ممتازمجاہد آزادی،آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور نابغۂ روزگار مفکر،عالم دین،دانشور و ادیب مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور افکار پر اردو سمیت مختلف زبانوں میں سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور وقفے وقفےسے اب بھی ان پراہل علم و دانش لکھ رہے ہیں۔اِس سال کے اوائل میں معروف مؤرخ سید عرفان حبیب کی انگریزی میں ایک کتاب’ابوالکلام آزاد:اے لائف‘ آئی تھی جس میں کئی خامیاں بھی ہیں،مگر من حیث المجموع انگریزی خواں طبقے کو نئے زمانے میں مولانا کی سوانحی معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے قابل ذکر ہے۔ جولائی ۲۰۲۳میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے ایک کتاب’استعماریت اور فرقہ وارانہ سیاست کی مزاحمت:مولانا آزاد اور ہندوستانی قوم کی تعمیر‘ کے نام سے شائع کی ہے۔یہ کتاب اصلاً انگریزی زبان میں ہے،جس کا نام Resisting Colonialism & Communal Politics: Maulana Azad & the Making of the Indian Nation ہے اور اس کی کی اولین اشاعت منوہر پبلی کیشنز دہلی کے زیر اہتمام ۲۰۱۱ءمیں عمل میں آئی تھی،۲۰۱۲ ء میں اس کا پیپر بیک ایڈیشن آیا تھا۔اس کے مصنف رضوان قیصر مرحوم ہیں،جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ تاریخ میں پروفیسر تھے،مئی ۲۰۲۱ء میں کورونا وبا میں ان کا انتقال ہوگیا ،اللہ پاک مغفرت فرمائے۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صہیب عالم نے’أبو الکلام آزاد و تشکل الأمۃ الہندیۃ في مناھضۃ الاستعمار والسیاسات الطائفیۃ‘ کے نام سے کیا،جو ۲۰۱۳ء میں مؤسسۃ الفکر العربی بیروت سے شائع ہوا ہے۔زیر نظر اردو ترجمہ معروف مترجم ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے کیا ہے۔
یہ کتاب مروجہ معنوں میں مولانا کی سوانح حیات نہیں ہے؛بلکہ اس میں مولانا کے سیاسی افکار کی تشکیل، آزادی کی تحریک میں ان کے کنٹری بیوشن، کانگریس کی صدارت اور اس کی پالیسیوں،اقدامات میں ان کی حصے داری،تقسیم ہند کے تعلق سے ان کے نظریے ، تقسیم کو ٹالنے کی ان کی عملی کوششوں اور اس ضمن میں کانگریس کے مختلف لیڈران خصوصا گاندھی جی سے ان کے اختلافات اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب بنیادی طورپر دود یباچوں،اظہار تشکر،چھ ابواب،اختتامیہ اور کتابیات پر مشتمل ہے۔دیباچے میں مصنف نے مولانا پر دستیاب لٹریچر کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے ان کی سیاسی فکر کے ارتقا کے حوالے سے مختلف پہلووں کی طرف اشارے کیے ہیں۔کتاب کا پہلا باب ہے’تاریخی پس منظر:آزاد مستحکم نظریاتی اور سیاسی بنیادوں کی تلاش میں(۱۹۰۶-۱۹۱۸)‘اس باب میں انھوں نےعابد حسین،محمد مجیب،ایان ہنڈرسن ڈگلس،وی این دتا،پی این چوپڑا، اعجاز احمد،فاروق قریشی، سیدہ سیدین حمید وغیرہ جیسے دانشوران اور مصنفین کے اقوال و آرا کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا کے نیشنلسٹ سیاسی رجحانات کے آغاز کا سراغ لگایا ہے اور خود الہلال وغیرہ کی تحریروں کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مولانا جن دنوں پان اسلامزم یا جامعۂ اسلامیہ کی دعوت دے رہے تھے،ان دنوں بھی وہ مشترکہ قومی جدوجہد میں ہی یقین رکھتے تھے اور اس دوران بھی انھوں نے جب جب ہندوستان کی جدوجہد آزادی پر لکھا یا اظہار خیال کیا،تو انھوں نے ہندوستان کے تمام شہریوں کے اشتراک و اتحاد پر زور دیا۔اسی باب میں ۱۹۰۲ء سے ۱۹۱۰ء تک کے عرصے میں مولانا کی مذہب سے دوری،غور و فکر اور بازواپسی کی روداد بھی بیان کی گئی ہے، اسی دوران بنگال کے انقلاب پسندوں سے وابستگی اور شیام سندر چکرورتی سے رابطہ، ۱۹۱۲ء میں الہلال کی شروعات اور اس کے پلیٹ فارم سے قومی جدوجہد میں باضابطہ داخلہ،حکومتی عتاب ،الہلال کی بندش اور رانچی کے مورا باڑی میں مولانا کی نظربندی پر اس باب کا اختتام ہوتا ہے۔
