یہ خبر دل پر بجلی بن کر گری کہ معروف عالم دین حضرت مولانا ندیم الواجدیؒ ابھی کچھ دیر پہلے امریکہ میں انتقال فرما گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون ان للہ ما اخذ و لہ ما اعطی و کل عندہ باجل مسمی
مولانا مرحوم ایک معروف خاندان کے مثالی فرد تھے۔آپ کے دادا حضرت مولانا احمد حسن صاحب دیوبندیؒ اور والدگرامی حضرت مولانا واجد حسین دیوبندیؒ کا اکابرعلماء دیوبند میں شمار ہے۔حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب مدیر ماہنامہ ترجمان دیوبند و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نام و کام سے ایک جہاں واقف ہے۔اردو عربی اور انگریزی زبان میں آپ کی اب تک پچاس سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور انھیں عوام و خواص میں قبول عام حاصل ہے۔
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحبؒ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں حاصل کی تھی،جہاں آپ کے دادا مرحوم اور والدماجدؒ علیا کے مدرس تھے۔اس دور میں آپ نے مطالعۂ کتب میں جس دل چسپی کا مظاہرہ کیا،دوربیں نگاہوں نے اسی وقت اندازہ لگا لیا تھا کہ آگے چل کر ان کے ذریعے بڑا دینی و علمی کام معرضِ وجود میں آئے گا۔مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خاں جلال آبادیؒ بھی آپ کے مطالعۂ کتب کے شوق سے واقف اور خوش تھے۔آپ نے اس دور میں اکابرعلمائے دیوبند میں حضرت حکیم الامتؒ کی کتابیں خاص طور سے پڑھی تھیں۔خود مولانا مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں:
"سچ پوچھیے تو مجھے سب سے زیادہ فائدہ اردو کتابوں میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے مواعظ و ملفوظات سے ہوا،انھیں بار بار پڑھتا تھا اور حضرت سے کچھ ایسی عقیدت محبت اور مناسبت ہو گئی تھی کہ میں بار بار تھانہ بھون کے چکر لگایا کرتا تھا اور مزار پر حاضری دے کر واپس آ جاتا تھا۔”
مولانا ندیم الواجدی صاحب کو حضرت مسیح الامتؒ سے مناسبت تھی اور آپ نے ان کی مجالس میں شرکت بھی کی اور دوسری طرف مفتاح العلوم جلال آباد کے زمانۂ قیام میں بھی اور عربی سوم یا چہارم کے سال دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے لینے کے بعد بھی حضرت تھانوی کی کتابوں سے استفادے کا سلسلہ جاری رہا اور اس سے آپ کو علمی و روحانی ہر دو اعتبار سے بڑے فوائد حاصل ہوے۔دادا اور والد ماجد کی سرپرستی اور تعلیمی نگرانی نے سونے پر سہاگے کا کام دیا۔دادا اور والد آپ کے سرپرست تھے استاذ بھی تھے اور مربی و مصلح بھی تھے۔رحمھااللہ رحمۃ واسعۃ
آپ کے دادا مرحوم کا انتقال تو بہت پہلے ہو گیا تھا،تاہم آپ کے والدماجد حضرت مولانا واجد حسین صاحب دیوبندیؒ سابق شیخ الحدیث مدرسہ تعلیم ڈابھیل نے طویل عمر پائی اور چند سال پہلے وہ راہیِ آخرت ہوے۔
