نائب امیر شریعت بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ
علامہ انور شاہ کشمیری ؒکے خانوادے کے روشن چراغ حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا نام ذہن میں آتے ہی دیوبند کی گلیاں،علم وعمل کی بستی اوردارالعلوم کی درسگاہیں وکہکشائیںن گاہوں کے سامنے جھلملانے لگتی ہیں اوریادوں کے دریچے کھل جاتے ہیں۔ ماضی میں جھانکتاہوں تو علم وادب کی چکا چوند میں کھو جاتا ہوں۔ایسے میں یادوں کا انتخاب اور بیتے لمحوں کو قابو میں کرنا اور صفحہ قرطاس پر اتارنا میرے لیے ایک مشکل کام ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا بھولوں اور کیا یاد کر وں:
غم زندگی تیری راہ میں
شب آرزو تیری چاہ میں
جو اجڑ گیا وہ بسا نہیں
جو بچھڑ گیا وہ ملا نہیں
ایسا لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے جب میں نے علمی تشنگی بجھانے کے لیے دیوبند میں قدم رکھا تھا،روحانیت میں ڈوبی اس بستی میں کتنے ایسے تھے جو علمی وراثت کو سنجوئے ہر آنے والے طالب کو منتقل کر رہے تھے۔میں اس رمز سے نا آشنا اپنی دھن میں یہاں کی خاک چھانتا رہا،دن مہینے اور سال گزرتے رہے،کب میں رسمی طور پر فارغ ہو گیا پتہ ہی نہیں چلا۔
اس زمانےمیں بھی مولانا سے ملاقاتیں رہیں؛لیکن جب میں دارالعلوم وقف میں استاذ کی حیثیت سے بحال ہوا تو آپ نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا،بلکہ میری حوصلہ افزائی کی ۔اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ طویل ہو تا چلا گیا۔انہوں نے کبھی بڑے اور چھوٹے کا رشتہ نہیں رکھا، بلکہ ہمیشہ ایک دوست کی طرح پیش آئے۔ ویسے بھی وہ نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے، ہٹو بچو اور استاذی رعب کے قائل نہیں تھے، طلبا کو اپنا دوست اور ساتھی سمجھتے۔جب جہاں ملاقات ہو جاتی رک جاتے اور خبر وخیریت پوچھے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔جب بھی ملتے پوری توجہ، خندہ پیشانی، بشاشت اور طیب خاطر کے ساتھ ملتے۔
امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈکی نئی ذمہ داری ملنے پر وہ کافی خوش تھے۔گذشتہ ماہ اگست کے دوسرے ہفتہ میں جب میر ا دیوبند جانا ہوا تو مولاناسے ملاقات ہوئی، کمر میں درد کی تکلیف کی بات کہہ رہے تھے۔میں نے سوچا یہ تو یہ معمول کا مرض ہے،جلد افاقہ ہو جائے گا۔ کیا پتہ تھا کہ کمر کا یہ درد آپ کو اپنے ساتھ ہمیشہ کے لیے لے کر چلا جائے گا اور یہ میری آخری ملاقات ثابت ہو گی۔مولانا کے فرزند ارجمندمولانا مفتی سید عبید انور شاہ نے کہا تھا کہ ستر فیصد افاقہ ہو گیا،ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ آپ اتنی جلد ہمیں چھوڑ جائیں گے،لیکن خدا کے فیصلے کو کون ٹال سکتا ہے۔
پڑھنے پڑھانے سے وابستہ حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ایک کامیاب استاذ ضرور تھے، لیکن ان کی انفرادیت کا جوہر یہ تھا کہ وہ صحیح معنوں میں علم وادب اور صحافت کے ایک اصلی مجنوں تھے۔لکھنے کے رسیا اور تحریر کے دیوانے مولانانسیم اختر شاہ قیصر نے کبھی اپنے ضمیر سے سمجھوتہ نہیں کیا، ان کی تحریر میں صداقت اور سچائیاں سانس لیتی تھیں۔وہ جو کچھ سوچتے، محسوس کر تے بلا لا گ ولپیٹ کے لکھ دیتے تھے۔ ادب، سیاست، انشائ، خاکہ اور مذہبی مضامین کو عصری پیرائے میں پیش کرنے میں ان کو ملکہ حاصل تھا۔مولانا کی تحریر سہل، رواں، معلوماتی، دلچسپ اور ادبی چاشنی سے لبریز ہوا کرتی تھی۔قاری اور پڑھنے والے کو اپنا اسیر کرتی چلی جاتی تھی، یہی وجہ ہے کہ جو آپ کا مضمون پڑھنا شروع کردیتا تو ختم کیے بغیر اسے اطمینان نہ ہوتا۔ اس چھوٹے سے مضمون میں ان کی پوری زندگی کو قید کرنا آسان نہیں ہے۔نہایت اختصار کے ساتھ ان کی زندگی کے شب وروز اور کارناموں کی ایک جھلک پیش کرتا ہوں۔