کتاب کے دوسرے باب کا عنوان ہے’پان اسلامزم اور ہندوستانی قوم پرستی کے درمیان ہم آہنگی کی کوششیں(۱۹۱۹-۱۹۲۲)‘اس کا آغاز مصنف نے مولانا کی رانچی میں نظربندی کے دنوں کی مصروفیتوں کی تفصیلات سے کیا ہے،کہ مولانا نے وہیں اپنی مشہور کتاب’تذکرہ‘ لکھنا شروع کی،لوگوں سے ربط و ارتباط بڑھا یا اور ان کی سماجی و اخلاقی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے،انجمن اسلامیہ قائم کیا اور اس کے تحت ایک مدرسہ بھی شروع کیا گیا،قرآن کریم کا خصوصی مطالعہ بھی انھی دنوں مولانا نے شروع کیا،جس کے نتیجے میں ان کا معرکۃ الآرا ترجمہ و تفسیر قرآن ’ ترجمان القرآن‘ منظر عام پر آئی۔رانچی میں مولانا کی سرگرمیوں پر جمشید قمر(مولانا آزاد کا قیامِ رانچی:احوال و آثار) اور پروفیسر منظر حسین(مولانا آزاد کی علمی و دینی خدمات قیام رانچی کے حوالے سے) کی کتابیں تفصیلی روشنی ڈالتی ہیں۔مصنف نے اس باب میں بتایا ہے کہ نظربندی کے دنوں میں بھی مولانا ملکی سیاست سے بے خبر نہ تھے،علامہ سید سلیمان ندوی اور مولانا محمد علی قصوری وغیرہ مختلف الخیال شخصیات سے سیاسی، علمی و فکری معاملات پر ان کی مراسلت جاری تھی۔دسمبر ۱۹۱۹ءکے اواخر میں مولانا کی رہائی عمل میں آئی، ۲یا ۳؍جنوری تک وہ رانچی میں ہی رہے،۱۸؍جنوری ۱۹۲۰ءکو مولاناکی گاندھی جی سے پہلی ملاقات ہوئی۔باہر آئے تو ملکی سیاست کا احوال بدلا ہوا تھا،تحریک خلافت کاڈول اکتوبر ۱۹۱۹ءمیں ہی ڈالا جاچکا تھا،مختلف سطحوں پر قائدین اس حوالے سے سرگرم تھے،اس کے ساتھ ہی ترکِ موالات کی تحریک بھی شروع کی گئی،مولانا باہر آنے کے بعد ان تحریکوں میں شامل ہوگئے ۔مصنف نے قدرے تفصیل سے تحریک خلافت و ترک موالات کی مختلف جہتوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔یہ دونوں تحریکیں اصلی ہدف کے حصول کے اعتبار سے ناکام رہیں،گورکھپور کے چوراچوری میں تشدد کا ایک واقعہ رونما ہوا،جس کے بعد گاندھی نے دوسرے رہنماؤں سے مشورہ کیے بغیر تحریک کی واپسی کا اعلان کردیا،جس سے بہت سے مسلمان بد دل ہوگئے،جمعیت علماے ہند اور خلافت کمیٹی نے اپنے جلسوں میں گاندھی کے اقدام پر سخت تنقیدیں کیں۔(ص :۸۷) مولانا آزاد نے بھی بعد میں تحریک کی واپسی کو فاش غلطی قرار دیا۔(ص:۱۱۰)جب گاندھی جی نے تحریک واپس لی تھی،اس وقت تحریک کے دیگر بہت سے رہنماؤں کے ساتھ مولانا آزاد بھی جیل میں تھے، ان کے مقدمے کی سماعت چل رہی تھی،اسی موقعے سے انھوں نے اپنا تحریری بیان لکھا تھا،جو ’قولِ فیصل‘ کے نام سے مشہور و متداول ہے اور مولانا کی بے خوفی و بے باکی،اپنے نصب العین کے تئیں غیر متزلزل وابستگی اور فکر و نظر کے استحکام پر دلالت کرتا ہے۔تحریک خلافت و ترکِ موالات کے دوران ملک کے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان غیر معمولی اتحاد و اتفاق دیکھا گیا تھا،مگر اس کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ اتحاد بھی جاتا رہا۔مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
’’ تحریک کی واپسی سے ہندووں اور مسلمانوں کے اتحاد کی عمارت میں دراڑ سی پڑگئی جو دورانِ تحریک بڑی جانفشانی سے کھڑی کی گئی تھی۔تاہم جو چیز واضح شکل میں دیکھی جاسکتی تھی، وہ خود مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والی تفریق تھی جب تحریک سے مایوسی کی وجہ سے بعض افراد نے فرقہ وارانہ سیاست کا رخ کیا،جبکہ دوسرے اتحاد کی سیاست پر مبنی قوم پرستی کے ہی وفادار رہے،آزاد نے مؤخرالذکر راستہ اختیار کیا‘‘۔(ص:۸۷)
یہ حقیقت ہے کہ اس کے بعد ہندوستانی سیاست کا رخ بڑی تیزی سے بدلا اور جہاں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والا اتحاد جاتا رہا،وہیں خودمسلمان مجموعی طورپر دو دھڑوں میں بٹ گئے۔مسلمانوں کی سطح پر تحریک خلافت کا یہ پہلو بڑا دلچسپ ہے کہ بہت سے وہ لوگ ،جو اس سے قبل لبرل طرزِ سیاست کے حامی اور اس کے پیروکاروں میں تھے،انھوں نے اس کے بعدعوامی سطح پر فرقہ وارانہ سیاست کا دامن تھام لیا،جبکہ ان لوگوں کی اکثریت مشترکہ قومی سیاست اور نظریے کی حامی رہی،جنھوں نے اس تحریک میں شمولیت یا اس کی قیادت خالص مسلم مسئلے کی حیثیت سے کی تھی۔تحریکِ خلافت کی موزونیت یا ناموزونیت اور اس کے حاصلات و نتائج پر بہت سے لوگوں نے لکھا ہے،مصنف نے ان سے استفادہ بھی کیا ہے،مگر اردو میں ایک اہم کتاب قاضی عدیل عباسی کی ہے’تحریک خلافت‘(ط:ترقی اردو بورڈ د/قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ہلی ۱۹۷۸ء) کے نام سے۔ قاضی عدیل عباسی خود بھی بڑے سرگرم مجاہد آزادی رہے،تحریکِ خلافت کے دنوں میں وہ مشہوراخبار’ زمیندار‘ کے ادارۂ تحریر میں تھے،انھوں نے واقعات و مشاہدات کی روشنی میں زیادہ مبسوط ، بے لاگ، مفصل اور جامع انداز میں اس تحریک کا جائزہ لیا ہے۔
