Home ستاروں کےدرمیاں مولانامحمد فاروق خان کی یاد میں-شاہ عمران حسن

مولانامحمد فاروق خان کی یاد میں-شاہ عمران حسن

by قندیل

ایڈیٹر کتابی سلسلہ آپ بیتی،نئی دہلی
جون 2023ء کی 28 تاریخ تھی اور شام چھ بجے کا وقت۔میں کچھ ضروری کام میں مشغول تھا کہ اچانک رابطہ عامہ کی سائٹ فیس بک کے ایک خبرپر نظرپڑی، غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ابھی چند گھنٹے قبل معروف عالم دین اور جماعت اسلامی ہند کے معمر رہنما مولانامحمد فاروق خان انتقال کرگئے ۔ اناللہ واناالیہ راجعون!
میں خبر کی تحقیق کے لیے فیس بک پراسکرول کرنے لگا اور مزید لوگوں کے ٹائم لائن دیکھنے لگااورپھراس بات کی تصدیق ہوگئی کہ جماعت اسلامی کے صوفی بزرگ مولانامحمد فاروق خان اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔ایک طرف میں مولانا محمد فاروق خان کے انتقال کی تصدیق کر رہا تھا اور دوسری طرف ان کے تعلق سے میرے ذہن میں یادوں کی ریل چل رہی تھی کہ آج ہم سے وہ شخصیت جدا ہوگئی جومترجم قرآن(ہندی)کے طور پر مشہور تھی ۔
29 جون2023ء کو عیدالاضحی تھی۔لکھنؤ میں عید کی نماز کے بعد مولانامحمد فاروق خان کی نمازِ جنازہ پڑھائی گئی ۔ پھر جنازہ کو ان کے آبائی وطن سلطان پور لے جایا گیا ،جہاں دوبارہ نمازِ جنازہ ہوئی اور تدفین عمل میں آئی۔
مولانا محمد فاروق خان کے قلندرانہ مزاج کو دیکھ کر قدیم زمانہ کے صوفیا کرام کی یاد تازہ ہوجاتی تھی، ایسا لگتا تھا کہ وہ دنیا جہاں سے بے خبر ہیں مگرایسا نہیں تھا بلکہ وہ اسی دنیا میں رہتے ہوئے آخرت میں جیتے تھے،وہ انتہائی سنجیدہ فکر کے حامل انسان تھے، جن کی دلچسپی کا سب سے بڑا مقصد دین کی خدمت تھا، شاید یہی سبب ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی قرآن و حدیث کی تشریح وتوضیح اور افکارِ اسلامی کی تنقیح وتحقیق کرتے رہے۔اور ہمیشہ نام و نمود سے دو ر رہے ، حتیٰ کہ ان کی درویشانہ اور قلندرانہ صفت کو دیکھ کر انسان حیرت و استعجاب میں پڑ جاتا تھا۔
جماعت اسلامی ہندکے شعبہ تصنیفی اکیڈمی کے سکریٹری مولانا محمدرضی الاسلام ندوی کے مطابق عیدالاضحی کاتہوار منانے کی غرض سے مولانامحمد فاروق خان 28جون 2023ء کو قومی دارالحکومت نئی دہلی سے بذریعہ ٹرین ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے لیے صبح کے چھ بجے روانہ ہوئے۔ دن کے گیارہ بجے وہ اپنے صاحبزادے طارق انور خان کی قیام گاہ پر پہنچ گئے ۔ وہاں انھوں نے دن کا کھانا کھایا۔ظہر کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے صاحبزادے سے سینے میں دردکی شکایت کی۔انھیں دوا دی گئی، دوا لینے کے بعد وہ بسترپر لیٹ گئے مگر افاقہ نہ ہوسکا اور عصرسے قبل ابدی نیند سوگئے۔،بقول حیرت الہ آبادی:
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
انتقال کے وقت مولانامحمد فاروق خان کی عمر 91سال تھی۔وہ ریاست اترپردیش کے ضلع سلطان پورکے گاؤں مسورن میں سنہ 1932ء ، میں پیدا ہوئے۔ مسورن گاؤں کادی پور تحصیل میں واقع ہے۔
ابتدائی تعلیم انھوں نے مقامی سطح پر حاصل کی اس کے بعد انھوں نے ہندی زبان و ادب میں ایم ایم ایچ کالج غازی آباد،یوپی(M M H College,Ghaziabad) سے ایم اے کیا۔ انھوں نے ہندی زبان و ادب میں تعلیم مکمل کی تھی،تاہم بیک وقت وہ سنسکرت، اردو، فارسی ، انگریزی اور عربی زبان میں روانی کے ساتھ اظہارِ خیال کرسکتے تھے۔
سنہ 1952ء میں انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز اعظم گڑھ میں درس و تدریس کے ساتھ کیا۔اگرچہ وہ جلدہی اس پیشے کو ترک کرکے تصنیف وتالیف سے وابستہ ہوگئے۔وہ مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی کی تحریر وں سے متاثرہوئے اور آزادی ہند کے بعد سنہ 1956ء میں جماعت اسلامی ہند میں شمولیت اختیار کی ، وہ تاعمر جماعت اسلامی ہند سے نہ صرف وابستہ رہے بلکہ اس کی آبیاری کے لیے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کر دیا۔جماعت اسلامی ہند سے وابستگی کے دوران انھیں متعدد ذمہ داریاں دی گئیں جسے انھوں نے بحسن و خوبی انجام دی۔
جماعت اسلامی ہند کے پہلے امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی کی ہدایت پرمولانامحمد فاروق خان نے مولانا امانت اللہ اصلاحی اور مولانا صدرالدین اصلاحی کی رہنمائی میں قرآن کریم کا ہندی زبان میں ترجمہ کیا۔یہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ بھی ہے اور سب سے بڑا تعارف نامہ بھی۔
