امارتِ شرعیہ بہار کے لیے آٹھویں امیر کا انتخاب کارگل کا میدان ثابت ہو رہا ہے۔ سارا منظر لہو لہو ہے۔ ہر آدمی دست و گریباں۔ شرم ناک پہلو یہ ہے کہ اس خانہ جنگی میں عوام نہیں، علما ہی ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہیں۔ وہ بھی صرف ایک منصب کے لیے۔ جو کام بڑی آسانی اور چابک دستی سے ہونا تھا، اسے ہوا پرستوں نے کوہ کنی سے بھی مشکل تر بنا دیا ہے۔ بہی خواہانِ امارت روزِ اول سے بس ایک ہی صدا لگا رہے ہیں، ایک ہی فریاد کر رہے ہیں، ایک ہی نعرہ زبانوں پر ہے کہ امیر کا انتخاب دستور کی بنیادوں پر ہونا چاہیے، کسی اور کا احساس تو بیان نہیں کر سکتا، مگر اپنا تاثر بے تکلف عرض کر رہا ہوں کہ مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی وفات سے تین چار روز پہلے ہی مجھے خدشہ ہو چلا تھا کہ امارت کا اگلا امیر مونگیر سے ہی لایا جائے گا۔ وہ خدشہ پھر رفتہ رفتہ توانا ہوتا رہا اور اب تو وہ حقیقت بن کر آفتابِ نیم روز کو شرما رہا ہے:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا
اگر دستور کے دامن کو مضبوطی سے تھاما جاتا، امارت کی روایات کو واجب الاحترام سمجھا جاتا، کم عمروں اور ناتجربہ کاروں کو چھوڑ کر بڑوں سے مشورہ کیا جاتا تو ایک دوسرے کی پگڑیاں یوں نہ اچھلتیں، آبرؤں کا خون یوں نہ ہوتا اور بہار کی سرزمین علما کے لہو سے یوں لالہ زار نہ ہوتی۔ ہنگامہ صرف اس لیے ہے کہ دستور کو رف کاپی سمجھ کر پھاڑ دیا گیا، اسے حقارت سے پھینک دیا گیا، کشتی بے سمت ہانکی گئی۔ از اول تا آخر خوب من مانی کی گئی۔ اور پھر ایسے شخص کو امیر بنانے کی کوششیں چلنے لگیں اور ایسے بندے کو مسند پر بٹھانے کے چور دروازے تلاش کیے جانے لگے، جسے امارت کا شین قاف معلوم نہیں، جس کے پاس دین کا ضروری علم ہی نہیں۔ انتخاب کا مغربی طریقہ پیش کیا گیا، جو نہ دستورِ شرعیہ کو منظور، نہ دین و شریعت میں محمود۔ لامحالہ تشویش ہوئی، چہ می گوئیاں ہوئیں، رائیں پیش کی گئیں، مضامین لکھے گئے، درست تنقیدیں ہوئیں، اصلاحی گرفتیں ہوئیں، مگر یہ آئینہ نمائی جانب دار حلقے کو بہت بری لگی۔ اپنے مصلحین کو خاموش کرنے کے لیے تبرائی توپ کے دہانے کھول دیے اور ان پر پردہ نشینوں کو بٹھا دیا گیا۔ یہ پردہ نشیں اخبارات اور سوشل میڈیا کے سہارے حریفوں پر تیر و تفنگ برسانے لگے۔ خلاؤں میں آ کر میزائل داغنے لگے۔ قدامت پسندوں کو اپنی اوقات دکھانے لگے۔ اور نہ جانے کیا کیا ہوا۔ بقولِ غالب:
حالِ دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلاؤں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خوں چکاں اپنا
