Home ستاروں کےدرمیاں مولانا آزاد: جنگ آزادی کے ایک مشعل بردار!- ڈاکٹرمشتاق احمد

مولانا آزاد: جنگ آزادی کے ایک مشعل بردار!- ڈاکٹرمشتاق احمد

by قندیل

آج جب ہم مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور ان کے افکار ونظریات کوعہد جنگ آزادی کے سیاسی تناظر اور ملک کی حالیہ سیاسی وسماجی فضا کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے تو یہ عقدہ خود بخود اجاگر ہو جائے گا کہ مولانا ابوالکلام آزاد ہماری جنگِ آزادی کے ایک بے خوف مشعل بردارہی نہ تھے بلکہ ان کی پہلو دار شخصیت کا ہر پہلو تابناک تھا۔ ملک کی آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے والے مجاہدین آزادی کے لیے وہ ایک حوصلہ مند سپہ سالار تھے تو مسلم مذہبی حلقوں کے لیے وہ ایک تعمیری سوچ اور فکر رکھنے والے شعلہ بیان مقرر اور بیدار ذہن عالم دین تھے۔مسلمانوں کی نئی نسل کے لیے قدیم تاریخ اور تہذیب وتمدن سے روشناس کرانے والے ایک مورخ تھے تو کانگریس پارٹی کے لیے اندھیرے میں چراغ کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوںنے زندگی کے آخری لمحے تک ملک وقوم کی بے لوث خدمت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ہندوستان کے ایک سچے سپوت ہیں۔
مولانا آزاد ایک حساس ذہن کے مالک تھے ۔انہوں نے ہندوستانی معاشرے کے معاملات ومسائل کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے ہندوستانی عوام کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور سمجھا تھا۔اس لیے وہ عوام کے اندر سوئی ہوئی انسانیت کو جگانا چاہتے تھے۔کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ جب تک عوام کے اندر کی چنگاری کو شعلہ نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک یہ ملک غلامی کے طوق سے نجات حاصل نہیں کر سکتا اور اس کے لیے وہ ہندو مسلم اتحاد کے نہ صرف قائل تھے بلکہ وہ اسے حصول آزادی کے لیے لازمی قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک مذہب، ذات پات، فرقہ ،قوم اور کسی طرح کی گروہ بندی کی حب الوطنی کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی۔ 1923کے انڈین نیشنل کانگریس کے خصوصی اجلاس دہلی میں انہیں سب سے کم عمر صدر کی حیثیت سے خطاب کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ :
’’میں نے آپ کا اس قدر وقت درودیوار کی فکر میں لے لیا حالانکہ ابھی یہ بات باقی ہے کہ ہماری جدوجہد کی بنیاد کا کیا حال ہے۔میرا اشارہ ہندو مسلم اتحاد کی طرف ہے۔یہ ہماری تعمیرات کی وہ پہلی بنیاد ہے جس کے بغیر نہ صرف ہندوستان کی آزادی بلکہ ہندوستان کی وہ تمام باتیں جو کسی ملک کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے لیے ہوسکتی ہیں‘محض خواب وخیال ہیں۔صرف یہی نہیں کہ اس کے بغیر ہمیں قومی آزادی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے بغیر ہم انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کر سکتے۔آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کریہ اعلان کردے کہ سوراج 24گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے‘ بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہو جائے تو میں سوراج سے دست بردار ہو جاؤں گا‘مگر اس سے دست بردار نہ ہوں گا کیوں کہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہے۔‘‘
(خطبات آزاد۔مرتبہ مال رام صفحہ 204-5)
مندرجہ بالا اقتباس مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت اور دانشورانہ فکر کا غمّاز ہے کہ وہ آزادی ملنے میں تاخیر کو قبول کر سکتے ہیں۔لیکن ہندو مسلم اتحاد کے سوال پر کسی طرح کی مفاہمت کے روادار نہیں کیوں کہ ان کی نگاہ میں فرقہ وارانہ نفاق انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
مولانا آزاد کا خیال تھا کہ مسلمان جنگِ آزادی کے مرکزی دھارے سے ذرا بھی الگ بنتے ہیں تو اس سے ملک اور ملت دونوں کا بڑا نقصان ہوگا۔اور ملک میں نفرت کی ایک دیوار کھڑی ہو جائے گی۔انہوں نے ایک طرف مسلمانوں کو قدم قدم پر ہوشیار کیا کہ وہ کسی طرح کے بہکاوے میں نہ آئیں اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر انگریزی حکومت کو ملک سے نکال باہر کرنے میں ہر محاذ پر ساتھ ساتھ رہیں تو دوسری طرف انہوں نے کانگریس کو بھی خبر دار کیا کہ مسلمانوں کے جائز حقوق کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جائے۔انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے سیاسی مطالبوں کو منوانے کے لیے کسی طرح بھی نفاق کی راہ اختیار نہ کریں۔ آل انڈیا خلافت کانفرنس کانپور‘ 1925کے اپنے صدارتی خطبے میں انہوں نے کہا تھا کہ :
