گزشتہ کل کئی احباب نے پاکستان کے ایک صاحب قلم کی ایک تحریر ارسال کی ہے، جس میں انھوں نے مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ کے سلسلے میں چند خلاف واقعہ باتیں تحریر کی ہیں، عام طور پر ایسی تحریروں کا جواب لکھنے کا کوئی تقاضہ میرے دل میں نہیں پیدا ہوتا، لیکن چونکہ اس تحریر میں کی گئی ایک غلط بیانی ایک سادہ سی خلاف واقعہ بات نہیں ہے بلکہ نہایت سنگین غلط بیانی ہے، اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس پر استدراک کیا جائے۔
صاحب تحریر لکھتے ہیں: "مولانا نعمانی شاید (اپنے خاندانی پس منظر کے) ردعمل میں بعد میں اس حد تک چلے گئے کہ بریلوی علما سے مناظرے کیا کرتے تھے. میں نے اپنی طالب علمی کے ابتدائی دور میں ان کے مطبوعہ مناظرے بڑے شوق سے پڑھے تھے. لیکن بعد میں مجھے مولانا عبدالحفيظ مکی نے بتایا کہ مولانا منظور نعمانی نے بریلوی علما سے مناظرے کرنے سے توبہ کر لی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے بریلوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عظمت و تقدس کا دفاع کر رہے ہیں اور ہم دوسری جانب کھڑے ہیں”۔
یہ ہے وہ غلط بیانی جس کا استدراک اس تحریر میں اصل مقصود ہے، اس تحریر میں دو دعوے کیے گئے ہیں:
1. مولانا نعمانی نے اپنی ابتدائی عملی زندگی میں بریلوی علما سے جو کچھ مناظرے کیے تھے وہ رد عمل کی نفسیات کے تحت تھے۔
2. دوسرا دعوی یہ کیا گیا ہے کہ کچھ عرصہ بعد” مولانا منظور نعمانی نے بریلوی علما سے مناظرے کرنے سے توبہ کر لی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے بریلوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عظمت و تقدس کا دفاع کر رہے ہیں اور ہم دوسری جانب کھڑے ہیں”۔
جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا یہ ایک نہایت سنگین غلط بیانی اور تہمت طرازی ہے، جو صرف مولانا کی بابت نہیں بلکہ پوری جماعت دیوبند کی بابت کی گئی ہے، اور اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ گویا اہل بریلی ان مناظروں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وتقدس کا دفاع کرتے ہیں اور اہل دیوبند دوسری جانب ہوتے ہیں، پھر موصوف نے یہ نہایت سنگین بات مولانا منظور نعمانی کی زبان سے کہلوادی ہے، ہم نہیں جانتے کہ اس علط بیانی کا مرتکب کون ہے؟ صاحب تحریر خود یا وہ مولانا عبد الحفیظ صاحب جن کے حوالے سے یہ بات یہاں نقل کی گئی ہے۔
اس دعوے کے غلط اور افترا ہونے کے لیے بس یہ جان لینا کافی ہے کہ مولانا نعمانی رح نے مناظروں کے میدان میں قدم کیوں رکھا اور پھر کچھ عرصہ بعد خدمت دین کے دوسرے میدان کو اس پر ترجیح کیوں دی۔
اس سلسلہ میں مولانا نعمانی نے اپنی خود نوشت سوانح حیات تحدیث نعمت میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی، ہم یہاں اختصار کے ساتھ چند باتیں عرض کردیتے ہیں تفصیل کے طالب تحدیث نعمت کا مطالعہ کرسکتے ہیں.