میں بہت دنوں سے چاہ رہا تھا۔ اپنی پچھلی تحریر میں بھی مخلصانہ اور فقیرانہ صدا لگائی تھی کہ بہار کی سرکردہ شخصیات کب تک گوشہ نشیں رہیں گی؟ بانئ امارت کی روح بے اصولیوں پر تڑپ رہی ہے۔ پامالئ دستور سے نالاں ہے۔ اتحاد شکنی پر فریاد کر رہی ہے۔ آپ کو آواز دے رہی ہے۔ خدا کے لیے آئیں اور گرتی دیواروں کے لیے سکندر بنیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ آوازیں صدا بہ صحرا نہ ہوئیں۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنا جمود توڑا۔ مولانا اظہار الحق صاحب نے اپنے افکار پیش کیے۔ بقیہ اکابر کا بھی شدت سے انتظار ہے۔ مجھے مسرت اور سب سے زیادہ مسرت مولانا رحمانی صاحب کی آمد پر ہے، کیوں کہ ان کے آتے ہی فریقِ ثانی کے طوطے ہاتھوں سے اڑ گئے:
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف، چرخِ کہن کانپ رہا ہے
جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ شروع سے ہی امارت کے امیدوار نہیں تھے۔ ساڑھے تین ماہ سے متعلقہ صوبوں میں بمچخ چل رہی تھی۔ مولانا خاموشی سے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ شادی کے عنوان سے پٹنہ آئے تو چاہنے والوں نے موقع غنیمت جان کر انہیں گھیر گھار لیا۔ صحیح صورتِ حال بتائی۔ دلوں کو جھنجھوڑنے والی اور روح فرسا داستان سنائی۔ موجِ خوں کا سر سے گزرنا بتایا۔ پھر ان سے امارت قبول کرنے کی پیش کش کی گئی۔ اولاً مولانا نے انکار کر دیا، پھر اصرار جب حد سے بڑھا تو انہوں نے یہ کہہ کر ہامی بھر لی کہ رائے عامہ میرے حق میں رہی تو میں قبول کر لوں گا۔ اتنا سننا تھا کہ بہی خواہانِ امارت میں ایک جوش برپا ہو گیا۔ سجادی فوج سرمست ہو گئی، اہلِ انصاف نے ان کی ستائش کی کہ اختلاف کی آندھی اب منہ کے بل گرے گی، پارہ پارہ اتحاد شیرازہ بند ہو جائے گا، مگر دوسرا حلقہ ان سے روٹھ گیا، کیوں کہ وہ پہلے سے ہی مضبوط ترین پروپیگنڈہ کر رہا تھا کہ مولانا امارت میں نہیں آئیں گے۔ مونگیر کے ایک لال تو حیدر آباد تک چلے گئے اور بڑی ڈھٹائی سے مولانا کے سامنے دستخطی پرچہ رکھ دیا۔ مولانا کی فراست کہ وہ تاڑ گئے اور دستخط کرنے سے صاف منع کر دیا۔ مونگیری لال نے کورونا کا حوالہ دے کر بہار کا سفر نہ کرنے کی بھی فرمائش کر ڈالی۔ آپ ملت کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ حیدرآباد چھوڑ کر کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ ان کی اس ادا پر فارسی کا یہ مصرع بری طرح یاد آ رہا ہے:
چہ دلاور است دزدے کہ بہ کف چراغ دارد
وہ ٹولہ جب اپنی مہم میں ناکام ہو گیا تو اب حرکتِ مذبوحی پر اتر آیا۔ اب ان کے خلاف تحریریں لکھ رہا ہے۔ ان کی ہجو کر رہا ہے۔ عدمِ برداشت کی نمائش کر رہا ہے۔ انہیں دبانے اور بھگانے کے طریقے ڈھونڈ رہا ہے، مگر ان شاءاللہ ایسا نہیں ہوگا۔ ساری تدبیریں الٹی پڑیں گی۔
