Home نقدوتبصرہ مولانا عبدالسمیع جعفری صادق پوری رحمہ اﷲ حیات و خدمات: ایک تجزیاتی مطالعہ-ڈاکٹرآفتاب احمد منیری

مولانا عبدالسمیع جعفری صادق پوری رحمہ اﷲ حیات و خدمات: ایک تجزیاتی مطالعہ-ڈاکٹرآفتاب احمد منیری

by قندیل

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
رابطہ:9319663297

اندھی مادیت کے اس دور میں جہاں معاشرتی برتری اور کامیابی کا معیارمادی ترقی قرار پائی ہے، قوم مسلم بھی اپنا دینی شعار ترک کرکے اغیار کے راستے پر چل پڑی ہے۔ اس کامنطقی انجام یہ ہے کہ امن و سلامتی اور دینی و دنیوی رفعتوں سے یہ امّت محروم ہوچکی ہے۔ امّتِ مسلمہ کو اس محرومی سے نکالنے کے لیے وطن عزیز میں جن علمائے اسلام نے اصلاح و تبلیغ کا پرچم بلند کیا ان میں علمائے صادق پور کا نام آب زر سے تحریر کیے جانے کے لائق ہے۔خاندان صادق پور کے علماء کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ جہاں ایک طرف انہوں نے اصلاح امت کا فریضہ انجام دیا وہیں دوسری جانب جدوجہد آزادی کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی جانوںکا نذرانہ بھی پیش کیا۔ زیرِ تبصرہ کتاب اسی خانوادۂ صادق پور کے ایک عظیم فرزند حضرت مولانا عبدالسمیع صادق پوری رحمہ اﷲ کی حیات وخدمات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے مصنف انظار احمد صادقؔ (استاذ الحرا پبلک اسکول شریف کالونی پٹنہ)ہیں۔ جنہیں مولانا کے شاگرد اور ان کے قلمی معاون کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ ان کے ساتھ گزارنے کا شرف حاصل ہوا۔ مصنف نے ان بیش قیمتی لمحات کو غنیمت تصور کرتے ہوئے ایک عالم باعمل کی زندگی کے ایسے متعدد واقعات قلم بند کیے ہیں جو نسل نو کے لیے چراغ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس احساس کے ساتھ کچھ واقعات یہاں پیش کیے جاتے ہیںکہ زندہ قومیں اپنے اسلاف کے کارناموں نیز ان کی قربانیوں کو یاد رکھتی ہیں۔
مصنف نے جس عظیم خانوادہ کے بطل جلیل مولانا عبدالسمیع صادقپوری رحمہ اﷲ کی داستانِ حیات بیان کی ہے۔ اس خاندان نے ملک کی خاطر ایسی بے شمار قربانیاں پیش کی ہے کہ جس کی دوسری مثال تاریخ ہند میں نہیں ملتی۔ اس سیاق میں ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے یہ الفاظ سند کی حیثیت رکھتے ہیں:
’’ اگر جاں نثاری، ایثار وقربانی اور ہمت و جوانمردی کے وہ سارے کارنامے جو اس ملک کے جہاد حریت اور قومی تاریخ سے متعلق ہیں، ایک پلڑے میں رکھے جائیں اور اہل صادق پور کے کارنامے اور قربانیاں ایک دوسرے پلڑے میں ڈال دی جائیں تو صادق پوری علماء کا پلڑابھاری ہوگا۔ تحریک مجاہدین صادقپوری خاندان کے دم قدم سے ڈیڑھ سو سال تک انگریزوں کے خلاف نبرد آزمارہی۔ جائداد کی قرقیوں اور مال ومتاع کی ضبطی کے مرحلے بھی اس عظیم خاندان کو پیش آئے۔ ‘‘(ص:55)
اس قدر عظیم قربانیوں کے بعد بھی خاندان صادق پور کی خدمات کا کبھی اعتراف نہیں کیاگیا۔ اس حوالے سے حسرت وتاسف کا اظہار کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