والدماجد کی حیات و خدمات پر آپ نے ایک کتاب مرتب کی ہے اور اس میں آپ نے ان کے مخصوص تلامذہ کی فہرست بھی نقل کی ہے،جس میں مولانا عبدالستار صاحب بوڑیوی کا نام بھی شامل تھا؛لیکن اس وقت تک مولانا ندیم الواجدی صاحب کی نہ آپ سے ملاقات تھی اور نہ کوئی تفصیلی تعارف تھا۔مولانا ساجد کھجناوری استاذحدیث و مدیر ماہنامہ صدائے حق گنگوہ کی تحریک پر آپ نے بوڑیہ کا سفر کیا اور مولانا بوڑیوی کی شخصیت سے آپ متاثر ہوے،یہ تاثر اس بنیاد پر تھا کہ آپ نے ان کی خانقاہ میں علم و روحانیت اور اکابر و مشائخ ہی کی باتیں ان کی زبانیں سنیں اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ آج بھی دنیا میں اس طرح کے خدا رسیدہ لوگ موجود ہیں،جن کا دنیا و امورِدنیا سے بس واجبی سا تعلق ہے اور یادِالٰہی و فکرِآخرت سے بڑھ کر انھیں کوئی شغل محبوب نہیں۔
پہلی ملاقات کے ہفتے عشرے بعد مولانا ندیم الواجدیؒ دوبارہ بوڑیہ گئے اور کچھ وقت مولانا بوڑیوی کے پاس گزارا۔مولانا ندیم الواجدی صاحب کا حضرت بوڑیوی سے بیعت ہونے کا کوئی ارادہ نہ تھا،بس یہ ملاقاتیں صرف اسی بنیاد پر تھیں کہ بوڑیہ آکر،مولانا مفتاحی بوڑیوی کی زبانی تصوف و روحانیت اور علم و علماء کا ذکر سن کر اور خانقاہ بوڑیہ میں وقت گزار کر انھیں سکون و طمانینت کا عجب احساس ہوتا تھا اور یہ تاثر راقم سطور نے متعدد علماء کی زبانی سنا،بلکہ بعض کو تو یہاں تک بھی کہتے ہوے سنا گیا کہ مولانا عبدالستار صاحب مفتاحی بوڑیوی کی مجالس میں بیٹھ کر اور ان کی سادہ سی خانقاہ و مجالس دیکھ کر حضرت مسیح الامت جلال آبادیؒ کے عہد کی یاد تازہ ہو جاتی ہے کہ مولانا بوڑیوی کی مجالس میں حضرت جلال آبادی کی اصلاحی مجالس کی جھلک پائی جاتی ہے۔
بہرکیف:مولانا ندیم الواجدی صاحبؒ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ بوڑیہ حاضری کے موقع پر حضرت بوڑیوی سے بیعت ہونے کی خواہش ظاہر کی۔حضرت بوڑیوی نے فرمایا کہ بہتر ہوگا کہ آپ کسی ایسے بزرگ سے بیعت ہوں،جن سے مناسبت ہو،اس سے زیادہ فائدے کی توقع ہے اور آپ ابھی مہمان خانے میں تشریف لے جائیں،دوگانہ نماز ادا کرکے خوب دعائیں مانگیں،مہمان خانے میں آرام فرمائیں اور خوب غور و فکر کے بعد کسی بھی بزرگ سے بیعت ہونے کی بابت کوئی حتمی و آخری فیصلہ لیں۔مولانا ندیم الواجدی صاحب نے ایسا ہی کیا اور دو تین گھنٹے کے بعد حاضرِخدمت ہوکر وہی سابقہ بات دہرائی کہ بیعت کے سلسلے میں دل بدستور آپ ہی کی جانب مائل ہے،آپ بیعت فرمالیں،ان شاءاللہ فائدہ ہوگا۔حضرت بوڑیوی کے حلقۂ ارادت میں آپ باضابطہ طور پر شامل ہوے۔
اپنے شیخ و مرشد کی خدمت میں آپ نے وقفے وقفے سے حاضری دی اور یہ سلسلہ آخر تک جاری۔شیخ کی ہدایات و نصائح پر عمل درآمد کی نعمت سے مالامال ہیں اور یہ حکیم الامتؒ،مسیح الامتؒ،حکیم الاسلامؒ اور حضرت بوڑیوی وغیرہ موجود مرحوم سے آپ کی عقیدت و محبت کا ثمرہ ہے کہ آپ کے وقت میں منجانب اللہ عجیب و غریب برکت مقدر کی گئی تھی کہ آپ کا تصنیفی و تالیفی اور دینی و دعوتی کام کسی تنظیم و اکیڈمی کے کام کے مساوی نظر آتا ہے اور مصروف ترین زندگی گزارنے کے باوصف آپ کے چہرے بشرے سے ظاہر ہونے والا سکون و اطمینان قرآنی آیت "الا بذکراللہ تطمئن القلوب” کا مظہر تھا۔