مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی -جنہیں اب رحمہ اللہ کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے – 16 جون 2023ء مطابق 26 ذیقعدہ 1444 ہجری بروز جمعہ وہاں چلے گئے جہاں ہم سب کو جانا ہے : إنَّ لِلَّه ما أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى، وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى .۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔
اسی روز ، شب دس بجے کے قریب دارالعلوم دیوبند کے احاطہ مولسری میں حضرت مولانا فرید الدین صاحب قاسمی استاذ حدیث دار العلوم وقف دیوبند کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور مزار قاسمی میں آسودہ خواب ہوئے ۔سوگواروں میں دو لڑکے( انجینئر قمر الاسلام اور مولانا بدر الاسلام قاسمی ) دولڑکی اور اہلیہ محترمہ ہیں ۔
آپ کی ولادت “ راجہ بھیٹا” میں ( جامتاڑا ، جھار کھنڈ – قیام جھارکھنڈ سے پیشتر صوبہ بہار کے ضلع دمکا کے تحت یہ گاؤں آتا تھا – ) 16 فروری 1954ء کو ہوئی ۔ مکتب کی ابتدائی تعلیم علاقہ میں ہی ہوئی ، عربی کے ابتدائی درجات کی تعلیم جامعہ حسینیہ گریڈیہہ جھارکھنڈ اور اشرف المدارس کلٹی ، بردوان سے حاصل کی۔ متوسطات کی تعلیم کے لیے سن 1967ءمیں جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا ، سن 1968ء میں از ہر ہند دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور 1971ء میں تکمیل ادب عربی، 1973-74میں اردو عربی خطاطی کی تکمیل ، 1975میں تکمیل افتاء سے فراغت حاصل کی۔ سن 1976ء میں علی گڑھ سے ادیبِ کامل اور سن 1989-90ء میں آگرہ یونیورسیٹی سے ایم اے اردو پاس کیا ۔1976میں الداعی کے معاون معاون مدیر مقرر ہوئے ، بعد کے زمانے میں دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث کی حیثیت سے تقرر ہوا ۔
جن لوگوں نے حضرت ممدوح مرحوم کو قریب سے دیکھا اور ان کی شخصیت کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ کیسی کیسی خوبیوں اور گوناگوں کمالات کے حامل تھے، پبلسٹی، تشہیر ذات، بالادستی کے خبط، احساسِ تفوّق ، خود نمائی ، خود ستائی، خود بینی، دنیاوی عزت، اخباری سرخیوں اور ذکر وتذکرے سے دور ، ظریف وشریف الطبع ، ذکی الحس ، خوش ذوق ، خوش اطوار ، نیک طینت ، صاف دل ، بذلہ سنج، غایت درجہ شفیق ومہرباں، دل آویز وباکمال ، پیکرنفاست ، خوشیاں بانٹنے والے ، بے ضرر ومخلص انساں تھے ۔ تحقیق وجستجو کے رسیا اور عربی واردو ہر زبانوں میں تقریر وتحریر کے ماہر ، خوش نویس اور اعجاز رقم نادر ویکتا خطاط تھے۔