مولانا نعمانی تحریر فرماتے ہیں: "بریلوی مسلک کے لوگوں سے مناظروں کی نوبت ان کے اس تکفیری فتنے کی وجہ سے آئی تھی جو انھوں نے اکابر علمائے دیوبند کے خلاف برپا کر رکھا تھا، یہاں تک کہ ان صاحبان علم اور باخدا بزرگوں کو ایسا کافر قرار دیا گیا تھا کہ جو کوئی ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر. یہ وہ حضرات تھے کہ جن کے دم سے اس ملک میں توحید وسنت کا فروغ اور شرک وبدعت کی بیخ کنی تھی”۔
مولانا نعمانی نے اس موقع پر یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ ان کا علاقہ بالخصوص ان کا ضلع مرادآباد بریلوی علما کی اس تکفیری مہم کا مرکز تھا، (اور جیسا کہ درج بالا اقتباس سے بھی واضح ہوتا ہے) مولانا نعمانی کو احساس تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں میں” توحید وسنت کا فروغ اور شرک وبدعت کی بیخ کنی” کا جو کام علمائے دیوبند کے دم سے انجام پاریا ہے یہ تکفیری مہم اس کی راہ کا بڑا روڑا ہے، جس نے عام مسلمانوں کو سخت تذبذب میں ڈال رکھا ہے اور نہ جانے کتنے بندگان خدا کو راہ توحید وسنت کو اختیار کرنے سے روک رکھا ہے، اس احساس کے تحت انھوں نے اس تکفیری مہم کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، جس میں نوبت مناظروں تک کی آگئی تھی، مولانا اس سلسلہ کو آخر تک دین کی خدمت ہی باور کرتے رہے، نہ کہ کوئی غلط کام جس سے توبہ کی جائے، اسی لیے اپنی اسی خود نوشت سوانح حیات میں مولانا نے تحریر فرمایا ہے: "ایسے بزرگوں اور ان کے سلسلے کا دفاع میرے لیے بلا شبہ دین حق کا دفاع تھا، اور اللہ کی اس نعمت کا کس طرح شکر ادا کروں کہ اس دفاع کے سلسلے میں میرے اندر ایک غیر معمولی جذبے اور سرشاری کی کیفیت ان دنوں میں تھی” ۔ یعنی مولانا نعمانی رح اپنی خود نوشت سوانح حیات میں مناظروں کے اس سلسلے کو دین حق کا دفاع اور اللہ کی نعمت قرار دے رہے ہیں، اور پاکستان کے جن صاحب قلم کی تحریر ہماری اس تحریر کا سبب بنی ہے ان کا دعویٰ ہے کہ مولانا نعمانی مناظروں کے اس سلسلہ کو ایسا گناہ سمجھتے تھے کہ اس سے انھوں نے توبہ کی. غلط بیانی اور افترا پردازی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
اب اس سوال کے جواب کی جانب توجہ کرتے ہیں کہ مولانا نعمانی نے مناظروں کے میدان پر دوسرے دینی میدان کو کیوں ترجیح دی، مولانا نے تحدیث نعمت اور اپنی بعض دوسری تحریروں میں اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آزادی ہند سے کئی برس قبل جب مستقبل کے ہندوستان کا نقشہ سامنے آنے لگا تھا تو مولانا کو ان دینی چیلنجز کا اندازہ ہوگیا تھا جن کا سامنا آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو کرنا تھا، اس لیے مولانا نے یہ مناسب بلکہ ضروری سمجھا کہ اب وہ اپنی خدمات کا رخ عام مسلمانوں کی دینی اصلاح، دین سے ان کا رشتہ مضبوط کرنے اور انھیں دینی تعلیمات سے واقف کرانے کی جانب کردیں، بس اس لیے مولانا نے اپنے لیے ایک اور میدان کار منتخب کیا، اور زندگی اسی راہ میں لگادی. ورنہ مولانا کی نگاہ میں پچھلا میدان کار بھی دینی خدمت سے ہی عبارت تھا اور اس سلسلہ میں دی گئیں خدمات پر بھی وہ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔
ایک غلط بیانی اس تحریر میں یہ بھی کی گئی ہے کہ: آخر عمر میں "مولانا نعمانی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی جو گہرے دوست تھے نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے اتنے دور ہو گئے کہ بول چال کا تعلق بھی نہ رہا”. یہ صحیح ہے کہ بعض امور میں ان دونوں بزرگوں کی آرا مختلف تھیں، لیکن یہ تحریر کرنا کہ یہ دونوں حضرات اتنے دور ہوگئے کہ باہم بول چال کا تعلق بھی نہ رہا آخری درجہ کی کذب بیانی وافترا پردازی ہے، اور افترا پردازی کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ افترا پرداز کی سطح کی ہوتی ہے۔
مولانا نعمانی تو اپنی معذوریوں کی بنا پر صاحب فراش تھے، لیکن آخر تک مولانا ابو الحسن ندوی مولانا نعمانی کے گھر بغرض ملاقات وعیادت تشریف لاتے رہے۔ مولانا نعمانی کے انتقال پر مولانا ندوی نے جو تعزیتی خطاب دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مسجد میں فرمایا اور جو اب مولانا ندوی کی کتاب پرانے چراغ میں درج ہے اس کی ایک ایک سطر جیسی محبت وقدرشناسی کا آئینہ ہے اس کا احساس اسے پڑھنے والے ہی کرسکتے ہیں. پرانے چراغ میں اس خطاب کو درج کرنے سے پہلے جو تمہیدی سطریں مولانا ندوی نے تحریر فرمائی ہیں ان میں یہ بھی تحریر کیا ہے کہ ہم دونوں کے مابین جتنی قرابت، یکجائی، ہم نشینی، ہم سفری اور اتحاد فکر وعمل رہا وہ شاید دو حقیقی بھائیوں میں بھی نہ پایا جاتا ہو. کہاں بول چال بند ہوجائے تک کی نظریاتی دوری کا دعوٰی اور کہاں مولانا ندوی کا یہ بیان کہ ان کے اور مولانا نعمانی کے درمیان جیسی قربت اور جیسا اتحاد فکر وعمل رہا دو سگے بھائیوں میں بھی شاید اس کی مثال نہ ملے۔ تفصیل کے ساتھ اقتباسات اس موقع پر درج نہیں کیے جاسکتے جو حضرات چاہیں پرانے چراغ کی تیسری جلد میں یہ مضمون وخطاب پڑھ سکتے ہیں۔