نسرین اختر
مولانا محمد علی جوہر10دسمبر 1878ء کو ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کی عمر میں والد کا شفیق سایہ سر سے اٹھ گیا اور ان کی پرورش اور تربیت کا بوجھ ان کی والدہ بی امّاں کے سر پر آپڑا۔ ان کو گھر میں اردو، فارسی کی تعلیم دی ،بعد ازاں بریلی کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل کرایا۔ گیارہ سال کی عمر میں وہ علی گڑھ آگئے، جب بیس سال کے ہوئے ،تو الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور پوری یونیورسٹی میں اول آئے، پھر انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے لیے آکسفورڈ کا تعلیمی سفر کیا، وہ پہلے ہندوستانی تھے ،جنھیں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کا سیکریٹری بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
انڈین سول سروس کے امتحان میں آپ کو ناکامی ہوئی، تو ہندوستان واپس آکر رام پور میں افسر تعلیمات مقرر ہو گئے ،مگر جلد ہی اس ملازمت سے کنارہ کش ہو گئے ،اس کے بعد ریاست بڑودہ میں کمشنر کے عہدے پر فائز ہو گئے، مگر پھر اس ملازمت سے بھی الگ ہو گئے اور پھر یہیں سے ان کی قومی خدمات کا آغاز ہوا۔ آپ 1911 میں کلکتہ آئے اور یہاں سے ایک انگریزی ہفت روزہ اخبار ’’کامریڈ‘‘ جاری کیا جس نے اخباری دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا، اس اخبار کی حق گوئی، بے باکی اور عوام دوستی بہت جلد اس کی عالمگیر شہرت کا سبب بن گئی۔ کامریڈ میں دنیائے اسلام کے واقعات پر بھی مضامین ہوتے تھے۔ اس نے نہ صرف مسلمانوں کی حمایت کا پورا پورا حق ادا کیا؛ بلکہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی حمایت میں بھی بہت کچھ لکھا۔
جب 1914 میں لندن ٹائمز نے ایک اشتعال انگیز مقالہ شایع کیا ،جس میں ترکوں کو دھمکیاں دے کر کہا گیا تھا کہ وہ اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ نہ کریں ،ورنہ ان کے حق میں اچھا نہ ہو گا، تو اس کے جواب میں مولانا محمد علی جوہر نے اسی عنوان ’’چوائس آف ترکس‘‘ کے تحت ایک طویل مضمون چالیس گھنٹے لگاتار بغیر کچھ کھائے پیے محنت شاقہ کے بعد سپرد قلم کیا، جس میں برطانوی حکومت کی ترکوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کو بیان کیا گیا تھا۔ اس پر کامریڈ کی ضمانت ضبط ہو گئی اور اخبار بند کرنا پڑا۔ 1914 میں پہلی عالمگیر جنگ چھڑی، ترکوں کی حمایت میں گورنمنٹ نے مولانا محمد علی جوہر کو گرفتار کرکے قید کر دیا۔
سنہ 1913 میں دلّی سے اُردو کا اخبار ’’ہمدرد‘‘ جاری کیا۔ ’’کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ دونوں اخباروں نے مسلمانانِ ہند کا سیاسی تصور بیدار کرنے میں بڑی مدد دی۔ اس سے پہلے 1912 میں کامریڈ بھی دہلی لے آئے تھے۔ اب محمد علی جوہر صرف ایڈیٹر ہی نہ تھے؛ بلکہ صحیح معنوں میں لیڈر تھے۔ اب قوم ان کی نہ تھی، وہ قوم کے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کو اللہ تعالیٰ نے فکر و سیرت کے بے شمار محاسن سے نوازا تھا، ان کی زندگی سیرت اسلامی کا ایک حسین مرقع تھی، ان کی گوناگوں خوبیوں نے انھیں اپنے معاصرین میں منفرد و ممتاز بنا دیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ تمام صلاحیتیں اور وہ تمام کمالات بدرجہ اتم عطا فرمائے تھے ،جو ایک قومی درجے کے بلند پایہ رہنما کے لیے لازمی ہوتے ہیں، ان میں خلوص کا بحر بیکراں موجزن رہتا تھا۔
خطابت کی جادوگری ہو یا صحافت کی سحر آفرینی، وہ ہر میدان کے شہسوار تھے، ان کی شخصیت میں دلآویزی کے ساتھ ساتھ پارے کی سیمابی اور بجلی کی بے تابی بھی تھی، ان میں ایک منفرد قلندرانہ شان تھی کہ انھوں نے کبھی حق بات کہنے میں کسی کی پروا نہ کی۔ مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت اس لحاظ سے فقید المثال ہے کہ وہ اردو اور انگریزی کے بہترین انشا پرداز اور صحافی تھے ، سچائی ان کا اصل جوہر تھا۔ مایہ ناز دانشور مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنی کتاب ’’محمد علی جوہد:ذاتی ڈائری کے چند ورق‘‘ میں مولانا محمد علی جوہر کا تعارف یوں پیش کیا ہے:
’’ایک ایسا شخص ،جو ایک طرف وزیر ہند مسٹر مانٹیگر اور وزیر اعظم برطانیہ لائڈ جارج کے سامنے لندن میں گھنٹوں مسئلۂ خلافت پر آزادانہ تقریر کر سکتا ہو، جوعین ہیجان مخالفت میں لندن اور پیرس کی بڑی بڑی مجلسوں میں ترکوں کی حمایت میں مدلل اور شفتہ و برجستہ خطاب کر سکتا ہو،جو وائسرائے اور گورنروں کے سامنے قوانین کے سلسلے میں مخالفانہ بحثیں کرکے انھیں قائل کرسکتا ہو۔ اخبار کامریڈ میں سیاست ِحاضرہ اور مذہب پر دس دس اور بیس بیس کالم کے مضامین بہترین ادب و انشا کے ساتھ سپرد قلم کرسکتا ہو، انگریزوں کی کلب لائف میں ایسا گھل مل جائے کہ انہی میں سے معلوم ہو اور دوسری طرف مسجد کے منبر پر وعظ کہنے کھڑا ہو، تو روتے روتے اپنی داڑھی بھگولے اور سننے والوں کی ہچکیاں بندھ جائیں۔ محفلِ سماع میں بیٹھے تو اس کا وجد وحال دیکھ کر دوسروں کو وجد آجائے۔ مسئلۂ قتلِ مرتد پر جب فقہی استدلال شروع کرے، تو اچھے اچھے اہل علم اش اش کر اٹھیں۔ آزاد خیال اتنا کہ ہر کلمہ گو کو اپنا حقیقی بھائی سمجھ لے، متقشف ایسا کہ ترکی کے آمر مصطفی کمال پاشا اور افغانستان کے امیر امان اللہ خان کو آخر تک معاف نہ کرے، نماز کا پابند اتنا کہ برطانوی ایوان پارلیمنٹ کے برآمدے میں بھی مصلیٰ بچھا کر کھڑا ہو جائے،دلیر اتنا کہ سلطان ابن مسعود والی نجد و حجاز کے منہ پر بھرے مجمع میں سب کچھ کہہ سن کر رکھ دے، ادیبوں کی محفل میں ادیب، شاعروں کی مجلس میں غزل گو، اہل سیاست کی صف میں ممتاز، عوام و خواص دونوں کے اعتماد و عقیدت سے سرفراز‘‘۔
مولانا محمد علی جوہر نے اتحاد رابطہ بین المسلمین کے لیے خلافت تحریک چلائی ،جس کے محرکین میں ان کے علاوہ شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا ابوالکلام آزاد، نواب سلیم اللہ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عبدالماجد بدایونی اور مولانا ظفر علی خان بھی شامل تھے۔ جب خلاف تحریک کے اثرات تیزی سے پھیلنے لگے ،تو انگریزی حکومت نے اس کو غیر قانونی قرار دے دیا اور مولانامحمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا نثار احمد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو پر مقدمہ چلایا گیا ۔ 22 دسمبر 1921 کو کراچی کے خالق دینا ہال میں مقدمے کی سماعت ہوئی اور وہ تقریباً دو سال کے لیے نظر بند کر دیے گئے۔
خرابی صحت کے باوجود 1930 میں پہلی گول میز کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے لندن کا سفر اختیار کیا۔ گول میز کانفرنس سے انھوں نے انگریزوں کو مخاطب کرتے ہوئے ،جو آخری لندن لاجواب تقریر کی ، اس میں انھوں نے حکومت برطانیہ کے بڑے بڑے ارکان کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت بے باکی سے گرج کر کہا:
’’ہمیں تجاویز کی ضرورت نہیں اور نہ اس بات کی پروا ہے کہ آپ ہمارے لیے کس قسم کا آئین تیار کرتے ہیں، ہمیں انسانوں کی ضرورت ہے۔ کاش سارے انگلستان میں ایک فرد بھی ایسا ہوتا، جو انسان کہلانے کا مستحق ہوتا۔ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے لندن آیا ہوں اور آزادی کا پروانہ لے کر واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں ایک آزاد ملک میں تو مرنا پسند کروں گا؛ لیکن غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا‘‘۔
4 جنوری 1931 کو گول میز کانفرنس کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کے دل کی دھڑکن بند ہو گئی، مفتی اعظم فلسطین الحاج سید امین الحسینی کی تحریک پر ان کی نعش فلسطین لے جائی گئی اور ان کے جسم خاکی کو سرزمینِ انبیا بیت المقدس کے گوشے میں جگہ ملی:
جیتے جی تو کچھ نہ دکھلائی بہار
مر کے جوہر آپ کے جوہر کھلے!