقى الإشارة أخيرًا إلى أن هذا السفر القيّم، قد دُوِّن بأسلوب أدبي رصين ولغة بليغة راقية، ودُعِّم بالشروح والتفاصيل، وزوِّد بالأرقام والتواريخ لما تضمنه من حقائق ومعلومات ورؤى وتحليلات؛ وهذا مما يعلي من قيمة الكتاب وفائدته لقارئه، الذي – لاشك – أنه سيُقرُّ بصواب المؤلف وبلاغته وحنكته في اختيار عنوان كتابه: (فلسطينُ في انتظارِ صلاحِ دينٍ‘‘.(مجلۃ کلیۃ الملک خالد العسکريۃ،مارچ ۲۰۰۹)

(اس کتاب کے مؤلف ایسے مسلم مفکرین میں سے ہیں جن کا دل فلسطین کی محبت میں دھڑکتا ہے،وہ ہمیشہ اس قضیے کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں، صہیونیوں کے ہاتھوں کیے جانے والےمظالم پر ان کا دل کڑھتا ہے اور معراج کی رات رسول اللہﷺ کی گزرگاہ کا شرف حاصل کرنے والی مسجد اقصی کی صریح بے حرمتی،اس کے انہدام اور اس کے ملبوں پر مفروضہ یہودی ہیکل کی تعمیرکی خبیثانہ تدبیروں پر ان کا دل دکھتا اور بے چین ہوتا ہے؛جس کی وجہ سے قضیۂ فلسطین پر لکھنے پڑھنے کو انھوں نے وظیفۂ حیات بنالیا ہے،۱۹۸۲ سے وہاں کے حالات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ، واقعات و حوادث کا گہرائی سے مشاہدہ کررہے ہیں اور انھیں اپنی متعدد فکر انگیز کتابوں اور عرب ممالک و ہندو پاکستان کے عربی و اردو قارئین کے لیے وہاں کے رسائل و مجلات،خصوصاً ماہنامہ ’’الداعی‘‘(جس کے وہ ۲۷سال سے مدیر ہیں)کے صفحات پر عربی و اردو زبانوں (جن میں انھیں مہارت حاصل ہے)میں اشاعت پذیر اپنے مقالات میں ان کا تجزیہ کرتے رہے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ صہیونیوں کے ناپاک قدم ارضِ مقدس پر پڑنے اور وہاں اپنی ظالمانہ ،وحشیانہ حکومت قائم کرنے سے لے کر اب تک کی تاریخ کی ایک مکمل دستاویز اس کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے آگئی ہے۔

اخیر میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ قیمتی کتاب اسلوب و زبان کے اعتبار سے بھی معیاری اور باوقار ہے،متعلقہ موضوع پر تمام تر ضروری تشریحات و تفصیلات فراہم کی گئی ہیں،اہم حقائق و معلومات اور افکار و تحلیلات پر مشتمل اعداد و شمار اور تواریخ سے اس کتاب کو آراستہ کیا گیا ہے،جو قاری کے لیے اس کتاب کی قدر و قیمت و افادیت کو دو چند کردیتی ہیں۔ کتاب کے نام’’فلسطین في انتظار صلاح دین‘‘ سے بھی مصنف کی لسانی مہارت،اصابتِ فکر اور ادبی و بلاغی خوش مذاقی کا پتا چلتا ہے)

فلسطین سے غیر معمولی محبت اور اس کے قضیے سے بے انتہا دلچسپی کا ہی نتیجہ تھا کہ پچھلے سال ٹرمپ کی رخصتی سے کچھ دنوں قبل جب متعدد عرب ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی خبریں آئیں؛بلکہ یواے ای،بحرین اور سوڈان کے ذریعے عملاً انھیں بحال کرلیا گیا،تو مولانا بے چین ہواٹھے اور عربوں کی اس ابلہانہ حرکت پر سخت حیرت و تاسف کا اظہار کرتے ہوئے پوری صراحت و جرأت کے ساتھ، تاریخی واقعات و حقائق کی روشنی میں واضح کیا کہ صہیونیوں کے ساتھ  تعلقات گانٹھنا نہ ماضی میں کبھی مفید ثابت ہوا اور نہ مستقبل میں اس کی امید ہے۔ انھوں نے ان ملکوں کے اس اقدام کو فلسطین دشمنی،مفاد پرستی ،بے غیرتی پر مبنی قرار دیا اورقلبی اذیت و اضطرب کے احساس کے ساتھ لکھا:

’’في زمن الخنوع والاستسلام لا یثیر العجب أي مفاجأۃ تحدث في الساحۃ العربیۃ الإسلامیۃ؛لأن عملیۃ غسیل الأدمغۃ العربیۃ المجراۃ منذ الأمد الطویل قد جرد القادۃ والحکام العرب من الشيء الکثیر من النخوۃ العربیۃ فضلا عن الغیرۃ الإسلامیۃ التي بعد عھدھم بھا،فلم تعد لدیھم معرفۃ بأي معنی لھا۔ وذلک مکمن الداء و مصدر البلاء؛ولکن اللہ العزیز الجبار المتکبر قادر علی تغییر اللیل والنھار وتقلیب الأحوال وسلب الحولین القلبین من الصھاینۃ والمسیحیین المتشبعین بالروح الصلیبیۃ التي نشطت الیوم بنحو یحیر الألباب۔۔۔ سلبھم حیلھم ومکرھم و مفعولھا‘‘۔(الداعی، اکتوبر-نومبر۲۰۲۰)

(خود سپردگی و شکست خوردگی کے اس زمانے میں عالمِ عربی میں واقع ہونے والے کسی بھی حادثے پر کوئی تعجب نہیں ہوتا؛کیوں کہ زمانۂ طویل سے عرب حکمرانوں کی جو برین واشنگ کی گئی ہے اس کی وجہ سے ان کے اندر عربی غیرت بھی بہت زیادہ باقی نہ رہی اور اسلامی حمیت سے تو وہ زمانہ ہوا،اپنا پیچھا چھڑا چکے ہیں،اب ان کا اس سے کسی معنی میں ،کوئی واسطہ بھی نہیں رہا۔ یہی بیماری کی جڑ اور ساری مصیبتوں کا منبع ہے؛لیکن اللہ تبارک و تعالی کی ذات شب و روز کو بدلنے،حالات کو پھیرنے اور أج حیرت ناک حد تک متحرک صلیبی روح سے سرشار مکار و خائن صلیبیوں اور صہیونیوں کے مکرو تدبیر کو بے اثر کرنے پر قادر ہے)

دنیا کے دوسرے خطوں کے مسلمانوں کے سیاسی ، سماجی وثقافتی مسائل سے بھی مولانا کامل آگاہی رکھتے تھے اور ان کے ممکنہ حل کے لیے بطور ادیب و صحافی و مفکر اپنا حصہ ضرور ڈالتے۔ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو درپیش منظم نسلی تطہیر ایک سلگتا ہوا انسانی بحران ہے،اسی طرح چین میں اویغور مسلم اقلیت قید و بند اور سرخ مظالم کی جن آندھیوں کی زد میں ہے،وہ بھی عالمِ انسانی کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ دنیا بھر میں تحفظِ حقوقِ انسانیت کے دسیوں ادارے ہیں اور طاقت ور ملکوں کے کئی بلاک،جو انسانوں کو بچانے اور ان کے حقوق کی بازیافت کے لیے بڑی بڑی پلاننگ کرتے رہتے ہیں،مگر دیگر بہت سے بحرانوں کے ساتھ روہنگیا و اویغور مسلمانوں کا بحران بھی علی حالہ قائم ہے۔ لوگ کچھ بھی کہیں،مگر ان کی حرماں نصیبی و خانماں بربادی کی اصل وجہ ان کا مسلمان ہونا ہی ہے۔ مولانا امینی نے اپنی فکری ،تجزیاتی و سیاسی تحریروں کا موضوع کئی بار ان محروم القسمت انسانی طبقات کو بھی بنایا،ان کی مظلومیت و مقہوریت کا سیاسی و تاریخی تجزیہ کیا اور عربی و اسلامی دنیا کو ان کا دینی ،اخلاقی و انسانی فریضہ یاد دلایا کہ وہ ان کی نجات و استخلاص کے لیے اقدام کریں۔ تازہ مضمون انھوں نے اسی سال مارچ کے ’’الداعی‘‘ کے شمارے میں لکھا تھا،جس کا عنوان تھا’’المسلمون الإیغور و ما یواجھونہ من الاضطھاد من قبل الحکومۃ الصینیۃ الشیوعیۃ‘‘(اویغور مسلمانوں پر چین کی اشتراکی حکومت کے مظالم کی داستان) ۔ چھ صفحات کے اس مضمون میں مولانا نے اویغور مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ چینی حکومت کے متعصبانہ برتاؤ کو اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں بیان کیا ہے،ساتھ ہی ان کے تئیں عالم اسلام کی سردمہری پر بھی کھل کر گفتگو کی ہے۔

(جاری)

 

 

You may also like

Leave a Comment