’’ تعصب کی عنیک لگاکر آزادی کی تاریخ لکھنے والے بعض مورخین نے انصاف سے کام نہیں لیا اور جس رتبے کا حامل یہ خاندان تھا اسے وہ رتبہ نہیں دے سکے۔ بہارکی راجدھانی پٹنہ کے گنگا پل کے پورب مینار بازار کے پاس واقع محلہ کا نام ’’ صادق پور ‘‘ ہے جو کبھی مجاہدین کا مرکز ہواکرتا تھا۔ اب اس کی ساری نشانیاں مٹ چکی ہیں، البتہ مجاہدین کے دور کی ایک جامع مسجد اب بھی موجود ہے جو ہمیشہ دشمنوں کی نگاہ میں کھٹکتی رہتی ہے۔
خاندان صادق پور کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے بنائی گئی میونسپل کا رپوریشن کی عمارت بھی موجود ہے۔‘‘(صفحہ ۶۹)
اسی تاریخی گھرانے میں مولانا عبدالسمیع جعفری صادق پوری کی پیدائش ہوئی۔ بقول مصنف: ’’ ان کی تاریخ پیدائش جو انہوں نے خود اپنے قلم سے لکھی ہوئی ہے وہ کاغذ میرے پاس ان کے دستخط کے ساتھ موجود ہے ،وہ رقم طراز ہیں: ’’ تاریخ پیدائش ۱۹۳۶ء ماہ نومبر غالباً ۹تاریخ تھی۔‘‘
یہ قانون فطرت ہے کہ جنہیں بلندیوں کا سفر مطلوب ہوتا ہے، انہیں مصائب و مشکلات کی خاردار وادیوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ مولانا کی زندگی بھی کچھ اسی انداز سے بسر ہوئی، آپ کی پیدائش کے محض ایک ہفتے بعد ہی والدہ محترمہ داغ مفارقت دے گئیں۔ آپ کے والد گرامی مولانا عبدالخیر جعفری رحمہ اﷲکے دوست کی اہلیہ نے آپ کو دودھ پلایا۔ اس سلسلے میں مولانا کا احوال واقعی نقل کرتے ہوئے انظار احمد صادق تحریرکرتے ہیں:
’’ بن ماں کے ایک بچے کا بچپن کیسے گزرتا ہوگا، یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔ باوجود اس کے آپ اپنی چچی کو ماں سمجھ رہے تھے۔ مگر جب آپ اپنی عمر کے آٹھ سال کو پہنچے تو آپ پر یہ راز کھلا کہ آپ جس چچی کو اپنی ماں سمجھ رہے تھے، وہ آپ کی ماں نہیں ، آپ کی چچی ہیں۔ پھر وہیں سے آپ کی زندگی میں ایک نیاانقلاب شروع ہوا۔‘‘ (ص:70)
اپنے بزرگوں کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ سے فراغت کے بعد آپ نے ملک کے مشہور دینی ادارہ دارالعلوم ندوۃالعماء لکھنؤ میں داخلہ لیا۔ یہاں مولانا ابوالحسن علی ندوی اور رابع حسنیٰ ندوی جیسی نابغۂ روزگار شخصیات سے شرف تلمذ حاصل کرنے کے بعد چند سال اپنے مادرِ علمی مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔ بعدازاں والد محترم کی اجازت سے سوئے حرم روانہ ہوئے اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں کافی تگ و دو کے بعد داخلہ لیا۔
دیارِ حرم سے ہی مولانا عبدالسمیع صادق پوری کی علمی رفعتوں کا سفر شروع ہوتا ہے، جامعہ اسلامیہ سے امتیازی نمبرات کے ساتھ فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ کو حکومت سعودی عرب نے اپنا مذہبی سفیر بنا کر نائجیریہ روانہ کیا۔ وہاں اپنے فرائض منصبی خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرنے کے بعد آپ واپس بلاد عرب لوٹ آئے۔ نائجیریہ سے مکہ مکرمہ لوٹنے کے بعد آپ کا تقرر جامعہ ام القریٰ کی سنٹرل لائبریری میں ہوگیا۔