کتاب کے تیسرے باب کا عنوان ہے’یکجہتی کی سیاست:آزاد اور انڈین نیشنل کانگریس ۱۹۲۳-۱۹۳۴‘،اس باب میں مصنف نے تحریک خلافت کے بعد کے دس سالوں کے دوران سیاسی حالات ،ہنگاموں اور قومی سطح کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ پیش کیا ہے،جس میں شدھی تحریک،موپلا بغاوت، مولانا آزاد کو کانگریس کی صدارت کی تفویض اور کانگریس کے دو دھڑوں میں مفاہمت قائم کروانے کی ان کی کوششوں،تحریک خلافت کے تئیں ان کی رائے میں تبدیلی،فرقہ وارانہ ہنگاموں کے حل کے تئیں ان کے عملی اقدامات اور نظریہ،نہرورپورٹ کا ظہور اور اس کے تئیں مسلمانوں کے شکوک و شبہات،ان کے چودہ نکاتی مطالبات،مختلف سیاسی جماعتوں اور گروپوں کا ظہور، ان کے نظریات اور طرزِ فکر و عمل،گول میز کانفرنس،کمیونل اوارڈ اور سائمن کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ کی کانگریس اور مسلم لیگ کے ذریعے ابتداء اً مخالفت ،پھر تائید کی روداد بیان کی گئی ہے۔مصنف نے بڑی گہرائی سے ان واقعات کا مطالعہ کیا ،ان کی مختلف کڑیوں کو ملایا ہے اور ان میں مولانا آزاد کے کردار پر خصوصی روشنی ڈالی ہے۔
چوتھا باب’اشتراکِ اقتدار کا تصور اور تہذیبی شناخت ‘ کے عنوان سے ہے،جس میں ۱۹۳۵ءسے ۱۹۴۰ ء تک کے دورانیے کا تجزیہ کیا گیا ہے۔یہ دور ہندوستانی سیاست کے لیے تو اہم تھا ہی،ساتھ ہی مولانا آزاد کے لیے بھی بڑی آزمایش کا دور تھا،کہ اس زمانے میں سیاسی حالات خالص فرقہ وارانہ خطوط پر پلٹا کھا رہے تھے،ہر دن گویا ایک نئی آندھی آتی تھی،جس میں فکر و دانش کے بڑے بڑے پیڑ اکھڑ کر اِدھر یا اُدھر گر رہے تھے، فہم و فکر کا توازن قائم رکھنا اچھے اچھوں کے لیے مشکل ہورہا تھا۔مصنف نے اس باب میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ،۱۹۳۶-۳۷کے عام انتخابات ،ان کے نتائج اور مختلف ریاستوں میں حکومتوں کے قیام میں مولانا آزاد کے رول ،یوپی میں مسلم لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے سلسلے میں مولانا آزاد کا موقف اور دیگر کانگریسی لیڈران کا عمل،مسلمانوں کی حکومت میں حصے داری کے تئیں مولانا آزاد کی کوششیں،مسلمانوں کی بے اطمینانی کو دور کرنے کے لیے کانگریس کی عوامی رابطہ مہم، اردو ہندی تنازعات اور اس پر مولانا آزاد کا نقطۂ نظر،مختلف کانگریسی ریاستوں کے سماجی،سیاسی و ثقافتی حالات ،لیگی الزامات اور ان کی حقیقت اور فرقہ وارانہ مسائل کو حل کرنے پر مولانا آزاد کی خصوصی توجہات اور ۱۹۴۰ ء میں مولانا کے کانگریس کا صدر منتخب ہونے تک کا احاطہ کیا ہے۔اس باب کے مطالعے سے ہمیں ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۰ ءکے دوران ہندوستان میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ مسائل،ان کے تئیں کانگریس اور مسلم لیگ کے مجموعی رویے اور مولانا آزاد کے خصوصی رویے،طرزِفکر اور عملی اقدامات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
پانچویں باب میں ’متحدہ اور وفاقی ہندوستان کی طرف‘ کے عنوان سے ۱۹۴۰ ءسے ۱۹۴۷ ءیعنی آزادی و تقسیم ہند تک کے سیاسی احوال کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس باب کی شروعات مصنف نے کانگریس کے رام گڑھ سیشن اور اس میں مولانا کے تاریخی صدارتی خطبے کے مختلف نکات و اجزا پر گفتگو سے کی ہے اور خصوصاً اس عرصے میں بدتر ہوتے فرقہ وارانہ حالات کا جائزہ لیا ہے۔اس میں دوسری جنگ عظیم کے تئیں کانگریس کے موقف اور اس پر مختلف رہنماؤں میں اختلاف پر بھی بحث کی گئی ہے۔اسی طرح عدم تشدد کے مسئلے پر مولانا آزاد کا گاندھی سے اختلاف اور اس مسئلے پر کانگریس پارٹی میں اندرونی خلفشار،عارضی حکومت میں شمولیت کے مسئلے پر مسلم لیگ اور جناح سے ان کی مکاتبت اور جناح کا ہتک آمیز رویہ،اپریل ۱۹۴۰ ءمیں دہلی میں تقسیم ہند کی مخالفت کے مقصد سے متحدہ ہندوستان کی درجنوں غیر کانگریسی نیشنلسٹ سیاسی جماعتوں کی’آزاد مسلم کانفرنس‘ جس میں ایک لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی،اس کی صدارت اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ اللہ بخش سومرو نے کی تھی ۔اس میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ سماجی جماعتوں،تنظیموں اور بہت سی مذہبی شخصیات نے بھی شرکت کی اور اظہار خیال کیا تھا۔