دہلی: شعبہ تاریخ وثقافت،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بیس فروری دوہزار چوبیس کو تیسرا مشیرالحسن یادگاری خطبہ منعقد کیا۔ممتاز مؤرخ پروفیسر سید عرفان حبیب نے یہ خطبہ دیا۔خطبے کاموضوع ’مولانا آزاد کی حیات اور سیاست کا اجمالی جائزہ’ ۔
پروفیسر اقبال حسین کارگزارشیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ پروگرام کے مہمان خصوصی تھے۔پروفیسر زویا حسن اور پروفیسر اقتدارمحمد خان،ڈین فیکلٹی آف ہیومنیٹیز اینڈ لنگویجز،جامعہ ملیہ اسلامیہ خاص مہمان تھے۔
صدر شعبہ پروفیسر فرحت نسرین کے خیرمقدمی کلمات سے پروگرام کا آغاز ہوا۔پروفیسر نسرین نے اس موقع پر پروفیسر مشیر الحسن کی شان دار خدمات کا ذکر کیا۔
پروفیسر اقبال حسین،کارگزار شیخ الجامعہ نے مرحوم مشیر الحسن جو ان کے سینئر اور سرپرست تھے ان سے اپنے خصوصی تعلقات کا ذکر کیا۔انھوں نے زور دے کر کہا کہ پروفیسر حسن ہمیشہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شاہ جہاں کے نام سے یاد کیے جاتے رہیں گے۔انھوں نے مزید کہا کہ مرحوم پروفیسر حسن کی علمی قد جیسی صلاحیت والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں۔
پروفیسر زویا حسن نے مشیر الحسن عطیہ فنڈ اور اسکالرشپ جو اس کے زیر اہتمام تقسیم کی جاتی ہے اس حوالے سے گفتگو کی۔پروفیسر اقتدار محمد خان نے مرحوم پروفیسر کی ذاتی اور پیشہ ورانہ فضیلت کے متعلق بات چیت کی۔انھوں نے کہاکہ وہ اپنے چھوٹوں کی اظہار خیال کے لیے حوصلہ افزائی کرتے تھے تاکہ ہر شعبے میں بہتری لائی جاسکے۔
مرحوم پروفیسر مشیر الحسن کی کوششوں سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ تاریخ کے قیام کے متعلق ڈاکٹر جاوید عالم نے بتایا۔انھوں نے پروفیسر مشیر الحسن کی زندگی اور کیرئیر کے متعلق بھی گفتگو کی۔
مولانا آزاد سے متعلق پروفیسر ایس عرفان حبیب کا لیکچر آزاد کی زندگی کے کم معلوم پہلوؤں اور جہات پر مرکوز تھا۔مثال کے طورپر انھوں نے بتایا کہ مولانا آزاد نے ستار بجانا سیکھا تھا اور آگرے میں تاج محل کے قریب جمنا کنارے چاندنی رات میں اسے بجایابھی تھا۔موسیقی سے ان کا لگاؤ اور شغف اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ جہاں جاتے تھے ٹرانزسٹر ساتھ لے جاتے تھے یہاں تک کے قید خانے میں بھی۔پروفیسر حبیب نے اس پر زور دیا کہ مجاہدین آزادی کو صرف ان کے سالگرہ پر یادکرنا کافی نہیں ہے۔ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں ان سے حاصل شدہ انسانی اقدار کو ضرور بالضرور شامل کرنا چاہیے۔
پروگرام میں کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کی اور بہت انہماک سے پروگرام سماعت کیا۔