Home ستاروں کےدرمیاں اخلاق،سادگی وفیاضی کا پیکر مولانا نسیم اختر شاہ قیصر-ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

اخلاق،سادگی وفیاضی کا پیکر مولانا نسیم اختر شاہ قیصر-ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

by قندیل

رام لکھن سنگھ یادو کالج ،بتیا،مغربی چمپارن

ہائے !۔۔۔۔مولانا نسیم اختر شاہ قیصربھی مرحوم ہوگئے، کس زبان سے کہوں اور کس قلم سے لکھوں کہ مولانا مرحوم ہوگئے ۔شفقت کا سایہ اٹھ گیا،خلوص اور پیار و محبت کا ایک جہان ویران ہوگیا ،وہ دل آویز مسکراہٹ کہیں گم ہوگئی اور زعفران زار قہقہوں سے ہم محروم ہوگئے۔وہ شیریں گفتگو اور میٹھے بول اب کہاں سننے کو ملیں گے اور ان کی پر رونق مجلس کہاں ملے گی۔ہائے آج تو الفاظ بھی بے وفا سے ہورہے ہیں ، قلم بھی چند قدموں پہ ہی ہانپنے لگ رہا،انگلیاں بھی روٹھی روٹھی سی لگ رہی ہیں ۔مولیٰ! تو احکم الحاکمین ہے ۔ ہم تو تیرے نادار و ناتواں گنہگار بندے ہیں ،الٰہی! ابتلاءو آزمائش کی گھڑی سے ہماری حفاظت فرما!کیسے اپنے دل کو سمجھاﺅں اور اسے دلاسا دوں کہ جانے والا کون تھا ؟ کیسا تھا؟ وہ بچوں میں بچہ تھا جس کی معصومیت قابل گوارا تھی،وہ جوانوں میں جوان بھی تھا جس کی چستی اور پھرتی لائق رشک تھی ،وہ بزرگوں میں بزرگ بھی تھاجس کا وقار اور سنجیدگی قابلِ تقلیدتھی۔ وہ علم میں نمایاں ، ادب میں ممتاز، اخلاق میں اعلیٰ اور فیاضی و سادگی میں بے مثال تھا۔

گزشتہ چند ماہ سے شاہ صاحب کو نسوں کا مرض لاحق تھا ، ریڑھ سے گھٹنوں تک کا حصہ بہت متاثر تھا،ایک مدت سے برداشت کرتے چلے آرہے تھے بلکہ اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر رہے تھے لیکن مرض جب حد سے بڑھ گیا اور چلنا پھرنا دشوار ہوگیا تو مظفر نگرکے ایک ڈاکٹر کو دکھایا لیکن افاقہ نہیں ہوا ، وہیں کے ایک دوسرے ڈاکٹر سے رابطہ کیا لیکن یہ کوشش بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی ، پھر انھیں ہریانہ کے ایک حکیم کا سراغ ملا ، مولانا وہاں تشریف لے گئے ، ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبید انور اور ایک رشتہ دار بھی ساتھ تھے، ہفتہ عشرہ وہاں قیام رہا ، بھائی عبید سے بھی میری بات ہوئی ، مولانا کی خیریت معلوم کی اور براہ راست مولانا سے بھی بات ہوئی ۔جب وہ دیوبند پہنچے تو معلوم ہوا کہ گھر کے بالائی حصے پر جاناان کے لیے منع ہے ، اب وہ اپنے گھر کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہیں اور ڈاکٹر نے لیٹے رہنے کا مشورہ دیا اور زیادہ حرکت کرنے سے منع کیا ہے۔انتقال سے ایک روز قبل 10ستمبر 2022کو بذریعہ موبائل ان سے رابطہ ہوا ، خیریت معلوم کی ، مولانا نے بتا یا کہ اب بہت افاقہ ہے ،گھر کے نیچے والے حصے میں ان دنوں رہ رہا ہوں ،دن میں اہلیہ اور بچے بھی ساتھ رہتے ہیں ،اب خود سے واکر کے سہارے باتھ روم وغیرہ جلا جاتا ہوں ۔اگلے روز مغرب کے وقت موبائل کی گھنٹی بجی، میں مسجد میں تھا ، اس لیے نظر انداز کرگیا،جب نماز سے فارغ ہوکر گھر واپس ہورہا تھا تو میرے رفیق مولانا عمر فاروق کاشف کا فون آیا اور انھوں نے یہ جانکاہ خبر سنائی کہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب کے انتقال کی خبر آرہی ہے ، انھوں نے مجھ سے تصدیق چاہی۔بھلا میں کیا بتاتا۔اس خبر سے مجھ پہ کیا بیتی میں بیان نہیں کرسکتا ۔تھوڑی دیر کے لیے تو یقین کرنا ہی دشوار تھا لیکن جب اس خبر کی تصدیق ہوگئی تو یقین جانیے مجھے لگا میرا باپ مر گیا ، میرے پاﺅں تلے سے زمین کھسک گئی ،دل بے چین ہو اٹھا ، آنکھیں بے قابو ہوگئیں ، گزشتہ بیس برسوں کا ایک ایک لمحہ جو ان کے ساتھ گزرا یا ان کی جو کرم فرمائیاں مجھ پر رہیں ایک ایک کرکے ذہن کی اسکرین پر رقص کرنے لگیں ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں، کبھی دل کہتا کہ ہوسکتا ہے یہ خبر غلط ہو۔وہ ایک رات کئی راتوں کے برابر ہو گئی تھی ، نیند آنکھوں سے کوسوں دور کہیں چلی گئی تھی ،یوٹیوب پر ان کی ویڈیوز دیکھنے لگااور دیکھتا رہا ۔

تجربے سے علم ہوا کہ اپنے کسی بے حد قریب دوست و بزرگ یا رشتہ دار پر لکھنا بہت مشکل ہوتاہے،اس لیے کہ ان کی یادوں ، باتوں کا ٹھاٹھیں مارتا ایک سمندر سامنے آموجود ہوتا ہے۔کن کن موجوں کو سمیٹوں اور کسے نظر انداز کروں۔اور ایسے موقعے پر یوں بھی لکھنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ لکھتے وقت ایک جذباتی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو قلم کو روکے لیتی ہے۔تاہم ان ہی ملی جلی کیفیات کے ساتھ مولانا قیصر کی یادوں کو سمیٹنے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہوں ۔ع