اس کے بعدانھوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے اردو ترجمہ قرآن کا بھی ہندی میں ترجمہ کیا۔وہیں انھوں نے قرآن مجید کی عام فہم زبان میں تفسیر بھی لکھی تھی، جو ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی ۔ امکان قوی ہے جلد ہی ان کی تفسیرمرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز (نئی دہلی)کی جانب سے شائع ہونے والی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان کے تفسیر کی کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کا کام مکمل ہوچکا ہے۔
ایسا لگتا ہے مولانامحمد فاروق خان کو قرآن مقدس سے عشق تھا۔شاید یہی وجہ ہے کہ ترجمہ وتفسیر کے علاوہ انھوں نے قرآن مجید کے موضوع پر مزید کتابیں مثلاً قرآن مجید کے ادبی محاسن،شاہ عبدالقادر کی قرآن فہمی، قرآن کی تدریسی مسائل، قرآن کا صوتی اعجازوغیرہ مطالعہ سے تعلق رکھتی ہیں۔
قرآن مجید پر تحریری کام کرنے کے علاوہ انھوں نے مسلسل قرآن کا درس بھی دیا ہے۔انھوں نے دہلی کی جامع مسجد میں سنہ 1990ء سے درس دینا شروع کیا ۔مولانامحمد رضی الاسلام ندوی کی تحقیق کے مطابق انھوں نے درس کے دوران پانچ دفعہ قرآن مکمل کیا۔ انھوں نے جامع مسجد دہلی میں بھی قرآن کا درس دیا ۔ اگرچہ وہ جماعت اسلامی ہند کے دونوں مرکزیعنی چتلی قبر(دہلی)اور ابوالفضل انکلیو (نئی دہلی)میں بھی قرآن کا درس دیتے رہے۔آخری دنوں میں طبیعت ناساز ہونے کے سبب یہ سلسلہ انھیں بند کر دینا پڑا۔ایسا کہا جاتا ہے کہ ان کے درس قرآن میں بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرکے ان کے بیانات سے استفادہ کرتے تھے۔
مولانامحمد فاروق خان جہاں قرآن پر گہرائی سے غور وفکرکیا اور کتابیں لکھی تو وہیں انھوں نے احادیث مبارکہ کی شرح وضاحت میں بھی خون پسینہ ایک کردیا۔ سات جلدوں پر مشتمل احادیث کا ایک منتخب ذخیرہ‘کلامِ نبوت’ کے نام سے شائع کیا۔ یہ کتاب عام فہم زبان میں مختلف احادیث پر گفتگو کرتی ہے، جو عام وخاص سبھی کے لیے مفید ہے۔اس کا انگریزی ترجمہ پروفیٹ اسپیکس(Prophet Speaks)کے نام سے ڈی عبدالکریم(میسور،کرناٹک)نے کیا ہے۔
کلام نبوت کے علاوہ انھوں نے پیغمبر اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مزیدکتابوں میں بھی اظہارِ خیال کئے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی کتابیں مثلاً مطالعۂ حدیث ، دعائیہ چہل حدیث ، آثار صحابہ ، انتخاب احادیث قدسیہ ، حکمت ِنبوی احادیث کی روشنی میں ، آں حضور کی دعائیں اورعلم حدیث : ایک تعارف وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں۔
مولانا محمد فاروق خان سے میرا غائبانہ تعارف مولاناوحیدالدین خاں کے ماہنامہ الرسالہ کے ذریعہ ہوا۔ مولانا محمد فاروق خان کا نام پہلی مرتبہ میں نے ماہنامہ الرسالہ کے ابتدائی شماروں میں دیکھا تھا جس میں ان کی ایک ہندی کتاب ‘پر لو ک کی چھایامیں’ پر انتظار نعیم کاتحریر کردہ تبصرہ اردو میں شائع ہواتھا(دیکھئے ماہنامہ الرسالہ مارچ1977ء، صفحہ:62-63)،اس تبصرے کو پڑھ کر اس کتاب کو پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی مگر یہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ میں اس کتاب کاآج تک میں مطالعہ نہ کرسکا۔
اس کے بعد ماہنامہ الرسالہ کے ایک اور شمارے میں مولانا محمد فاروق خان کے شائع شدہ خط پر پڑی۔ یہ خط دراصل ایک نوجوان کے والد کے انتقال پر بطور تعزیت انھوں نے تحریر کیا تھا۔یہ خط نہیں بلکہ ایک نصیحت نامہ تھا، جس نے مجھ کو متاثر کیا اور باربار میں نے اس کا مطالعہ کیا۔ خیال رہے کہ یہ خط مولانامحمد فاروق خان نے30 دسمبر1976ء کو تحریر کیا تھااوراس خط کے ساتھ انھوں نے ایک نوٹ بھی لکھا۔جس میں انھوں نے درج کیا کہ میں اپنے ایک رفیق کے والد کے انتقال پر تعزیتی خط لکھنے بیٹھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے میں خود اپنے آپ سے کچھ کہنے چلا ہوں۔ جب ہم کسی سے کچھ کہتے ہیں تو اس شخص سے کہیں زیادہ اس کا مخاطب خود ہم ہوتے ہیں۔ مکتوب الیہ کے والد کا انتقال 23اور24 دسمبر1976ء کی درمیانی شب میں ہوا:
آپ کے والد محترم کے انتقال کی خبرملی۔ والد کا انتقال زندگی کا ایک خاص تجربہ ہوتا ہے۔ اس تجربہ سے آپ کو گزرنا تھا گزرے۔ خدامرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین!