’’موجودہ صورتحال کی بد قسمتی اس کام میں کتنی ہی دشواریا ں پیدا کر دے لیکن وہ تیار نہیں کہ اس نصب العین سے دست بردار ہو جائے۔وہ مسلمانوں کے جماعتی حقوق وفوائد کا تحفظ ضروری سمجھتا ہے لیکن اس طریق عمل سے انکار کرتا ہے کہ مسلمان ہندوؤں کے طرز عمل سے روٹھ کر اجنبی حکومت کی آڑ پکڑ لیں اور ان کی ہستی ہمیشہ ملک کی قسمت کے لیے ایک دھمکی کی طرح استعمال کی جائے۔اگر ہندوؤں سے انہیں منصفانہ طرز عمل کا مطالبہ کرناہے تو پوری قوت سے کرنا چاہیے۔لیکن ساتھ ہی یہ ضروری ہے کہ ہماری باہمی آویزش ملکی جنگ کے میدان سے ہمیشہ الگ رہے۔‘‘
1947میں ملک آزاد ہوا مگر اب وہ ہندوستان نہیں رہا جس ہندوستان کی آزادی کے لیے مولانا آزاد نے اپناسب کچھ کھویا تھا۔ملک کی تقسیم نے ان کے ذہن ودل کو متزلزل کر دیا تھا۔لیکن ایسے نازک حالات میں بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔انہوں نے صبر وتحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا۔انہوں نے مسلمانوں کو جلا وطنی علاحدگی پسندی اور مایوسیوں اور محرومیوں کو ترک کرکے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ جینے اور مرنے کی تلقین کی۔ترک وطن کرنے والے قافلے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اکتوبر 1947کو جو کچھ کہاتھا ،آج بھی اس کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے کہ جو لوگ اپنے ملک کو چھوڑکر پاکستان گئے ‘وہ آزادی کے77برسوں کے بعد بھی وہاں اپنے دامن سے مہاجر ہونے کا داغ نہیں مٹا پائے ہیں۔کاش! اس وقت وطن چھوڑکر جانے والے قافلوں نے مولانا آزاد کی دوراندیشیوں کو سمجھاہوتا اور ان کے دل کی پکار سنی ہوتی توآج ہندوستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔مولانا آزاد کے اس تاریخی خطبے کالفظ لفظ آج بھی اپنی معنویت رکھتاہے:
’’یہ دیکھو ،مسجد کے بلند مینار تم سے اچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا؟ ابھی کل کی بات ہے کہ جمناکے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا۔ اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتاہے۔حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے ۔ وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اترگئے،پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا، بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرادیے‘بادل گرجے توقہقہوں سے جواب دیا‘ صرصراٹھے تواس کا رخ پھیڑ دیا،آندھیاں آئیں تو ان سے کہا کہ تمہارا راستہ یہ نہیں۔یہ ایمان کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے گریبانوں سے کھیلنے لگے اور خدا سے اس درجہ غافل ہوگئے جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔‘‘(خطبات آزاد۔مالک رام صفحہ 340)۔
مولاناآزاد ،آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔اس وقت ملک کے حالات کیسے تھے اس تلخ حقیقت سے ہم آپ خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ ویسے نازک حالات مولاناآزاد نے جو نظریۂ تعلیم پیش کیا وہ آج بھی اپنی معنویت رکھتا ہے۔آج جب ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں تو جدید علوم وفنون کو اپنانے کی دور میں شامل ہوناچاہتے ہیں۔لیکن مولانا آزاد نے اس پر آشوب دورمیں ہی ’’میکالے‘‘ کے نظام تعلیم کو ترک کرکے جدید نظام تعلیم کو اپنانے کی وکالت کی تھی۔ انہوں نے 18فروری 1949کی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ:
’’میکالے کا مقصد برطانوی خیر خواہ تیار کرنا تھالہذا ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ موجودہ نظام تعلیم ہماری قومی ضروریات کس حد تک پورا کرتا ہے‘‘۔
آج ہمارے ماہرین تعلیم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم کا ذریعہ اس کی مادری زبان ہو۔مولانا آزاد نے 1949میں ہی اس بات پر زور دیا تھا کہ تعلیم کا ذریعہ ملکی زبان ہونا چاہیے ۔واضح ہو کہ اس وقت قومی زبان ہندوستانی قرار پائی تھی۔لہذا انہوں نے کہا تھا کہ:
’’اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں ہر قسم کی تعلیم دیسی زبانوں ہی میں دیے جانے کا تجربہ کیا جائے یہ پسندیدہ امر ہے کہ ہر ہندوستانی دیوناگری اور اردو دونوں رسم الخط سیکھے ۔‘‘
