مولانا مودودی اور جماعت اسلامی دو الگ چیزیں ہیں ۔ آپ مولانا مودودی سے اختلاف کرتے ہوئے بھی جماعت کے رکن بن کر اقامت دین کی کوشش کر سکتے ہیں ۔
جماعت اسلامی بر صغیر کی وہ واحد دینی جماعت ہے اور مولانا مودودی وہ واحد شخصیت ہیں، جو جنوبی ہند کے ہزاروں شافعیوں کو ، برِّصغیر کے اہل حدیثوں کو اور دیو بندی مظاہری ندوی اصلاحی اور عمری علما کو اقامتِ دین کے لیے ایک مضبوط تنظیم میں پرونے میں کام یاب ہوئے ہیں ۔
گر مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
جواب الجواب کا سب سے برا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو شیطان ضد پر اکساتا ہے اور وہ قبولِ حق سے دور ہوتا جاتا ہے،اس لیے میری طرف سے جواب الجواب کی پیشگی معذرت ۔
بس دو باتیں اطلاعاً عرض ہیں :
پہلی یہ کہ مولانا مودودی نے امیر بننے کے بعد اگست 1941 میں اپنی پہلی تقریر میں ہی یہ بات واضح کردی تھی کہ ارکانِ جماعت اور علمائے جماعت کا میری کسی فقہی اور کلامی رائے سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ۔ البتہ جماعت اور شوریٰ کے اجتماعی فیصلوں کے وہ پابند ہوں گے ۔ نیز روداد میں مزید وضاحت کی گئی کہ جماعت کے علما آزادانہ رائے رکھ سکتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرسکتے ہیں ۔ نیز مولانا ابو الحسن علی ندوی کے نام آخری خط میں واضح کیا کہ میری ہر رائے مرجوح ہو سکتی ہے ۔
دوسری یہ کہ مولانا امین احسن اصلاحی نے 1958 کی علیٰحدگی سے پہلے بھی ترجمان میں اور جماعت کے نام ور عالم دین مولانا گوہر رحمن مرحوم نے اپنی بیش تر تحریروں میں نہایت متانت اور شائستگی کے ساتھ مولانا سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے دی ہے ۔
عربی زبان کے ادیبِ بے بدل مولانا مسعود عالم ندوی شوریٰ میں مولانا سے کھل کر سخت اختلاف کیا کرتے تھے ۔ تفصیل کے طالب مولانا گوہر رحمن کی تمام کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
ایک اور حقیقت ـ اختلاف کے اسباب:
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ مولانا مودودی سے علما کے اختلافات کا اصل سبب خلافت و ملوکیت ہے ؛ جو 1964-1965 میں لکھی گئی ۔ ایسا نہیں ہے ۔
مولانا عمران علی ندوی کی اس بات سے بھی مجھے اتفاق نہیں کہ اختلاف کی وجہ درسِ نظامی تھی۔
میری ناقص رائے میں مولانا مودودی سے علما کے اختلاف بلکہ بغض کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہیں:
اولاً نیشلسٹ علما سے قومیت کے مسئلے پر مولانا کی 1938 کی تصنیف مسئلہ قومیت ۔ ثانیاً تصوف زدہ علما کا تجدید و احیاء دین پر بھی ردّ عمل ، جو قیام جماعت سے پہلے کی تصنیف ہے ۔
ثالثاً حنفی فقہ سے عدول اور رسائل و مسائل میں فقہ الحدیث کی طرف سفر ۔ اہل الرائے اور اہل الحدیث میں ایک پل بننے کی مولانا مودودی کی پر خلوص سعی ۔
یہ اختلافات 1940 سے پہلے کے ہیں ، لیکن ان کی بنیاد پر جماعت اور فریضۂ اقامت دین کی مخالفت 25 سال تک محض بغض اور عناد کی بنیاد پر جاری رہی ، البتہ 1966 کے بعد خلافت و ملوکیت کی اشاعت کے بعد مزید سہارا مل گیا ۔
تفردات :
تفردات سے کون پاک ہے؟ لیکن متعصب لوگ صرف مخالف علما کے تفردات کو اچھالتے ہیں ۔ اپنے مسلک کے علما کے تفردات کو چھپا دیتے ہیں ۔ یہ صریحاً حسد ، بغض اور بد دیانتی ہے۔ اس اثنا دیگر علما کے تفردات کا مسئلہ گول کردیا جاتا ہے؛ کیوں کہ اہل تشیع کے عقیدۂ عصمتِ ائمہ کی طرح ان کے علما بھی معصوم عن الخطا ہیں۔ یہ عقیدۂ ختم نبوت پر ڈاکے کی ہی ایک قسم ہے ۔
جماعت کے ارکان و کارکنان سے گذارش :
جماعت امتِ مسلمہ کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ یہ علاقائی ، مسلکی ، صوبائی ، لسانی تعصبات سے پاک جماعت ہے ۔ اس جماعت کا دستور قران اور سنت کی طرف دعوت دیتا ہےـ یہ دعوت مشترکات پر سب کو مجتمع کرنے کی دعوت ہے ۔ پوری امت کا درد اس کے سینے میں موج زن ہے ۔ اپنی تمام کم زوریوں کے باوجود یہی تمام دینی قوتوں کو نفاذِ شریعت پر مجتمع کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہےـ
جماعت کے لوگ بالخصوص اہل علم قرآن اور احادیثِ صحیحہ و ثابتہ کی روشنی میں اشخاص ، مسالک اور علما کے مواقف کا جائزہ لیتے رہیں تو وہ اجماعِ صحابہ اور منھجِ سلف سے نزدیک رہیں گے اور ہر قسم کی جدید و قدیم گم راہیوں سے خود کو بھی بچاسکیں گے اور امت مسلمہ کو بھی ۔
جماعت سے وابستہ ارکان و کارکنان کو بلا تعصب نہ صرف مولانا مودودی ، مولانا صدر الدین اصلاحی ، مولانا جلال الدین عمری ، مولانا امین احسن اصلاحی ، مولانا ابو الحسن علی ندوی ، امام ابن تیمیہ ، امام ابن القیم ، مولانا تھانوی ، مولانا مفتی شفیع ، مولانا تقی عثمانی ، شیخ محمد ناصر الدین البانی ، شیخ صالح العثیمین ، محمد قطب ، دیگر علما احناف اور دیگر سلفی علما کی کتابوں کا مسلسل مطالعہ کرتے رہنا چاہیے اور ان کے صالحین کی صحبت سے بھی مستفید ہونا چاہیے اور تمام علما کی اندھی تقلید سے بچنا چاہیےـ