’صحافت‘ مولانا ابوالکلام آزادکے لیے خاص اہمیت اور توجہ کی حامل رہی۔انھوںنے جس طرح شاعری، تصنیف وتالیف اورترجمہ نگاری کا آغاز بچپن میں ہی کردیا تھا،اسی طرح صحافت کے وسیع وعریض میدان میں بھی کمسنی کی عمرمیںقدم رکھ دیا تھا۔جب مولانا کی عمر محض بارہ سال چند ماہ تھی ،تووہ کلکتہ سے نکلنے والے ہفتہ وار ’’المصباح‘‘کے مدیر تھے ۔یہ اخبار جنوری۱۹۰۱ء میں منظرعام پرآیاتھا۔ ۰بعض حضرات کے نزدیک اس کی اشاعت کا عمل ۱۹۰۰ء میں شروع ہوالیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کی اشاعت۲۲؍ جنوری ۱۹۰۱ء کوعمل میں آئی۔کیوں کہ اس کا پہلا شمارہ عیدالفطر کے موقع پر شائع ہواتھا اوراُس سال عیدالفطر ماہ جنوری ۱۹۰۱ء کی ۲۲؍تاریخ کوواقع ہوئی تھی۔ یہ اخبارصرف تین چار مہینے ہی نکل پایا۔مولاناآزادکے ’’المصباح‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا آزاد اس کے مدیربننے سے پہلے ہی صحافت سے وابستہ ہوگئے تھے۔
جب مولاناآزاداپنا گلدستہ ’’نیرنگ عالم‘‘نکال رہے تھے تووہ اس دوران متعدد رسائل واخبارات مثلاً ’’اودھ اخبار‘‘ لکھنؤ ، ’’الپنچ ‘‘پٹنہ ، ’’دارالسلطنت کلکتہ‘‘ کامطالعہ کرتے تھے۔اسی کے ساتھ عربی جرائدجیسے ’’الہلال‘‘ اور ’’المنار‘‘بھی پڑھتے تھے اور ان سے کماحقہٗ استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔کیونکہ ان کی مادری زبان عربی تھی۔مولاناکی عربی اخبارات ورسائل تک رسائی اس لئے آسانی سے ہوجاتی تھی کہ مولاناکے والدکے پاس عرب دنیا کے معروف رسائل واخبارات آتے تھے ۔ کثرت کے سا تھ اردو،عربی اخبارات وجرائدکے مطالعہ کے سبب مولانا شاعری سے زیادہ صحافت میں دلچسپی لینے لگے اورپھرجلد ہی عملی طورپر اس سے باضابطہ وابستہ بھی ہوگئے۔’’المصباح‘‘ کے بعدمولانا آزادجس دوسرے پرچے سے جڑے وہ ’’احسن الاخبار‘‘ تھا جو ۱۹۰۲ء میں کلکتہ سے نکلنا شروع ہواتھا۔مولانا اس رسالے کی ترتیب واشاعت میں معاونت کرتے تھے ۔اسی کے ساتھ وہ عربی اخبارات کی خبروںومضامین کا ترجمہ کرکے’’ احسن الاخبار‘‘ میں شائع کرنے کی ذمہ داری بھی نبھاتے تھے ۔اگرچہ مولانا کی صحافت میں فی نفسہٖ گہرائی تھی،تاہم اس میں عربی کے مؤقرجرائد ورسائل کے مستقل مطالعے نے مزید چار چاند لگادئیے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ان کی تحریریں عام صحافیوں کی تحریروںسے ممتازنظرآنے لگیں۔قارئین کے درمیان بڑھتی مقبولیت اورمستند ومعروف قلمکاروںکے حوصلہ افزا تبصروں نے مولانا کے شوقِ صحافت میں روح پھونک دی۔ مولانا نے اپنے مضامین کو کسی محدود رسالے یا اخبار تک محدود نہ رکھا بلکہ انھیں متعدد اخبارات ورسائل کو اِرسال کیا ۔ اسی لیے چند سال کے عرصے میں ان کے جامع مقالات’’ لسان الصدق‘‘ کلکتہ، ’’خدنگ نظر‘‘لکھنؤ، ’’الندوہ‘‘ لکھنؤ ،’’ وکیل‘‘ امرتسر،’’دارالسلطنت ‘‘کلکتہ ،’’ماہنامہ مخزن‘‘ لاہوراورہفتہ وار’’الپنچ‘‘ کے زریں صفحات پرنظرآئے۔
