مولانا مطلوب الرحمن مظاہری مکیاوی ؒ ایک شیریں دہن، سحربیان،فصیح اللسان،سامعین پر افسوں پھونکنے والے اور ان کے دل و دماغ کو مسخر کرلینے والے اپنی نوع کے منفرد خطیب تھے،ماہرین نے آواز، اظہار، تکنیک، اسلوب، سلاست، متانت، ظرافت، اشارت، استدلال، تجربہ، تمثیلات اور انفرادیت کو مثالی خطابت کے لازمی عناصر میں شمار کیا ہے اور مولانا خطابت کی ان تمام اداؤں میں ڈھلے ہوئے تھے، وہ اپنی قوتِ خطابت اور حسنِ ادا سے لوگوں کے ذہنوں کا شکار کرتے اور مجمع کو اپنے زور بیان سے مسحور و مبہوت کردیتے تھے۔
ان کا تعلق بہار کے ضلع مدھوبنی کی علم و دانش کے حوالے سے مشہور بستی مکیہ سے تھا اور وہ بہار ہی نہیں، ملک کے درجنوں بڑے بڑے شہروں میں بھی بہ حیثیت خطیب مدعو کیے جاتے تھے اور جہاں جاتے تھے،چھا جاتے تھے۔ ان کی آواز پاٹ دار تھی ،ساتھ ہی اس میں ایک خاص قسم کی موسیقیت اور نغمگی بھی تھی،سوز و ساز اور تب و تاب بھی لا جواب تھا اور جب وہ مقامی لب و لہجے میں تقریر شروع کرتے ،تو لوگ بس سنتے اور سر دھنتے۔وہ حقیقی معنوں میں نباضِ وقت تھے اور تقریر کے لیے ایسے ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے،جن کی طرف بڑے سے بڑے خطیب و عالم کا ذہن عام طور پرنہیں جاتا ،مگر جب مولانا اس پر بولتے تو محسوس ہوتا کہ یہ تو نہایت اہم موضوع ہے۔مثال کے طورپر وہ کبھی لوگوں کے نامناسب تکیۂ کلام کو موضوعِ گفتگو بنالیتے اور کئی گھنٹے اسی پر تقریر کرتے، شادی بیاہ کے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے رسم و رواج پر ان کی گہری نظر تھی اور اپنے پر مزاح انداز میں ان کی خرابیوں پر روشنی ڈالتے،عام معمولاتِ زندگی میں لوگ کس کس قسم کی کج ادائیوں کے شکار رہتے ہیں،ان سب پر بھی ان کی نظر تھی اور وہ ان کی بھی نشان دہی کرتے۔وہ مظاہر علوم سہارنپور کے فارغ تھے،جید اور باکمال عالم تھے اور ان کا ذہن فطری طورپر مصلحانہ تھا، مگر اصلاح کے لیے طریقہ انھوں نے کرختگی ، تہدید و توعید اورتنفیر و تبعید کی بجاے تکریم و تبشیر اور تیسیر و تقریب کو اختیار کیا اور زبان و ادا ایسی اپنائی کہ بسا اوقات بہت سخت بات بھی وہ ہنستے ہنساتے اس طرح کہہ دیتے کہ سننے والے کو بری بھی نہ لگتی اور ابلاغ و نصیحت کا ان کا مقصد بھی پورا ہوجاتا،عام طورپر جلسوں کے مقرر بہت چیختے چنگھاڑتے، دھمکاتے اور ڈراتے ہیں اور ایسی زبان، آواز و انداز میں تقریر کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گناہگاروں پر اب تب میں عذاب نازل کروادیں گے، ان کے اسلوب میں داعیانہ خیرخواہی اور پیغمبرانہ دردمندی ا ور تلطف عموماً دیکھنے سننے کو نہیں ملتا، مگر مولانا مطلوب الرحمن مقرروں کے اس عمومی اور عامی گروہ سے مختلف تھے، ان کے اسلوب میں واقعی درد مندی ہوتی تھی، یہ دردمندی ان کے انداز سے بھی جھلکتی تھی، لفظوں کا چناؤ ان کا بہت پیارا ہوتا تھا، وہ بہت بیدار مغز عالم تھے اور ان کا ذہن بڑا مستحضر تھا، الفاظ ان کے منھ سے آبشار کے مانند بہتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ ڈھلی ڈھلائی خوب صورت خطیبانہ تعبیریں، ترکیبیں، فقرے اور جملے انھیں ازبر ہیں اور ان کے استعمال کا محل بھی انھیں بخوبی پتا تھا، وہ اپنے سامعین کے مزاج آشنا تھے، جس ماحول میں تقریر کرتے اور جس مقام پر تقریر کرتے،اس کی ضرورت اور مسائل کا بھی انھیں ادراک ہوتا اور اسی کی روشنی میں وہ تقریر کیا کرتے۔وہ ایک شگفتہ بیان مقرر تھے اور انھیں سن کر سامعین کے ذہن و دل بھی شگفتہ ہوجاتے تھے،انھیں سننے کے بعد لوگوں میں دین کے تئیں خوف و دہشت کی بجاے شوق و رغبت پیدا ہوتی تھی ۔ عوام اور سامعین پر ان کی گرفت ایسی تھی کہ چار پانچ گھنٹے چلنے والے جلسوں میں انھیں عموماً سب سے آخر میں مدعو کیا جاتا، جب لوگ تھک تھکاجاتے ہیں ،ان پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ جلسہ گاہ میں ہی آدھے یا پورے سو رہے ہوتے ہیں، مگر ایسے وقت میں بھی جوں ہی اسٹیج پر مولانا کی آمد کا اعلان ہوتا،سونے والے تو بیدار ہو ہی جاتے،جو جلسہ گاہ کے باہر پھر رہے ہوتے ،وہ بھی افتاں و خیزاں جلسہ گاہ میں آموجود ہوتے اور تمام تر تیقظ و بیداری کے ساتھ انھیں سنتے۔
مولانا عشقِ رسولﷺ کے پاکیزہ جذبات میں بھی ڈوبے ہوئے تھے ،جب تقریر کے لیے اسٹیج پر آتے تو افتتاحی خطبہ پڑھنے کے بعد چند نعتیہ اشعار بہت سوز، بہت دردمندی، بہت شیفتگی،بہت والہانہ پن اور تڑپ اور عشقِ نبوی میں ڈوب کر پڑھتے،جنھوں نے انھیں نعتیہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا ہے اور اچھی نعت سننے اور اسے محسوس کرنے کا کچھ شعور بھی رکھتے ہیں،وہ بہ خوبی بتا سکتے ہیں کہ مولانا جب نہایت سادہ ،مگر پرکشش ترنم میں نعتیہ اشعار پڑھتے تھے،تو ان کے دل کی کیفیت کیا ہوتی تھی۔
مولانا کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ کسی جماعت ،جمعیت،تنظیم یا ادارے کے سہارے کی بجاے محض فضل خداوندی، اپنی محنت ،ذاتی قابلیت اور غیر معمولی خطابی استعداد کی بناپر انھوں نے مقبولیت و شہرت حاصل کی، مگر اس کو انھوں نے مسلمانوں میں تفریق و انتشار پھیلانے کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا،ان کا زورعموماً ہمیشہ ان سماجی مسائل پر رہا،جن سے من حیث المجموع تمام مسلمان دوچار ہیں اور ہمیشہ وہ انھیں اجتماعی توافق و اتحاد اور تمسک بالدین کی طرف بلاتے رہے۔وہ اکثر کلیم عاجز کا یہ مشہور شعر اپنے مخصوص ترنم میں پڑھا کرتے تھے،جو ان کے طرزِ عمل کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے:
اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھر ملے
میرے خیال میں پچھلے چار پانچ عشروں کے دوران انھوں نے ملک بھر کے مختلف خطوں کے کئی سو دینی جلسوں میں تقریریں کی ہوں گی ، عموماً ہر مقام پر،ہر جلسے میں اللہ نے انھیں غیر معمولی سرخروئی اور ہر دلعزیزی سے نوازا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کی جنازے کی نماز میں بہار ہی نہیں، دیگر مختلف شہروں اور ریاستوں سے بھی ہزاروں کی تعد اد میں مسلمانوں نے شرکت کی اور ان کی مغفرت کی دعائیں نہ جانے کہاں کہاں کی گئیں۔
میری مولانا سے وابستہ دو تین یادیں ہیں،مگر ایک بہت خاص ہے۔وہ کسی زمانے میں ہماری مادر علمی جامعہ قاسمیہ بالاساتھ(سیتامڑھی) کے صدرالمدرسین رہ چکے تھے؛اس لیے وہاں ان کا خاص اکرام و احترام کیا جاتا تھا اور جامعہ کے تقریباً ہر جلسے میں انھیں مدعو کیا جاتا تھا،یعنی حفاظ کے اجلاسِ دستاربندی کے علاوہ طلبہ کے سالانہ پروگرام میں بھی انھیں بہ حیثیت مقررِ خصوصی مدعو کیا جاتا تھا۔ ۲۰۰۵ میں بھی وہ ہمارے سالانہ پروگرام میں تشریف لائے تھے،اس سال میں عربی چہارم کا طالب علم تھا،اس پروگرام میں دیگر طلبہ کے ساتھ ایک عربی تقریر میری بھی تھی ۔ مولانا نے اس تقریر کو بہت پسند کیا،آخر میں جب اسٹیج پرتشریف لائے تو مجھے بلوایا ، دوچار منٹ اس تقریر کی تعریف کرتے رہے اور سو روپے کا انعام بھی دیا،ساتھ ہی فرمایا کہ میری جیب میں اس وقت سو ہی روپے تھے، اگر زیادہ ہوتے ،تو وہ بھی اس طالب علم کو دے دیتا۔ظاہر ہے کہ یہ ان کا، خورد نوازی اور حوصلہ افزائی کا انوکھا انداز تھا ،ورنہ میری تقریر کیا ہی رہی ہوگی! ویسے عمر کے اس مرحلے پر ایسے بڑے لوگوں کی تشجیع اور ہمت افزائی بڑے کام کی چیز ہوتی ہے اور آیندہ کی علمی و عملی زندگی کو ایک سمت دینےمیں اہم رول ادا کرتی ہے۔ اللہ پاک انھیں اپنے شایانِ شان اجر عطا فرمائے ،ان کی خوبیوں اور حسنات کو قبول فرمائے اور تمام بشری لغزشوں سے درگذر فرمائے۔(آمین)