دنیا سے ان کی واپسی در حقیقت زندگی کے مزید امکانات کی خبر ہے۔ پھر زندگی میں اگر یہ واپسی نہ ہو تو زندگی اجیرن ہوجائے، دشوار ہو جائے۔ جیون میں رس تو اسی واپسی کی وجہ سے ہے یہ واپسی محض واپسی نہیں ایک بڑے امکان کی طرف پیش قدمی ہے۔ موت زوال نہیں کمال کی خبر ہے۔ اس کمال کی خبر جس کی متحمل موجودہ دنیا نہیں ہوسکتی۔ موجودہ دنیا تو صرف اس کی طرف ہمارا ذہن موڑ سکتی ہے۔ بشرطیکہ ہم اس کے لیے تیار ہوں، بیدار ہوں۔ بصورت دیگر ہم اس کے اشاروں کو سمجھنے سے قاصر ہی رہیں گے۔
موت زندگی کی شام نہیں۔ زندگی کی صبح ہے۔ صبح ہونے سے ہم غم زدہ کیوں ہوں۔ ہمارا دل تو اتنا وسیع ہونا چاہیے، جس میں دنیا اور مابعد دنیا دونوں ہی سما جائیں۔ جو دنیا کے بعد ہے اسے ہم اپنی ذات سے الگ نہ دیکھیں۔ ساری کلفتوں اور غموں کا سبب یہ ہے کہ ہم اپنے دل کو اتنا تنگ و تاریک رکھتے ہیں کہ اس میں ہمیں دنیا تو دکھائی دیتی ہے۔ اس کے آگے جو ہے نظر نہیں آتا،وہ اس سے چھوٹ جاتا ہے۔باہر جاتا ہے ، دیار ِغیر معلوم ہوتا ہے۔ حالاں کہ وہ اپنا دیار ہے۔ اس دنیا سے کہیں زیادہ اپنا ہے۔
اس دنیا میں تو ہم بہت تھوڑا ظاہر ہو پاتے ہیں۔ کامل اظہار تو وہاں ہی ممکن ہے۔ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لینے کی غلطی سے سب سے بڑا نقصان یہ نہیں ہوتا کہ آدمی عام معنی میں دنیا پرست ہو جاتا ہے بلکہ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا فکر اور اس کا نظریہ غلط ہو جاتا ہے۔
مومن ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ آدمی کو معلوم ہو جائے کہ وہ اس دنیا میں غیب کی مخلوق ہے۔بظاہروہ دنیا میں دکھائی دے، لیکن دنیا میں رہتے ہوئے بھی وہ حقیقت میں عالمِ غیب میں رہنے لگے۔ نماز اسی بڑی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ نماز وہ خوشبو ہے جو اس عالم کی نہیں ہے۔ یہ ایسی روشنی ہے جس کا تعلق کسی دوسرے عالم سے ہے، جس کو ہم عالم غیب سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کا کوئی اور نام بھی تجویز کیا جاسکتا ہے۔ نماز کے ذریعہ سے ہم دنیا میں اس عالم کو اتارلاتے ہیں۔ یہ اتارنے کا عمل بار بار دہرانے کا منشاء صرف یہی نہیں ہے کہ اس عالم میں رہنے کی مشق ہو بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے اس عالم میں رہنا تمہیں آجائے۔ امید ہے ان باتوں پر غور فرمائیں گے۔ آپ جیسے ذہین آدمی اگر اس طرف توجہ نہ دیں تو ذوق صحیح اپنا ٹھکانہ کہاں ڈھونڈے گا۔ ( ماہنامہ الرسالہ ،مئی 1977ء صفحہ:60)
یہاں میں الرسالہ کا بھی ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، کیوں کہ اسی کے توسط سے مولانامحمد فاروق خان تک میری رسائی ممکن ہوسکی۔ یہ میری زندگی کا بڑا عجیب اتفاق ہے کہ ماہنامہ الرسالہ کے مطالعہ کی کسی نے بھی ترغیب نہیں دی تھی بلکہ بذات خود میں نے اس کا مطالعہ شروع کردیا ۔میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت تھی کہ میں نے کسی ترغیب کے بغیر الرسالہ سے استفادہ کرنا شروع کردیا۔عام اُردوپرچوں کے برعکس میں نے ماہنامہ الرسالہ کی فکرانگیز تحریروں کو قابلِ استفادہ پایا۔اس لیے ہر ماہ اس کا مطالعہ پابندی سے کرنا میرے لیے ناگزیرہوگیا۔اور ایک وقت ایسا بھی آیاجب کہ میں نے ریاست بہار کے ضلع مونگیر میں وقتی قیام کے دوران ماہنامہ الرسالہ کے تمام شماروں کو لمبی محنت و مشقت کے بعد حاصل کرکے اُس کی ایک ایک سطریں پڑھیں۔
ماہنامہ الرسالہ کے مطالعہ کے دوران میں نے دیکھا کہ مولانا وحیدالدین خاں نے متعدد دفعہ مولانامحمدفاروق خان کا ذکر کیا اور باربار ان کے شعری مجموعہ ‘حرف و صدا’کا یہ شعر پڑھتے اور لکھتے رہے ہیں:
گلو میں بو نہ ملی سنگ میں شرر نہ ملا
مرا مذاق جدا تھا کہ ہم سفر نہ ملا
