Home مباحثہ مولانا ارشد مدنی کے کہنے کامطلب کیاتھا-سید حسن ذیشان قادری قاسمی

مولانا ارشد مدنی کے کہنے کامطلب کیاتھا-سید حسن ذیشان قادری قاسمی

by قندیل

راےچور کرناٹک
دودن قبل شہرِگلستان بنگلور کے قدوس صاحب عیدگاہ میں منعقدہ جشنِ جمہوریہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےمولانا ارشد مدنی صاحب نےموہن بھاگوت جی کے ساتھ ہوئی اپنی گفتگو کا ذکرکرتے ہوئے یہ فرمایا کہ "بھاگوت جی نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں اور آپ میں ایک فرق ہے کہ آپ ہندوستان کے رہنے والے کو ہندی (یائے نسبتی کے ساتھ ) کہتے ہیں اور ہم ہندو (واو نسبتی کے ساتھ )کہتے ہیں ہمارے ہندو کہنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ مسلمان عیسائی اور ہندو وغیرہ وغیرہ اپنی اپنی مذہبی شناخت اور اپنے شعائرپر عمل پیر ہونیکے باوجود ہندوہیں "ـ(حاصل ِگفتگو )
پھر مولانا نے فرمایا کہ اگر آپ کے نزدیک اسکا واقعی یہی مطلب ہے اورآپ کی یہ اصطلاح ہے تو ٹھیک ہے اس اعتبار سے ہمیں کوئی ترددنہیں ؟
مولانا کے اس بیان کے بعد مسلم طبقے میں بالخصوص بعض اہل علم حضرات اور دانشوران کو کافی تشویش اور شدید اشکال ہےاور علمی وفکری اعتبار سے اشکال کوئی بری بات بھی نہیں ہےاور نہ ہی نفس اختلاف توہین ومخالفت ہے کیونکہ ہمارے اپنے خیال کے مطابق مذہبی تشخص کا مسٸلہ ہے بڑی سے بڑی شخصیت سے بھی علم وتحقیق کی بنیاد پر آدابِ ِاختلاف کے ساتھ اشکال واختلاف ہوسکتا ہے اور سنجیدہ تنقید کی جاسکتی ہے ۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں البتہ متکلم کے منشاومراد پر غور کیا جانا چاہیےـ
چنانچہ مولانا یاسر ندیم الواجدی صاحب کی بھی ایک تحریر آئی ہے، جس میں انھوں نے مختلف علمی اور سماجی دلاٸل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ لفظِ ہندو اب یا کچھ عرصے سے ایک خاص مذہب اور خاص ثقافت کے لٸے استعمال ہوتا آیا ہے اور عرف میں بھی اس کا یہی مطلب لیا جاتا ہے اور العرف حاکم قاعدے کا بھی حوالہ دیا ۔
چونکہ احقر ایک دن پہلے ہی بلہاری میں مولانا مدنی دامت برکاتہم کے ہمراہ رہا اور مذکورہ مسٸلے پر تبادلۂ خیال بھی ہوتا رہا اس لیے
اس سلسلے میں میری پہلی گزارش یہ ہے کہ یہ اصول سب کے نزیک مسلم ہے کہ (١)اگر متکلم اپنے کلام کی خود وضاحت کردے اور اپنے معنی ومرادکو بیان کردے تو کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے لفظ کے معروف یا اپنے سمجھے ہوئے مفہوم پر مصر رہے (٢) دوسری بات یہ ہے کہ کسی بات کو حکایتِ حال یا نقلِ واقعہ کے طور پر بیان کریں تو وہ متکلم کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا بلکہ منقول عنہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہےـ
(٣)تیسری بات یہ ہے کہ اگر کسی مصلحت وحکمت کے پیش نظر کوئی بات کہی جائے تو اسے اسی حکمت ومصلحت کے تناظر میں لیا جاتا ہے، کلی اور مجموعی طور پر نہیں ـ
