ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا رونا رونے والے دانشوروں کی کمی نہیں،مگر ایسے باہمت مردانِ کار انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں،جو سینہ کوبی کی بجاے عملی جدوجہد میں یقین رکھتے اور قوم کو تعلیمی ترقیات سے ہم کنار کرنے میں اپنی زندگیاں کھپا دیتے ہیں۔ بلا شبہ مولانا غلام محمد وستانوی انھی چیدہ و چنیدہ شخصیات میں تھے۔مولانا کو ایک اور خاصیت ایسے دوسرے خادمینِ قوم سے یوں ممتاز کرتی تھی کہ وہ خود خالص دینی و مذہبی تعلیمی پس منظر رکھنے کے باوجود قوم کی ہمہ جہت ترقی کا خواب دیکھتے رہے اور اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کی بھی بھرپور کاوشیں کیں؛چنانچہ جہاں انھوں نے مہاراشٹر کے دوردراز خطے اکل کوا،نندوربار میں 1979 میں ایک عظیم الشان دینی تعلیمی مرکز قائم کیا،جہاں درسِ نظامی کے مطابق فضیلت تک کی تعلیم کے علاوہ تخصصات کے مختلف شعبے قائم ہیں،وہیں انجینئرنگ، میڈیکل، فارمیسی، لا، ٹیچرٹریننگ،انڈسٹریل ٹریننگ وغیرہ کے ادارے قائم کرکے مسلم نوجوانوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ علوم اور اسکلز سے لیس کرنے کی مہم بھی انھوں نے چلائی اور اپنی اس نیک اور انقلابی مہم میں نہایت کامیاب بھی رہے ۔ کئی کلو میٹر میں پھیلے جامعہ اشاعت العلوم اور اس سے ملحق دیگر اداروں کی عمارتوں،ان کے کیمپسز،وہاں کے ماحول کی شفافیت،نظم و نسق وغیرہ دیکھ کر زائرین عش عش کرتے ہیں اور بہت سی خوشگوار حیرانیاں سمیٹ کر اس دیار سے لوٹتے ہیں۔
رفاہی شعبوں میں بھی ان کی خدمات نہایت تابناک ہیں،قومی و ملی بحرانوں کے موقعوں پر انھوں نے بلا تفریق متاثرین کی مدد کی اور ان کے درد کا مداوا کرنے کی بھرپور کوششیں کیں ۔دینی اداروں اور مدارس کو بھی ان کے ہاں سے صرف تصدیق نامے نہیں جاری کیے جاتے تھے؛بلکہ بہت سے اداروں کے لیے سالانہ ایک متعینہ امدادی رقم بھی جاری کی جاتی تھی۔
مولانا وستانوی کی خدمت کا ایک نہایت روشن پہلو قرآنی مسابقوں کانہایت خوب صورت سلسلہ بھی ہے،جس کی بدولت انھوں نے ہندوستان میں قرآن فہمی اور قرآن کو تجوید کی رعایت کے ساتھ پڑھنے کی عمومی فضا قائم کی،یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری ہے ؛بلکہ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے بہت سے ادارے اور افراد بھی اس قسم کے مسابقوں کا اہتمام کرنے لگے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے منصبِ اہتمام پر فائز کیے جانے کے بعد ان کے خلاف برکا کیے گئے ہنگامے کے دوران ان کی شخصیت اور کیرکٹر کا ایک روشن پہلو یہ سامنے آیا کہ انھوں نےتمام تر وسائل ہم دست ہونے کے باوجود مخالف فریقوں کو زیر کرنے کے لیے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا،جس سے دارالعلوم جیسے عالمی ادارے کی توقیر کو نقصان پہنچے؛بلکہ اس سب کے بعد بھی دارالعلوم سے بحیثیت رکن شوریٰ وابستہ رہے اور اس کی تعمیر و ترقی میں حسبِ معمول حصہ لیتے رہے۔
ہمیشہ خنداں و فرحاں اور سادہ و بے تکلف نظر آنے والے مولانا وستانوی چھوٹی بڑی مجلسوں میں گفتگو بھی بڑی سادہ اور زوداثر کرتے تھے، ان کی آواز میں گھن گرج،چرب زبانی اور ہنگامہ آرائی کی کیفیت نہ ہوتی تھی،ٹھہر ٹھہر کر،نہایت سنجیدہ انداز میں گفتگو کرتے اور قوم و ملت کے تئیں اپنے دل کا درد سامعین و مخاطین میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے۔ الغرض مولانا وستانوی کی شخصیت متنوع الجہات،قابلِ قدر،پرکشش اور ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی،رفاہی و سماجی خدمت کے حوالے سے غیر معمولی امتیاز و انفراد کی حامل تھی۔اللہ پاک ان کی مغفرتِ کاملہ فرمائے اور ان کی چھیڑی گئی تعلیمی تحریک یوں ہی جاری و ساری رہے۔