اس کے علاوہ مولانامحمد فاروق خان کے تعلق سے ہمیشہ مولاناوحیدالدن خاں نے مثبت رائے رکھی ہے۔ اس سلسلہ میں ماہنامہ الرسالہ بابت دسمبر 1994ء میں شائع سفرنامہ ‘لکھنو کاسفر’(صفحہ:11-50)کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔مولاناوحیدالدین خاں لکھتے ہیں کہ مولانا محمد فاروق خان ایک روحانی مزاج کے آدمی ہیں۔ان کے پاس بیٹھ کر ان کی باتیں سننا بہت روحانی سکون کا باعث ہوتا ہے۔(ماہنامہ الرسالہ دسمبر1994ء،صفحہ:14)
الرسالہ کے اسی شمارے میں مولانامحمد فاروق خان کے تعلق سے دوسبق آموز باتیں بھی درج ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے بھی یہاں نقل کیا جائے:
ایک گفتگو کے درمیان مولانامحمد فاروق خان نے کہا کہ ایک بھکاری بھیک مانگ رہا تھا۔ اس نے ایک راہ گیر سے سوال کیا۔ اتفاق سے اس راہ گیر کی جیب میں اس وقت پیسے موجود نہ تھے۔ اس بھکاری پر ترس آیا۔ اس نے آگے بڑھ کر بھکاری کو اپنے سینہ سے لگالیا۔ بھکاری اس سے اتنازیادہ متاثر ہوا کہ اس کی زبان سے نکلا :بھگوان جتنا تو نے آج دلایا اتنا تو کبھی نہیں دلایا تھا۔
آدمی کے پاس اگر دوسروں کے لیے کوئی مادی چیز نہ ہو۔ مگر اس کے دل میں دوسروں کے لیے سچی محبت ہو، تو اس کی یہ محبت یقیناً ‘فاتح عالم’ بن جائے گی۔
مولانامحمد فاروق خان نے بتایا کہ ایک بار وہ لکھنؤ کے علاقہ میں بس سے سفر کر رہے تھے۔ بس میں ایک ہندو سے ملاقات ہوئی گفتگو کے دوران دونوں کو ایک دوسرے سے دل چسپی ہو گئی۔
مولانامحمد فاروق خان نے اس ہندو بھائی کا پتہ لکھ لیا اور کہا کہ میں کبھی آپ کے پاس آؤں گا۔ اس کے بعد ایک سفر کے دوران مولانا اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مذکورہ ہندو کے گاؤں میں گئے۔ رات ہو چکی تھی۔ پوچھتے ہوئے ہندو کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ ہندو بھائی گھر پر موجود نہیں ہیں۔ وہ کہیں چلے گئے ہیں۔ کچھ دیر کی حیص بیص کے بعد ایک اور ہندو نے آکر ان سے ملاقات کی۔
انھوں نے کہا کہ اب رات ہوگئی ہے اس لیے آپ یہیں ٹھہر یے۔
انھوں نے پوچھا کہ یہاں کوئی مسلمان یا کوئی مسجد ہے؟
معلوم ہوا کہ یہاں نہ کوئی مسلمان ہے اور نہ کوئی مسجد۔ ہندو نے گھر کے ایک حصہ میں سب لوگوں کو ٹھہرایا۔ انہیں کھانا کھلایا۔ اس کے بعد وہ لوگ عشاء کی نما نہ پڑھ کر سو گئے۔
صبح کو نماز فجر کے بعد وہ ہندو دوبارہ آیا۔ اس نے مولانامحمد فاروق خان اور ان کے ساتھیوں کو دیہات کے طریقہ پر ناشتہ کرایا۔ جب وہ لوگ ناشتہ کر رہے تھے تو ہندو نے ہنستے ہوئے بتایا کہ میرا اس خاندان سے تعلق نہیں ہے۔ البتہ میں ان کا پڑوسی ہوں۔ رات کو جب آپ لوگ یہاں آئے تو گھر کی عورتوں نے مجھ کو بلایا اور کہاکہ کچھ مسلمان آئے ہیں۔ رات کی وجہ سے ان کو لوٹایا بھی نہیں جا سکتا۔ ہم ان کو جانتے بھی نہیں کہ وہ کون ہیں، ایسی حالت میں کیا کیا جائے۔
مذکورہ ہندو نے گھر کی عورتوں سے کہا کہ ان لوگوں کو کھانا کھلا کہ یہاں سلا دو۔ کیوں کہ یہ ہمارا انسانی فریضہ بنتا ہے۔ البتہ جہاں تک ان کی طرف سے ڈر کا سوال ہے تو میں آج کی رات نہیں سوؤں گا۔ رات بھر پہرہ دوں گا۔ چنانچہ آج میں رات بھر لاٹھی لے کر پہرہ دیتا رہا ہوں۔
ان لوگوں نے ایک طرف نو دارد دمسلمانوں کے ساتھ انسانی فرض ادا کیا۔ دوسری طرف ان کے امکانی خطرہ سے بچنے کے لیے رات بھر لاٹھی لے کر پہرہ دیتے رہے۔(ماہنامہ الرسالہ دسمبر1994ء،صفحہ:14-16)
ایس آئی او یعنی اسٹو ڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کا نا م ہے۔اس تنظیم کے تعلق سے کچھ باتیں یا د آ رہی ہیں۔میں وقتی طور پر ایس آئی او سے وابستہ ہوا اور پھر اس سے الگ ہوگیا۔2مارچ 2005ء کو ایس آئی او مونگیر یونٹ کا مجھے ناظم سرکل بنایا گیا۔ اور ایک ماہ بعد 3 اپریل 2005ء کو میں نے اس تنظیم سے علاحدگی اختیار کرلی ۔