تعلیم و تدریس:
مولانا نسیم اختر شاہ قیصر 25 اگست 1960کو دیوبند میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا ازہر شاہ قیصرؒ، علامہ انور شاہ کشمیری کے فرزندِ اکبر تھے۔آپ نے تعلیم کی ابتدائ دار العلوم دیوبند سے کی، پھر اسلامیہ ہائی اسکول، دیوبند میں داخلہ لیا اور دسویں کا امتحان دیے بغیر 1976میں دوبارہ دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر 1981میں درس نظامی کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہوئے۔آپ نے صحیح بخاری حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب سے پڑھی۔اسکولی تعلیم کے دوران 1973سے 1975 تک انھوں نے ادیب، ادیبِ ماہر اور ادیبِ کامل کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ دینیات سے 1976 سے 1978 تک عالمِ دینیات، ماہرِ دینیات اور فاضلِ دینیات کی سند حاصل کی۔ پھر 1989 – 1990کے دوران میں ڈاکٹر بھیم راؤامبیڈکر یونیورسٹی، آگرہ سے ایم اے اردو کیا۔
مشاغل اور خدمات:
تدریس:1987 کو انھوں نے دار العلوم وقف دیوبند میں ملازمت اختیار کی اور 1989 سے تاحال وہیں پر تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔
مضمون نگاری :ان کی مضمون نگاری کی ابتدا جنوری 1973 میں تقریباً 13 سال کی عمر سے ہو چکی تھی، 1979 سے 1985 تک پندرہ روزہ اشاعت حق، دیوبند کے نائب مدیر اور 1985ء سے 1996ء تک اس کے مدیرِ اعلیٰ رہے۔ 1983ء میں اپنے والد سید محمد ازہر شاہ قیصرؒ کی سرپرستی میں ماہنامہ طیب، دیوبند کے سب ایڈیٹر ہوئے؛ بالآخر 1987ء میں جب ماہنامہ طیب بند ہونے لگا تو اپنے سابقہ پندرہ روزہ اشاعت پر توجہ دی، وہ بھی 1983ء میں بند ہو گیا، ایک عرصے تک ماہنامہ ندائے دار العلوم کی مجلسِ ادارت کے رکن رہے۔ اس کے علاوہ تقریباً چالیس سال سے ملک بھر کے پچاسوں ماہانہ، پندرہ روزہ اور ہفت روزہ رسائل و جرائد اور روزناموں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں، ان رسائل و جرائد میں ماہنامہ ندائے دار العلوم دیوبند، ماہنامہ طیب دیوبند، ماہنامہ محدث عصر دیوبند، ماہنامہ ترجمان دیوبند، ماہنامہ دار العلوم دیوبند، ماہنامہ اتباع سنت دیوبند، ماہنامہ اذان بلال آگرہ، ماہنامہ رگ سنگ کانپور، ماہنامہ صدائے حق گنگوہ، ماہنامہ حسن تدبیر دہلی، ماہنامہ الرشید ساہیوال پاکستان، ماہنامہ النصیحہ چارسدہ پاکستان اور ماہنامہ المرشد چکوال پاکستان شامل ہیں، پندرہ روزہ رسائل میں پندرہ روزہ دیوبند ٹائمز دیوبند، پندرہ روزہ یثرب دیوبند، پندرہ روزہ اشاعت حق دیوبند اور پندرہ روزہ فکر انقلاب دہلی شامل ہیں، ہفت روزہ رسائل میں ہفت روزہ راشٹریہ سہارا نئی دہلی، ہفت روزہ نئی دنیا دہلی، ہفت روزہ قومی آواز دہلی، ہفت روزہ ہمارا فیصلہ دہلی، ہفت روزہ چوتھی دنیا دہلی اور ہفت روزہ عقائد، سہارنپور شامل ہیں، اور روزناموں میں قومی آواز دہلی، عوام دہلی، مشرقی آواز دہلی، راشٹریہ سہارا دہلی، صحافت دہلی، ہمارا سماج دہلی اور انقلاب میرٹھ شامل ہیں، کالم نگار ی روزنامہ ہندوستان ایکسپریس، دہلی میں مسلسل تین سال اور روزنامہ ہمارا سماج، دہلی میں تقریباً دو سال تک کالم نگار رہے۔