مولانا سے کسی نے پوچھا کہ انتخاب کا پیش کردہ طریقہ درست ہے؟ انہوں نے حق گوئی کا ثبوت دیتے ہوئے صرف اتنا کہہ دیا کہ یہ طرزِ انتخاب شرعاً درست ہے، نہ دستور کا اجازت یافتہ۔ مولانا نے مسئلہ صحیح بتایا تھا، ندوے کے استاذ مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے ان کی تائید کی ہے۔ صوبے کے مقتدر اہلِ علم نے بھی اسے استحسان کی نظر سے دیکھا ہے، کوئی بھی بالغ نگاہ یہی کہے گا، جو انہوں نے کہا، مگر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، فریقِ مخالف سیخ پا ہو گیا۔ اس کی چیخ نکل گئی۔ یک نہ شد، دو شد۔ پہلے تو صرف امیدواری کو منظوری تھی، اب مسئلہ بیانی بھی آ گئی۔ اتنی سی بات پر مخالف خیمہ بلبلا اٹھا۔ ان کی کردار کشی کر رہا ہے۔ انہیں فقیہ العصر و المغرب کہہ رہا ہے۔ ان کے کارناموں کو نظر انداز کر رہا ہے۔ گویا مولانا نے کوئی بڑا جرم کر لیا۔ علم و عمل کی راہ سے کوئی بھیانک غلطی کر لی۔ حالانکہ مولانا تو اس مقام پر فائز ہیں کہ یوسف علیہ السلام کی طرح وہ خود آگے آتے اور سب سے کہتے کہ امارت کا ڈوبتا سفینہ اب مجھ سے ہی سنبھلے گا، مجھے ہی امیرِ شریعت بناؤ! انی حفیظ علیم۔ عہدے کی طلب بلاشبہہ بری چیز ہے، احادیث میں ایسے لوگوں کو منصب سے دور رکھنے کا فرمان آیا ہے، مگر جب حالات ایسے خوں چکاں ہو چکے ہوں۔ دستور کا جنازہ نکالا جا رہا ہو۔ اخلاقیات پر فاتحہ پڑھی جا رہی ہو۔ قانونِ فطرت سے بغاوت ہو رہی ہو، تقسیم در تقسیم کے خطرات منڈلا رہے ہوں تو عہدے کی طلب ایسے وقت میں ضروری ہو جاتی ہے۔ جلیل پیغمبر یوسف علیہ السلام نے وہی کیا تھا۔ مولانا کو بھی وہی کرنا تھا، مگر وہ مصلحت میں رہ گئے اور ہمت نہ جٹا سکے۔
مولانا کون ہیں اور کیا ہیں؟ اس پر کچھ کہنے کی نہ حاجت، نہ موقع۔ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ عالمی شہرت یافتہ۔ جہاں دیدہ۔ سرد و گرم چشیدہ۔ ہر فن مولا۔ علومِ اسلامیہ میں طاق۔ تنظیمی صلاحیتوں سے مالا مال۔ قرآن کی تفسیر لکھی تو اہلِ علم نے شوق کے ہاتھوں لیا۔ ذوق کی آنکھوں سے پڑھا۔ دعوتی نقطۂ نظر سے پیغمبر کی سیرت اس طرح لکھی کہ اپنی نوع میں اردو کی پہلی کتاب بن گئی۔ قاموس الفقہ کی جلدیں آئیں تو ہر زبان انہیں فقیہ العصر پکار اٹھی۔ فقہ اکیڈمی کے ذمہ دارِ اعلی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری۔ علمائے امت کے معتمد۔ یورپ، افریقہ، ترکی، پاکستان ہر جگہ مقبول۔ علما انہیں پلکوں پر بٹھائیں۔ عوام دیدہ و دل فرشِ راہ۔ ایسی عظیم شخصیت، ایسی فقیہ ذات، اتنا بڑا رجال ساز، ایسا عہد آفریں، ایسی آدم گر ہستی ہندوستان میں اب پائی نہیں جاتی۔ با ہمہ اور بے ہمہ:
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا، سب کا رفیق
انہیں لوگ فقیہ العصر کہتے ہیں، مگر وہ میری نظر میں شیخ الاسلام ہیں۔ ضعیف اور نحیف ہیں، مگر پوری انجمن کا کام تنِ تنہا کر رہے ہیں۔ ایسی کتابیں لکھ دیں کہ آنے والی کئی صدیاں ان کی احسان مند رہیں گی۔