تقسیم ہند کے خلاف قرار داد ہندوستان کی نہایت موقر مذہبی شخصیت اور مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی نے پیش کی تھی ،جس میں انھوں نے فرمایا تھا’’ہندوستان کی جغرافیائی و سیاسی حدود ایک انفرادی شکل کی حامل ہیں اور اس اعتبار سے یہ نسل و مذہب سے قطع نظر تمام شہریوں کی مشترک ارضِ وطن ہے، وہ اس کے وسائل کے مشترک مالک ہیں‘‘۔مجلس احرار کے سربراہ مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ کوئی بھی باہوش شخص تقسیم کی اسکیم کو قبول نہیں کر سکتا۔مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے کہا تھا کہ تقسیم کا خیال ہر اعتبار سے آزادی کے بنیادی تصور کے خلاف ہے۔مصنف نے ان حضرات کے بیانات ۲۸اور ۲۹ اپریل ۱۹۴۰ ءکے روزنامہ’ہندوستان ٹائمس‘ کے حوالے سے نقل کیے ہیں۔اس کانفرنس میں مولانا آزاد بحیثیت خطیب مدعو تھے،مگر وہ کسی وجہ سے شریک نہ ہوسکے،انھوں نے اپنا تحریری پیغام بھجوایا،جو مجمع کو پڑھ کر سنایا گیا۔ مصنف نے مذکورہ اخبار کے حوالے سے ہی نقل کیا ہے کہ اسی دن مسلم لیگ نے بھی جامع مسجد دہلی کے اطراف میں ایک جلسہ تقسیم ہند کی حمایت میں برپا کیا،جس میں لیاقت علی خاں وغیرہ نے تقریریں کیں،اس کے شرکا و سامعین کی تعداد بہ مشکل پانچ سو تھی۔(ص:۲۵۲-۲۵۸،۳۰۶-۳۰۸)اس کانفرنس نے صرف تقسیم ہند کی مخالفت ہی نہ کی تھی؛بلکہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کے تعلق سے بھی اپنا موقف اور خاکہ پوری وضاحت کے ساتھ پیش کردیا تھا۔
ظاہرہے کہ یہ کانفرنس سیاسی اعتبار سے مسلم لیگ پر بھاڑی پڑی ہوگی؛چنانچہ اس کے فوراً بعد لیگ کے اہم لیڈر چودھری خلیق الزماں نے بیان جاری کرکے آزاد مسلم کانفرنس کے رہنماؤں پر تنقید کی،جس کا تحریری جواب حافظ ابراہیم نے دیا۔اُدھر ۱۹۴۳ ءمیں اس کانفرنس کی صدار ت کرنے والے اللہ بخش سومرو کو سندھ میں قتل کردیا گیا،جس کی سازش رچنے والوں میں وہاں کے معروف لیگی رہنما اوراُن دنوں سندھ حکومت کے وزیر خان بہادر محمد ایوب کہرو کا نام آیا۔اس کانفرنس کے انعقاد،اس کی ہیئت و پیغام ،اس کے اثرات ،اس کی سیاسی اہمیت اور اس میں اللہ بخش سومرو کے خصوصی کردار پر سیر حاصل گفتگو معروف دانشور و مصنف شمس الاسلام نے Muslims Against Partition of India میں کی ہے۔ یہ کتاب ۲۰۱۷ ءمیں فاروس میڈیا دہلی سے شائع ہوئی ہے، اس کا اردو ترجمہ بھی اسی ادارے سے ۲۰۲۰ ءمیں شائع ہوا ہے۔یہ کتاب تقسیم ہند کی مخالفت کے سلسلے میں غیر کانگریسی مسلمانوں کی جدوجہد پر نہایت اہم معلومات پیش کرتی ہے۔
اس باب میں مصنف نے جنگ عظیم دوم کے مسئلے پر برطانوی حکومت کی ’اگست پیش کش‘ اور اس پر کانگریس و مسلم لیگ کے موقف،ہندوستان کی کامل آزادی کے مسئلے پر گاندھی اور کانگریس کی ستیہ گرہ مہم،مولانا آزاد کی ستمبر ۱۹۴۰ ءمیں گرفتاری اوردسمبر ۱۹۴۱ ءمیں رہائی،تشدد اور عدم تشدد کے مسئلے پر پھر ان کا گاندھی سے اختلاف اور اس کے نتیجے میں بعض کانگریسی قائدین کا ان سے کھنچاؤ،کرپس مشن کی آمد اور مذاکرات،۱۹۴۲ ءمیں ہندوستان چھوڑو تحریک اور اس کے تئیں مولانا کا موقف،مولانا کی گرفتاری اور ۱۹۴۵ ءمیں رہائی،اس عرصے میں ملک کے سیاسی حالات میں تیز تر تبدیلی اور فرقہ وارانہ حالات کی سنگینی،شملہ کانفرنس اور اس کے نتائج،فرقہ وارانہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے مولانا کا منصوبہ اور اس حوالے سے گاندھی کو ان کا خط اور ان کے جوابی رویے،کیبنٹ مشن کی آمد ، اس سے مولانا کے مذاکرات اور ملک کی تقسیم کو ٹالنے کی آخری حد تک ان کی کوششوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔اس باب میں ایک خاص بات یہ زیر مطالعہ آتی ہے کہ مولانا آزاد فرقہ وارانہ مسئلے کو جس سنجیدگی سے دیکھتے تھے اور اسے حل کرنا چاہتے تھے،اتنی سنجیدگی و حساسیت کانگریس کے دیگر بیشتر رہنماؤں میں نہیں پائی جاتی تھی۔ دوسری یہ کہ گاندھی جی سے ان کا اختلاف عدم تشدد کے مسئلے پر گہرا ہوگیا تھا،گاندھی نے عدم تشدد کا جو نظریہ اپنے تجربے یا مطالعات کی روشنی میں اختیار کیا تھا، اس پر وہ ہر حال میں قائم رہنا چاہتے تھے ،مگر مولانا آزاد کی حقیقت پسندی اسے مطلقاً قبول کرنے پر آمادہ نہ تھی؛چنانچہ اس مسئلے پر بار بار وہ گاندھی کے سامنے آجاتے تھے۔ دوسری طرف گاندھی ہندوستان کی اکثریت کی نظر میں ایک cultکا روپ دھار چکے تھے،خود کانگریس کے بڑے بڑے لیڈران مثلاً پٹیل،راجندر پرشاد اور کرپلانی وغیرہ ان سے رجوع کے بغیر بذات خود کوئی فیصلہ شاذ ہی لیتے تھے ،مگر آزاد جس عملی و فکری سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے،اس کے پیش نظر ان کا گاندھی کے ہر عمل اور منصوبے پر آمنا و صدقنا کہنا ناممکن تھا۔یہی وجہ ہے کہ عدم تشدد کے علاوہ دیگر کئی اہم موقعوں پر مولانا نے گاندھی سے واضح اختلاف کیا۔دوسری طرف گاندھی جی کو یقیناً اپنی عوامی حیثیت کا احساس رہا ہوگا اور مولانا آزاد کا ان سے بار بار اختلاف کرنا کھلتا ہوگا؛چنانچہ کئی بار ان کے جواب میں تلخی بھی آجاتی تھی،جیسے فرقہ وارانہ مسئلے کے حل پر جب انھوں نے گاندھی کو خط لکھا اور اپنا پانچ نکاتی مجوزہ منصوبہ پیش کیا تو وہ ان کے لیے بڑا غیر متوقع تھا اور انھوں نے خاصی جھنجھلاہٹ میں مولانا کو جواب دیا ۔اس کتاب کے مصنف سمیت بعض مؤرخین نے آزادی سے قبل ۱۹۴۶-۴۷ ءکے عرصے میں ابوالکلام آزاد کے تئیں گاندھی کے جس روکھے رویے کی نشان دہی کی ہے ،اگر اس کی کچھ حقیقت ہے تو بلا شبہ اس کے یہی اسباب تھے ۔اس حوالے سے بے لاگ معلومات ہمیں بیرسٹر ایٹ لا ایس کے موجمدار کی کتاب Jinnah and Gandhi: Their Role in India’s Quest for Freedom میں ملتی ہیں۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۹۶۶ ءمیں شائع ہوئی تھی۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ’آزادی ہند کی جدوجہد کے دو اہم کردار :جناح اور گاندھی‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔یہ ترجمہ سارنگ پبلشرز لاہور نے پہلی بار ۱۹۹۶ء میں شائع کیا تھا،ہندوستان میں بھی بعض اداروں نے اسے چھاپ دیا ہے۔
رضوان قیصر کی زیر مطالعہ کتاب کا چھٹا باب ہے’ قوم کے لیے علمی،سائنسی اور ثقافتی اداروں کی تعمیر‘ ،اس باب میں انھوں نے آزادی کے بعد بحیثیت وزیر تعلیم مولانا کی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔اس کی شروعات انھوں نے آزادی سے قبل کی عبوری حکومت میں بحیثیت وزیر تعلیم مولانا کی شمولیت کے پس منظر پر اشارے کے ذریعے کی ہے اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے ان کی جو خدمات رہیں ،ان پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔یہ باب اردو والوں کے لیے خصوصاً بہت معلومات افزا ہے،کہ آزادی کے بعد دس سال کے عرصے میں تعلیم کے میدان میں جو پیش رفتیں ہوئیں،ابتدائی و اعلیٰ سطح پر تعلیم کو بہتر اور منظم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے،جو اہم ادارے قائم کیے گئے،ثقافتی و سائنسی اداروں کے قیام میں مولانا نے جو دلچسپی لی ؛ان سب سے متعلق اہم اور با وثوق حوالوں کی روشنی میں دستاویزی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد جہاں وزیر تعلیم کی حیثیت سے انھوں نے قومی تعلیمی گراف کو بہتر کرنے اور قومی تعلیمی اداروں کے قیام و ارتقا میں خصوصی دلچسپی لی،وہیں خصوصاً مسلمانوں سے منسوب تعلیمی،علمی و ثقافتی اداروں کو بچانے،بڑھانے اور ان کے فروغ میں بھی انھوں نے بحیثیت وزیر تعلیم ہی نہیں،ذاتی حیثیت میں بھی ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے حوالے سے کچھ باتیں تو اسی کتاب میں ملتی ہیں۔اس کے علاوہ تحریک آزادی کے دوران علی گڑھ کا جو کردار تھا،اس کے پیش نظر آزادی کے بعد اس ادارے کے تعلق سے بڑے اندیشے ابھر رہے تھے، مگر مولانا حکومت کے بداندیش ارکان کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور اور اے ایم یو کو ہر قسم کی مدد فراہم کروائی۔پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اپریل ۱۹۵۸ ء کو شورش کاشمیری کے نام ایک خط میں لکھا تھا’’تقسیم کے بعد جب علی گڑھ طرح طرح کے حوادث کی زد میں آیا،تو مرحوم نے اپنی بے پایاں شریفانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کو ہر موقعے پر برسر کار لاکر اس ادارے کو تباہ ہونے سے بچایا،جس کی آیندہ نسلوں کو تو کیا،موجودہ ہی نسل کے شاید خال خال افراد کو خبر ہو‘‘۔(مشمولہ مولانا آزاد اور ان کے ناقد،ص۱۶۰،ط:موڈرن پبلشرز کراچی ۱۹۸۱ء)