خاکہ نگاری:مولاناشاہ قیصرؒ ایک خاکہ نگار بھی ہیں، ان کے قلم سے عالم اسلام کی گزشتہ و موجودہ کم و بیش سو لوگوں کے خاکوں پر مشتمل کتابیں آ چکی ہیں، جو تصانیف کے عنوان کے تحت درج ہیں۔ان کی خاکہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے اردو و عربی زبان کے مشہور ادیب و انشا پرداز پروفیسر محسن عثمانی ندوی رقم طراز ہیں:
’’بیسویں صدی کے نصف آخر میں بہت سے اچھے نمونے اور مجموعے خاکہ نگاری کے سامنے آئے ہیں، انھیں اچھی کتابوں میں نسیم اختر شاہ قیصر کی خاکہ نگاری کے نمونوں کو بھی رکھا جاسکتا ہے، اس سے پہلے مصنف کتاب کے دوسرے مجموعے ’’میرے عہد کے لوگ‘‘ اور ’’جانے پہچانے لوگ‘‘ شائع ہو کر خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں، ہر مضمون نظر کو خیرہ کرتا ہے؛ لیکن اس میں جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری نہیں ہے، مصنف کا انداز بیان ہر جگہ شاداب اور نو دمیدہ گلاب کی طرح شگفتہ ہے، کہیں کہیں بعض جملے اتنے اچھے ملتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ نسیمِ سحر کا تازہ جھونکا آگیا، اور کبھی کبھی لگاتار عبارتیں ایسی حسین ملتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ شہابِ ثاقب کی بارش ہورہی ہے، جو شخص بھی ان کی تحریر کا مطالعہ کرے گا محسوس کرے گا کہ اس تعریف و توصیف میں سچائی ہے۔‘‘
ریڈیائی نشریات:آ ٓل انڈیا ریڈیو دہلی کی اردو مجلس اور اردو سروس سے کافی ریڈیائی نشریات ہوئیں، حرفِ تابندہ اور خطبات شاہی نامی دو کتابیں؛ ان کی ریڈیائی تقاریر ہی کا مَظہَر ہیں۔
مرکز نوائے قلم:انہوں نے دیوبند میں زیر تعلیم طلبہ و مقامی افراد کی تحریری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انھیں صیقل کرنے کے لیے دیوبند ہی میں ’’مرکز نوائے قلم‘‘ کے نام سے ایک مرکز بھی قائم کیا، جہاں سے تربیت لے کر بہت سے طلبہ میدان صحافت میں اتر چکے ہیں۔
تصانیف:مولانا کی بائیس کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جن کے نام درج ذیل ہیں-حرفِ تابندہ،خطبات شاہی، مقبول تقریریں،سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واقعات کے آئینے میں،میرے عہد کے لو گ،جا نے پہچانے لوگ،خوشبو جیسے لوگ،اپنے لوگ،کیا ہوئے یہ لوگ،میرے عہد کا دار العلوم،دو گوہرِ آب دار،امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری اوررئیس القلم مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر – زندگی کے چند روشن پہلو، امام العصرشیخ انظر: تاثرات و مشاہدات،اکابر کا اختصاصی پہلو،وہ قومیں جن پر عذاب آیا،اسلام اور ہمارے اعمال،اعمال صالحہ،اسلامی زندگی،اوراق شناسی وغیرہ۔
تواضع وسادگی:آپ نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے،کھانے ،پینے مکان اورگاڑی ہر چیز میں سادگی تھی ،خاندانی طمطراق نہیں تھااورنہ ہی ملاقاتوں میں کوئی تکلف،ہرچھوٹے بڑے سے خندہ پیشانی سے ملتے ،ملاقات کے وقت میں کوئی پابندی نہیں تھی،حتیٰ کہ دوپہر میں بھی وہ دیوبند آنے والے مہمانوں سے ملتے تھے،ان کی ضیافت بھی مشہور تھی،کھلا کر بے حد خوش ہوتے تھے:
ایساکہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے
مولانا کی تینتیس سالہ مدت تدریس،مختلف علاقوں میں دینی خدمات اور تصانیف آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں جن کا ثواب آپ کو پہنچتا رہے گا،اپنی خدمات اور کارناموں سے آپ ہمیشہ عوام وخواص کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ پروردگار آپ کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آپ کے خاندان، دار العلوم وقف دیوبند اور امت مسلمہ کو نعم البدل عطا فرمائے۔آمین