(چوتھی) بات یہ ہے کہ ایک جملے کا مطلب بالاستیناف وبالاستقلال کچھ سمجھ میں آتاہے اور سیاق وسباق اس کی تردید کردیتا ہے یا وضاحت کردیتا ہے، تو اس کی مکمل بات لی جاتی ہے،صرف درمیان کی بات نہیں
پھر یہ کہ ہرفرد کا ایک نظریہ ہوتا ہے اور نظریہ دلیل وتحقیق کی بنیاد پر ہوتا ہے، اس سے اختلاف کرنا آدمی کا اپنا حق ہے کوئی تسلیم کرے کوئی نہ کرے اس پر اصرار بھی غلط ہے،
اب اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ احقر الحمد للہ پرسوں بروز اتوار ٢٦ جنوری کے اجلاس کے بعد کل بروز پیر ٢٧ جنوری کے بلہاری میں منعقدہ اجلاس میں حضرت مولانا کے ساتھ تھا اور قیام گاہ میں بھی اور پھر ہوائی اڈے تک پہنچانے تک حضرت کی معیت حاصل رہی، اس دوران اسی مسٸلے پر مختلف علمااور دانشوران سے مولانا کی فون پر بات ہوتی رہی اور کچھ اشکال ہم خدام نے بھی کیے لہذا میری گفتگو بے بصیرت اور بے تحقیق اور ازخود نہیں بلکہ مولانا کے اپنے خیالات وجوابات ہیں ـ
پہلی بات کا جواب: مولانا کے مطابق یہ ہے کہ ان کے (بھاگوت جی ) کے نزدیک اگر ہندو کا یہ مطلب ہے اور جب وہ خود سے بیان کررہے ہیں کہ ہمارے نزدیک ہندو کا مطلب یہ ہے تو ہم کیوں ان سے کہیں کہ تم غلط کہہ رہے ہو، جب وہ دھرم کی بنیادپر نہیں کہہ رہے ہیں، اگر واقعی ان کےنزدیک ہندو کا مطلب مذہبی ہندو ہے، تو اسے ہم بالکل نہیں مانتے اورجب اسی نظریے کےساتھ وہ بات پیش کریں گے، تو ہم مخالفت کریں گے ہم کیوں مانیں گے ؟ فی الوقت ایک آدمی اپنی طرف سے یہ بات کہہ رہا ہے تو اسے موقع تو دیاجائےکہ آگے کیا ہوتا ہے؟ یہ نہیں کہ قبل ازوقت ہم ہی تردید کردیں گےکہ تم غلط کہتے ہو؟ایک بات تو یہ ہوئی کہ ہندو کا مطلب ان کے نزدیک ہندوستان کا رہنے والا ہے، لہذا ان کے خیال کے مطابق اس حدتک ہمیں اختلاف نہیں ۔
دوسری بات حضرت نے یہ ارشاد فرمائی کہ یہاں مذہب کا کوئی مسٸلہ نہیں ہے کہ ہم ہندو ہوگٸے یامذہبی اعتبار سے ہمیں ہندو کہنا چاہیے، یہ ان کا نظریہ اور ان کی اصطلاح ہے، ہم اپنے مذہب کو کیسے چھوڑسکتے ہیں؟اور مذہب پر کیسے مصالحت کرسکتے ہیں؟اور نہ ہی ہم مذہبی ہندو کہلائے جاسکتے ہیں؟اس نقطے میں ان سے ہمارا اتحاد نہیں ہوگا،
پھر اپنے بیان کے متعلق فرمایا کہ میری پوری گفتگو کا حاصل صرف اور صرف ہندو مسلم قربت ہےاور اسی پس منظر میں یہ بات میں نے کہی ہے؛ اس لیے کہ ستر سالوں سے اسی نفرت کی بنیاد پر ہزاروں فسادات ہوئے ہیں میں چاہتا ہوں اگر آریس یس واقعی اپنا نظریہ بدل کر آتی ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہے؟
اسی طرح بھاگوت جی کی گفتگو کے متعلق فرمایاایک آدمی اگر دس باتیں کہتا ہے اوردو باتیں ہمارے مطابق کہتا ہے اور آٹھ باتیں ہمارے مخالف کہتا ہے، تو دو میں ہم اتفاق کریں گے اور آٹھ میں مخالفت کریں گے۔
کسی نے کہا کہ بھاگوت جی نے فلاں جگہ سی اے اے کی تائید کی ہے ؟
تو حضرت نے فرمایااگر واقعی ایسا کہا ہے، تو ہم کل ہی اس معاملے میں ان کی مخالفت کریں گے ہم نے ان سے ادھار تھوڑی کھارکھا ہے کہ ہر بات میں انکی تائید کرتے پھریں ہم تو بس ہندو مسلم نفرت کو مٹانا چاہتے ہیں اور دونوں کی قربت کےلٸے کوشاں ہیں اسی لٸے یہ بات کہی ہے کہ ان کے اِس نقطے میں اتفاق ہے اور اُس نقطے میں اختلاف ہےـ