خود ایک جیّد ،قابل اور بالغ نظر عالم دین ہونے کے باوجود علمی وتحقیقی ذوق رکھنے والے تمام فضلاء سے یکساں ربط وتعلق رکھتے ، انہیں نئے و سلگتے مسائل پہ لکھنے کی ترغیب وتحریک عمل دیتے ، حوصلے بڑھاتے، اچھے کاموں کی بے انتہا تحسین وتائید فرماتے ، فروگزاشتوں پہ پدرانہ ، مشفقانہ ومخلصانہ نقد وتعدیل فرماتے ۔ تحقیقی کاموں میں علمی مواد کی جانب رہنمائی کرتے ۔ممتاز فضلاء کی صلاحیتوں کا وسعت ظرفی کے ساتھ اعتراف کرتے اور انہیں مفید وتعمیری کاموں میں استعمال کرنے کا خداداد ہنر جانتے تھے ، افکار واعمال میں وسطیت اور میانہ روی کے ساتھ تحمل و برداشت، عفو و درگزر ، حلم مزاجی ، رواداری، خورد نوازی ، دینی اداروں ، ان سے وابستہ افراد واشخاص اور قوم وملت کے تئیں ان کی خدمات کا اعتراف و احترام ، ادارہ جاتی تنگ نائیوں اور مسلکی تشدد وتعصبِ بیجا سے نفور و گریز آپ کا وصف ممتاز تھا ، شخصیت انتہائی متواضع اور چال ڈھال انتہائی شریفانہ اور زندگی سے لبریز تھی ، جس میں نہ کو ئی اینٹھ اور اکڑ تھی ، نہ ہی مریَل پن “ پیہم دواں ہر دم جواں “ کا مصداق آپ کی شخصیت تھی ۔ ملک کے ایک ممتاز ادارے کے کامیاب ومقبول ومشہور استاذ اور درجنوں علمی ، ادبی وتحقیقی کتابوں کے نامور مؤلف ہونے اور بے پناہ جلالتِ علمی اور عظمتِ شان کے علی الرغم مصنوعی وریا کارانہ زہد و انکسار کو کبھی قریب پھٹکنے دیا ، نہ ہی ہٹو بچو اور طوفان ہائو ہو کے غول میں رہنے کو کبھی پسند کیا ۔اصاغر ہوں یا تلامذہ ومتعلقین ! سب سے بھرپور ولپک کر ملتے ؛ بلکہ یوں بچھ جاتے کہ محسوس ہوتا کہ سالوں کی شناسائی ہے ۔ گفت گو میں بلا کی شستگی ، تحریر میں برجستگی اور میل جول وسلوک میں بے تکلفی اور خوش مزاجی تھی ۔ حکمت وتدبر ، بالغ نظری اور دور اندیشی کے ساتھ لازوال ، دینی ، علمی ، فقہی ، ادبی اور اصلاحی خدمات پیش کیں ، جو لوح تاریخ پہ ثبت رہیں گی ان شاء اللہ ۔
آپ دھن کے پکے اور عزم کے سچے تھے ، طالب علمی دور ہو یا کہ تدریسی زمانہ ! ہر جگہ ذاتی محنت وجفاکشی ، لگن وتڑپ اور پوری وفاداری کے ساتھ جسم وجاں اور قلب وقالب : یعنی کہ پورے وجود کے ساتھ ہمہ جہت مربوط و مصروف عمل رہے اور اپنا تاریخی کردار اور عصری فریضہ نہایت خلوص، دیانت داری اور مردانگی سے ادا کیا ،مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی علمائے دیوبند کے اخلاص ، للّٰہیت ، استغناء وتوکل علی اللہ کی شاندار روایت کو بڑی پامردی اور حوصلہ مندی سے باقی رکھا ،
آپ کے اسی کردار نے علمی وملی میدان میں آپ کی عظمت کو نکھارا ، آپ کو رفعتیں عطا کیں ،
خاکسار کو حضرت مولانا سے باضابطہ تلمذ حاصل نہیں ؛کہ وہ وقف دارالعلوم میں تھے اور میں اندرون دارالعلوم کا طالب علم؛
لیکن رابطہ اتنا مستحکم تھا کہ ان سے ربط اور دل کی اچھی بھلی باتیں کیے بغیر کسی طور سکون نہ ملتا تھا، سجاد لائیبریری کے صدر ہونے کے باعث قریباً ہر روز لائبریری جانا ہوتا تھا ، وہاں سے صرف چند میٹر کے فاصلے پہ اس مرد حق آگاہ کی رہائش گاہ تھی ، ان کی مقناطیسی دل آویز شخصیت ان کے دربار دُربار مجھے کھینچ لے جاتی اور گل افشانیِ گفتار سے محظوظ ومستفید ہونے اور ان کے وسیع علم ودانش سے دامنِ مراد بھرنے کی سعادت ملتی ۔رفتہ رفتہ تعلقات مضبوط ومستحکم ہوگئے ۔