اسی طرح آزادی کے بعد جب ہندوستان کا باوقار علمی و اشاعتی ادارہ دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی ناگفتہ بہ حالات سے دوچار تھا،تو مولانا نے ذاتی کوششوں سے اسے ساٹھ ہزار روپے کی گرانٹ دلوائی، جس سے اس ادارے کو نئی زندگی ملی۔اس پر پرشوتم داس ٹنڈن نے پارلیمنٹ میں اعتراض کیا اور کہا تھا کہ وزارت تعلیم صرف اردو کے فروغ کے لیے یہ سب کر رہی ہے، ہندی کے لیے کچھ نہیں ہو رہا ہے،اسی کے جواب میں مولانا نے پارلیمنٹ میں اہم تقریر کی تھی۔اس تقریر میں مولانا نے شبلی اکیڈمی کو دی جانے والی امداد کا پر زور دفاع کیا،ساتھ ہی ٹنڈن کی مغالطہ انگیزی پر گرفت کرتے ہوئے کہا کہ انھیں شبلی اکیڈمی اور ہندوستانی پرچار سبھا کی سرکاری امداد پر تو اعتراض ہے،مگر انھوں نے ہندی ساہتیہ سمیلن کو چالیس ہزار کی امداد اور ناگرک پرچار سبھا کو ایک لاکھ روپے کی امداد کا ذکر نہیں کیا۔سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے مولانا نے فرقہ وارانہ تنگ نظری کو ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی تقسیم کی جس مصیبت سے ہم گزرے ،اس میں مسلم لیگ کے ساتھ ٹنڈن جیسے دماغوں کا بھی کردار تھا؛کیوں کہ اس طرح کی تنگ نظری سے دوسروں کو موقع ملتا ہے اور وہ لوگوں کو مشتعل کرتے ہیں۔ ٹنڈن کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے ہوئے مولانا نے یہ تاریخی جملے کہے تھے،جنھیں سن کر بہ شمول ٹنڈن سارے ایوان میں سناٹا چھاگیا تھا،انھوں نے کہا تھا:
’’ میں لیپا پوتی کی باتیں نہیں کر رہا ہوں،اس قسم کی باتیں وہ کرتا ہے،جس میں کوئی غرض کا مادہ پایا جاتا ہو، میرے اندر کوئی غرض نہیں ہے۔میں نے اب سے ۴۶برس پہلے اپنی زندگی کا ایک پروگرام بنایا تھا،اس دن سے آج تک میری زندگی کھلی ہوئی کتاب ہے،زندگی کا بڑا حصہ ختم ہوچکا ہے،تھوڑا باقی ہے اور وہ بھی قریب الختم ہے۔جس نے اپنے دل سے غرض نکال دی ،وہ بے پناہ ہوجاتا ہے،بے پناہ کا مطلب شاید آپ نہیں سمجھے،میں آپ کو سمجھاتاہوں،اس کا مطلب ہے وہ آدمی جس کو کوئی تلوار نہ کاٹ سکے،تلوار اس جسم پر چلتی ہے،جس میں غرض ہو،اگر غرض نہیں ہے تو کوئی تلوار اس کو نہیں کاٹ سکتی‘‘۔(مولانا آزاد،پرشوتم داس ٹنڈن اور اردو،مشمولہ:مولانا آزاد ایک ہمہ جہت شخصیت،ص:۱۵۲-۱۵۶،ط:مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۲۰۰۶ء)
اس کے علاوہ مولانا نے رضالائبریری رامپور، خدا بخش لائبریری پٹنہ،دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد اور انجمن ترقی اردو ہند جیسے خالص علمی، ادبی، تحقیقی و ثقافتی اداروں کی گراں قدر ہنگامی امدادکا انتظام کروایا اور یہ ادارے نہ صرف تباہ ہونے سے بچے رہے؛بلکہ آج تک اپنے اپنے دائرے میں برسرعمل ہیں۔ جس بنیاد پر تقسیم ملک ہوئی تھی اور اس وقت جیسا زہرناک ماحول تھا اور خود سرکار کے اندر سے مولانا کے سامنے جو رکاوٹیں تھیں،ان سب کے باوجود مولانا نے نہ صرف باقی بچ رہنے والے اداروں کو سہارا دیا؛بلکہ ان کے سب سے بڑے محافظ بن کر سامنے آئے۔آل احمد سرور نے اپنی خود نوشت ’خواب باقی ہیں‘(ص۱۶۰،ط:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس علی گڑھ ۱۹۹۱ء) میں ان اداروں کے تعاون کے ذکر کے ساتھ ایک بات اور لکھی ہے کہ جب وہ لکھنؤ میں تھے،تو ایک بار مولانا نے ان سے کہا تھا کہ مطبع نولکشور کے ذمے داروں سے بات کریں کہ everyman’s libraryکے طرز پر اس کی اردو مطبوعات کوبہترین انداز میں شائع کیا جائے، وہ لوگ اس کا خاکہ بناکر وزارت تعلیم کو بھجوائیں،میں ایک لاکھ روپے منظور کروادوں گا،جس سے یہ سلسلہ چلتا رہےگا،مگر اس وقت مطبع کے ذمے داروں نے توجہ نہ دی ،جس کا علم ہونے پر مولانا کو بہت افسوس ہوا، کئی سال بعد جب کہ مولانا کا انتقال ہوچکا تھا، تو ان لوگوں نے آل احمد سرور سے رابطہ کیا ،ظاہر ہے کہ اب اس اسکیم کو رو بہ عمل لا نا مشکل تھا؛چنانچہ آل احمد سرور نے انھیں جواب دے دیا اور اس طرح مطبع نولکشور کی قیمتی مطبوعات کا احیا نہ ہوسکا۔
۱۹۴۷ءسے پہلے کی دس سالہ ہندوستانی سیاسی تاریخ اور تقسیم ملک کے عوامل و اسباب پر نگاہ رکھنے والا کوئی بھی شخص اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ اگر آزادی ِہند کے بعد کے دس سال کے عرصے میں حکومت میں مولانا آزاد جیسی شخصیت نہ ہوتی،تو مسلمانوں کا اور مجموعی طورپر اس ملک کا کتنا زیادہ علمی و ثقافتی نقصان ہوسکتا تھا ۔ ۹۴۵،۱۹۴۶ آتے آتے یہ صاف ہونے لگا تھا کہ تقسیم ہند تقریباً طے ہوچکی ہے،مولانا آزاد کو بھی اس کا یقین ہوچلا تھا ؛کیوں کہ تقسیم کے مخالف کانگریسی لیڈران بھی بہ تدریج اس طرف جھکتے جاتے تھے ۔انھی دنوں یعنی ۲۳-۲۴نومبر ۱۹۴۶ ء کو میرٹھ میں کانگریس کا سیشن ہوا،یہ آزادی سے قبل کانگریس کا آخری سیشن تھا۔