اس اثناء میں مولانا آزادکو متعدد اخبارات ورسائل کی ادارت کا تجربہ بھی حاصل ہوا اور کئی اخبارات ورسائل انھوں نے خود بھی جاری کیے۔مثلاً جنوری۱۹۰۱ ء میں مولانانے’’المصباح‘‘نکالا۔۱۹۰۲ء میں ’’ احسن الاخبار‘‘ کلکتہ کی ادارت سنبھالی۔مارچ ۱۹۰۳ء میں ’’ خدنگ نظر‘‘ لکھنؤ کے معاون ایڈیٹر ہوئے۔۱۹۰۳ء کے رواں سال میں ہی ’’ایڈورڈ گزٹ‘‘ شاہجہاں پورکے بھی مدیربنے۔اور اسی سال ۲۰؍نومبر کو ماہنامہ ’’ لسان الصدق‘‘ جاری کیاجو مئی ۱۹۰۵ء تک شائع ہوتا رہا۔اکتوبر ۱۹۰۵ ء میں ماہنامہ’’ الندوہ‘‘ لکھنؤ کی سب ایڈیٹری کی ذمہ داری کو قبول کیا، لیکن ۱۹۰۶ء میں اس سے علیٰحدگی اختیار کرلی اور امرتسر سے شائع ہونے والے سہ روزہ اخبار’’ وکیل ‘‘کے مدیر بن گئے مگراسی سال اس کی ادارت کو خیرباد بھی کہہ دیا۔جنوری ۱۹۰۷ء میںمولانا کی ادارت میں ہفت روزہ ’’ دارالسلطنت‘‘ کا کلکتہ سے ازسرِنواجرا ہوا۔اس دوران ’’وکیل‘‘ امرتسر کے مالک شیخ غلام محمد کا مسلسل اصرار رہا۔لہذا ایک بارپھر ’’وکیل ‘‘ کی ادارت قبول کرلی مگراخبارکی پالیسیوں سے اختلاف کے باعث اس سے دوبارہ بھی زیادہ مدت تک وابستہ نہ رہ سکے اور بالآخراگست ۱۹۰۸ ء میں اخبار سے الگ ہوگئے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت اس وقت بام عروج کو پہنچ گئی جب وہ ہفت روزہ اخبار ’’الہلال ‘‘ جاری کرنے میں کامیاب ہوگئے۔الہلال کاپہلا شمارہ ۱۳؍جولائی ۱۹۱۲ء کو منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔کتابت،طباعت اور مضامین ومواد کے لحاظ سے اخبار کا معیاربہت بلند تھا ،اس لیے مشاہیر علماوادبا اور قدآورشخصیات نے اس کی اشاعت پر خوشی واطمینان کا اظہار کیااورقارئین نے اسے بے حد پسند کیا۔چند ماہ کے اندر الہلال کی اشاعت ہزاروںتک پہنچ گئی۔اپنی خواہش کے مطابق ’’الہلال‘‘ کو منظرعام پرلانے میں مولانا آزاد کوکتنی محنت و جدوجہد کرنی پڑی اور وہ اس کے لیے کتنے تڑپے وبے قراررہے۔پہلے ہی شمارے میں اس کی بابت یوں لکھتے ہیں:
’’ ۱۹۰۶ء کے موسم سرما کی آخری راتیں تھیں جب امرتسر میں میری چشم بیداری نے ایک خواب دیکھا۔انسان کے ارادوں اور منصوبوںکو جب تک ذہن وتخیل میں ہیں عالم بیداری کا ایک خواب ہی سمجھناچاہئے ۔کامل چھ برس اس کی تعبیر کی عشق آمیز جستجو میں صرف ہوگئے ، امیدوں کی خلش اور ولولوں کی شورش نے ہمیشہ مضطرب رکھا اور یاس وقنوط کاہجوم بارہا حوصلہ وعزم پر غالب آگیا لیکن الحمدللہ کہ ارادے کا استحکام اور توفیق الہی کا اعتماد ہر حال میں طمانیت بخش تھا، یہاںتک کہ آج اس خواب عزیز کی تعبیر عالم وجود میں پیش نظرہے‘‘۔ ( الہلال: ۱۳جولائی ۱۹۱۲)
’’الہلال ‘‘کی اشاعت کے پیچھے عظیم جذبات ومقاصد کارفرماتھے۔مولاناآزاد اس کے ذریعے ایک طرف ملک وقوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے تو دوسری طرف دین کی اشاعت کا مقصد بھی ان کے پیش نظرتھا۔جیسا کہ خود لکھتے ہیں:
’’ میری حالت الحمدللہ کہ عام حالات سے مختلف ہے۔ میں اپنے تمام کاموں کو ایک خالص دینی دعوت کی حیثیت سے انجام دیتا ہوںاور میرے پاس احکام دینی کے قوانین کی ایک کتاب موجود ہے پس میری نظر ہمیشہ اس پر رہتی ہے کہ خداکے ساتھ میرا رشتہ کیسا ہے؟‘‘ ۔ ( الہلال :۲۴؍ ستمبر ۱۹۱۳،جلد ۳،شمارہ ۱۳)
مولانا آزاد صحافت برائے خدمت پر یقین رکھتے تھے اور صحافت برائے تجارت کے قائل نہ تھے۔ دراصل مولاناکے نزدیک انسانی زندگی میں دولت کی کوئی وقعت نہ تھی ۔اس لیے انھوںنے کبھی دولت جمع کرنے کی قطعا ً کوشش نہ کی، حتی کہ اس کے مواقع ہونے کے باوجود بیزاری اختیار کی۔اس کااندازہ ۲۱؍جنوری کے شمارے میںشائع ان کی تحریر کے مندرجہ ذیل اقتباس سے کیا جاسکتا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ میرے آگے دنیوی عزت کے حصول اور دولت وجاہ سے مالامال ہونے کی بہت سی راہیں آئیں اور اگر میں صرف تھوڑی سی غیر محسوس تبدیلی بھی اپنی روش میں کردیتا تو حق پرستی کے دعووں کو باقی رکھ کر بھی دنیا حاصل کرسکتا تھا،پر خدانے میرے دل کو ہمیشہ اپنی قدوس انگلیوں میںاس طرح رکھا کہ چند لمحوں کے فانی تزلزل کو مستثنیٰ کردینے کے بعد میں اس کے تخت جلال وعظمت کی قسم کھاسکتا ہوں کہ میں نے کبھی اپنے ذاتی فائدے کے لیے ایک رائی برابر بھی اعراض کرنا پسند نہیں کیا‘‘۔ (الہلال:شذرات، ۲۱؍جنوری ۱۹۱۴ ، جلد :نمبر ۴، شمارہ :۳)
مولانا کی صحافت خالص تھی ،اس میں کسی طرح کے مفاد کی کوئی آمیزش نہ تھی۔اگر مولانا چاہتے تویقینا الہلال کے واسطے سے خطیر رقم جمع کرسکتے تھے کیوںکہ کتنے ہی اہلِ ثروت حضرات مولانا کے ایک اشارے پر روپوں کے ڈھیر لگاسکتے تھے، لیکن مولانا نے اسے قطعا ً گوارہ نہ کیا ، یہاںتک کہ الہلال کی خستہ مالی حالت کے باوجود تعاون کی طرف نظرنہ کی،ہاں اخراجات کے بارِگراں کو متوازن کرنے کے لیے قارئین کی تعداد میں اضافے کی ضرور کوشش کی۔آڑے سے آڑے وقت میں مولانا آزاد نے ثابت کردیا کہ وہ سچے صحافی ہیں،تاجرنہیں ۔ان کامقصد ملک وملت کی خدمت کرناہے، دولت وجاہ کمانا نہیں۔
’الہلال‘ اگرچہ بہت طویل مدت تک جاری نہ رہ سکا ،تاہم انتہائی قلیل مدت میں اس نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے اور صحافت کا جو معیار پیش کیا، اُردوصحافت اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصرہے۔الہلال کے بعد سے آج تک ہزاروںاخبارات ورسائل شائع ہوچکے ہیں اور ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے مگر الہلال اپنی زبان و مواد اور معیار میں سب سے نمایاں نظرآتا ہے۔مالک رام لکھتے ہیں:
’’ الہلال کئی لحاظ سے عہد آفریں ثابت ہوا۔اس شان کا کوئی ہفتہ وار پرچہ اردومیں شائع نہیں ہوا تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد بھی جوپرچے نکلے، ان کے سامنے نمونہ ’’الہلال‘‘ کا ہی رہا۔ہر ایک کی یہی خواہش رہی کہ شکل وصورت، مضامین کی ترتیب، اداریے، تصاویر وغیرہ میں ’’ الہلال‘‘ کا تتبع کریں‘‘۔(کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں، از مالک رام ، صفحہ: ۶۱)
