مولانا کلیم صدیقی، ڈاکٹر عمر گوتم اور دوسرے مسلمانوں کی مزعومہ طور پر ”جبرا مذہب تبدیل کرانے“ کے الزام میں سخت سزائیں قانون اور عدلیہ کا ہندوتوا ایجنڈا کے لئے انتہائی غلط استعمال ہے۔ اس خیال کا اظہار آج ایک صحافتی بیان میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صدر مسلم مجلس مشاورت اور سابق صدر دہلی اقلیتی کمیشن نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ داعیٔ اسلام مولانا کلیم صدیقی، ڈاکٹر عمر گوتم اور دوسرے لوگ جن کو دس سال جیل سے لیکر عمر قید کی سزائیں ایک نچلی عدالت نے سنائی ہیں، وہ قانون اور عدلیہ کا بد ترین استعمال ہے۔ جس ریاستی ’’قانون‘‘ کے تحت یہ سزائیں سنائی گئی ہیں وہ آئین ہند کی دفعات ۲۵۔۲۸ سے بنیادی طور پر ٹکراتا ہے کیونکہ آئین ہند نے تمام ہندوستانی شہریوں کو نہ صرف اپنے اپنے مذہب میں عمل کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ اس کو فروغ دینے اور پھیلانے کا حق بھی دیا ہے۔ یہ لوگ مذہب اسلام کو برحق سمجھتے ہیں اور دوسروں تک یہی ابدی پیغام پہنچا رہے تھے۔ اگر دعوتی کام میں ان کو کوئی بیرونی امداد ملی بھی ہے تو وہ غلط نہیں ہے بلکہ دوسرے ہندو، عیسائی اور بودھ طبقے کے لوگ اسی طرح کے کام کے لئے مسلمانوں سے ہزاروں گنا زیادہ غیر ملکی امداد حاصل کرتے ہیں اور ان پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے کہا کہ ہندوتوا کے پیروکار برسوں سے کھلے عام مالی منفقت اور ملازمتوں کا لالچ دیکر غریب مسلمانوں اور عیسائیوں کو’’ گھر واپسی‘‘ کے نام پر ہندو بنا رہے ہیں اور کھلے عام اس پلان کی کامیابی کا پرچار بھی آئے دن کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف آجتک کوئی کار روائی نہیں ہوئی۔ یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ مذکورہ آئین مخالف ریاستی قانون کو صرف اقلیتوں کو تنگ کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام نے امید ظاہر کی عدالت عالیہ نچلی عدالت کے اس غلط فیصلے کو جلد ہی رد کر دے گی۔
مولانا کلیم صدیقی اور ڈاکٹر عمر گوتم کو سزا غیر آئینی: مشاورت
previous post