لیفٹیننٹ کرنل خواجہ عبدالرشید (جو آزادی سے قبل ہندوستانی فوج میں میجر تھے اور انھوں نے میرٹھ سیشن میں شرکت کی تھی،آزادی کے بعد پاکستان چلے گئے،رسالہ برہان میں علمی مضامین لکھا کرتے تھے،کئی کتابیں بھی انھوں نے تالیف و تصنیف کی ہیں)نے اپنی کتاب Historical Dissentation میں ایک باب مولانا آزاد کی قومی سیاسی و ملی خدمات کے لیے خاص کیا ہے ۔اردو میں اس کی تلخیص راشد چودھری نے کی ہے، جسے ایم اے شاہد نے ’مولانا آزاد اور ان کے ناقد‘کے صفحہ نمبر ۸۱-۸۸پر نقل کیا ہے۔اس میں میرٹھ کے مذکورہ سیشن کے مشاہدات بیان کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ چوں کہ یہ جلسہ ایسے وقت میں ہورہا تھا،جب تقسیم ہند کا معاملہ تقریباً صاف ہوچکا تھا،لیگ والے ایک انتہا پر تھے،جبکہ کانگریس کے فرقہ پرست رہنما دوسری انتہا پر تھے۔سردار پٹیل کا مسلمانوں سے اور خود مولانا آزاد سے کھنچاؤ واضح تھا،انھوں نے سیشن کے افتتاحی اجلاس میں ہی زہرافشانی سے کام لیا اور لیگ کے بہانے تمام مسلمانوں کو نشانہ بنایا،عبدالرشید صاحب کے مطابق انھوں نے’’مسلمانوں کو تلوار کے ساتھ چیلنج کیا‘‘۔آگے وہ لکھتے ہیں کہ جب ان کی تقریر ختم ہوئی تو مولانا اپنی جگہ سے اٹھے، شال کاندھوں پر ڈالی اور مخصوص انداز میں خطاب کرتے ہوئے کہا’’وہ قوم جس نے ایک ہزار سال سے تلوار نہیں دیکھی، یہ کس طرح ممکن ہوا کہ وہ اسے لہراتے ہوئے ہمیں چیلنج کر رہی ہے‘‘۔انھی کا بیان ہے کہ جلسے پر زبردست سکوت طاری ہوگیا اور مولانا نے جس قدر جوش وولولہ کے ساتھ خطاب کیا،اس سے پہلے اس کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔اس موقعے پر گاندھی جی بھی سسکیوں میں ڈوب چکے تھے،نہرو رومال سے اپنے آنسو پونچھ رہے تھے اور ہر طرف رونے چیخنے کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔جلسے کے اختتام پر جب وہ اپنی قیام گاہ لوٹے اور اپنی اہلیہ کو یہ واقعہ سنایا،تو ان کی اہلیہ چوں کہ لیگ کی حامی تھیں،تو انھوں نے جھٹ سے کہا کہ آپ مولانا سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہوجائیں؟انھوں نے کہا کہ تم خود کہو ؛چنانچہ کچھ دنوں بعد دونوں میاں بیوی وقت لے کر انڈین نیشنل آرمی کے جنرل شاہنواز خان کے ہمراہ مولانا سے ملنے پہنچے۔ا نھوں نے میرٹھ کی تقریر یاد دلائی تو مولانا نے کہا کہ بعض لوگوں کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لیے اس قسم کی باتیں کرنی پڑتی ہیں۔اصل مدعا کے اظہار میں انھیں جھجھک ہورہی تھی،دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھتے تھے کہ مولانا نے بھانپ لیا اور کہا کہ آپ ایک دوسرے کو ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟اس پر انھوں نے اپنی اہلیہ کی بات دہرائی کہ ان کا خیال ہے کہ آپ مسلم لیگ میں کیوں نہیں شامل ہوجاتے؟اس پر مولانا مسکرائے اور فرمایا:
’’میری بہن! پاکستان وجود میں آرہا ہے اور کوئی اسے قائم ہونے سے روک نہیں سکتا؛لیکن تمام مسلمان اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اپنے نئے وطن کی طرف ہجرت کرسکیں۔وہ لوگ جو پیچھے رہ جائیں گے،انھیں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہوگی،جو ان کے حقوق و مفادات کی نگہہ داشت کرے‘‘۔
اور مولانا نے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لیے کیا کچھ کیا،اس کی کچھ جھلکیاں درج بالا سطور میں پیش کی جا چکی ہیں۔
رضوان قیصر نے ’اختتامیے‘ میں اپنی کتاب کے مباحث کو سمیٹتے ہوئے مولانا کی سیاسی فکر اور ان کے طرزِ عمل کا نچوڑ پیش کرنے کی کوشش کی ہے،وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مولانا کی سیاست حقیقت پسندانہ تھی؛چنانچہ انھوں نے ہمیشہ عوام پسندانہ مصلحتوں کی بجاے زمینی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر کوئی بھی موقف اختیار کیا ،البتہ مصنف کی نظر میں تحریک خلافت و ترک موالات کا موقع ایسا تھا،جب وہ عوامی حمایت پسندی کے جوش میں بہہ گئے؛ حالاں کہ اس کے پس پشت دراصل ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ اور اس میں تمام ہندوستانیوں کو شامل کرنے کا مقصد کارفرما تھا۔