الہلال کا پہلا شمارہ ۱۳؍جولائی ۱۹۱۲ء کوسرزمین کلکتہ سے نکلا اور اس کا آخری شمارہ ۱۸؍نومبر ۱۹۱۴ء کو شائع ہوا ۔اس کے بند ہونے کی وجہ حکومت کی جانب سے طلب کی گئی ضمانت تھی ۔ابتداء اًالہلال سے دوہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی جسے ادا کردیا گیامگر اس کے بعد مزید دس ہزار روپے کی ضمانت مانگی گئی۔اخباراتنی بڑی رقم کی ادائیگی کا متحمل نہیں تھا،اس لیے لاچار ومجبورہوکراسے بند کرناپڑا ۔بظاہر تویہ اخبار ضمانت کی عدم ادائیگی کے سبب بند ہوالیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت اسے اس لیے بندکراناچاہتی تھی کہ اس کے ذریعے تحریکِ آزادی کوفروغ اور ہندومسلم اتحاد کی فضا سازگارہورہی تھی ۔ اربابِ اقتدار کو خطرہ تھا کہ اگر الہلال جاری رہا تو ان کی پالیسی’ لڑائو اور حکومت کرو‘دم توڑدے گی اور پھر انھیں ہندوستان چھوڑکر جانا پڑے گا۔ڈاکٹر شفیع ایوب رقطرازہیں:
’’ ۱۹۱۴ء میں جب پہلی جنگ عظیم چھڑگئی تو الہلال نے انتہائی بے خوفی سے سامراج کی بدعنوانی کی قلعی کھولنی شروع کردی۔نہ صرف حکومت کے سنسر کا محکمہ بلکہ انگریز دوست حلقے تلملااٹھے۔الہ آباد سے اس زمانے میں انگریزی اخبار’’پانیئر‘‘ نکلتا تھا، جو مشہور ومقبول بھی تھا اور حکومت نواز بھی۔پانیئر نے الہلال کے خلاف ایک زبردست اداریہ لکھا اور حکومت کو الہلال کی تحریروں کے خلاف کارروائی کرانے پر اکسایا۔حکومت نے جب مزید ضمانت طلب کی تو مولانا نے طے کیا کہ اب اخبار بھلے ہی بند ہوجائے لیکن مزید ضمانت کی رقم ادانہیں کریں گے ،لہذا انھوںنے الہلال بند کردیا‘‘۔(تحریک آزادی اور الہلال ، از : ڈاکٹر شفیع ایوب ، ص: ۳۷۔۳۸، )
الہلال کے بند ہونے کے ایک سال بعد ۱۹۱۵ء میںمولانا ابوالکلام آزادنے ایک دوسرا اخبار ’’البلاغ‘‘ جاری کیا۔ٹائٹل کے علاوہ یہ اخبار ۱۸؍صفحات پر مشتمل تھا۔مولانا آزاد ’’البلاغ‘‘ کوبھی ہفتہ وار نکالنا چاہتے تھے مگر انھیں پہلے شمارے کی اشاعت کے دوران محسوس ہوا کہ اسے ہفتہ وار نکالنا مشکل ہوگا۔چنانچہ مہینے میں دوبار شائع کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ مولاناآزاد کی خواہش تھی کہ ’البلاغ‘الہلال کی طرح معیاری ہواور پابندی سے نکلتا رہے۔ مالک رام لکھتے ہیں:
’’ کوئی سال بھر کے التوا کے بعد انھوںنے دوسراپرچہ ۱۲؍نومبر ۱۹۱۵ء کو ’’البلاغ‘‘ جاری کردیا، صرف نام کا فرق تھا، ورنہ دونوں کی صوری اور معنوی حیثیت میں کوئی فرق نہیں تھا‘‘۔ (کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں ، از : مالک رام ، ص: ۶۰)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا نے’البلاغ‘کی شکل میں’’ الہلال‘‘ ہی نکالا تھا۔’الہلال‘ چونکہ ضمانت کے سبب بندہوا تھا ، اس لیے اسی نام سے نکالنے کے لئے ضمانت کی ادائیگی اور دیگر کارروائیوں کو انجام دینا پڑتا ۔ان سب چیزوں سے بچنے کے لیے مولانا نے ’الہلال‘ کو ’البلاغ‘ کے نام سے جاری کردیا۔اسی لیے ماہرین نے اس ’البلاغ ‘ کے اجراء کو ’الہلال ‘کے دوسرے دور کا آغاز کہا۔لیکن مولانا آزاد ’البلاغ‘ کو اپنی مصروفیات اور متعدد مسائل کے سبب زیادہ وقت نہ دے سکے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ’ البلاغ‘ کی اشاعت میں’الہلال‘ جیسی پابندی کو برقرار نہ رکھاجاسکااور کئی کئی شمارے ایک ساتھ نکالنے پڑے ۔مثال کے طورپر شمارہ ۱۳؍۱۴، شمارہ ۱۵،۱۶،۱۷، ایک ساتھ چھاپے گئے۔
