Home ستاروں کےدرمیاں دعوت الی اللہ کے عظیم قائدمولانا کاکا سعید احمد عمریؒ-محمد عارف عمری

دعوت الی اللہ کے عظیم قائدمولانا کاکا سعید احمد عمریؒ-محمد عارف عمری

by قندیل

رکن عاملہ جمعیۃ علماء مہاراشٹر ومہتمم دار العلوم عزیزیہ میرا روڈ

پرسوں یہ خبر بجلی بن کر گری کہ مادر علمی جامعہ دار السلام عمر آباد کے معتمد عمومی مولانا کاکا سعید احمد عمری رحمہ اللہ جوار رحمت الہی میں پہونچ گئے،انا للہ وانا الیہ راجعو ن

پچھلے چند مہینوں سے موصوف کی علالت کی اطلاع مل رہی تھی، کچھ دنوں چنئی کےکسی اسپتال میں ایڈمٹ رہے، رہ رہ کر طبیعت بگڑتی تھی، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اندر غیر معمولی قوت ارادی ودیعت کی تھی، شاید اسی کا یہ اثر تھا کہ عمر طبعی کو پہونچنے کے باوجود وہ سنبھالا لے لیتے تھے، لیکن موت ایک اٹل حقیقت ہے، جس سے کسی ذی نفس کو مفر نہیں، پرسوں اسلام کے اس جانباز سپاہی، اپنے بزرگوں کے جانشین اور جامعہ دار السلام عمر آباد کو ایک صدی کا عرصہ گزارنے کے کامیاب ترین قائد و رہبر نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔

کاکا صاحب کی وفات کا سانحہ عربی شاعر کے اس شعر کی مجسم تصویر ہے

وما کان قیس ھلکہ ھلک واحد

ولکنہ بنیان قوم تھدما

کاکا صاحب کی وفات ایک فرد کی وفات نہیں ہے بلکہ ایک قوم کی بنیاد منہدم ہونے کے مترادف ہے،اس احساس کے باوجود ہمارا پختہ یقین ہے کہ بانی جامعہ کاکا محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ نے سو سال پہلے 1924 میں جس اخلاص اور عزیمت کے گارے سے جامعہ دار السلام عمر آباد کی تعمیر کی ہے اس کو نصف صدی تک ان کے فرزندان عالی مقام نے خون جگر سے سینچا اور بعد کی نصف صدی کے عرصے میں بانی جامعہ کے دو عظیم پوتوں کاکا محمد عمر ثانی اور کاکا سعید احمد عمری رحمھما اللہ نے اس جامعہ کو بام عروج پر پہنچایا جس کی ضیاپاش کرنیں صرف جنوبی ہند کو نہیں بلکہ پورے ملک کو منور کر رہی ہیں۔

ایک صدی کا طویل عرصہ خالص ایک متعین منہج پر گزارنا کوئی معمولی بات نہیں ہے، گڑھ آمبور کی وادی میں کاکا محمد عمر نے جو علم کی بستی بسائی ہے وہ وادی غیر ذی زرع (مکہ مکرمہ) کے مانند علم کا دریا جس طرح ایک صدی سے بہا رہی ہے، مستقبل میں بھی یہ چشمہ حیواں جاری و ساری رہے گا، ان شاء اللہ

کاکا سعید صاحب کی وفات کا میرے دل پر ایسا گہرا اثر ہے کہ دو روز تک زبان گنگ اور قلم میں کچھ لکھنے کی طاقت نہ رہی، کچھ دنوں پہلے برادر عزیز مولانا رفیع کلوری ایڈیٹر ماہنامہ "راہ اعتدال” نے یہ اشارہ دیا تھا کہ کاکا صاحب بیمار چل رہے ہیں، لیکن ذہن اس خبر کو سننے کے لیے تیار نہیں تھا، آج قدرے اطمینان ہوا تو بے اختیار ان کے ذکر میں قلم چلنے لگا۔

جامعہ دار السلام عمر آباد کا ابتدائی نصف صدی کا زمانہ فکر و نظر کی پختگی ،صالح اقدار کا فروغ، مختلف المسالک لائق اساتذہ کی فراہمی، خوشنما دار الاقامہ اور کتب خانہ کی تعمیر اور بانی جامعہ کی حویلی اور اس سے متصل خوبصورت مسجد جس کے بغل میں خاندان کاکا کی ابدی آرام گاہیں ہیں، سے عبارت ہے، اس دور میں اس وادی میں دار المصنفین اعظم گڑھ کے ناظم اور دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے معتمد تعلیم، مشہور صاحب قلم، جانشین شبلی مولانا سید سلیمان ندوی نے نہ صرف یہ کہ وہاں کی بار بار زیارتیں کیں،بلکہ ایک جلسے کی صدارت کرکے اس کا تعارف ماہنامہ معارف کے زریعہ پوری علمی دنیا میں کیا اور ایک فاضل عمری جوہر قابل مولانا یوسف کوکن کو تصنیفی تربیت کے لیے اعظم گڑھ بلایا، جنھوں نے پانچ برس شمالی ہند کی فضا میں گزارے اور جنوب کے ایک قابل قدر مصنف کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔

اس دور میں جامعہ دار السلام عمر آباد کے منتظمین نے وہاں ایسی علمی فضا استوار کی کہ اساتذہ اور طلبہ نے "مصحف” جیسا علمی رسالہ نکالا، متعدد علمی کتابوں کے ترجمے کئے، الغرض جامعہ دار السلام نے دینی تعلیم، اخلاقی تربیت اور تقریر و تحریر کی لیاقت پیدا کرنے کے ایک ایسے مرکز کی حیثیت حاصل کرلی جہاں سے مولانا عبدالواجد عمری رحمانی ،مولانا عبد السبحان عمری ،مولانا سید امین عمری، مولانا سید عبد الکبیر عمری، مولانا جلال الدین انصر عمری، مولانا حفیظ الرحمن عمری، مولانا ثناء اللہ عمری، مولانا ڈاکٹر ضیاء الرحمن عمری، جیسے علم کے آفتاب و ماہتاب پیدا ہوئے –

ستر 70 کی دہائی میں جامعہ نے اپنا پچاس سالہ سفر نہایت کامیابی سے پورا کیا اور اس کی ایک تاریخی یادگار منائی، اس وقت جامعہ کی عنان بانی جامعہ کے پوتوں کے ہاتھوں میں تھی، کاکا محمد عمر ثانی اور ان کے برادر خرد کاکا سعید احمد نے بعد کی نصف صدی کو اپنے حسن انتظام، لگن اور محنت اور دن رات کی فکر کی بدولت ایک مثالی درس گاہ بنادیا،خاکسار 1979 میں جامعہ دار السلام طلب علم کے لیے حاضر ہوا، اس وقت کاکا محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ معتمد عمومی اور کاکا سعید احمد رحمۃ اللہ علیہ ان کے نائب تھے، دونوں بھائیوں کے درمیان بےمثال مودت و محبت اور اعتماد کی عطر بیزی پورے جامعہ کو معطر کیے ہوئے تھی، کاکا محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ کم سخن تھے، لیکن فہم و فراست میں اپنے بزرگوں کے جانشین تھے، انھوں نے اپنے دادا جان کی خرید کردہ کئی ایکڑ زمین جو سڑک کے اس پار تھی، اس کو بسانے کا فیصلہ کر لیا اور ہماری طالب علمی کے زمانے میں ایک نہایت خوبصورت کلیہ کی عمارت تعمیر کی جا رہی تھی، جس کے اولین طالب علم ہونے کا شرف ہم لوگوں کو حاصل ہوا۔

کاکا سعید احمد رحمہ اللہ اپنے بھائی کے ساتھ ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے، اور ہر قدم پر ان کی معاونت کرتے تھے، مجھکو اچھی طرح یاد ہے کہ اسی سال مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ نے دوران علاج وفات پائی، جس کی اطلاع جب جامعہ میں ہوئی تو اسباق روک کر تعزیتی جلسے کا اہتمام کیا گیا اور میں نے پہلی مرتبہ کاکا سعید احمد رحمہ اللہ کی تقریر سنی، ان کے یہ الفاظ میرے کانوں میں اب تک گونج رہے ہیں”مولانا مودودی رحمہ اللہ کی وفات کسی ایک خاندان کا سانحہ نہیں ہے، بلکہ اس حادثے کی وجہ سے ہم سب تعزیت کے مستحق ہیں”

واقعہ یہ ہے کہ کاکا سعید احمد عمری رحمہ اللہ کی وفات پر اس سے بہتر تعزیتی الفاظ نہیں ہوسکتے جو خود انھوں نے علامہ مودودی رحمہ اللہ کے متعلق کہے تھے” آج ہم تمام عمری برادران یتیمی سے دوچار ہوئے ہیں اور ہم سب کے سب تعزیت کے مستحق ہیں ”

کاکا سعید احمد عمری رحمہ اللہ کے متعلق میری زنبیل میں یادوں کا ایک ذخیرہ ہے جس کو پھر کبھی پیش کرنے کی جرات کروں گا،سردست اتنا ہی، اس دعا کے ساتھ مضمون ختم کرتا ہوں بار الہا! تیرا یہ نیک بندہ جس نے اپنی عمر کا ایک ایک پل اپنے بزرگوں کی مقدس امانت جامعہ دار السلام کو سنوارنے، با مقصد بنانے اور ملت اسلامیہ کا علمی مرکز بنانے میں صرف کیا، وہ آج آپ کے دربار میں حاضر ہوا ہے،الہ العالمین تو اپنی ردائے رحمت میں اس کو لپیٹ لے،الہ العالمین، اس مقدس خانوادے نے ایک صدی سے تیرے دین متین کی شمع روشن کر رکھی ہے، تو اس کی لو کو مدھم نہ ہونے دے، اس خانوادہ پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور پشتوں سے جو سلسلہ علم کا، تربیت کا ان کے ذریعہ انجام پا رہا ہے، اس کو قائم و دائم فرما،کاکا خاندان کے جملہ وابستگان، متعلقین ،اعزہ و اقارب بالخصوص کاکا انیس احمد عمری حفظہ اللہ ورعاہ معتمد جامعہ اور ان کے تمام بھائیوں کو صبر جمیل کی دولت سے مالا مال فرما اور ہم فرزندگان جامعہ دار السلام کو اس صدمہ کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرما۔

ہم اس موقع پر وہی کہیں گے جو اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے مصیبت کے وقت کہا ہےوانا بفراقکم لمحزون فلنصبر و لنحتسب ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی

You may also like