تقسیم دارالعلوم کے بعد کے ابتدائی ادوار میں دونوں اداروں اور ان کے عمومی افراد وعملہ کے مابین تعلقات کی قدرے سرد مہری
موجود تھی جب مولانا مرحوم محلہ خانقاہ میں اپنا ذاتی خوبصورت گھر بنائے تھے تو مجھے ٹاسک دیا تھا کہ کسی طرح حضرت الاستاذ مفتی محمد ظفیر الدین صاحب مفتاحی قدس سرہ کو ان کی رہائش گاہ تشریف آوری پہ آمادہ کروں الحمد للہ عاجز اس مشن میں کامیاب رہا یوں دہائیوں بعد دونوں شخصیات کو بندے نے ایک دستر خوان پہ جمع کردیا ۔
پھر اس کے بعد حضرت مفتی صاحب کے ہمراہ گاہے گاہے
اور از خود تو بارہا محلہ خانقاہ “در اسلام پہ “ حاضری معمول سا ہوگئی ۔
سن 1421ہجری آغاز ماہ شوال کی بات ہے ، میری تکمیل افتاء سے فراغت ہوچکی تھی ، معاشی مجبوریوں اور خانگی ذمہ دار یوں کے باعث آگے تعلیم جاری رکھنے یا شعبہ تدریب المعلمین میں رہنے کا ارداہ نہیں تھا ، حضرت الاستاذ مولانا سید محمد ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی خواہش تھی کہ دارالعلوم رحمانیہ یاقوت پورہ حیدر آباد مدرسی کے لیے چلا جاؤں ، میرے دو رفقاء درس مفتی محمد عارف باللہ صاحب قاسمی اور مفتی امان اللہ قاسمی زید مجدھما کو حضرت وہیں بحیثیت استاذ بھیج چکے تھے ، ایک روز ، میں بعد نماز مغرب جامع رشید کی طرف سے دارالعلوم چوک کی طرف جارہا تھا ، حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی اپنی مخصوص تیز گام رفتار سے علماء وطلبہ کی ایک پوری ٹیم کے ساتھ مسجد رشید کی طرف آرہے تھے ، مدنی مسجد کے عقب میں سرِ راہ ہماری ملاقات ہوگئی ، رمضان کی تعطیل کے بعد ان سے پہلی ملاقات تھی ، علیک سلیک کے بعد میرا ہاتھ تھامتے ہوئے فرمایا : بھائی شکیل ! کہاں تھے تم ؟ یہ لو مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب سے ملو ، یہ کہکر میرا ہاتھ مولانا محمد رضوان القاسمی کے ہاتھ میں تھمادیا ، سر راہ ایک دو منٹ کی سرسری ملاقات کے بعد فرمایا کہ صبح مجھ سے گھر پہ ملو ! مولانا محمد رضوان القاسمی رحمہ اللہ سے شخصی ملاقات تو نہیں تھی ؛ البتہ ان کی کتاب : چراغ راہ ، باتیں ان کی یاد رہیں گی مطالعے میں آچکی تھیں ، جس کے باعث مولانا قاسمی کا علمی وادبی رعب لوح قلب ودماغ پہ مرتسم ہوچکا تھا ، صبح سویرے محلہ خانقاہ حاضر ہوا تو فرمایا مولانا محمد رضوان القاسمی نے تمہارا دارالعلوم سبیل السلام کے شعبہ تکمیل افتاء میں تدریس کے لیے تقرر کردیا ہے ۔ میرا حکم اور مولانا محمد رضوان القاسمی کی خواہش واصرار ہے کہ تم سیدھے حیدرآباد چلے جائو، علمی وتحقیقی ادارہ ہے ، آگے بڑھنے اور علمی ترقیات کے یہاں بڑے مواقع ہیں ، سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اپنا ادارہ ہے ، کسی طرح کی کوئی کمی نہیں ہونے دیں گے ، ہماری ضمانت پہ یہاں چلے جاؤ !