انگریزی حکومت مولانا ابوالکلام آزاد کی سرگرمیوں پر گہری نظررکھتی تھی۔ ان کی صحافت وخطابت نے انگریزی افسران کے ہوش اڑارکھے تھے۔اس لیے حکومت کو’’الہلال ‘‘کی طرح ’’البلاغ‘‘ بھی برداشت نہ تھا ۔چنانچہ مولانا پر یہ الزام لگایا کہ وہ ملک معظم کے دشمنوں سے سازباز رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ بنگال نے ڈیفنس ایکٹ کی دفعہ ۳ کی بنیادپر انہیں صوبہ بنگال سے باہر نکل جانے کا حکم جاری کردیا۔اس طرح حکومت ’’البلاغ‘‘ کو بند کرانے میں کامیاب ہوگئی۔’البلاغ‘نے تقریباً پانچ مہینے کی عمر پائی ۔اس مدت میں اس کے ۱۱؍پرچوں میں ۱۷؍شمارے شائع ہوئے۔
الہلال کی اشاعت کے دوران مولاناآزاد ایک ماہنامہ نکالنے کا بھی ارادہ رکھتے تھے جس کانام ’’البصائر‘‘ تجویز کیا گیاتھا ، اس کی مکمل منصوبہ بندی کی جاچکی تھی، اس کی نوعیت، اس کا معیار، اس کے عنوانات ،اشاعت کا مہینہ، ضخامت ، سائز،قیمت تقریباً سب کچھ طے ہوچکا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس ماہنامہ کی اشاعت کا’ الہلال‘ کے متعدد شماروںمیں اعلان بھی کیا گیا تھا۔اس اعلان میں’’ البصائر ‘‘کی جن خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھاوہ بلاشک وشبہ اہمیت وعظمت کی حامل تھیں ۔اگروہ رسالہ اُن خصوصیات کے ساتھ ُافق صحافت پر جلوہ گر ہوجاتا تو ایسی علمی دستاویزکی شکل اختیار کرلیتا جس پر اہل علم وبصیرت سر دھنتے رہ جاتے اور اس کی نظیر نہ صرف اس زمانے میں بلکہ اس کے بعد بھی ملنی مشکل ہوتی۔’’البصائر‘‘کی اشاعت کے بارے میں دیا گیا اعلان اس طرح تھا:
’’ایک ماہوار دینی وعلمی مجلہ جس کا اعلان پہلے ’’ البیان‘‘ کے نام سے کیا گیا تھا، وسط شوال سے شائع ہونا شروع ہوجائے گا، ضخامت کم از کم ۶۴ صفحہ ، قیمت سالانہ چارروپیہ مع محصول ، خریداران الہلال سے ۳؍روپیہ، اس کا اصلی موضوع یہ ہوگا کہ قرآن حکیم اور اس کے متعلق تمام علوم ومعارف پر تحقیقات کا ایک نیا ذخیرہ فراہم کرے اور ان کے موانع ومشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرے جن کی وجہ سے موجودہ طبقہ روز بروز تعلیمات قرآنیہ سے ناآشنا ہوتا جاتا ہے۔
اس کے ذیل میں علوم اسلامیہ کا احیا ،تاریخ نبوۃ وصحابہ وتابعین کی ترویج، آثار سلف کی تدوین اور اردو زبان میں علوم مفیدہ حدیثہ کے تراجم اور جرائد ومجلات یورپ ومصر پر نقد واقتباس بھی ہوگا، تاہم یہ امور ضمنی ہونگے اور اصلی سعی یہ ہوگی کہ رسالے کے ہر باب میں قرآن حکیم کے علوم ومعارف کا ذخیرہ فراہم کرے ۔ مثلا تفسیر کے باب میں تفسیر ہوگی، حدیث کے باب میں احادیث سے متعلق تفسیر پر بحث کی جائے گی۔آثار صحابہ کے تحت میں تفسیر صحابہ کی تحقیق ، تاریخ کے ذیل میں قرآن کریم کی تنزیل وترتیب واشاعت کی تاریخ ، علوم کے نتیجے میں علوم قرآنیہ کے مباحث اور اس طرح دیگر ابواب میں بھی وہ موضوع وحید پیش نظررہے گا‘‘۔ (الہلال ،۳۰جولائی ، ۱۹۱۳، شمارہ : ۵ ، جلد ۳،ص: ۲)