حضرت بوڑیوی کے پوتے عزیزالقدر مولوی عبدالسبحان بوڑیوی متعلم عربی ششم دارالعلوم دیوبند نے احقر سے بتایا کہ اسی سال ماہِ صیام رمضان المبارک سے پہلے اباجی مدظلہ نے مولانا ندیم الواجدی صاحبؒ کو اجازت و خلافت سے نوازا۔اس روحانی و اصلاحی تعلق کے بعد آپ کے معمولات میں مزید اضافہ ہوا ہے اور ان کی تواضع و فنائیت کا ذکر کرتے ہوے آپ نے مزید کہا کہ چند مہینے پہلے وہ جب دیوبند سے بوڑیہ تشریف لے گئے،تو اس سفر میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔اس سفر میں جب میں انھیں ہاتھ دھلانے کے لیے آگے بڑھا تو مولانا ندیم الواجدی صاحب نے بے ساختہ فرمایا کہ مولوی عبدالسبحان! تم مجھے ہاتھ وغیرہ نہ دھلایا کرو،تم ہمارے شیخ و مرشد کے پوتے ہو،ہم یہاں اپنے نفس کو مارنے اور اس کے علاج کے لیے حاضر ہوتے ہیں،نہ کہ اسے موٹا کرنے کے لیے۔اس طرح کے چھوٹے موٹے کام ہمیں خود ہی کر لینے دیا کیجیے۔
مولانا ندیم الواجدی صاحب ہمارے ملک کے مثالی و بافیض عالم دین تھے،ملک و ملت کی انھوں نے گراں مایہ خدمات انجام دی ہیں، ان کی عمر کا کارواں ساٹھ سے متجاوز ہو چکا تھا،بایں ہمہ ان کی جہدِمسلسل،کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی لگن اور پڑھنے لکھنے کے شغل سے مضبوط وابستگی میرے جیسے نوجوانوں کے لیے درسِ عبرت تھی۔رب کریم کا شکر ہے کہ اس نے مولانا ندیم الواجدیؒ کو مفتی یاسر ندیم الواجدی کی شکل میں خلف الرشید بھی عطا فرمایا ہے،جن کا تابناک حال ان کے روشن مستقبل کا غماز ہے اور وہ اپنے نیک نام اجداد کی دینی و علمی روایات کو بڑے مستحکم انداز میں آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
مولانا مرحوم سے دیوبند کے اسفار میں مجھے ملاقات کا کئی دفعہ شرف حاصل ہوا،میری نگارشات اور کچھ کتابیں ان کی نظر سے گزری تھیں اور وہ وقتِ ملاقات بہت حوصلہ افزا کلمات سے نوازتے تھے۔عن قریب راقم سطور کی ایک کتاب شائع ہونے والی ہے،جس میں مولانا مرحوم کا ذکر خیر بھی شامل ہے۔ارادہ تھا کہ کتاب شائع ہوگی،تو اسے لے کر مولانا کی خدمت میں حاضری دی جائے گی اور وہ حسبِ عادت دعاؤں اور حوصلہ افزا کلمات کے ساتھ ساتھ اپنے مفید و صائب مشوروں سے بھی نوازیں گے، جن سے تصنیفی کام میں فائدہ اٹھایا جائے گا، لیکن خدائی تقدیر ایک مرتبہ پھر انسانی تدبیر پر غالب آئی اور مولانا مرحوم سفرِامریکہ کے دوران وفات پا گئے۔و کم من حسراتِِ فی بطون المقابر
دعا ہے اللہ تعالی مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کے درجات بے حد بلند فرمائے،ان کی علمی و دینی اور ملی و سماجی خدمات کو قبول فرمائے اور مفتی یاسر ندیم الواجدی اور دیگر جملہ متعلقین و پس ماندگان کو صبرجمیل کی توفیق بخشے۔