میں نے کہا حضرت الاستاذ مفتی محمد ظفیر الدین صاحب سے مشورہ کرکے عرض کرتا ہوں ، حضرت سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی نہ صرف اس پیش کش کی تعمیل کا حکم دیا ؛ بلکہ اپنے لیٹر پیڈ پہ فوری حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب کو ایک خط بھی لکھ دیا ۔
اب میرے لیے سبیل السلام جائے بغیر کوئی چاہ کار نہ بچا
اور یوں حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی اور حضرت الاستاذ مفتی محمد ظفیر الدین صاحب مفتاحی قدس اللہ اسرارھما کے امر عالی کی بدولت سن 1421 ہجری میں دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد میں شعبہ عربی وتکمیل افتاء کا استاذ بن گیا ۔
حیدر آباد آجانے کے بعد مولانا محمد اسلام صاحب سے خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہا ، سال میں ایک دو دفعہ مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب کی خصوصی دعوت پہ مختلف مناسبتوں سے مولانا مرحوم کی حیدر آباد تشریف آوری ہوجاتی ، ان کی خدمت اور رہائش وغیرہ کےانتظامات مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب میرے ہی سپرد فرماتے ،کم وبیش پانچ سالوں تک میرا قیام حیدر آباد رہا ، اس دوران بھی مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی سے استفادے کا سلسلہ کسی نہ کسی طور جاری رہا ۔ مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب رحمہ اللہ کی اچانک رحلت کے بعد سبیل السلام حیدرآباد بعض ناگفتہ بہ انتظامی حالات سے دوچار ہوا تو بیشتر اساتذہ وہاں سے منتقل ہوگئے بندہ بھی ایک سال بعد وہاں سے کیرلا چلا گیا ۔
جون سن 2021 کو دیوبند جانا ہوا تو بطور خاص مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی سے ملاقات کی آرزو تھی ، اس سے پہلے مولانا پہ فالج کے پیہم کئی اٹیک ہوچکے تھے ، فالج کے متواتر حملوں کے باعث واردین وصادرین سے اختلاط سے یک گونہ اجتناب تھا ؛ لیکن اس مرد حر ، خوش اطوار وخوش گفتار نے طبی ممانعتوں کی پروا کیے بغیر عاجز کو گھر بلایا ، زیارت کا شرف بخشا ، کافی دیر باتیں ہوئیں ، حسب سابق شفقت و خورد نوازی کی انتہا فرمادی ، حیثیت سے زیادہ عاجز کا اکرام فرمایا ، اپنی بیش قیمت متعدد تالیفات کا عظیم تحفہ عطا فرمایا ، زندگی میں کام آنے والے قیمتی وانمول ہدایات فرمائی ، تصنیف وتالیف کی طرف بطور خالص توجہ مبذول کرائی ۔
مختلف علوم وفنون پہ مشتمل ڈیڑھ درجن سے زائد عربی واردو علمی وتحقیقی گراں قدر تالیفات کا بیش قیمت ذخیرہ اور اطراف عالم میں پھیلے ہزاروں تلامذہ ، متعلقین ، محبین ، متوسلین کا انبوہ عظیم آپ کے لیے بلاشبہ ذخیرہ آخرت ہے۔
حضرت مولانا محمد اسلام صاحب نوراللہ مرقدہ نے اپنے خدا داد تربیتی ملکہ سے ایک جہان کو بنایا، سنوارا، سجایا اور چمکایا ؛ لیکن سایۂ پدری میں پروان چڑھنے والے ان کے دو صاحبزادگان میں عزیز مکرم مولانا بدر الاسلام قاسمی زید مجدہ ایک باصلاحیت ، فعال ومتحرک اور بافیض نوجواں فاضل اور جامعہ امام انور شاہ میں مقبول استاذ ہیں ، انہوں نے والد مرحوم کی خوبیوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے، اللہ تعالی انہیں مستقبل کا بدر منیر بنائے اور اپنے والد کے روشن کردار اور ان کی پاکیزہ روایتوں کا امین و ترجمان اور بہترین ذخیرہ آخرت بنائے، آمین۔
حق جل مجدہ آپ کی مغفرت کرے اور خلد بریں کا مکیں بنائے ، آپ پوری امت مسلمہ کا قیمتی سرمایہ اور متاع گراں مایہ تھے ، خورد نوازی ، خوش مزاجی اور تواضع کی آپ نادر مثال تھے ، جو آج انبوہ علماء میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ آپ کی رحلت صاعقہ اثر طبقہ علماء بالخصوص دارالعلوم وقف دیوبند کے لیے بڑا خسارہ ہے ۔ اللہ تعالی اس کی تلافی فرمائے ، آپ کو خلد بریں کا مکیں بنائے ، بلند رتبوں سے نوازے ، دینی ، دعوتی ، علمی ،تحقیقی ، اصلاحی اور ملی وفلاحی بے لوث ومخلصانہ خدمات کو آپ کے لیے زاد راہ اور صدقہ جاریہ بنائے ، امت مسلمہ کو آپ کا نعم البدل عطا کرے ۔