’’البصائر ‘‘کی اردواشاعت کے ساتھ مولانا آزادنے اس کا عربی ایڈیشن بھی نکالنے کی منصوبہ بندی کی تھی ۔جیساکہ مندرجہ ذیل اعلان سے اندازہ ہوتا ہے:
’’القسم العربی یعنی البصائر کا عربی ایڈیشن جو وسط شوال سے شائع ہونا شروع ہوجائے گا اور جس کا مقصد وحید جامعہ ٔ اسلامیہ، احیائے لغۃ اسلامیہ اور ممالک اسلامیہ کے لئے مسلمانان ہند کے جذبات وخیالات کی ترجمانی ہے‘‘ ۔ (الہلال : ۶؍اگست ۱۹۱۳، جلد : ۳، شمارہ: ۶)
مولانا آزاد ۸؍جولائی ۱۹۱۶ سے ۲۷ ؍دسمبر ۱۹۱۹ تک رانچی میں نظربند رہے۔رہائی ملنے کے بعد مولانا آزاد یکم جنوری ۱۹۲۰ کو کلکتہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد پھرجدوجہدِ آزادی سے متعلق مصروفیات میں منہمک ہوگئے، لیکن صحافت کی جانب ان کی طبیعت کامیلان پھر بھی باقی رہا اور وہ اس دوران بھی اخبار کی اشاعت کے بارے میں غوروفکر کرتے رہے ۔
ان کی اسی فکر اورتڑپ کانتیجہ ہفتہ وار ’’پیغام ‘‘ کی شکل میں ایک بار پھر سامنا آیا۔اس کا پہلا شمارہ ۲۳؍ستمبر ۱۹۲۱ء میں کلکتہ سے منظر عام پرآیا۔ مولانانے اس اخبار کی نگرانی کی، البتہ اپنی مشغولیات کے سبب ترتیب وتدوین کی ذمہ داری مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کے سپرد کردی۔جلد ہی اس اخبار کو خاصی مقبولیت حاصل ہوگئی اور اس کی اشاعت ۱۰ہزار تک پہنچ گئی۔قارئین اس اخبار کو پڑھنے کے لئے کتنے مشتاق رہتے تھے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس کی قیمت دوآنہ فی شمارہ تھی لیکن کبھی کبھی وہ ایک ایک روپے میں فروخت ہو جاتااور ناشر قارئین کا مطالبہ پورا نہیں کرپاتاتھا۔حکومت روز افزوں ترقی کرتے ہوئے اس اخبار کو آخر کیسے برداشت کرسکتی تھی، اس لیے اسے بند کرانے کے لئے سرکار نے منصوبہ بندی شروع کردی ۔چنانچہ ایڈیٹر عبدالرزاق ملیح آبادی کو گرفتار کیا گیا اور ۱۰؍دسمبر ۱۹۲۱ کو خود مولانا آزاد کی گرفتاری بھی عمل میں آگئی۔اس کے بعدیہ اخباربند ہوگیا۔مجموعی طورپر یہ اخبار صرف ساڑھے تین مہینے ہی نکل سکا۔مولانا آزاد کی سرپرستی میں ایک عربی زبان کا رسالہ’’ الجامعہ‘‘ ۱؍اپریل ۱۹۲۳ کو شائع ہوا۔مولانا آزاد اس رسالے کے مضامین ومواد پر گہری نظررکھتے تھے ،البتہ اس رسالے کی ترتیب وتزئین کی ذمہ داری کے فرائض مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کے سپردتھے۔اس رسالے نے ایک سال کی عمر پائی اور مارچ ۱۹۲۴ء کے شمارے کے بعد بند ہوگیا۔(۲)