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

دارا لعلوم دیوبند میں میرا داخلہ 1999کے دسمبر میں ہوا ،ابتدائی دو تین سال بڑی محنت اور قید و بند کے ہوتے ہیں اس لیے عربی درجات کے مبتدی طلبہ دوتین برسوں کے بعد ہی صحیح سے کھل پاتے ہیں اور ذرا باہر کی دنیا سے انھیں واقفیت ہوپاتی ہے ، میری بھی صورتِ حال کچھ ایسی ہی تھی۔مولانا نسیم اختر شاہ قیصر مرحوم سے پہلی بار کب ملاقات ہوئی اس کا تعین مشکل ہے لیکن خیال پڑتا ہے کہ پہلی بار انھیں سننے اور دیکھنے کا موقع اس وقت ہاتھ آیا جب مولانا نسیم رحمانی کی مرتب کردہ کتاب ”منکرین اسلام کو دنداں شکن جوابات “ کی رسم اجراءکا ایک بڑا پروگرام دیوبند میں منعقد ہوا تھا جس میں مولانا سالم قاسمیؒ ، مولانا انظر شاہ کشمیری ؒ اور دیگر علماءکے ساتھ مولانا نسیم شاہ بھی رونق اسٹیج تھے ، مولانا نسیم شاہ کے بعد ان کے چچا مولانا انظر شاہ صاحب کا نمبر آیا ،ان کی تقریر کا بس ایک جملہ یاد ہے ” جاحل(جاہل) چِراغ نہیں چَراغ ہوتا ہے چَراغ“ اب وہ اس جملے سے اپنے بھتیجے یا کسی اور کو تنبیہ فرما رہے تھے یاد نہیں۔ غالباً جب میں عربی سوم میں تھا تو دارالعلوم کی مرکزی انجمن ’مدنی دارالمطالعہ‘کے سالانہ مضمون نگاری کے مقابلے میں حصہ لیا ، عنوان ” دار العلوم دیوبند اور اردو ادب “ تھا ، اس موضوع پر ایک مقالہ لکھ کر مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شاید یہی ملاقات ہمارے تعلق کا نقطہ آغاز تھا۔مقالے میں ایک جگہ میں نے لکھ دیا تھا ” اقبالِ وقت ڈاکٹر نواز دیوبندی لکھتے ہیں ۔۔۔“ تو مولانا نے ہمیں بڑے پیار سے سمجھایا کہ کسی کو کن بنیادوں پر خطاب سے نوازا جاتا ہے اور یہ عمل کس قدر ذمہ داری کا ہے۔پھر مولانانے بڑی ہمت افزائی فرمائی اور ہمیشہ کے لیے ان کا دروازہ میرے لیے کھل گیا۔پھر وقت کے ساتھ شدہ شدہ ہمارا یہ تعلق کیسے گھریلو رشتے جیساہوگیا پتہ بھی نہیں چلا۔پہلے میں نے مولانا ساجد کھجناوری(استاذ حدیث و فقہ جامعہ اشرف العلوم گنگوہ،سہارنپور) کو یا وہ مجھے مولانا کے پاس لے گئے مجھے یاد نہیں ؛تاہم بیشتر ہم دونوں ایک ساتھ شاہ منزل مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جی بھر کے باتیں کرتے ، کچھ ہنسی مذاق اور تفریح کی ، کچھ حالات حاضرہ پر اور بہت سی لکھنے پڑھنے کی باتیں ہوتیں۔مولانا سے ایسی راہ و رسم قائم ہوئی کہ میرا جب بھی اندرا پارک ،دار العلوم وقف ،سجاد لائبریری یا محلہ خانقاہ کی طرف کسی بھی کام سے جانا ہوتا تواحباب یہی سمجھتے کہ میں مولانا کے یہاں جارہا ہوں یا ادھر سے دار العلوم آرہا ہوتا تب بھی احباب یہی گمان کرتے کہ میں مولانا کے پاس سے ہی آرہا ہوں۔

برابر عصربعدمیں اور بھائی ساجد کھجناوری مولانا کے گھر جا دھمکتے ، کبھی کام سے اور کبھی بے کام کے ویسے ہی مولانا کے قیمتی اوقات ضائع کرتے لیکن یاد نہیں پڑتا کہ بھولے سے بھی مولانا کی پیشانی پہ کبھی کوئی شکن ابھری ہو ۔ہمیشہ ہر حال میں وہ ایک جیسی محبت اور پیار سے نوازتے ؛بلکہ حد سے بڑھی ہوئی ان کی شفقت سے کبھی کبھی تو ایسا لگتا کہ مولانا پہلے ہی سے ہمارے انتظار میں بچھے پڑے ہیں۔سلام کرنے اور خیریت دریافت کرنے میں بھی زیادہ تر وہ خود پہل کرتے۔

میرے خیال میں تین بنیادی اجزاءپر ان کی شخصیت ڈھلی تھی ۔ اعلیٰ اخلاق ، فیاضی اور خود فراموشی کی حد تک سادگی ۔میرے نزدیک کسی بھی عظیم انسان کے لیے یہ وہ اجلے اوصاف ہیںجودوسری بہت سی خوبیوں پر بھاری ہیں۔ایک شخص علم و ادب اور فضل و کمال کے ساتویں آسمان پر بھی پہنچ جائے لیکن اخلاق اور عاجزی جیسی خوبیوں سے وہ محروم ہے تو جسموں پر تو وہ حکومت کرسکتا ہے ؛ دلوں پر اس کی حکومت قائم نہیں ہوسکتی ۔ہمارے اسلاف کے ان ہی اوصاف نے انسان تو انسان ، حیوانوں کے اندر بھی ان کی محبتوں کے دیے روشن کردیے تھے۔ شاہ صاحب کی یہی ادائیں مجھ جیسے سینکڑوں طالب علموں اور ان کے ذہن و دماغ کو متاثر کرتی تھیں۔مولانا یقیناً بے شمار خوبیوں کے مالک تھے ، ان کا علم پختہ،مطالعہ وسیع ،اندازِ درس بھی ماہرانہ،اسلوب ِ تربیت بھی قابل رشک اور تحریر و تصنیف بھی انتہائی مقبول لیکن ان کے آفتاب ِ اخلاق کے سامنے سب کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے۔میں کہہ سکتا ہوں آج بہت سے علم والے ، ادب والے ، مطالعے والے،پڑھانے والے اور کثیر التصانیف لوگ مل جائیں مگر اعلیٰ اخلاق والا ہزاروں میں ایک آدھ مل جائے تو غنیمت ہے۔وقتی،خود غرض اور مصلحت پسند اخلاق کی بات نہیں کر رہا ؛ اصل اخلاق یعنی اخلاق نبوی کی بات کر رہا ہوں جس کی ٹھنڈی چھاﺅں بغیر کسی امتیاز کے سب کے لیے عام ہوتی ہے، اعلیٰ اخلاق کا حامل انسان اپنی ذات و مفاد کی خاطر معمولی سے معمولی انسان کو بھی نقصان پہنچانے کا روادار نہیں ہوتابلکہ اس کے دل کو ادنیٰ ٹھیس پہنچ جائے وہ بھی اسے گوارا نہیں ہوتایہی وجہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزار مصیبتیں برداشت کرکے بھی اپنی ذات کے لیے نہ تو کسی سے انتقام لیا اور نہ ہی بد دعا دی بلکہ سب کو دل سے معاف کردیا۔مولانا نسیم اختر شاہ قیصرؒ کو بھی اخلاق نبوی سے وافر حصہ ملا تھا۔دین ِاسلام نام ہے ایمانیات،عبادات،اخلاقیات،معاملات اور معاشرت کا۔ان میں اول الذکر دو کے بعد اخلاقیات دین ِ اسلام کا ایسا باب ہے جس میں ایک حد تک معاملات و معاشرت بھی آجاتے ہیںاس لیے اخلاقیات پر بہت زور دیا گیاہے اور حدیث میں ہے کہ تم میں بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔(بخاری)

راقم کو مولانا نسیم شاہ کی اداﺅں میں سب سے زیادہ متاثر کرنے والی ادا ان کا حسن اخلاق تھا۔ایک میں ہی کیا ان سے ایک دفعہ اور سرسری ملنے والا بھی ان کی اس خوبی کو محسوس کرسکتا تھا۔وہ عظیم دادا کے پوتے اور بڑے باپ کے بیٹے تھے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کا دماغ شہزادگی کی آلود گی سے بالکل پاک تھا ، وہ ’پسرم سلطان بود‘ جیسے تصور کے منکر تھے، وہ اپنی دنیا آپ بنانے کے قائل تھے۔آج کی دنیا خود غرضی اور مفاد پرستی سے بھری پڑی ہے ، مادیت کا اس قدر غلبہ ہو چلا ہے کہ آپ کے قد کی بلندی و پستی کا معیار ’ پیسہ ‘ اور صرف پیسہ بن کر رہ گیا ہے ، آپ کا علم و فضل ، آپ کی دینداری اور آپ کی انسانیت سب ہیچ اگر آپ کا بٹوا خالی ہے۔مولانا کی زندگی میں بھی ایک مدت تک خوشحالی نہیں آئی ، اب گزشتہ چند برسوں سے ان کے ہاںخوشحالی کی کونپل پھونٹنا شروع ہوئی تھی ؛تب بھی وہ دیگر خوشحالوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس درویش نے ہمیشہ فقیری میں شاہی زندگی گزاری ، بڑی خود دار اور قابل ِ رشک زندگی۔