اس درمیان ایس آئی او حلقہ بہار کے صدر شبلی ارسلان سے میری خط و کتابت بھی ہوئی ۔ میرے پاس اس خط و کتابت کی نقل موجود نہیں ہے۔ شبلی ارسلان نے بارہا چاہا تھا کہ میں ایس آئی او سے وابستہ ہوکر کام کرتا رہوں،مگر میری فطرت نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ میں کسی ایک تنظیم کا رکن بن کر اپنی زندگی کو قیدخانے میں ڈال دوں۔مجھ کو آزاد ہو کر کام کرنا اچھا لگتا ہے، اس لیے میں نے کسی تنظیمی وابستگی سے الگ ہو کر زندگی گزارنا مناسب سمجھا۔میں نے اپنے ایک خط میں شبلی ارسلان سے ایس آئی اواور جماعت اسلامی سے متعلق کئی سوالات کئے ۔ان دنوں نے شبلی ارسلان ایس آئی او حلقہ بہارکے صدر تھے۔ انھوں نے میرے سوالات کے جواب نہیں دیے؛ البتہ 27مارچ2005ء کے تحریر کردہ اپنے خط میں انھوں نے صرف اتنا لکھا کہ‘ آپ کے تاثرات اور احساسات آپ کے زرخیزاور تخلیقی ذہن کا مظہر ہیں۔’
مجھ کو ناظم سرکل 2005ء میں بنایا گیا تھا کہ حالاں کہ گزشتہ ایک سال سے ایس آئی او کے اجتماعات میں شرکت کرتا رہا تھا ۔مثلاًایک اجتماع جون2004ء کو مونگیر میں ایس آئی او کا اجتماع ہوا۔ میں نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس کی رپورٹ قومی تنظیم میں‘ ایس آئی او کا اجتماع ’ کے عنوان سے 14 جون 2004 ء کو شائع ہوئی تھی۔ خبر یہاں نقل کی جا رہی ہے:
اسٹو ڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کا ہفتہ وار اجتماع شاہ فصیح اللہ مسجد (دلاور پور، مونگیر) کی دوسری منزل پر منعقد ہوا۔ اجتماع کی کارروائی حسب معمول درس قرآن سے شروع ہوئی ایس آئی او کے فعال رکن محمد نواز نظام نے سورہ ق کی ابتدائی پانچ آیات کی تلاوت کرنے کے بعدتفہیم القرآن( حصہ پنجم) سے اس کا ترجمہ تفسیر پڑھی۔ اس موقع پر محمد نواز نظام نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مرنے کے بعد زندہ ہونا اب بعیداز قیاس بات نہیں ہے بلکہ سائنس نے تو اس کو ثابت بھی کر دیا ہے۔
جب کہ محمد فضل معراج نے حقوق العباداور صدقہ سے متعلق حدیث پڑھنے کے بعد اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم صدقہ کس کو دے رہے ہیں بلکہ ہم کو اپنے ارادوں کو دیکھتے ہوئے کسی کی مدد کرنی چاہئے۔
اس موقع پر انجمن حمایت اسلام کے مدرس شاہ عمران حسن نے مولانا وحید الدین خاں کے افکار و خیالات کا ترجمان الرسالہ کا ایک صفحہ پڑھ کر سامعین کو سنایا۔ یہ جولائی1982ء کا شمارہ تھا۔اس کا ایک مضمون مومن کیسا ہوتا ہے(صفحہ:11)، انھوں نے پڑھا۔اِس موقع پر شاہ عمران حسن نے کہا کہ ہمیں ہر تحریر وتقریر کو سنتے و پڑھتے وقت اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری زندگی اس کے مطابق گزر رہی ہے یا نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں ہر واقعہ سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تبھی ہماری زندگی صحیح رخ پر چلے گی۔
اجتماع کی کارروائی جماعت اسلامی سے وابستہ محمدنور الحق انصاری کی دعاپرختم ہوئی۔ اس اجتماع میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں محمد محبوب عالم، محمد تابش،محمد سراج ہاشمی عرف کیفی کے نام شامل ہیں۔ (روزنامہ قومی تنظیم ،پٹنہ،14 جون2004ء)
سنہ 2004ء نصف آخرمیں جماعت اسلامی ہند سے وابستہ محمد نورالحق انصاری اور مقیم زریاب نے ہفت روزہ اجتماع شروع کیا۔ یہ اجتماع جمعہ کے بعد نماز مغرب محمد نورالحق انصاری کی قیام گاہ(دلاورپور، مونگیر) پر ہوتا تھا۔ اس اجتماع میں، میں مستقل طور پر شرکت کرنے لگا۔یہاں مجھ کو مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی ہند سے وابستہ دیگر محترم شخصیات کی کتابوں سے بھی استفادہ کا موقع ملا۔ ان میں مولانامحمد فاروق خان کی کتابیں بھی تھیں۔ اجتماع میں اکثر مولانامحمد فاروق خان کی کتاب‘ کلام نبوت’ سے کوئی حدیث پڑھی جاتی اور پھر اس پر تبادلۂ خیال ہوتا تھا۔ اکثر کلام نبوت کو پڑھنے کی ذمہ داری میرے سپرد کی جاتی تھی، اس طرح میں برابر اس سے استفادہ کرنے لگا تھا۔