جوں جوں وقت آگے بڑھ رہا تھا، مولانا آزادی سیاسی وتحریکی سرگرمیوںمیں زیادہ مصروف ہوتے جارہے تھے اور کسی چیز کے لیے بھی وقت نکال پانا مشکل ہوتاتھامگرچوںکہ مولاناکارشتہ صحافت کے ساتھ بہت گہراتھااور صحافت گویا کہ ان کے خون میں شامل تھی، اس لیے ایک بار پھراخبار نکالنے کا جذبہ ان کے سینے میں کروٹیں بدلنے لگا ، اس باران کا رُجحان روزنامہ نکالنے کی طرف ہوا،مگرپھر بعض وجوہات کی بناپریہ ارادہ تبدیل کردیا اور الہلال ہی کو دوبارہ جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا۔عبدالقوی دسنوی لکھتے ہیں:
’’ آخر ۱۹۲۷ء پہنچتے پہنچتے ایک بار ہمت کرکے روزانہ نکالنے کا فیصلہ کرلیا لیکن معلوم نہیں کن وجوہ سے وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل نہ کرسکے اور روزانہ اخبار کی جگہ کلکتہ سے ہفتہ وار ’’الہلال‘‘ نکالنے پر آمادہ ہوگئے‘‘۔ (حیات ابوالکلام آزاد: از عبدالقوی دسنوی،صفحہ: ۵۸۵۔۵۸۶)
مالک رام نے اردوروزنامہ نہ نکالنے کی وجہ وسائل وسرمایہ کی کمی کو قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پیغام ‘کے بند ہوجانے کے بعد سیاسی سرگرمیوں نے انھیں کسی اور موضوع کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہ دی لیکن وہ صحافت سے بے خبر نہیں رہے، کچھ دن وہ ایک روزنامہ جاری کرنے کے منصوبے پربھی غورکرتے رہے، لیکن اس کے لیے جتنے سرمایے اور اہتمام اور لائولشکر کی ضرورت ہے اس کاانتظام آسان نہیں تھا۔آخر کار انھوںنے روزنامے کا خیال چھوڑدیا اور الہلال ہی کو دوبارہ زندہ کرنے کی ٹھان لی‘‘۔ (کچھ ابوالکلام آزادکے بارے میں ، از مالک رام: ص: ۶۴)
الہلال کو از سرِنونکالنے کی کوشش کامیاب ہوئی اورایک دہائی سے زائد عرصہ کے وقفے کے بعد اس کا پہلاشمارہ ۱۰؍جون ۱۹۲۷ء کو مطلعِ صحافت پر طلوع ہوگیا۔مولانا آزادکی خواہش تھی کہ الہلال اسی آب وتاب کے ساتھ نکلے تاکہ مقاصدِعظیمہ کاحصول اور طویل وقفے کی تلافی ممکن ہوسکے۔ مولانا کے جوش وجذبات کے تلاطم کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے کیاجاسکتاہے:
’’ الہلال کے تیسرے دور کا پہلا پرچہ شائع کرتے ہوئے مقتضائے وقت نے فکروتصور کے گوشے میں جنبش پیداکردی۔۔۔۔۔جی چاہتا ہے گیارہ سال کی خاموشی کی تلافی ایک ہی مجلس میں کردیجئے لیکن مشکل یہ ہے کہ طبیعتیں طوالت بیان کی متحمل نہیں اور رشتۂ بیان کا یہ حال ہے کہ ایک مرتبہ کھل جائے تو پھر جلد لپیٹا نہیں جاسکتا‘‘۔ (الہلال: ۱۰؍جون۱۹۹۷ء)
اس مرتبہ’’ الہلال‘‘ کی ترتیب وتدوین کی ذمہ داری مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کے سپرد کی گئی۔ اس نام کے ساتھ یہ الہلال کی دوسری بار اشاعت تھی، لیکن ۱۹۱۵ء میں مولانا آزادکے ذریعے نکلنے والے ’’البلاغ‘‘ کو بھی الہلال کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے ۔چنانچہ اس اعتبار سے’’ الہلال ‘‘کی ۱۹۲۷ء کی اشاعت کو الہلال کا تیسرا دور کہاجاسکتاہے، جیساکہ خود مولانا آزاد نے مذکورہ اقتباس میں یہی لکھا۔
