Home ستاروں کےدرمیاں مولانا سید جلال الدین عمری: جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں- سہیل انجم

مولانا سید جلال الدین عمری: جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں- سہیل انجم

by قندیل
کرونا کی عالمی وبا نے بہت سے اہل علم و دانش کو ہم سے چھین لیا تھا۔ جن میں جید علمائے کرام بھی تھے اور عصری علوم کے ماہرین بھی۔ ادبی دنیا میں نمایاں مقام پیدا کرنے و الی شخصیات بھی تھیں اور دیگر شعبوں کے ممتاز افراد بھی۔ لیکن کہتے ہیں کہ وقت بہت بڑا مسیحا ہے۔ وہ ہر اس زخم پر جو روح تک کو بھی تڑپا دے، مرہم رکھ دیتا ہے اور انسان غم و الم کے بوجھ سے باہر نکل آتا اور کاروبار زندگی میں مصروف ہو جاتا ہے۔ لوگ اپنے دکھوں کو بھول جاتے ہیں اور سرگرمی ¿ حیات میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
لیکن ملت اسلامیہ ایک بار پھر زخم خوردہ ہو گئی اور ایک بار پھر ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہو گئی ہے۔ یہ نقصان جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا سید جلال الدین عمری کے انتقال پرملال کی وجہ سے ہوا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فلاں صاحب کے انتقال سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو جلد پُر نہیں ہوگا۔ لیکن مولانا عمری کا انتقال حقیقتاً ایک ایسا خلا چھوڑ گیا جس کا جلد پُر ہونا ناممکن ہے۔ یہ بات ہم صرف اس لیے نہیں کہہ رہے کہ مولانا عمری ہندوستان کی ایک کل ہند دینی جماعت ”جماعت اسلامی ہند“ کے سابق امیر اور اس کی شریعہ کونسل کے موجودہ سرپرست تھے۔ بلکہ اس لیے کہہ رہے ہیں وہ علم و فضل کے ایک بلند مقام پر فائز تھے۔
ان کی علمی شخصیت جتنی بلند تھی ان کے اندر اتنی ہی خاکساری و انکساری بھی تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ پھل دار درخت کی شاخیں جھکی ہوتی ہیں تاکہ کوئی بھی ضرورت مند اس سے اپنی ضرورت پوری کر سکے۔ مولانا عمری کی ذات ایسی ہی تھی کہ اس سے کوئی بھی استفادہ کر سکتا تھا۔ وہ صرف جماعت اسلامی کے حلقے ہی میں قابل قدر نہیں مانے جاتے تھے بلکہ دیگر جماعتوں اور تنظیموں میں بھی انھیں اسی طرح قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ دوسرے مکاتب فکر اور ان کی جماعتوں میں بھی اسی طرح مقبول اور پسندیدہ تھے جیسے کے جماعت کی صفوں میں تھے۔
یہی وجہ ہے کہ انھیں دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے پروگراموں میں خطاب کے لیے نہ صرف مدعو کیا جاتا بلکہ ان سے صلاح و مشورہ بھی کیا جاتا۔ ان کے علمی قد اور ان کی قبولیت عام کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر تھے اور تقریباً دو درجن جماعتوں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سرپرست تھے۔ ان کے اندر شرافت و شائستگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ ہمیشہ متحرک بھی رہے اور دین کے کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر دلچسپی لیتے رہے۔ علامہ اقبال کی زبان میں کہیں تو وہ ”نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو“ تھے۔
ان سے میری بارہا ملاقاتیں رہیں لیکن میں نے ان کو کبھی بھی سخت لب و لہجے میں گفتگو کرتے نہیں پایا۔ ان کا خطاب بھی بڑا پراثر اور دلنشیں ہوتا۔ وہ جب خطاب کرتے تو ایسا لگتا کہ علم کا دریا رواں دواں ہے۔ انتہائی شیریں انداز میں دین کی ضروری باتوں سے آگاہ کرتے۔ وہ صرف مسلمانوں میں مقبول نہیں تھے بلکہ غیر مسلموں میں بھی ان کے قدردانوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ دیگر مذاہب کی شخصیات بھی انھیں پسند کرتی تھیں۔ وہ ان کے ساتھ مختلف پروگراموں میں شرکت کرکے جہاں دین اسلام کی روشنی میں انسانی مسائل کے حل کی تجاویز پیش کرتے وہیں دوسرے مذاہب کے پیشواو ¿ں کی باتوں کو بھی بڑے غور سے سنتے۔
اگرچہ وہ پیدائشی طور پر جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو کے ضلع آرکاٹ سے تعلق رکھتے تھے لیکن شمالی ہند اور پھر دار الحکومت دہلی کو انھوں نے اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا تھا۔ جنوبی ہند و شمالی ہند کی الگ الگ تہدیب و ثقافت اور پھر جماعت اسلامی ہند کی تربیت نے ان کی شخصیت میں زبردست رچاو ¿ اور دلکشی پیدا کر دی تھی۔ انھوں نے ہندوستان کے ان دونوں خطوں کی اچھی باتوں کو اپنے کردار میں سمو لیا تھا۔ ان کی بہت خاص بات یہ تھی کہ وہ تعلیمی ذوق و شوق کے حامل تھے۔ ابتدائے عمر سے ہی قلم و قرطاس سے ان کو دلچسپی پیدا ہوگئی اور پھر وہ تازندگی تصنیفی و تالیفی سفر پر گامزن رہے۔
تحقیق و جستجو ان کے مزاج کا حصہ رہا ہے۔ ان کی تصنیفات کی تعداد تقریباً پچاس ہے۔ ان کو قرآنی علوم سے بے انتہا شغف تھا اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تجلیات قرآن کے نام سے ایک انتہائی وقیع تصنیف چھوڑی ہے۔ توحید و رسالت کا موضوع ہو یا عقائد کا یا اسلامی تاریخ و سیرت کا۔ وہ ہر موضوع پر لکھنے اور بولنے کی صلاحیت سے لیس تھے۔ انھوں نے اپنی کتابوں میں انسانی مسائل پر بھی گفتگو کی ہے اور ان مسائل کے اسباب اور ان کے حل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
حالانکہ کسی شخص کا جماعت اسلامی جیسی کل ہند جماعت کا برسوں تک بارِ امارت سنبھالنا اور پھر تصنیف و تالیف کے کاموں میں بھی مشغول رہنا آسان نہیں۔ تنظیمی ذمہ داریاں کسی بھی امیر کو دوسری سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہونے کی اجازت نہیں دیتیں۔ لیکن اس کے باوجود مولانا سید جلال الدین عمری نے لکھنے پڑھنے کے اپنے شوق کو ترک نہیں کیا اور اپنی تصنیفی، تحقیقی اور تالیفی خدمات کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ انھوں نے صرف اسلامی موضوعات پر ہی کتابیں نہیں لکھیں بلکہ عہد حاضر کے ایک بہت بڑے مسئلے انسانی حقوق پر بھی کتاب تصنیف کی۔ دراصل یہ موضوع بھی اسلامی ہی ہے۔ اسلام میں انسانی حقوق کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ انسان تو انسان حیوان کے بھی حقوق کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔ اس موضوع پر بھی مولانا عمری کی نظر تھی اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس کو بھی اپنی تحقیق و تصنیف کا موضوع بنایا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ان کو انسانی حقوق کا موضوع بہت مرغوب تھا۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ ان سے میری بارہا ملاقاتیں رہیں۔ میں نے ریڈیو وائس آف امریکہ کے لیے ان کے کئی انٹرویوز کیے تھے۔ ایک بار کسی خاص موضوع پر ان کا انٹرویو ریڈیو وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے نشر ہوا۔ مولانا نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اس نشر شدہ انٹرویو کو سننا چاہتے ہیں۔ میں نے اس کی ویب سائٹ سے اس کو ریکارڈ کیا اور مولانا کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کو سنایا۔ جس پر انھوں نے اپنی پسندیدگی اور خوشی کا اظہار کیا۔
نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ”انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز“ کی جانب سے ہر سال کسی علمی شخصیت کو شاہ ولی اللہ ایوارڈ تفویض کیا جاتا ہے۔ دہلی میں ایک شاندار پروگرام میں وہ ایوارڈ اور ایک لاکھ روپے کا چیک دیا جاتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ نے 2021 میں مولانا سید جلال الدین عمری کو یہ ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر ایوارڈ یافتہ شخصیت کا ایک قلمی خاکہ بھی پیش کیا جاتا ہے جس میںمقفع مسجع جملوں کے سہارے صاحب اعزاز کا تعارف پیش کیا جاتا اور خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر محمد منظور عالم نے مجھے مولانا کا خاکہ لکھنے کا حکم دیا۔ میں نے ان کا خاکہ لکھا اور جون 2021 میں ہونے والے آن لائن پروگرام میں پیش کیا جسے بہت سراہا گیا۔
ان کے دور امارت میں ابو الفضل انکلیو جامعہ نگر، نئی دہلی میں واقع جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر میں ہر ماہ پریس کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مولانا عمری شروع میں خود اس کانفرنس میں تشریف لاتے اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالوں کے جواب دیتے۔ یہ پریس کانفرنس عام طور پر دن میں بارہ بجے ہوتی ہے تاکہ صحافی حضرات کو ا س کے بعد اپنے دفتر جانے یا صحافتی مصروفیات کے لیے وقت کی تنگی نہ پڑے۔
ایک بار ایسی ہی ایک کانفرنس میں راقم الحروف کو شرکت کرنا ضروری تھا لیکن اس مقررہ پر وقت میری کوئی دوسری مصروفیت بھی تھی۔ میں نے جماعت اسلامی کے صدر دفتر میں جا کر مولانا سے ملاقات کی اور ان سے عرض کیا کہ چونکہ مجھے کہیں اور بھی جانا ہے اس لیے اگر آپ آج کے موضوعات سے متعلق میرے کچھ سوالوں کے جواب دے دیں تو عنایت ہوگی۔ انھوں نے دوپہر میں پریس کانفرنس میں سوالوں کے جواب دینے کی بات کہی۔ لیکن جب میں نے دوبارہ درخواست کی تو وہ آمادہ ہو گئے۔ ان کی پیشانی پر شکن نہیں تھی اور انھوں نے اپنی مصروفیت کے درمیان مجھے انٹرویو دیا۔
ایسی خوبیوں کے مالک مولانا سید جلال الدین عمری آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ وہ وہاں چلے گئے جہاں سب کو جانا ہے اور جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ ان کی کمی ہمیں ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔ کاش ہمیں ان کا نعم البدل مل سکے۔

You may also like

Leave a Comment