میں نے تقریباً تین سالوں تک جماعت اسلامی ہند کے ہفتہ وار اجتماع سے استفادہ کیا،اس کے بعد سنہ 2007ء میں مجھ کو حصولِ علم کی غرض سے نئی دہلی منتقل ہونا پڑا۔ یہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میرا داخلہ ہوا اور یونیورسٹی میں ہاسٹل نہ ملنے کے سبب مجھ کو جامعہ سے متصل علاقے ‘ابوالفضل انکلیو’ میں کمرہ کرائے پر لے کر رہنا پڑا۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند کے ہیڈکوارٹر سے قریب ہی میری رہائش تھی، اس لیے ایسا ہوا باربارمرکز جماعت اسلامی ہند کے کیمپس کی مسجد‘ مسجد اشاعت اسلام’ میں نماز ادا کرنے اورجماعت کے اجتماعات سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔
اور اتفاقی طور پر مسجداشاعت اسلام میں مولانامحمد فاروق خاں سے یکم ستمبر 2007 ء کو ملاقات ہوگئی۔یہ ان سے میری باضابطہ پہلی ملاقات تھی، ان سے میں نے کہا کہ کوئی نصیحت کریں۔ انھوں نے حسب ذیل انگریزی عبارت میری ڈائری میں بطور نصیحت لکھ کر دی:
Man is rich according to what he is, not according to what he has.
کسی مخلص مسلمان سے مل کرہمیشہ خوشی کا احساس ہوتا ہے، ان سے مل کربھی مجھ کو یہی احساس ہوا۔ میں ان سے پہلی مرتبہ مل رہا تھا مگر انھوں نے اپنائیت کا جو مظاہرہ میرے ساتھ کیا وہ بیان سے باہر ہے۔اس کے بعد جب بھی میں مولانا سے ملا،انھوں نے ہمیشہ اخلاقِ عالیہ کا عمدہ ثبوت دیا۔ان جیسا سادگی پسند طبیعت والا انسان میں نے اپنی زندگی میں ان کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا ۔ وہ لاثانی روحانی شخصیت کے علم بردار تھے۔انھوں نے اپنی سادگی پسندطبیعت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔
جب وہ پرانی دہلی کے اپنے کمرہ (دفتر، جماعت اسلامی ہند،1353،چتلی قبر،جامع مسجد)میں رہا کرتے تھے، ان کے پاس میں کئی بار گیا۔وہ خود سے چائے بناکر پلایا کرتے تھے، جو بھی آتا تھاان سے ملاقات کرتے تھے، وہ ہر قسم کی تصنع سے پاک شخصیت تھے۔ایک ہی کمرہ کے اندرکتابوں کے سمندر میں انھوں نے برسہا برس زندگی گزار دی ۔
مولانامحمد فاروق خان سے جو بھی ملنے آتا وہ اپنے مہمانوں کو اپنے ہاتھ سے چائے بناکر پلایا کرتے تھے۔ان کے پاس ایک چھوٹی سے ایک الیکٹرک کیتلی تھی، جس میں وہ چائے بناکر نووارد کی ضیافت کرتے تھے۔اس معمول میں کبھی فرق نہیں آیا،جب بھی میں ان سے ملاانھوں نے چائے بنا کر میری ضیافت کی۔جب میں 6فروری2023ء کو ان سے آخری دفعہ ملا تو انھوں نے اس وقت بھی وہ بہت ہی اخلاق سے پیش آئے ، حسب معمول چائے پلائی اور اپنی کتاب‘ آئینہ اسلام’ تحفتاً عنایت کی۔
یہاں میں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ میں نے سنہ1999ء سے مولاناوحیدالدین خاں کا ماہنامہ الرسالہ پڑھنا شروع کردیا تھا اور سنہ 2001ء سے الرسالہ کی ایجنسی بھی شروع کردی تھی۔یہ بات میرے شہر کے لوگوں کوبہت جلد پتہ چل گئی کہ میں مولاناوحیدالدین خاں کی فکر وخیال کی تشہیر کررہاہوں،کیوں کہ میں نے یہ کام اعلانیہ کیا تھا۔
جب میں نے سنہ 2004ء سے جماعت اسلامی ہند کے اجتماعات میں شرکت شروع کی تو کئی لوگوں کی جانب سے یہ بات مجھ سے گوش گزار کی گئی کہ مولاناوحیدالدین خاں نے اپنی بیٹی ڈاکٹر فریدہ خانم کا نکاح مولانامحمد فاروق خان سے کردیا تھا، پھر جماعت سے علاحدگی کے بعد اپنی بیٹی کا خلع کروادیا۔
جب بارہا یہ باتیں مجھ سے کہی گئیں تو میں نے اصل بات جاننے کی کوشش کی۔ میں نے براہ راست مولانامحمد فاروق خان سے اس کی حقیقت جاننی چاہی،اس سلسلے میں، میں نے ستمبر 2006ء میں ان سے خط و کتابت بھی کی، میں نے انھیں خط میں لکھا کہ لوگ ایسا اور ایسا ڈاکٹر فریدہ خانم اور آپ کے رشتہ کے تعلق سے کہتے ہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مولانامحمد فاروق خان اس نجی مسئلہ کی وضاحت انتہائی صاف گوئی سے کریں گے مگر انھوں نے اپنے دستخط کے ساتھ بذریعہ خط اس کی وضاحت کی تھی۔ان کے خط کا عکس سنہ 2015ء میں شائع ہونے والی مولاناوحیدالدین خاں کی خود نوشت سوانح حیات ‘اوراقِ حیات’ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مولانا محمدفاروق خاں نے5اکتوبر2006ء کو اپنے دستخط کے ساتھ راقم الحروف کے نام ایک خط ارسال کیا۔اس خط میں وہ لکھتے ہیں: ‘یہ صحیح ہے کہ میری شادی ڈاکٹر فریدہ خانم سے ہوئی تھی۔ یہ میری بدقسمتی ہے کہ نباہ نہ ہوسکا اور علیٰحدگی ہوگئی۔آپ اس سے زیادہ تفصیل میں نہ جائیں’۔(اوراقِ حیات، شاہ عمران حسن، صفحہ:166)