اختتامیے میں انھوں نے مولانا آزاد کی مشترکہ و متحدہ قومیت کی سیاست اور تقسیمِ ہند کی علانیہ مخالفت کے وقت کے حوالے سے معروف مؤرخ مشیرالحق کے اس خیال کی تغلیط کی ہے کہ مولانا آزاد نے اپنے اس موقف کے اظہار میں تاخیر کی؛کیوں کہ وہ تو مشترکہ سیاسی نظریے کا اعلان ’الہلال‘ ہی کے زمانے سے کر رہے تھے اور کانگریس میں رہتے ہوئے آخر تک انھوں نے زبانی اور عملی سطح پر تقسیم کو ٹالنے کی آخری حد تک کوششیں کیں۔اسی طرح مصنف نے کتاب کے حصے میں اس سوال پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ کیا مولانا آزاد اپنی سیاست میں ناکام رہے؟وی این دتا اور ایان ہنڈرسن ڈگلس کے تجزیوں کا سہارا لیتے ہوئے وہ تقسیمِ ہند کو صرف آزاد کی بجاے مجموعی طورپر کانگریس پارٹی کی قوم پرستانہ تحریک کی ناکامی قرار دیتے ہیں یا اس سے اتفاق کرتے ہیں، ساتھ ہی اس پر وہ اتنا اضافہ کرتے ہیں کہ:
’’یہ ایک سیاسی و انتخابی شکست تھی۔ نظریاتی طورپر آزاد اب بھی اپنی اس رائے پر قائم تھے کہ مذہب پر مبنی قومیت کا تصور فریب کے سوا کچھ نہیں۔بہترین ذہنی اور سیاسی توانائی کے باوجود انسانوں کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب رونما ہونے والے حالات ان پر غالب آجاتے ہیں۔ہندوستان کی تقسیم سے پہلے آزاد کا کردار کانگریس سے مسلمانوں کی برگشتگی اور شناخت،تہذیب اور اقتدار میں شرکت کی خواہش جیسے حساس مسائل کے تئیں کانگریس کی بے نیازی کے خلاف یک نفری فوج کا کردار تھا۔اپنی اس جدوجہد میں آزاد نے خود کو اکیلا پایا،جواہر لعل نہروان کے واحد رفیق کار تھے،جن سے وہ مدد کے طالب ہوتے تھے اور انھیں متحدہ ہندوستان میں اپنے یقین سے تقویت ملتی تھی۔ہندوستان کی تقسیم سے وہ غمزدہ تھے؛لیکن وہ جانتے تھے کہ تقسیم کے باوجود ان کا سیاسی فلسفہ اب بھی بامعنی ہے۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب مسلمانوں نے ان سے رجوع کرنا چاہا،تو آزاد نے اپنے پاس آنے سے انھیں منع نہیں کیا، ان کی سرزنش تو کی؛لیکن غصے اور مایوسی سے مغلوب ہوکر انھیں چھوڑ نہیں دیا۔ان کا استقبال کرتے ہوئے آزاد نے انھیں قومی زندگی میں اپنے حصے کی بازیابی کی نصیحت کی۔تقسیم سے پہلے ہو یا بعد،آزاد کا اصل سروکار ایک ایسا نظریاتی لائحۂ عمل تلاش کرنے اور ایسی سیاسی اقدار وضع کرنے سے تھا، جس سے تمام فرقوں کے ایک واحد قومیت کا حصہ بن کر رہنے کا امکان پیدا ہو‘‘۔(ص:۴۱۰)
کتاب کے مترجم ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی(سابق استاذ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) اردو کے سینئر ادیب،ناقد اور دانشور ہونے کے ساتھ ایک منجھے ہوئے مترجم بھی ہیں اور درجنوں کتابیں انھوں نے ترجمہ کی ہیں،ان کے تراجم متن کی بھرپور عکاسی کے ساتھ سلاستِ زبان و بیان کا بھی عمدہ نمونہ ہوتے ہیں،ایک نمونہ یہ کتاب بھی ہے۔کہیں کہیں کچھ کمپوزنگ کی ہلکی پھلکی غلطیاں رہ گئی ہیں،جو سوا چارسو صفحوں کی کتاب میں مستبعدبھی نہیں ہیں،اختتامیے میں البتہ صفحہ نمبر۳۹۶ پر شیخ الہند کا نام ’حسن محمود‘ لکھا ہوا ہے،اسے ٹھیک کرنا چاہیے؛کیوں کہ ان کا درست نام’محمود الحسن‘ ہے،اوریجنل متن میرے پیش نظر نہیں،اگر وہاں بھی یہی لکھا ہے،تو وہاں بھی اصلاح ہونی چاہیے۔ دوسری بات کتاب کے اردو نام کے تعلق سے ہے،اس کا پہلا جز ہے’استعماریت اور فرقہ وارانہ سیاست کی مزاحمت‘، یہاں ’کی‘ اصل مفہوم کو دھندلا رہا ہے،اس کی جگہ اگر’کے خلاف‘ ہوتا،تو زیادہ بہتر اور واضح ہوتا’استعماریت اور فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف مزاحمت‘۔تیسری بات حواشی کے تعلق سے ہے،ناشر نے غالباً مصنف کے طریقہ کار کو فالو کرتے ہوئے،ہر باب کے حواشی اس کے آخر میں دیے ہیں،تحقیقی کتابوں اور مقالات میں تحشیے کا یہ طریقہ بھی رائج اور درست ہے، مگر غالباً کمپوزر سے غلطی یہ ہوئی ہے کہ مختلف ابواب میں کئی حواشی سرے سے نقل ہی نہیں کیے گئے ہیں؛چنانچہ دوسرے باب میں حاشیہ نمبر ۱ سے ۱۳ تک تسلسل درست ہے،اس کےبعد سیدھے حاشیہ نمبر ۲۸ اور آگےکے حواشی آجاتے ہیں،گویا حاشیہ نمبر ۱۴ سے لے کرحاشیہ نمبر ۲۷ تک درج ہی نہیں کیے گئے۔یہ مسئلہ دوسرے ابواب میں بھی ہے،البتہ وہاں ایک دو حاشیے چھوٹے ہیں،یہ بھی بڑی غلطی ہے اور اس کی اصلاح بھی ضروری ہے۔بہر کیف اردو مولانا آزاد کی سیاست اور ان کے قومی کردار پر یہ ایک اہم کتاب ہے ،ہندوستانی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کا اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