کسی نے کہا کہ بھاگوت جی نے کہیں یکساں سول کوڈ کی تاٸید ہے؟
حضرت نے فرمایا کہ یہ ثابت ہوجائے کہ کہاں کہا ہے اور کب کہاہے،تو ہم پرزور مخالفت کریں گے،اس لٸے کہ یہ ہمارا مذہبی مسٸلہ ہے،ہم شریعت کو چھوڑکر اور اپنا مذہبی تشخص چھوڑکر یکساں سول کوڈ ہرگز نہیں قبول کرسکتےـ
اسی طرح اپنے بنگلور کے خطاب کے دوران ہی فرمایا ہے کہ بی جے پی اگر واقعی آریس یس کے مذکورہ نظریات پر چل رہی ہے تو سی اے اے کا کالا قانون واپس لےـ
اس میں ایک بہت بڑی مصلحت پیش نظر ہے کہ اگر بی جے پی واقعی آریس یس کو اپنا روحانی پیشوا مانتی ہے،تو پھر یہ بات بی جے پی کو ضرور لینا چاہیےـ انہی کی بات ان کے حوالے کی گٸی ہے، اگر حکومت یہ بات نہیں لیتی اس کامطلب یہ ہے کہ بی جے پی آریس ایس کے نظریات پر بھی نہیں چل رہی ہے وللعاقل تکفیہ الاشارة ۔
اس سیاق وسباق سے بھی مولانا کا موقف واضح اور ان کے غلط نظریے کی تائید نہیں ہوتی ہے ۔پھر یہ بات بھی مولانا نے ارشاد فرمائی کہ بھائی میں نے جو کچھ کہا اپنے طور پر سوچ سمجھ کر کہا محض ہندو مسلم اتحاد کے مفاد میں کہا، اگر کسی کو میرے نظریے سے اختلاف ہے، تو ٹھیک ہے اس کو حق ہے، نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، ہمارا یہ خیال اور نظریہ ہے، مگر میرا مقصد تو یہی تھا اوریہی ہے،کوئی کچھ سمجھے اس کی اپنی بات ہے آر ایس ایس اگر اپنا نظریہ بدل کر اتحاد کا ہاتھ بڑھاتی ہے، تو ہمیں کوئی تکلف نہیں اور اگر نظریہ نہیں بدلتی ہے، تو ہمارا پہلے بھی اختلاف تھا،آج بھی رہےگا،مگر انھیں اپنی بات کہنے کے بعد موقع تو دیں، ہم ہی کیوں قبل ازوقت تردید کردیں ؟ جبکہ وہ خود سے نظریہ بدلنے کی بات کہہ رہے ہیں ـ
ان مذکورہ اقتباسات اور گفتگو کے بعد عرض ہے کہ کسی بھی موقف پر کلام کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ خود صاحب کلام سے اس کی وضاحت لی جائے، بالخصوص جبکہ متکلم کوئی بااثر اور صفت مقتدائیت کا حامل ہو،
لہذا جناب مولانا یاسر ندیم الواجدی صاحب ہوں یا کوئی دوسرے صاحب ہوں ! حضرت کی منشااور سیاق وسباق کے بعد ان کے کلام کا مطلب اور نظریہ یہ ہے اور فقہ ہی کا قاعدہ ہےالاصل فی الکلام الحقیقة اورواذا تعذرت الحقیقة یعدل الی المجازکے تحت آپ غور فرمائیں صاحبِ کلام کا مطلب اس کی حیثیتِ عرفی اور مزاج ومنہاج کے مطابق کلام کا مفہوم لیاجاتا ہے اور جس شرط کے ساتھ حضرت نے لفظِ ہندو کی تائید کی ہے،وہ بھی واضح ہے،آپ غور فرمالیں،باقی آپکو مزید انشراح کی ضرورت ہے،تو آپ ازخود حضرت مولانا سے بات کرلیں اور اطمینان حاصل کرلیں،یہ اور بہتر اور انسب رہےگا اس لٸے کہ ملک کے احوال اور نظریات پر آپ خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں ـ یہ چند سطور حاضر خدمت ہیں،امید کہ سنجیدگی سے غور فرمائیں گےـ

You may also like

Leave a Comment