مولانا بھی انسان تھے ، بہت سے دوست اور دشمنوں سے انھیں بھی تکلیف پہنچتی تھی مگر کبھی بھی ان کی زبان پر حرف شکایت نہیں آتا۔اگر ان کی مجلس میں اس طرح کا ذکر چھڑ جاتا تو بڑی خوبصورتی سے اسے اپنے قہقہوں میں اڑا دیتے اور پھر تازہ دم ہوکر مجلس آگے بڑھ جاتی۔دوسروں کے حقوق کا انھیں بڑا خیال رہتا۔اللہ نے انھیں زبان اور قلم دونوں کی دولت سے نوازا تھا بلکہ اللہ نے ان کی زبان اور قلم کو انقلابی حد تک پر اثر بنایا تھا ، وہ چاہتے توان دونوں سے تخریب و انتقام کا کام بھی لے سکتے تھے ، انھوں نے اپنی زندگی میںایسا پرآشوب دور بھی دیکھا تھا جب ایک دوسرے کی ٹوپیاں اچھالی جارہی تھیں ، لوگ بھاڑے پر مضمون لکھوا لکھوا کر انقلابی بن رہے تھے بلکہ بہت سے کوے پنکھ لگا کر مور بننے کی کوشش کر رہے تھے؛ تب بھی مولانا نسیم اختر شاہ نے اپنے قلم کے تقدس کو پامال ہونے سے بچایا۔

یہ درست ہے کہ مولانا کو کچھ چیزیں توورثے میں ملی تھیں لیکن بیشتر چیزیں تو من و عن اپنے والد سے ان میں منتقل ہوگئی تھی ۔ ایک جگہ وہ خود تحریر فرماتے ہیں:

” ان (والد مولانا ازہر شاہؒ)کی اور اپنی زندگی کا موازنہ کرتا ہوں تو مجھے کہیں نہ کہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ میں اکثر احوال میں اسی جگہ کھڑا ہوں جہاں کسی وقت وہ کھڑے تھے۔ جو ان پر گزری اسی سے میں بھی گزر رہاہوں ، جو انھوں نے برداشت کیا وہی مجھے سہنا پڑ رہا ہے ۔ تھوڑا فرق ہے تو وقت کا اور کرداروں کا ؛ورنہ سب کچھ وہی ہے ۔“(مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ،مکتبة الانور ، دیوبند(2021)ص:75-76)

اسی طرح ہر حال میں خوش رہنا،مجلسی مزاج،سفر سے وحشت ، مطالعہ و مضمون نگاری کے لیے نئی نسل کی ذہن سازی ، ان کی قلمی تربیت ،ان کی حوصلہ افزائی وغیرہ جیسے اوصاف بھی انھیں اپنے والد ہی سے ترکے میںملے۔ان کے والد بھی بڑے مرنجاں مرنج طبیعت کے حامل اور بڑے مجلسی قسم کے انسان تھے،ان کی ایک مجلس تو گھر پہ جمتی تھی اور دوسری دفتر میں۔ ماہنامہ ’دا رالعلوم‘ کے دفتر میں جمنے والی مجلس بڑی یادگار اور تاریخی ہے ۔اس مجلس کے ارکان میںعلامہ محمد حسین بہاریؒ، مفتی ظفیر الدین مفتاحیؒ، نواسہ شیخ الہند مولانا محمد عثمان ؒ، مولانا محمد اسلم قاسمیؒ، سید محبوب رضوی ؒ اور حکیم عزیز الرحمن اعظمیؒ وغیرہ ہوا کرتے تھے۔اس مجلس کا رنگ ڈھنگ اور اس کا اثر کس قدر مولانا نسیم شاہ کی زندگی پر مرتب ہوا ؟ ان ہی نکات کو مولانا یوں بیان فرماتے ہیں:

” میں نے بہت قریب سے ان مجلسوں کو دیکھا ، بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ حاصل کیا ، بہت کچھ پایا۔ یہ مجلسیں میری زندگی کی بنیاد بنیں ، میری سوچ کا محور قرار پائیں ، میری ترجیحات کا سبب ثابت ہوئیں، میرے ذہن او رفکر کو ایک رخ اور صحیح سمت دینے میں ان مجلسوں کا اور گھر (شاہ منزل) میں ہونے والی محفلوں کا حصہ رہا۔ میں نے ان مجلسوں سے سچائی کا سبق پایا، لحاظ ، مروت ، انسانیت،قلبی ہمدردی کا درس لیا۔اغراض پسندی ، خوشامد، دھوکہ ، فریب ، عیاری ، مکاری، جھوٹ ،سازش،گندے حربے،موقع پرستی، تملق، چاپلوسی، مصلحت، شقاوت، ابن الوقتی جیسی لعنتیں میرے قریب نہ پھٹک سکیں ۔ دل ہی آمادہ نہیں

ہوتا ایسی باتوں پر اور نہ کبھی طبیعت ان قبیح چیزوں کے لیے اکساتی ہے۔میرے والد کا معاملہ بھی یہی تھا۔“ (ایضاً، ص : 43)

مولانا نسیم شاہ بھی بڑے مجلسی آدمی تھے ، ہاں ان کی مجلس اپنے ابا کی مجلس سے ذرا مختلف تھی ، مولانا کی مجلس شاہ منزل ہی میں سجتی اور جمتی تھی ، اس درویش ِ ادب کی خانقاہ کا دروازہ ہر تشنہ لب کے لیے کھلا رہتا،ہر خاص و عام کے لیے یہاں تک رسائی آسان تھی۔اس مجلس سے بھی تشنگانِ علم و ادب اور اخلاق اپنے اپنے ظرف کے مطابق شیشہ ¿ و جام اور سُبو لے کر واپس ہوتے ۔اس محفل میں تفریح اور ہنسی مذاق کی باتیں تو ضرور ہوتیں مگر غیبت اور چغلی وغیرہ دیکھنے کو نہیںملتی اتفاقاً اگر بیچ میں غیبت کا تعفن در آتا تو حسب ِ معمول مولانااپنے لوبانی قہقہوں سے اسے کافور کردیتے ۔بے تکلفی کا یہ حال تھا کہ کسی سے بھی بہت جلد بے تکلف ہوجاتے اور ان کا یہ سلوک زیادہ تر طلبہ کے ساتھ دیکھنے کو ملتا ،بہت سے سہمے ، شرمائے اور پر تکلف قسم کے طلبہ ان کی مجلس میں آتے اورمولانا سے پہلی ہی ملاقات میں وہ کھل جاتے ، ان طلبہ کے یہ اوصافِ عالیہ ٹوٹتے نہیں تو چٹخ ضرور جاتے تھے۔مولانا کے گفتگو کا انداز بھی بڑا نرالا تھا ،بچوں کے ساتھ بچے بن جاتے، جوانوں کے ساتھ جوان ، دیہاتیوں کے ساتھ دیہاتی اور پڑھے لکھوں کے ساتھ عالم اور باوقار ۔وہ مضافات ِ دیوبند کی دیہاتی بولی پر بھی اچھی مہارت رکھتے تھے اور اردو تو ان کے گھر ہی کی چیز تھی ۔ان کی شگفتہ مجلس سے غمزدہ سے غمزدہ انسان بھی مسرتوں اور مسکراہٹوں کے ساتھ واپس ہوتا اور خود کو ہلکا محسوس کرتا بلکہ ان کی خوش اخلاقی اور مزاح سے عبوساً قمطریرا جیسے لوگ بھی اپنی قسم ٹوڑ کر مسکرااٹھتے۔