مولانا آزاد کا مطالعہ بہت وسیع تھا ،خاص طور سے قدیم ادب ،عربی، فارسی اور سنسکرت زبان و ادب پر عبور حاصل تھا‘ وہ ہر وقت جدید سے جدید ترین سائنسی معلومات سے آگاہی حاصل کرنے کے آرزومند رہتے تھے ۔وہ عصری فکری میلانات اور سائنسی رجحانات اور افکار سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ان کے اثرات کا پوری طرح تجزیہ کرتے تھے ۔وہ مذہب ‘ فلسفے اور تاریخ کے تاریک سے تاریک گوشوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور اس میں انہیں بڑی کامیابی بھی ملی تھی۔ ان کو ادب سے والہانہ عشق تھا وہ ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔صحافت کے میدان میں ان کے قلم کی جادوگری نے جس طرح انقلاب کی چنگاری کو شعلہ بنانے کا کام کیا تھا کہ اس میدان میں بھی وہ یکتا رہے۔ان کے طرز تحریر نے اردو صحافت کو ایک معیار بخشا۔
مولانا آزادؔ نے عصری تعلیم کی اہمیت وافادیت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی تاریخی تقریر ’’عربی نصاب کمیٹی‘‘ لکھنؤ۲۲؍ فروری ۱۹۴۷ء میں یہ وکالت کی تھی کہ اب مدارس کے نصاب کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالناہوگا تاکہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء بھی شعبۂ روزگار میں خود کو کھڑا کر سکیں اور اپنی پوزیشن مستحکم بنا سکیں۔ انہوں نے کہا تھا:
’’آپ نے کبھی اس کی کوشش نہیں کی کہ آپ اپنے مدرسوں کو زمانہ کی چال کے ساتھ جوڑ سکیں۔ زمانہ چلتا رہا اور ترقی پر پہنچ گیا اور آپ وہیں رہے جہاں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی تعلیم کو زمانے کی مانگوں سے کوئی رشتہ نہیں رہا اور زمانے نے آپ کے خلاف آپ کو نکمّا سمجھ کر فیصلہ کردیا۔ زمانے نے آپ کو بیکار سمجھا ہے آپ کو نکمّا سمجھا ہے‘‘۔
مولانا آزاد نے تعلیمِ نسواں کی اہمیت قبول کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ جب تک عورتوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے آراستہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک وہ اس لائق نہیں ہو سکتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کے ذہن کی آبیاری بحسن وخوبی کر سکے۔ انہوں نے روایتی تعلیم کی مخالفت تو نہیں کی لیکن اتنا ضرورکہا کہ اب یہ تعلیم بہت دور تک ہمارا ساتھ نہیں دے سکتی۔انہوں نے پردہ کو اسلام کا زیور قرار دیا لیکن یہ بھی کہا کہ جس طرح کے پردے کا چلن ہے اور جس کی بنیاد پر عورتوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے وہ قوم کے مستقبل کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ان کا یہ تاریخی بیان ہے کہ:
’’ہم صاف صاف کہہ دیتے ہیں ، اور اسے فیصلہ قطعی سمجھ لو ،اصول مسلمہ کی طرح مان لو کہ جب تک متعارف پردہ ہندوستان سے نہ اٹھے گا ، جب تک عورتوں کو جائز آزادی اور وہ آزادی جس کا اسلام مجوز ہے ، نہ دی جائے گی غلامی میں رکھ کر اور پردے کی تقلید کے ساتھ تعلیم دینی نہ صرف فضول بلکہ مضر اور اشد مضر ہے اس کی ا یک نہیں بیسوں مثالیں مل جائیں گی کہ اس قسم کی تعلیم برے نتیجے پیدا کرتی ہے یا کم از کم ایسی تعلیم سے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلتا‘‘۔ (خطبہ تعلیمِ نسواں۔ہماری قوم میں کیوں کر ہو سکتی ہے ؟)
مندرجہ بالا اقتباس نہ صرف مولانا آزاد کے نظریۂ تعلیمِ نسواں کی وضاحت ہے بلکہ ان کے نظریۂ حقوقِ نسواں کی بھی مستحکم آواز ہے ۔آج جو لوگ حقوقِ نسواں کی وکالت کرتے ہیں ان کے لیے مولانا آزاد کایہ نظریہ مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
مولانا آزاد کی فکری معنویت ہر زمانے میں برقرار رہے گی ایسے نابغۂ روزگار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔مولانا آزاد کی علمی صلاحیت اور فکری گہرائی کا اعتراف کرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے جو کچھ لکھا تھا اس کا ایک ایک لفظ آبِ زر سے لکھے جانے اور ہمیشہ یار رکھنے کے قابل ہے :
’’بعض اعتبار سے ان کی طرز فکر بنیادی طور پر جدید تھی اور بعض دوسری باتوں میں ان کا ماضی سے بڑا گہرا رشتہ تھا اور وہ اس دور کے شعور کا عکس تھے جسے روشن خیالی کا دور کہا جاتا ہے۔مجموعی طور پر وہ ایک ایسے غیر معمولی فردتھے جنہوں نے اس مقصد کوجس کے لیے وہ عمر بھر کوشاں رہے ایک امتیازی شان بخشی اور وہ بھی کچھ اس ڈھنگ سے جس کی کوئی ہمسری نہیں کر سکتا۔ پرانا نظام بدلتا ہے اور ہم اسے واپس نہیں لا سکتے ۔لیکن ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔اس طرح ہم مولانا آزاد کی یاد دلوں میں تازہ کرتے ہوئے ان کی زندگی اور ان کی تعلیمات سے ایک بڑا سبق سیکھ سکتے ہیں ۔‘‘

You may also like