اول اور دوم کے ’الہلال‘ اور آخری دور کے’ الہلال‘ میں صوری اعتبار سے بڑا فرق تھا۔ایک یہ کہ اس مرتبہ الہلال کا پہلے جیسا ادارۂ تحریر نہ تھا،صرف مولانا عبدالرزاق تھے۔ دوسری طرف مولانا آزاد خود اپنی گوناگوں مصروفیات کے سبب زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے،یہاںتک کہ بعض اوقات وہ اس کے لیے خودبھی نہیں لکھ پاتے تھے، حالاںکہ جب الہلال کی اشاعت پہلی بار عمل میں آئی تھی تو مولاناآزاد اس کو پورا وقت دیتے تھے اورایڈیٹوریل میں ہندوستان کے نامور مشاہیر قلم کار تھے۔چنانچہ اس بار قارئین میں اس کوپہلی جیسی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی اور الہلال ۹؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو بند ہوگیا ، اس کے بعد پھر کبھی یہ اخبار نہیں نکل سکا۔
نوسال کے بعد۱۹۳۶ء میں قددانوںکے اصرار پر مولانا آزادنے ’’الہلال‘‘ کو جاری کرنے کاپھر من بنایا،البتہ اس بارانھوںنے اسے ہفتہ وار کی بجائے ماہانہ شکل میں نکالنے کی منصوبہ بندی کی۔ایک سال کے بجٹ کا تخمینہ بھی لگالیا گیاتھا لیکن اس کا انتظام نہ ہوسکااورمولانا آزاد کی ماہانہ’الہلال‘ نکالنے کی خواہش سینے میں ہی دبی رہ گئی۔
’الہلال‘ مجموعی طورپر تین ادوار میں نکلا۔اس کا پہلا دور ۱۳؍جولائی ۱۹۱۲ء تا۱۸؍نومبر۱۹۱۴ء رہا۔دوسرا دور جس میں اس کا نام ’البلاغ‘ تھا ،۱۲؍نومبر ۱۹۱۵ء تا۳۱؍مارچ ۱۹۱۶ء رہا ، تیسرااور آخری دور ۱۰؍جون ۱۹۲۷ء سے شروع ہوا اور۹؍دسمبر ۱۹۲۷ء میں ختم ہوگیا۔’الہلال‘ کے ۱۳۵شمارے شائع ہوئے، چونکہ’ البلاغ‘ کو بھی الہلال میں شامل کیا گیا ہے، اس لیے اس کے ۱۱؍شماروںکو شامل کرنے کے بعد ’’الہلال‘‘ کے مجموعی شماروںکی تعداد ۱۴۶ہوتی ہے۔
مولانا آزادکی صحافت کے مقام کا تعین کرنے کے لیے ’الہلال‘ کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔کیوںکہ جس قدر صحافت کے جوہر مولاناآزادنے اس کے صفحات پر دکھائے ہیں ، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ۔اگرچہ’ الہلال‘ مجموعی طورپر تقریباً تین سال شائع ہوالیکن اتنے قلیل عرصے میں اس نے کئی سطح پر قابل رشک کارنامے انجام دیے ۔دعوت دین جو مولانا آزاد کا اولین مقصد تھا،اسے الہلال نے بڑے دلکش اور پُرجوش انداز میں پیش کیا۔الہلال نے موثر کن انداز میں آزادی کے لئے بھی ماحول سازگارکیا۔ الہلال نے اردوصحافت کو ایک معیار بخشااور اسے عروج تک پہنچایا۔الہلال نے صحافت کے ساتھ اردوادب کی بھی خدمت کی۔ مالک رام اپنی کتاب’’کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں‘‘ رقمطراز ہیں:
’’ صحافت کو بوجوہ ادب میں شمار نہیں کیاجاتا، لیکن الہلال کے کئی مضمون ادب میں بھی بلند مقام پانے کے مستحق ہیں،انہوںنے جومقالے مسلم یونیورسٹی علیگڑھ سے متعلق لکھے تھے اور جن میں طنزومزاح کا عنصر نمایاں ہے۔وہ ادبی لحاظ سے بہت قیمتی اور اہم ہیں‘‘۔ (ص: ۶۱۔۶۲)
الہلال کے بعد مولانا آزاد سیاسی سرگرمیوں میں بہت زیادہ مصروف ہونے کے سبب کوئی اور اخبار نہیں نکال سکے۔گویاکہ ادب وصحافت سے ان کا تعلق منقطع ہوگیا لیکن ان کے قلم کی تازگی ہمیشہ باقی رہی۔