ان کے بالمقابل امیدوار کو دیکھیے تو موازنہ کارِ عبث۔ کہاں سلیماں جاہ، کہاں مورِ بے مایہ۔ آفتاب اور ذرے میں کیا مقابلہ! مولانا امیرِ شریعت منتخب ہو جاتے ہیں تو امارتِ شرعیہ بہار کی عظمتِ رفتہ لوٹ آئے گی۔ اس ادارے میں وہ اس طرح فٹ بیٹھیں گے، جیسے گراں بہا انگوٹھی میں بیش بہا نگینہ۔ امارت کی عمارتیں، ان کی دیواریں، ان کے رنگ و روغن، ان کی روحانیت مولانا کو آواز دے رہی ہے اور مسلسل کہے کہے جا رہی ہے:
تمہیں جب نہ ہوگے تو کیا رنگِ محفل
علاماتِ قیامت میں سے ایک یہ بھی ہے: ان تلد الامۃ ربتہا۔ یعنی لونڈیاں اپنے آقا کو جنم دیں گی۔ مولانا نے امیدواری کیا قبول کی، چراغ بھی آفتاب سے سر ملانے چلے۔ لقمان کو حکمت سکھلانے والے محاذ پر آ گئے۔ چھوٹے لوگ بڑے کو علم و حکمت اور دانش و بینش کا درس دینے لگے۔ ان کو شریعت سمجھانے لگے، تاکہ مولانا اس دنگل سے نکلیں اور امارت جنگل راج ہو جائے۔ مگر اب وہ یہیں رہیں گے، کہیں جائیں گے نہیں، کیوں کہ:
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
محاذ کوئی بھی ہو، اسے سر کرنے، اس کا پنجہ مروڑنے اور اس پر فتح کا پرچم لہرانے کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ آگ کے بستر اور سانپ کے تکیے پر سونا پڑتا ہے، تب جا کر حنا رنگ لاتی ہے۔ مولانا ان تمام نکتوں سے واقف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ:
یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
اس قوم کی ایک پریشانی یہ ہے کہ ماننے پر آئے تو اپنا قبلہ و کعبہ سب بنا ڈالتی ہے، اور جب بپھر جائے، تیوری چڑھا لے تو تحت الثریٰ میں پہونچاتے دیر نہیں لگاتی۔ یہ مردہ پرست قوم ہے۔ سارے حسنات اور القاب مرنے کے بعد کے لیے ہیں، جینے کا صلہ صرف صلوات نوازی ہے۔ پچھلوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مولانا کے ساتھ بھی یہی ہونے لگا۔ حالانکہ انہیں نوشاہ بنا کر رکھا جانا چاہیے تھا، یہ قوم انہیں اب پتھر مارنے لگی:
جیتے جی پرسشِ احوال کو آیا نہ کوئی
جمگھٹا لگ گیا مرتے ہی ثنا خوانوں کا
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اقتدار پر نا اہلوں کا تسلط ہوگا۔ یہ وہی دور ہے۔ نا اہل لوگ کرسی پر قابض رہنے کے لیے کئی ہنر آزماتے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فریقِ مخالف پر الفاظ کے اتنے بم پھینکو، جملوں کے اتنے گولے برساؤ کہ شریف بندہ دیوار سے لگ جائے۔ یہاں بھی وہی ہو رہا ہے۔ جی ہاں! دستار کی محفلوں، جبے کی تہوں، عمامہ کے پیچوں اور تسبیح کی کھٹاکھٹ میں۔ اس پر ماتم نہ کیا جائے تو اور کیا کیا جائے:
مجھ کو رونے سے نہ کر منع کہ مجبوری ہے
صبر ہوتا تو ہے اے دوست! مگر ہونے تک
اس ساری سمع خراشی کا حاصل صرف اتنا ہے کہ جب مولانا نے ہامی بھر لی ہے تو سارا الیکشن ختم۔ انہیں ہی بلا مقابلہ امیرِ شریعت منتخب کر لیا ہے۔ سارے جھگڑے، ساری چہ می گوئیاں اپنی بساط سمیٹ لیں گی:
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات