آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد11نومبر1888کو مقدس سرزمین مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے۔کسی زمانے میں ان کا یوم پیدائش بڑے تزک احتشام سے منایا جاتا تھا، لیکن آج محض چندلوگ ہی شاہجہانی جامع مسجد کے پہلو میں واقع ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ یہ وہی جامع مسجد ہے جس کے منبر سے انھوں تقسیم کے زمانے میں پاکستان جاتے ہوئے مسلمانوں کے قافلوں کو پکارا تھا اور انھیں فرار کی زندگی سے باز رہنے کے لیے کہا تھا، لیکن جن کو جانا تھا، انھوں نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا اور جنھیں یہاں رہنا تھا، وہ آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ مولانا آزاد تاریخ کی ایک مظلوم شخصیت ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ان کی اس مظلومیت کو مرحوم شورش کاشمیری نے ان کے ایک خاکہ میں بڑے معنی خیز الفاظ میں بیان کیا ہے۔ وہ اس خاکہ کا اختتام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ہندوستانی مسلمانوں کی دوعظیم ہستیوں میں ایک اقبال تھا، جو بصر عقیدت کی بھینٹ چڑھ گیا، دوسرا ابوالکلام تھا، جو حصول آزادی کے آخری ایام میں مسلمانوں کی غضب ناک نفرت کا شکار رہا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی ہر زبان میں اس کو گالی دی۔ وہ اردو زبان کا سب سے بڑا ادیب، سب سے بڑا خطیب اور سب سے بڑاسیاست داں تھا، لیکن ڈاکٹر ذاکر حسین کے الفاظ میں ’اردو زبان کی ایسی کوئی گالی نہ تھی، جو مسلمانوں نے اپنے اس سب سے بڑے محسن کو نہ دی ہو۔‘ وہ گالیاں کھاتا رہا اور دعائیں دیتا رہا۔“ (ابوالکلام آزاد:سوانح وافکار‘صفحہ 38اور39)
مولانا آزاد نے ملک کی آزادی اور جدید ہندوستان کی تعمیر وتشکیل میں جو کردار ادا کیا ہے، اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔وہ ایک بے مثال مقرر، خطیب، مفسر قرآن، ادیب اور صحافی ہی نہیں تھے بلکہ ان کی بصیرت اور بصارت بھی بے مثال تھی۔ افسوس ان کے انتقال کے اتنے برسوں بعد بھی بعض حلقوں کی جانب سے ان پر طعن وتشنیع کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم یہاں ان کی زندگی کے ایک ایسے پہلو پر گفتگو کریں گے، جوآج تک لوگوں کی نگا ہ سے اوجھل ہے۔ وہ ہے جدوجہد آزادی کے زمانے میں ان کی مالی مشکلات اور تنگ دستی کا دور ، جس پر ان کے ایک رفیق کار نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس پہلو کو اجاگر کرنے والی شخصیت کا نام ہے، منشی عبدالقیوم خاں خطاط۔ منشی عبدالقیوم خاں ملک کے ایک نامور خطاط تھے اور مولانا آزاد کو ان کا خط اتنا پسند تھا کہ وہ اپنا ہرکام ان ہی سے کروانا چاہتے تھے۔میرے وطن مرادآباد کے رہنے والے منشی عبدالقیوم خاں نے مولانا آزاد کی پہلی تصنیف’تذکرہ‘، غبارخاطر‘، اور ترجمان القرآن (جلددوم) کی کتابت کا فریضہ انجام دیا۔
جس زمانے مولانا آزاد کلکتہ میں ترجمان القرآن(جلددوم) تحریر فرمارہے تھے تو انھوں نے منشی عبدالقیوم خاں کو کلکتہ بلالیا تھا اور انھوں نے تقریباً ڈیڑھ برس کلکتہ میں مولانا آزاد کے ساتھ قیام کرکے یہ ذمہ داری پوری کی۔اس دوران انھوں نے مولانا آزادکی جن مالی مشکلات کا مشاہدہ کیا، اس کا تذکرہ انھوں نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح کیا ہے:
”زمانہ قیام میں یہ حقیقت روشن ہوئی کہ حصول وحریت وآزادی کے لیے مولانا جس دشت پرخار کو طے فرمارہے ہیں، اس میں ایک ایسی تنگ وتاریک اور طویل وادی بھی پیش آگئی ہے، جس کو قرضوں کے سنگ ہائے گراں نے دشوار بنارکھا ہے۔ باوجود ان تمام مشکلات اور موانع کے مولانا بڑی تدبری اور جرات اور غیر متزلزل استقلال کے ساتھ قدم بڑھارہے تھے۔ان دنوں جس کوٹھی میں مولانا قیام فرمارہے تھے، اس کا کرایہ دوسو روپے ماہوار تھا۔ بالائی منزل میں خودمولانارہتے تھے اور زیریں منزل ساٹھ روپے ماہوار پر کرائے پر دے رکھی تھی۔ اس سے جو کرایہ ماہوار وصول ہوتا تھا، وہ ذاتی ضرورتوں میں کام آجاتا تھااور کوٹھی کا کرایہ ادا نہیں ہورہا تھا، کیونکہ اس زمانے میں آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود نہیں تھااور قرض کا بار مزید برآں۔ غرض بڑی عسرت کا دور تھا۔“
(’الجمعیۃ‘ دہلی بیادگار آزادنمبر،4دسمبر 1958)
یہ بات بھی بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مولانا آزاد نے ’غبارخاطر‘ جیسی شہرہ آفاق تصنیف اس قرض کو اتارنے کے لیے شائع کرائی تھی جو ان پرقلعہ احمد نگر کی نظر بندی کے دوران ہوگیا تھا۔اس بات کا انکشاف منشی عبدالقیوم خاں نے اپنے ایک دیگر مضمون میں کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
”احمدنگر کی نظربندی کے زمانے میں جو قرض ہوتا رہا تھا، اس کی ادائیگی اس طرح عمل میں آئی کہ رہا ہونے پر شملہ تشریف لاتے ہی مجھے تار دے کر طلب فرمایا اور’غبار خاطر‘کے دو خط دے کرکتابت کا حکم دیا۔باقی خطوط بعد میں دوران قیام کشمیر سے آتے رہے اور کتابت ہوتی رہی۔طبع ہونے پر چھ ہزار نسخے حالی پبلشنگ ہاؤس دہلی کو دے کرقرض کی ادائیگی کا انتظام کیا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن لاہور سے شائع ہوا۔“
منشی عبدالقیوم خاں کی زندگی کا بیشتر حصہ بجنور‘دہلی اور کلکتہ میں گزرا‘ جہاں وہ اخبار ’مدینہ‘ (بجنور) ’ماہنامہ ’برہان‘(دہلی) اور ’ترجمان القرآن‘ (اشاعت کلکتہ) سے وابستہ رہے۔وہ بنیادی طور پر نام و نمود سے دور رہنے والے ایک گوشہ نشین انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر لوگ ان کے نام اور کام سے واقف نہیں ۔حالانکہ اب تک ’مکتوبات آزاد‘ کے جتنے بھی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں‘ان میں منشی عبدالقیوم خاں کے نام مولانا آزاد کے 14خطوط شامل ہیں اور ’مکتوبات آزاد‘کے ان مجموعوں میں منشی عبدالقیوم خاں کا تذکرہ بھی موجود ہے لیکن کسی نے ان کی شخصیت پر تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی۔ برسوں پہلے ان پر کچھ لکھنے کے لیے ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری نے مجھے متوجہ کیا تھا۔
منشی عبدالقیوم خاں کی اہمیت محض اس لیے نہیں ہے کہ انھوں نے مو لانا آزاد کے ساتھ ڈیڑھ برس کلکتہ میں قیام کرکے’ترجمان القرآن‘ جلد ثانی، غبار خاطراور ’ترجمان القرآن‘ جلد اول طبع ثانی کی کتابت اور تصحیح کا کام انجام دیا بلکہ انھوں نے مرادآباد میں اپنے دو قریبی عزیزوں کی مدد سے’ترجمان القرآن‘ کی پہلی جلد اوردوسری جلد کے دوسرے ایڈیشن کی طباعت کے لیے مالی مدد بھی مہیا کرائی۔ اس طرح منشی عبدالقیوم خاں مولانا آزاد کے محض کاتب ہی نہیں تھے بلکہ ان کے مخلص و مددگاربھی تھے۔ منشی عبدالقیوم خاں کے فرزند مولانا محمد عبدالملک جامعی (متوفی1991مدینہ منورہ) نے اپنے مضمون ’ترجمان القرآن کے کاتب منشی عبدالقیوم مرادآبادی‘ میں لکھا ہے کہ:
”مولانا نے جب دوسری جلد کی طباعت کا ارادہ کیاتو ابا کو کلکتہ ہی بلالیا۔ اس طرح تقر یبا ڈیڑھ سال کے لیے ابا جان مولانا کے گھر کے ایک رکن بن گئے۔ یہ دوسری جلد تھی، اس کے بعد پہلی، دوسری دونوں جلدیں ابا نے اپنے قلم سے لکھیں۔ اسی شان کے ساتھ جس کی مولانا کو توقع دلائی تھی۔ اس موقع پر اس بات کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ’ترجمان القرآن‘ کی پہلی جلداور پھر دوسرے کے دوسرے ایڈیشن، ان تینوں میں ابا کی مالی امداد کو بڑا دخل ہے۔ پہلی تو شاید چھپ ہی نہیں سکتی تھی، اگر ابا ہمت نہ فرماتے۔ مسودہ مدت سے بے سود پڑا تھا۔مولانا کے پاس روپیہ نہیں تھاکہ اس کو زیور طبع سے آراستہ فرمائیں۔ پہلی بار ابا نے میرے ہم زلف محمد عمر خاں سے قرضہ لیا۔ دوسری بار ایک عزیزہ سے دس ہزار کی رقم لی۔ اس طرح وہ’ترجمان القرآن‘اور مولانا آزاد کے صرف کاتب نہیں ہیں، اس کے علاوہ بھی کچھ ہیں۔“
(روزنامہ’قومی آواز‘نئی دہلی’ مورخہ8 دسمبر 1982)
منشی عبدالقیوم خاں نے 88برس کی عمر میں 18/نومبر1974کو بوقت تہجد مرادآباد میں وفات پائی اور عیدگاہ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