اسلا م کا ایک اصول یہ ہے کہ جب کسی معاملہ میں شبہ ہو یاکسی کے خلاف لایعنی پروپگینڈا کیا جائے تو اس کی تحقیق کر لی جائے،مثلاً ڈاکٹرفریدہ خانم کی ازدواجی زندگی کے تعلق سے میں نے فوراً تحقیق کی اور زیر مسئلہ شخص سے دریافت کیا تو حقیقت میرے سامنے آگئی ، ورنہ میں بھی دیگر لوگوں کی طرح مولاناوحیدالدین خاں پر الزام لگاتا رہتا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کا خلع کروایا ہے۔
جماعت اسلامی ہندحلقہ بہار کی جانب سے ہفتہ تعارفِ قرآن 12تا 19فروری2006ء منایا گیا۔اس موقع پر مولانا محمد فاروق خان کا ہندی ترجمہ قرآن بڑی تعداد میں ہندی داں طبقہ کے درمیان مفت تقسیم کیا گیا۔ اس طرح بڑی تعداد میں ہندی داں طبقے کے درمیان مولاناکا ہندی ترجمہ قرآن پہنچا۔
اس سلسلے میں، مونگیر میں جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری مولانامحمد رفیق قاسمی کی صدارت میں ایک اجلاس13 فروری2006ء کو منعقد ہوا۔زاہد کریم (بھاگل پور)ناظم حلقہ، جماعت اسلامی ہند(بہار) کی دعوت پر میں بھی اس اجلاس میں شریک ہوا اورایک مختصر سی تحریری تقریر بعنوان‘ قرآن کی عظمت’کی۔یہ تقریر حافظ محمد امتیاز رحمانی(مونگیر)کی مرتب کردہ کتاب‘قرآن کے پیغام’(صفحہ:75-78)میں موجود ہے، جو کہ ادارہ قرآنی مجلس (مونگیر)کی جانب سے سنہ 2014ء میں شائع ہوئی۔میری اس تقریر کو سامعین کی ایک بڑی تعداد نے پسند کیا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب کہ میں نے شہر مونگیر کے اندر براہ راست خطاب کیا تھا۔
جب میں 18اپریل 2016ء کواپنی کتاب‘ اوراقِ حیات’ مولانامحمد فاروق خاں کی خدمت میں پیش کی تو انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ نے سمندر کو کوزہ میں بند کردیا ہے۔
مولانامحمد فاروق خان سے دیر تک میری گفتگو جاری رہی۔یہ طویل ملاقات تھی، دوبارہ اتنی دیر تک مجھ کو ان سے پھر کبھی استفادہ کرنے کاموقع نہیں ملا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دنوں و ہ ناساز تھے،ا س کے باوجود انھوں نے مجھ کو وقت دیا۔گفتگو کے دوران انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں اب بوڑھا ہوچکا ہوں، اب پہلے کی طرح کام نہیں ہو پاتا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ خود کوبوڑھا کیوں سمجھ رہے ہیں، آپ سے بہت سینئر مولاناوحیدالدین خاں ہیں،وہ آج بھی بہت ہی منظم انداز میں کام کرتے ہیں۔ہمہ وقت متحرک نظرآتے ہیں، آپ کی تو ان سے عمر کم ہے، پھر ایسا کیوں سوچ رہے ہیں۔
جب میں نے ان سے اس قسم کی باتیں کی تو ان کے چہرے پر چمک لوٹ آئی، انھوں نے مسکراکر میری بات کی تائید کی۔اس موقع پرانھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ نوجوان ہیں، آپ کام کرسکتے ہیں۔ دیکھئے حضرت علی ؓ نوجوان تھے، انھوں نے اسلام کی خدمت کی۔ مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی جب نوجوان تھے تو انھوں نے تحریک شروع کی تھی، اسی طرح اور بھی شخصیات ہیں جنھوں نے نوجوانی میں کام کیا اور انقلاب کا سبب بنے۔
ہماری دلچسپ گفتگو جاری تھی کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا۔ انھوں نے کہا کہ چلیں نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وہ اوپر کے حصے میں رہا کرتے تھے،نیچے نماز کے لیے جگہ بنی ہوئی تھی۔
جب میں زینہ سے نیچے اُترنے لگا تو انھوں نے کہا دیکھئے عمران صاحب چینٹیاں ہیں، ان پر پاؤں نہ پڑنے دیں۔
انھوں نے عصر کے نماز کی امامت مجھ سے کروائی۔ انھوں نے مجھ کو نماز پڑھانے پرمجبور کردیا۔