مولانا کے مزاح کا بھی اپنا ایک الگ رنگ تھا ، بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، انتہائی مثبت اور تعمیری سوچ کے حامل،اپنے بیس سالہ گہرے مراسم کے دوران میں انھیں کبھی میں نے غمگین اور اداس نہیں دیکھا۔دبی زبان میں کبھی کبھی اپنی پریشانیوں کا ذکر ضرور کرتے لیکن دوسرے ہی لمحے اس قدر شگفتہ نظر آتے گویا ان سے زیادہ خوش یا خوش حال کوئی نہیں۔ان کے مزاح سے ہر کوئی لطف اندوز ہوتا بلکہ جس کا خاکہ اڑایا جاتا وہ بھی مزے لیتا ،مولانا کے مزاح میں لطیف طنز کی آمیزش بھی ہوتی لیکن یہ طنز بھی برائے مزاح ہی ہوتا اور سب سے خوبی کی بات یہ ہوتی کہ ان کے طنز و مزاح میں کسی کی دل شکنی اور دل آزاری نہیں ہوتی، شاہ صاحب کے اس عمل میں بھی خلوص ، محبت اور ہمدردی کی شفاف تصویر نظر آتی تھی ۔ ایک دفعہ میرے بڑے بھائی جان دیوبند تشریف لائے ، انھیں لے کر میں مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا، مولانا کی طبیعت ان دنوں ذرا ناساز تھی ، دروازے سے باہر آئے ، علیک سلیک ہوئی ، پھر فرمایا ” ذرا نقاہت محسوس ہورہی ہے ۔۔۔نہیں نہیں نقاہت تو بڑے لوگوں کو ہوتی مجھے کمزوری محسوس ہورہی ہے۔“

مولانا کا ایک امتیاز ان کی سادگی تھی، اس حد تک وہ سادہ مزاج و سادہ لباس تھے کہ مدتوں ان کے مضامین پڑھنے والا ، ان کاان دیکھا مداح و شیدائی اگر ان سے پہلی بار ملتا تو بہت ممکن ہے کہ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی ہستی ہے یا اس کا ممدوح کوئی اور۔درمیانہ قد ، متوسط جسم و جثہ، بلند چہرا ، چہرے پر ہلکے ہلکے سے چیچک کے داغ، آنکھیں بڑی اور چمکتی ہوئیں،کشادہ پیشانی اور پیشانی کی لکیروں سے پھوٹتی ذہانت،گھنی داڑھی اور ہلکی مونچھ ، سراور ڈاڑھی کے بال ادھ پکے،بسا اوقات سر کے بال ٹوپی کی گرفت سے باہر ،سر پر دیوبندی یا نہرو ٹوپی ، معمولی لباس زیب تن کیے ہوئے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بلا تکلف کہیں بھی پیدل چلے جاتے اور چلے آتے ،جب گھٹنوں کا عارضہ لاحق ہوا تو رکشے کا استعمال کرنے لگے ۔ ان کے دولت کدہ پہ راقم کی برابر حاضری ہوتی رہتی تھی ، ان کی رہائش، ان کے رفتار و گفتار، نشست و برخاست،ان کی بات چیت ہر ایک سے ان کی سادگی نمایاں تھی۔سردیوں میں کبھی کبھار وہ شیروانی میںنظر آجاتے تھے؛ ورنہ تو کبھی بھی اور کہیں بھی وہ معمولی کرتا پاجامہ میں اپنی پرکشش سادگی کے ساتھ حاضر ہوجاتے اور دور سے پہچانے جاتے۔ان کی زندگی ہٹو بچو کے جھنجھٹ سے آزاد تھی، ان کے قریب سے بھی تصنع و تکلف کاگزر نہیں ہوا تھابلکہ سرے سے یہ الفاظ ہی ان کے لغت سے ندارد تھے۔

ان کا ایک خاص امتیاز ان کی قوتِ حافظہ تھا،حافظہ و ذہانت ان کا موروثی سرمایہ تھا، اس نعمت کا مشاہدہ خانوادہ انوری کے بچے بچے میں کیا جاسکتا ہے ،مولانا کے کے تمام بچے بھی انتہائی ذہین و ذکی ہیںالحمد للہ ۔مولانا نسیم شاہ کا ایک واقعہ اب بھی یاد ہے ۔ہوا یوں کہ دار العلوم کی تمام انجمنیں سالانہ چھٹی کے موقعے پر شعبان میں بند ہو جاتی ہیں ،پھر شوال ذی قعدہ میں نیا نظام بنتا ہے ،چھٹیوں کے موقعے پر منتہی ذمہ دار طلبہ انجمنوں کی چابیاں سرپرستِ انجمن یا زیر تعلیم سینئر طلبہ کے حوالے کردیتے ہیں ۔اسی طرح مجھے بھی چابی عزیز القدر شعیب بیگو سرائے کے حوالے کرنی تھی ، سوئے اتفاق ایسا نہ کرسکا،تو میں نے چابی مولانا کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ حضرت شوال میں شعیب بیگوسرائے آئیں گے اور آپ سے چابی لے جائیں گے ۔شوال میں اتفاقاً شعیب سے پہلے میری ملاقات مولانا سے ہوگئی ،چابی کی بابت میں مولانا سے کچھ معلوم کرنا چاہ ہی رہاتھا کہ وہ فوراً بول اٹھے ،شعیب بیگو سرائے تو نہیں آئے ، میں دنگ رہ گیا کہ دوماہ قبل میں نے شعیب کا نام ایک بار لے کر چابی ان کے سپرد کی تھی لیکن مولاناکے ذہن نے اسے محفوظ کرلیا تھا۔

دوسری مثال مولانا کے بڑے صاحبزادے مفتی عبید انور شاہ قیصر کے حافظے کی پیش کرنا چاہتا ہوں ۔جب انھوں نے دار العلوم دیوبند کے عربی چہارم میںداخلے کا ارادہ کیا تو انھیں بعض کتابوں کی تیاری کرنی تھی ، ان میں ایک کتاب ”نفحة العرب ‘ ‘بھی تھی ، پڑھانا کہنا تو کسی طرح درست نہیں بس ذرا سا اشارہ کہا جا سکتا ہے؛ اللہ مولانا عبیدکو سلامت رکھے کہ انھوں نے اپنی بلا کی ذہانت سے بہت ہی مختصر مدت میں مطلوبہ نصاب بھی مکمل کر لیا اور مجھ فقیر العلم کو حیرت و استعجاب میں بھی ڈال دیا،یوں کہہ لیجیے کہ میں نے ان کی ذرا سی مدد کی اور مدد کیا لاحول ولا قوة۔۔۔یہ عمل توانگلی کٹانے کی بجائے انگلی سٹاکر (لگاکر) شہیدوں میں شامل ہونے جیسا ہے۔ جو بھی ہویہ بے مایہ اپنے لیے اسے شرف کی بات سمجھتا ہے۔

مولانا نسیم اختر مرحوم کی ایک اہم خوبی ان کی خُردنوازی اور نسل ِ نو کی حوصلہ افزائی تھی۔ ان کے پاس کوئی مسودہ لے کر آرہا ہے،کوئی اپنے مضمون کی اصلاح کرا رہا ہے ، کوئی اپنی کتاب پر تقریظ لکھوا رہا ہے اور کوئی زبان و قلم کے سلسلے میں مشورے لے رہا ہے اور مولانا ہیں کہ پوری خندہ روئی سے سب کو نواز رہے ہیں ، کسی کو نہ کہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔میرا مولانا سے باضابطہ شاگردی کا رشتہ نہیں تھا،میں نے ان کے ادارے میں بھی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ ہی ان سے کوئی رشتے داری تھی لیکن روح کا ایک رشتہ تھا اور خلوص و محبت کا ایک تعلق ،وہ ہمیشہ مجھے دوست نما سرپرست لگے۔اس سے بڑھ کر خردنوازی کیا ہوگی کہ ان ہی کی رہنمائی میں میں نے مولانا کے والدِ مرحوم پہ ایک مضمون لکھا جو ”سید ازہر شاہ قیصر کے قلم کی خوشبو“ کے عنوان سے روزنامہ ” راشٹریہ سہارا“ نئی دہلی( 21 مارچ 2010) میں شائع ہوا ۔ مولانا نے جب اپنے والد مرحوم پہ کتاب لکھی تو اس مضمون کا بھی حوالہ دیا۔

نوواردان کی وہ ہمت افزائی ہی نہیں فرماتے بلکہ اہل علم و ادب سے ان کا تعارف بھی کراتے ، مجھے حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری ؒ کے پاس لے جانے والے مولانا ہی تھے ، مولانا حسن الہاشمی ؒ سے ملاقات کرانے والے بھی وہی تھے اورمرحوم حکیم حامد تحسین سے خلوص و پیار کا رشتہ قائم کرانے میں بھی ان ہی کا ہاتھ تھا۔

اخبار و رسائل میں جب بھی میرا کوئی مضمون شائع ہوتا ، داد و تحسین سے نوازتے اور حوصلے کو مہمیز کرتے۔بسا اوقات مضامین محفوظ کرلیتے۔ 2007میں جب میری پہلی کتاب ” مناظر گیلانی“ منظر عام پر آئی تو اس پر مولانا کے تعارفی کلمات بھی کتاب کی زینت بنے۔2009میں جب مبتدی طلبہ کو مضمون نگاری سکھانے کی غرض سے ایک کتابچہ ” آﺅ قلم پکڑنا سیکھیں!“ مرتب کرنے کا خیال آیا تو بھی مولانا کی رہنمائی ہم رکاب رہی ، مولانا نے مسودہ دیکھااور ایک جامع تقریظ سے نوازااور بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ 19جون 2009کو انھوںنے اپنے دولت کدے ’ شاہ منزل‘ میں اس کتابچے کی رسم اجرا کا پروگرام کرایا ، حکیم حامد تحسین مرحوم نے بھی شرکت کی تھی اور دو صفحے کا مضمون بھی پڑھاتھا،یہ پروگرام میرے لیے ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اس سال(2022) کے شروع میں میری ایک اور کتاب ” علامہ سید مناظر احسن گیلانی : احوال و آثار“ شائع ہونے والی تھی تو اس کے فلیپ کے لیے ایک مختصر تحریر کی درخواست کی گئی، بسر و چشم مولانا نے قبول کی اور تحریر لکھ کر ارسال فرمائی جو کتاب کے فلیپ پر درج ہے۔

ایک دفعہ فیس بک پرازراہِ مذاق ایک کرم فرما نے یہ لائن لکھی:”نسیم نام کا مجھے آج تک کوئی اسمارٹ اور سمجھ دار آدمی نہیں ملا۔“جب کہ وہ خود بھی نسیم ہی ہیں۔ میں نے جواب دیا :

”نہیں… الحمد للہ مجھے نسیمِ سحری کی مانند کئی ’نسَما‘ملے ہیں…تین نسیم تو انتہائی قابلِ ذکر ہیں۔(1)نسیم نظر مدھوبنی میرا لنگوٹیا جسے پیار سے میں نَسِموا بھی کہتا ہوں۔حافظ و عالم، انتہائی ذکی و ذہین، وسیع المطالعہ، حاضر جواب اور شاندار خطیب بھی ہے۔ (2)مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ،وقف دارالعلوم دیوبند کے استاذ، علامہ انور شاہ کشمیری کے پوتے، میرے قلمی رہنما، بہترین انشاءپرداز، اجلے اخلاق والے میرے مخلص و محترم۔(3)ڈاکٹر نسیم احمد نسیم، انقلاب کی دھرتی چمپارن کے باسی، اردو زبان کے اسکالر، خوب صورت لب و لہجے کے شاعر اور پارکھ، پیار بانٹنے والے، خوردوں پہ شفقت لنڈھانے والے ایک مقناطیسی انسان۔اللہ سب کو سلامت رکھے۔“تو مولانا نے بڑے پیار سے لکھا: ” محبت ہر جگہ بولتی ہے،اخلاص ہر موقع پر جلوہ نما ہوتا ہے، آپ کی یہ تحریر اس کا ثبوت ہے“۔ہائے مولانا کے خلوص بھرے یہ جملے اب کہاں نصیب ہوں گے۔

سخاوت و فیاضی بھی مولانا کا ایک اہم وصف تھا ، ان کی مجلسوں کے حاضر باش میری اس بات کی تائید کریں بلکہ وہ خود اس کی شہادت دیں گے۔جاننے والے جانتے ہیں کہ مولانا کی معاشی حالت کیا تھی ، جس ادارے سے وابستہ تھے وہ بھی ابتدائً کئی برسوں تک کسمپرسی کی حالت میںرہا اور حضرت قاری محمدطیب قاسمی ؒ کے فدائیین نے مدتوںاپنی خدمات رضاکارانہ بہم پہنچائی ، ان میں ایک مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بھی تھے ۔ حاصل یہ ہے کہ مولانا کی معاشی حالت جیسی بھی رہی ہو انھوں نے اپنے مہمانوں اور دوست احباب کی ضیافت میں کبھی کمی نہیں کی ، پورے خلوص اور وسعت کے ساتھ ان کی تواضع کی ، انھیں خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو خوش کرنا اچھا لگتا تھا اور ضیافت کرنا تو گویاان کا پسندیدہ مشغلہ تھا ، وہ سال دو سال میں اپنی کسی نہ کسی کتاب کے اجرا کی تقریب ضرور کرتے ،اسٹیج سجاتے ،علماءو ادباءاور صحافیان کو مدعو کرتے ، سلیقے سے پروگرام ہوتا ، بہت سوں کواپنی تصنیف ِ عنیق سے نوازتے، ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے ، ان کا استقبال کرتے اور خاص احباب کے کام و دہن کا بھی معقول انتظام فرماتے ،یقین جانیے کبھی کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہونے لگتا کہ اگر ان کے ہاتھوں میں ایک دن میں لاکھ روپے بھی آجائیں تو وہ دن ڈھلتے سارے پیسے اپنے ، دوستوں ، عزیزوں ، ضرورت مندوں اور مہمانوں پر لٹا دیں ، دل کی کشادگی کے ساتھ ہاتھ بھی بڑا کھلا تھا۔

اردو زبان سے ان کا عشق بھی دیدنی اور قابلِ مطالعہ ہے ۔ انھوں نے بغیر کسی غرض و مقصدکے بے لوث اپنی زبان کی خدمت کی ، اپنی تحریک سے بھی، اپنی تقریر و خطابت سے بھی اور اپنے قلم سے بھی۔انھوں نے بے شمار نوجوانوں کو اردو بولنا ، پڑھنا اور لکھنا سکھایا، صحافی و مضمون نگار اور مصنف بھی بنایا۔راقم کو بھی ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ، نہ جانے کتنے مضامین انھیں دکھائے،اصلاح لی ،کتنے الفاظ و محاورات اور ان کے استعمال پر ان سے رہنمائی لی ، بہت سے موضوعات پر لکھنے سے قبل ان سے مشورے کیے اور بہت سے مضامین کی سرخیوں تک پہ تبادلہ خیال کیا ۔میری کتابوں میں سے دو پر باضابطہ ان کی تحریر ہے اور ایک کتاب کے فلیپ پر چند سطور کا تحفہ اور آخری تحفہ بھی ہے۔ایک بات اور ’آﺅ قلم پکڑنا سیکھیں ‘کا آخری صفحہ بچ رہا تھا تو میں نے مولانا سے درخوست کی کہ حضرت اس صفحے پر بھی کچھ تحریر فرما دیں تو وہ بلاتخلف اس کے لیے آمادہ ہوگئے ، اب رہی کہ کیا لکھا جائے ؟اس وقت (2009) تک شخصیات پر میرے کئی خاکے شائع ہوچکے تھے اس لیے طے یہ ہوا کہ ” انتظار ‘ کے عنوان سے ان ہی خاکوں کے مجموعے کی قارئین کو ایک اطلاع دے دی جائے ۔چناں چہ ایسا ہی ہوا۔یہ سب مولانا کی خُرد نوازی کی بات تھی۔

مولانا نے علم و ادب کے گہوارے میں آنکھیں کھولی تھیں ، دادا وقت کے عظیم محدث ، والد ماہر ادیب اور منجھے ہوئے صحافی، چچا محدث بھی اور ادیب بھی آس پاس کا پورا ماحول علم و ادب کا ،ذہن و دماغ اور شخصیت و صلاحیت پر اس کا اثر پڑنا فطری ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولانا نے تیرہ سال کی کم عمری ہی میں لکھنا شروع کردیا تھا اور تاحین ِ حیات یہ سلسلہ جاری رہا۔ان کی کتاب ’ امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری : زندگی کے چند روشن اوراق‘ میں ان کے تعارف کے ذیل میں جو تفصیل ہے اس کے مطابق تیس اخبارات و رسائل سے مولانا کا قلمی تعلق رہا ، چار اخبارات و رسائل ایسے بھی ہیں جن کے وہ مدیر اور نائب مدیر رہے ۔ روزنامہ ” ہندوستان اکسپریس“ دہلی میں مسلسل تین سال دینی و مذہبی موضوع پر ہفتہ وار کالم اور روزنامہ ” ہمارا سماج“ دہلی میں تقریباً دو سال سیاسی و سماجی موضوع پر ہفتہ وار کالم تحریر کرتے رہے ۔ جہاں تک مجھے علم ہے کہ ان اخبار وں کے بخیل مالکان نے کبھی ایک پیسے کا معاوضہ انھیں نہیں دیا ، اور یہی نہیں مولانامستقل مضامین کو املا کرانے خود برقی کاتب کے پاس جاتے، گھنٹوں دماغ کھپاتے، مضامین کا ناک نقشہ درست کرتے اور حتمی شکل دے کر متعلقہ اخبار کو ارسال کرکے ہی وہاں سے ہٹتے ، ان تمام مرحلے کا صرفہ خود برداشت کرتے ۔ان کے گھر روازانہ اردو کے تین چار اخبارات اور پانچ چھ اردو رسائل پابندی سے آتے تھے۔ اسے اردو سے بے پناہ عشق نہیں تو اور کیا کہا جائے گا۔

مولانا کے ان مضامین و مقالات کی تعداد بارہ سو پچاس پہنچتی ہے۔مختلف کتابوں پر ان کے تاثرات و تقاریظ اور مقدمات بھی پچاس سے زائد ہیں۔ریڈیو نشریے کا بھی ان کا ایک مختصر مجموعہ ’ حرفِ تابندہ‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔کتاب امام العصر کے تعارف نامے کے مطابق مولانا نسیم اختر شاہ قیصر علیہ الرحمہ کی تالیفات و تصنیفات کی تعداد 23بتائی گئی ہے۔

مولانا نے اردو زبان کے گیسو کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی بھی آبیاری کی ، مولانا نے شاعری بھی کی اور افسانے بھی تحریر کیے لیکن شاعری ان کے مزاج کے ہم آہنگ نہیں تھی اور افسانہ نگاری کو علماءکے حلقے میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے سو انھوں نے شاعری چھوڑ نثر کا دامن تھامااور افسانے بھی لکھے تو اپنے نام کے اخفاءکے ساتھ۔غیر افسانوی نثر کی کئی صنفوں میں طبع آزمائی کی ، سیرت و سوانح پر کئی کتابیں لکھیں ، تاثراتی و تجزیاتی تنقید بھی تحریر کی، اپنی ایک مختصر سی خود نوشت بھی رقم کی،لیکن ادبی دنیا میں ان کی شناخت بحیثیت ایک خاکہ نگارکے قائم ہوئی۔ان کے ذہن میں اور بھی کئی خاکے تھے جو رنگ بھرنے سے رہ گئے ۔ ایک دفعہ میں نے ان سے التجا کی کہ حضرت !مولانا انظر شاہ صاحب نے اپنی کتاب ” لالہ گل“ میں دیوبند کی چند خواتین کے بھی خاکے لکھے ہیں ، آپ نے بہت سی ان دیکھی شخصیات پر خامہ فرسائی کی ہے ، ایک مجموعہ دیوبند کی معروف اور مثالی خواتین پر بھی مرتب ہو ، مولانانے آمادگی کا اظہار کیا تھا نمعلوم اس کا کیا بنا ۔ معروف شاعر و نقاد پروفیسر علیم اللہ حالی کے دادا سید عبد اللہ حافظ مشکی پوری کی شاعری پر بھی میں نے ان سے کچھ تحریر کرنے کی فرمائش کی تھی سووہ بھی پوری ہونے سے رہ گئی۔ میں یہ بھی چاہتا تھا کہ مجھ جیسے نالائقوں پر بھی کوئی سلسلہ شروع ہو لیکن اپنی اوقات کو دیکھتے ہوئے کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

زبان و ادب کے ساتھ ان کی خطابت کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا تھا، پروگرام کی نظامت بھی بہت عمدہ کرتے تھے۔وہ سفر کرکے جلسوں میں تقریر کرنے کے عادی نہیں تھے ، تقریر و خطابت میں وہ اپنے عم محترم مولانا انظر شاہ کشمیری ؒ کے سچے جانشیں تھے ،وہی ناز وہی انداز ، وہی گھن گرج اور وہی جاہ جلال ۔جب بولنا شروع کرتے تو بس وہ بولتے چلے جاتے ،نہ اٹک نہ پھٹک ، نہ تکلف نہ تصنع،بس ایک آبشار ہے جو بہتا چلا جارہا ہے ۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کی شخصیت کا پرتو اس کے قلم پہ بھی ہواور جیسی تحریر آبشاری ویسی تقریر بھی آبشاری ہو۔مولانا نسیم شاہ کا جیسا سراپا تھا ویسے ہی ان کا فن بھی ، اللہ رب العزت نے انھیں قلم جادو رقم سے بھی نوازا تھا اور زبان سحر البیان کی دولت بھی سرفراز فرمایاتھا۔عموماً مقررین وقت اور الفاظ کے سلسلے میں غیر محطاط ہوتے ہیں لیکن مولانا نسیم شاہ کو دیکھا گیا کہ انتہائی اختصار کے ساتھ چند لفظوں میں اپنی بات کہہ دیتے اور ان کا مدعا بھی پورا ہوجاتا۔

مولانا میرے لیے انتہائی شفیق تھے ، ان کی شفقت جب تک دیوبند رہا قائم رہی اور جب دہلی آگیا تب بھی ان کی شفقت علیٰ حالہ برقرار رہی اور میں بھی اپنی سی کوشش کرتا رہا کہ ان سے رابطے میں رہوں اور ان سے مستفید ہوتا رہوں ۔مولانا اعجاز عرفی سے ان کے اچھے مراسم تھے ، عرفی صاحب ’ ’آل انڈیا تنظیم علمائے حق ، نئی دہلی“ کے روح رواں ہیں برسوں سے ان کا معمول ہے کہ سال میں ایک بار وہ ہند و مسلم اتحاد پر کوئی کانفرنس کرتے ہیں اور علمائے دیوبند میں سے کسی نہ کسی کی حیات و خدمات پر ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کرتے ہیں ، اس طرح کے پروگراموں میں وہ مولانا نسیم صاحب کو بھی مدعو کرتے تھے، دہلی سے میں بھی شریک ہوتا ، باتیں اور ملاقاتیں ہوتیں ۔ ایک دفعہ اپنے زمانہ طالب علمی میں میں نے مولانا سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی آنے کی گزارش کی ،انھوں نے درخواست قبول کی اور بھائی ساجد کھجناوری کے ساتھ تشریف لائے ، اس وقت پیریار ہوسٹل کے کمرہ نمبر 40میں مشتاق انجم (جموں )کے ساتھ میرا قیام تھا ، اوقات بھر مجھے مولانا کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ، رات اسی کمرے میں انھوں نے قیام بھی کیا تھا۔دوستانہ اور رشتے کو کیسے نبھایا جاتا ہے اس سے بخوبی مولانا واقف او راس پر عامل تھے ۔مولانا کے اندر احسان شناسی کی قوت بھی بہت مستحکم تھی ، کسی کا ادنیٰ احسان بھی وہ کبھی نہیں بھولتے۔پورے بیس سالہ رشتے میں ایک بار ایسا موقع آیا کہ مولانا کے لہجے میںمجھے معمولی سی برہمی محسوس ہوئی ۔ ہوا یوں کہ مولانا ساجد کھجناوری نے مولانا حسن الہاشمی مرحوم پر ایک مضمون لکھا جو کسی واٹس ایپ گروپ پہ شائع ہوا، اللہ مجھے معاف کرے !میں نے اسے پڑھ کر مولانا ہاشمی پر ذرا تلخ تبصرہ کردیا، مولانا کا میسج آیا” مولانا ساجد صاحب کے مضمون پر آپ کے خوشگوار تبصرے کی آخری سطر محلِ غور ہے ، کیا یہ ضروری تھا “۔ میری تنبیہ کے لیے اتنا ہی کافی تھا، میں نے فوراً اپنا تبصرہ وہاں سے محو کردیا؛ لیکن مولانا کے حسن ِ سلوک میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آیا۔مولانا اپنے خُردوں اور چاہنے والوں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی مثبت سوچے،مثبت بولے اور مثبت لکھے۔اس حقیر کے مزاج میں اگر اس طرز و عمل کا کوئی اثر ہے تو سمجھیے کہ مولانا مرحوم کا بھی اس میں حصہ ہے ۔

مولانا کا اندر اور باہر دونوں یکساں تھے، دل بھی ان کا شفاف تھا اور عمل بھی قابل تقلید ۔اپنا کوئی موقف یا نظریہ قائم کرنے میں تو وہ بہت محطاط تھے تاہم اچھے کام پر کسی کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتے ۔ مولانا کا کوئی خاص جب دنیا سے رخصت ہوتا تو اس پر ضرور کچھ تحریر فرماتے جو بعد میں خاکے کی صورت میں سامنے آتا، ایک بار مولانا نور عالم خلیل امینی ؒ کے انتقال پر ان کا خاکہ شائع ہوا ،میں نے پڑھ کر انھیں لکھا:

” ارے یہ کیا ابھی تو مضمون شروع ہی کیا تھا اور چشمِ زدن میں ختم… نہیں نہیں پیاس ابھی باقی ہے بلکہ اور بھڑک اٹھی ہے… گستاخی معاف حضرت! ایسے کام نہیں چلے گا، سیرابی نہیں ہوئی ، دل نہیں بھرا، آنکھیں صدائے ہل من مزید بلند کررہیں۔الٰہی! صاحب خاکہ کو اپنی رحمتوں میں رکھ اور خاکہ نگار کو اپنے حفظ وامان میں۔خاکے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

”مضمون نگاروں کی ایک ایسی کھیپ بھی منظر پر ہے خاص طور پر سوشل میڈیا پر جسے الفاظ کے استعمال کا ذرہ بھر سلیقہ نہیں وہ ایسا لکھتے ہیں کہ جیسے قلم کی سانسیں اکھڑ رہی ہوں، بھیک مانگتے جملے، کٹورا ہاتھ میں لیے کھڑی عبارتیں، سسکیاں لیتی تشبیہات، منہ بسورتی تعبیرات، ایسی بے دردی سے قلم چلاتے ہیں کہ لفظ مر جاتے اور خیالات جاں کنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔“

حضرت ان لفظوں، تعبیروں اور تشبیہات نے تو دل کتر ڈالے… بطورِ خاص” بھیک مانگتے جملے…“ مزا آگیا۔جزاک اللہ خیرا واحسن الجزائ۔“

مولانا کے یہ الفاظ دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے کتنے سچے اور سبق آموز ہیں ، سوشل میڈیا کے پہلوانوں کو سوچنے سمجھنے اور درس لینے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے مولانا ذرا فکر مند سے محسوس ہونے لگے تھے۔ان کی فکرمندی گھریلو بھی تھی،سماجی بھی تھی اور اخروی بھی۔میرے علم کے مطابق مولانا کا قلم دوسرے موضوعات کے مقابلے ادب میں زیادہ چلتا تھا ؛یہی وجہ ہے کہ ان کے قلمی سرمائے کا زیادہ حصہ ادبی ہے۔پچھلے ایک دہے کے اندر اندر اسلامی ، دینی و اصلاحی موضوعات پر پانچ کتابیں شائع ہوئیں ، گفتگو میں ادبی ، سیاسی باتوں سے زیادہ فکری اور اصلاحی پہلو غالب رہتا،بزرگوں اور مشائخ سے ان کا رابطہ قدیم تھاجو اب مسلسل و مستحکم نظر آتا،خانقاہوں میں حاضری کا سلسلہ بھی مضبوطو پیہم تھا۔مولانا نے اس عید پر مجھے مبارکبادی یوں دی:

”السلام علیکم ،ایک ایسے وقت میں جب مسلمانان عالم اور مسلمانان ہند دکھوں اور جان ومال کے ضیاع سے دوچار ہیں ،کیا عید کی خوشی مگر یہ عطیہ خداوندی ہے جس کے لیے اسی ذات واحد کی جناب عالی میں ہدیہ تشکر پیش ہے۔ اللہ کریم آپ کو ایسے بےشمار رمضان اور عید عطا فرمائے دعا کا طالب ہوں۔“

وہ علم کے گرتے ہوئے گراف ،ادب وصحافت کی ہلتی ہوئی بنیاد اور علم و ادب اور صحافت پر نا اہلوں کے ناجائز قبضے پر بہت ہی افسوس کا اظہار کرتے۔ مستحق اور اہل علم و تحقیق کی قدر ناشناسی بھی انھیں بے چین کیے رہتی۔ ایک جگہ مولانا کس قدر دل سوزی کے ساتھ تحریر فرماتے ۔ملاحظہ فرمائیں:

”آج اخبار لوٹ کھسوٹ مچانے ،جھوٹ سچ کرنے،خوشامد ، چاپلوسی کے سوا اور کیا کررہے ہیں؟ پھر قصباتی سطح اور کچھ چھوٹے شہروں میں صحافت کے نام پر جتنی گندگی پھیلائی جارہی ہے اور قلم سے جس طرح کارآمد، اچھے ، باکمال، صاحبِ استعداد، ماہر ِ فن لوگوں کا استحصال کیا جارہا ہے ، اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے مگرکیا کریں۔بے فن لوگوں ، بے کمال انسانوں،بے بہرہ آدمیوں،مصلحت پسندوں،موقع شناسوں،خود غرضوں کی جماعتیں اور ٹولیاں ہیں جو انصاف کا گلا گھوٹ رہی اور حق داروں سے ان کا حق چھین رہی ہیں۔ضمیر فروشوں کے میدان میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والوں نے سچی صحافت کے سینے میں خنجر گھونپ رکھے ہیں۔“(رئیس القلم مولانا سید ازہر شاہ قیصر: زندگی کے چند روشن اوراق،مولانا نسیم اخترشاہ قیصر ،مکتبة الانور ، دیوبند(2021)ص:69)

اولاد کا صالح ہونا اپنے آپ میں ایک عظیم نعمت ہے اور یہ نعمت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ آج اولاد کے اندر بھی مادیت کا ایسا زہر بھر گیا ہے کہ والدین کے حقوق کو بھی روپے پیسوں میں تولتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ماں باپ کا حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوسکتا۔ایسے پر آشوب حالات میں بچوں کا فرماںبر دار ہونا کھلی کرامت کی بات ہے۔ان کے کسی بچے کو کبھی بھی ان پر آواز اونچی کرتے نہیں دیکھابلکہ خدا جھوٹ نہ بلوائے کبھی ان بچوں کو چیں بجبیں ہوتے بھی نہیں دیکھا۔اور یہ خوش نصیبی کیوں ان کے حصے میں نہیں آتی جب کہ انھوں نے بھی اپنے والدین کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔مولانا اپنے ابا کے تذکرے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

”اللہ نے مجھے والد مرحوم اور والدہ مرحومہ کی خدمت کا بہت موقع دیا، زمانہ صحت میں بھی اور ایامِ علالت میں بھی، تحدیثِ نعمت اور شکریے کے طور پر کہتا ہوں کہ میرے اللہ کا مجھ پر یہ بڑا احسان تھا ، میری زندگی کے وہی دن اور وہی راتیںحاصلِ زندگی ہیں جو والدین کی خدمت میں لگ گئیں ۔ان سعادتوں اور خوش بختیوں کو ان کے لیے دعائے خیر اور ایصال ِ ثواب میں تلاش کرتا ہوں۔“(ایضاً،ص: 83)

مولانا نسیم شاہ ؒ کے کل نو اولادیں ہوئیں،جن میں سب سے پہلی بیٹی کا کم سنی ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔تین صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں الحمد للہ حی القائم ہیں ۔سب سے بڑے مفتی عبید انور شا قیصرہیں، بارہویں پاس کر نے کے بعد ادھر آئے ، درس نظامی کی ابتدائی تعلیم جامعہ امام محمدانور دیوبند سے حاصل کی اور چہارم عربی میں دار العلوم میں داخل ہوئے ، 2013میں سند ِ فضیلت حاصل کرنے کے بعد افتاءکی تکمیل کی پھر تخصص فی الحدیث کی اعلیٰ سند سے سرفراز ہوئے۔اس وقت وہ جامعہ امام محمد انور کے موقر استاذ اور اس کے ترجمان ماہنامہ” محدث عصر“ کی مجلس ِ ادارت کے رکن بھی ہیں۔علم ِ حدیث میں ان کے انہماک اور علم و تحقیق سے اشتغال کو دیکھتے ہوئے علامہ انور شاہ کشمیری کا انھیں مستقبل کا جانشین کہا جاسکتا ہے؛بلکہ ان کی پیشانی کی لکیروں سے انوری علوم کا نور پھوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔دوسرے صاحبزادے عزیر انور شاہ قیصر ہیں ، بارہویں کے بعد انھوں نے انجینئرنگ کی ۔ ماشاءاللہ اس وقت وہ یوپی گورنمنٹ کے ایک مڈل اسکول میںٹیچر ہیں اور ساتھ ہی خارج میں مختلف اساتذہ سے درسِ نظامی کی کتابیں بھی پڑھ رہے ہیں اور عربی پنجم کا مرحلہ طے کر رہے ہیں۔لکھنے پڑھنے کا انتہائی عمدہ ذوق رکھتے ہیں ،وہ شاعری بھی کرتے ہیں ، مولانا انظر شاہ کشمیری ؒ کی وفات پر بھائی عزیرنے ایک مرثیہ کہا جس سے ان کے شاعر ہونے کا مجھے علم ہوا لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان کی شاعری ان کی عمر سے کئی سال بڑی معلوم ہوتی ہے اسی لیے مولانا نسیم شاہ صاحب نے انھیں شاعری سے دانستہ روک دیا ، ان کا خیال تھا کہ اچھی شاعری بلندی تو عطا کرتی ہے لیکن بہت سی چیزوں کو چھین بھی لیتی ہے۔تیسرے صاحبزادے خبیب انور شاہ قیصر حفظ مکمل کرکے مدرسہ اصغریہ دیوبند میں عربی چہارم کے طالب علم ہیں اور ساتھ ہی خارج سے گیارہویں کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔پانچ صاحبزادیوں میں تین گریجویٹ ہیں چوتھی بیٹی بارہویں میں اور چھوٹی آٹھویں کلاس میں زیر تعلیم ہیں ۔ اول الذکر دو کی شادی ہو چکی ہے ۔ اللہ ان سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور انوری خاندان کی وراثت کا محافظ بنائے۔

یہ میری محرومی تھی کہ میں دیوبند رہتے ہوئے رائے پور جیسی بزرگوں کی بستی نہیں جا سکا تھا ، مولانا سے اس کا کئی بار تذکرہ ہوا ، وہ یہی کہتے کہ جب بھی دیوبند آنا ہو ہفتہ عشرہ کا وقت لے کر آئیں ،سال گزشتہ اسی اکتوبر میں دیوبند کے سفر کا پروگرام بنا ، دہلی سے اپنے رفیق ِ درس مولانا امیر حمزہ کو ہمراہ لیا اور دیوبند پہنچے ۔غالباً دوسرے ہی روز مولانا وہاں جانے کے لیے تیار ہوگئے اور کار وغیرہ کا بھی انتظام کر لیا ۔طے یہ ہوا کہ پہلے کھجناور چلیں گے اور وہاں سے مولانا ساجد قاسمی اور مولانا فتح محمد ندوی کو ساتھ لے کر رائے پور چلیں گے ۔چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ہمارا قافلہ منزل پر پہنچا ، شاہ صاحب کی وجہ سے ہم بھی معزز ٹھہرے ، استقبال ہوا ، للہ والوں کے ساتھ ہم دسترخوان ہوئے، بزرگوں کے مزار پہ حاضری ہوئی ، فاتحہ پڑھی گئی ، تھوڑی دیر کے لیے عجیب و غریب کیفیت سے دو چار رہے، سرشاری رہی ، اللہ کے بندوں کا ہجوم لگا تھا ، جمعہ کا دن تھا ،مشورہ ہوا کہ جمعہ کھجناور میں ادا کریں ، لیکن ذرا تاخیر ہوگئی ، راستے کی ایک مسجد میں جمعے کی نماز ادا کی گئی،پھر ہم کھجناور پہنچے ،بھائی فتح کے ہاں ظہرانے کا پر تکلف انتظام تھا،نمٹایا گیا ، شام تک قافلہ دیوبند واپس آگیا ۔دو تین روز مولانا ہی کے گھر قیام رہا ، مولانا نے پورے خلوص کے ساتھ ضیافت کی ، ہر طرح سے ہمارے آرام کا خیال رکھا،جب ہم دیوبند سے دہلی واپس ہونے لگے تو اپنی تازہ سات کتابوں کا مکمل سیٹ ہدیتاً عطا کیا اور ہم رخصت ہوگئے کیا پتا تھا کہ یہ ہماری مولانا سے آخری ملاقات ہوگی ۔

مولانا اپنی جوانی میں فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے، شاید اسی کا اثر رہا ہوعمر ڈھلتے گھٹنے کا عارضہ لاحق ہوگیا ، ابتدا میں انھوں نے اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا لیکن نسوں کے اس مرض نے دھیرے دھیرے شدت اختیار کر لی اور ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہوگئی ، اب حال یہ ہو گیا کہ جوں جوں دوا کی توں توں مرض بڑھتا گیا ، ایک ڈاکٹر سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے کا چکر لگتا رہا بالآخر ہریانہ کے ایک حکیم کی دوا چلی ، کچھ کچھ افاقہ ہوچلا تھا ،گھر ہی پہ صاحبِ فراش تھے،اپنی جگہ پہ لیٹے لیٹے پڑھنے لکھنے کے سوا سارے امور انجام دے رہے تھے،اعزاءو احباب کا آنا جانا لگا تھا ، باتیں ملاقاتیں ہورہی تھیں،مجلسوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ایک دن قبل دس ستمبر کو دن کے ساڑھے دس بجے ان سے موبائل پہ گفتگو ہوئی ، وہی تازگی ، وہی شگفتگی، وہی بے تکلفی،وہی بانکپن،وہی پیار اور وہی خلوص کا مظاہرہ ہورہا تھا ، کسی قسم کی نہ کمزوری کا احساس اور نہ اضمحلال کا کوئی شائبہ ، خیریت معلوم کی گئی ، کچھ ادھر اُدھر کی باتیں ہوئیں اور دعاﺅں کی گزارش کے ساتھ اللہ حافظ ہوا ۔کسے معلوم تھا ان کا یہ اللہ حافظ میرے لیے آخری اللہ حافظ ثابت ہوگا ۔دوسرے دن یعنی گیارہ ستمبر کو معلوم ہوا حرکت َ قلب کے بند ہوجانے سے مولانا اللہ کو پیارے ہوگئے۔اب تو دیوبند جانے کے باوجود ان سے باتیں نہیں ہو پائیں گی ؛ اگرباتیں ہوئیں بھی تو ایک طرفہ ہوں گی ، کس قدر اذیت ناک وہ گھڑی ہوگی جب صرف ایک بولے گا اور دوسرا چپ رہے گا۔الٰہی ! مولانا کو اپنی شایانِ شان جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔

You may also like

Leave a Comment