جب میں ان سے ملاتھا ان کا چہرہ مضمحل نظر آرہا تھا، جب میری واپسی کا وقت آیا تو ا ن کا نورانی چہرہ چمک رہا تھا، ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ چند ساعت پہلے جس شخصیت کی طبیعت ناساز تھی، اب وہ چاک و چوبند ہوگئی ہے۔
واپسی کے وقت انھوں نے اپنے کتب خانہ کی متعدد کتابیں مجھ کو تحفتاً دی تھیں۔اس کے علاوہ انھوں نے اپنا شعری مجموعہ ‘حرف و صدا’بھی مجھ کو اپنے دستخط کے ساتھ عنایت کیا۔مولانامحمدفاروق خان خوبصورت اشعار موزوں کرتے تھے، ان کا تخلص ‘فرازؔ’ تھا اور وہ ‘فرازؔ سلطان پوری’ بھی لکھا کرتے تھے۔ ان کا شعری مجموعہ بھی فرازؔ سلطان پوری کے نام سے ہی شائع ہوا ۔ اس میں بہت سے ایسے اشعار ہیں جوذہن کومحظوظ کرتے ہیں،یہاں چند اشعا ر نقل کئے جا رہے ہیں:
یہ کس نے کہا مت خطا کیجیے
جب خطا کیجیے رو لیا کیجیے

ہم نے بھی فرازؔ آخر اک عمر گزاری ہے
ڈوبے ہوئے سورج کو اُگتے ہوئے دیکھا ہے

ڈرے جس سے کوہ، خائف رہا جس سے آسمان بھی
ہوا سرفراز انساں اسی نعمت و عطا سے

جیتے ہیں تو جینے کا مفہوم بھی کچھ ہوگا
ہنگامۂ ہستی میں کم لوگوں نے سوچا ہے

جہاں ان کی یورشیں ہیں وہیں آشیاں بنے گا
کوئی جا کے بجلیوں کو میرا فیصلہ سنا دے

اسی کو دی ہم نے دعائیں بارہا
زندگی میں جس نے تڑپایا بہت

کیا دل پر گزرتی ہے سوچا کریں
آئینہ جب کبھی آپ دیکھا کریں
اسی ملاقات میں ، میں نے ان سے یہ بھی درخواست کی تھی اپنے بارے میں کچھ ایسا مواد فراہم کریں ، جس کی مدد سے میں آپ کے علمی و تحریری کام سے متعلق ایک مضمون مرتب کروں۔
انھوں نے حامی بھری تھی مگر عملاً میں خود اس پر دوبارہ پیش رفت نہ کرسکا ۔ کیوں کہ اس کے بعدمیری دوبارہ ان سے ملاقات نہ ہوسکی اورمیں قومی دارالحکومت نئی دہلی سے اچانک جنوبی ہندوستان منتقل ہوگیا۔ ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں منتقل ہونے سے مولانامحمد فاروق خان سے جو علمی استفادہ کا سلسلہ جاری تھا وہ منقطع ہو گیا۔جب میں کئی سال بعد سنہ 2021ء میں نئی دہلی واپس آیا تو معلوم ہوا کہ مولانا محمد فاروق خان اب چتلی قبر کے بجائے ابوالفضل انکلیو میں رہتے ہیں۔میں اپنی مصروفیات کے سبب استفادہ کی غرض سے ان کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا کہ یہاں کہ تک 6 فروری 2023ء کی شام آگئی۔
میں نے اپنی تازہ کتاب‘مولاناوحیدالدین خاں: اہل قلم کی تحریرروں کے آئینے میں’ان کی خدمت میں پیش کی۔ پہلے کے مقابلے میں اب وہ مزید ضعیف ہوچکے تھے، تاہم ان کی گفتگو میں وہی جلال اور حکمت کے پہلے نمایاں تھے۔میری کتاب کو انھوں نے خوش دلی کے ساتھ لیا اور میرے ساتھ عینک کے بغیر فہرست دیکھی اور اس تعلق سے گفتگو بھی۔یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔
میں نے ان سے کہا کہ میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتا ہوں ، اس تعلق سے آپ مجھ کو نصیحت کریں۔
مولانا محمد فاروق خان نے کہا کہ آپ اس طرح سے کام کریں کہ وہ دوسروں کے لیے مفید ہو، وہ کسی کا وقت اور پیسہ برباد کرنے کا سبب نہ بنے۔ نیزآپ غیر ضروری کتابوں کے مطالعہ سے خود کو بچائیں۔
مولانامحمد فاروق خان نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ پرانی دہلی کے محلہ چتلی قبر میں گزارا ، جہاں جماعت اسلامی ہند کا قدیم دفتر واقع ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی عمر کے چند سال جماعت اسلامی ہند کے مرکزی ہیڈ کوارٹر آکر رہنے لگے اور اپنی بقیہ زندگی جماعت اسلای ہند کے ہیڈ کوارٹرکے ایک کمرے میں گزار دی۔
مسجد اشاعت اسلام میں مستقل نماز ادا کرنے والوں کے مطابق مولانامحمد فاروق خان پنچ گانہ نماز مسجد میں ادا کرتے رہے حالاں کہ ان پر ضعف طاری ہوچکی تھی۔اپنی زندگی کے آخری سانس تک وہ نماز ادا کرتے رہے۔ اور تو اور آخری نماز پڑھ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

You may also like