مصنف کے بیان کے مطابق جامعہ ام القریٰ کی ملازمت کا زمانہ مولانا کی زندگی کا سنہری دور تھا
’’ بلادِ توحید میں صبح و شام گزرتی تھی، خانۂ کعبہ میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوتا تھا، جتنی بار خانہ کعبہ پر نگاہ پڑتی تھی ایمان میں تازگی پیدا ہوجاتی تھی۔‘‘ (ص:116)
لیکن یہ سنہری دور جلد ہی اختتام کو پہنچ گیا، ام القریٰ سنٹرل لائبریری میں آپ کی ملازمت کا آٹھواں سال تھا کہ آپ کے پاس امارت اہلِ حدیث پٹنہ اور جامعہ اصلاحیہ سلفیہ پٹنہ کے بہی خواہوں کی جانب سے خطوط کا تانتالگ گیا۔
واضح ہو کہ آپ کے والد محترم عبدالخیر جعفری صادق پوری رحمہ اﷲ کی وفات کے بعد امارت اور جامعہ اپنے آپ کو یتیم محسوس کرنے لگی تھی۔ ان حالات میں آپ نے اپنے بزرگوں کی دیرینہ روایات پر عمل کرتے ہوئے جامعہ ام القریٰ کی جنت نما زندگی کو الوداع کہہ دیا اور وطن تشریف لے آئے۔یہاں آزمائشوں کی ایک نئی دنیا آپ کی منتظر تھی۔ آپ سن ۱۹۸۵ء میں جامعہ ام القریٰ مکہ معظمہ سے واپس آئے۔ اس وقت سے لے کر تادمِ آخر ابتلاو آزمائش آپ کا مقدر بنی رہی۔ آزمائشوں کے سخت ترین حالات نے آپ کے گرد حصار تنگ کیا۔ مگر آفرین ہے مولانا علیہ الرحمہ کی ایمانی جرأت اور داعیانہ جذبۂ صادق پر کہ وہ کبھی بھی نامصائب حالات کے تھپیڑوں سے خائف نہیں ہوئے اور تندیٔ باد مخالف کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ مصنف نے کتاب ہذا میں ان تمام واقعات و حادثات کا کم و بیش تذکرہ کیا ہے۔ مثلاً سن ۱۹۹۱میں جب زعفرانی ٹولے کی ریشہ دوانیوں کے زیر اثر ملک کے اندر فرقہ واریت کا زہر پھیل رہا تھا، شہر عظیم آباد بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔
’’ پٹنہ کے محلہ صادق پور میں مولانا کے گھر کو اجاڑنے کے لیے دنگائی سینکڑوںکی تعداد میں پل پڑے۔ آپ کے گھر کے دروازے کو توڑنے کی کوشش کی گئی تاکہ آپ کے گھر میں داخل ہوکر معصوم جانوں کے لہو سے ہولی کھیل سکیں ۔ ‘‘ ص:210
مگر ان کی یہ ناپاک کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ مولانا اور ان کے اہل خانہ بفضل ربی مامون و محفوظ رہے۔ قوم وملّت کے اس عظیم محسن کے اوپر دوسری یلغار اس وقت ہوئی جب C.B.Iکی ممبئی شاخ نے ممبئی سیریل بم بلاسٹ (1993 )کے تار آپ سے جوڑتے ہوئے رات کی تاریکی میں آپ کے گھر پر چھاپا ماری کی ۔ ایسے نازک ترین وقت میں اللہ کی مدد آپ کے شامل حال رہی۔ آپ کی حمایت میں بلاتفریق مذہب و ملّت عوام کا سیلاب امڈپڑا، جس کے سامنے C.B.I کی ایک نہ چلی اور انھیں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا۔
یہ اس ملک کی بدقسمتی ہی کہی جائے گی کہ جس خانوادہ صادق پور نے آزادیٔ وطن کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا۔اس خانوادے کے ایک ضعیف اور لاغر انسان کے گھر پر C.B.I کا چھاپا پڑا۔ بقول شاعر:
جب وقت پڑا تھا گلشن کو میں نے ہی لہوکا دان دیا
میرے ہی لہو کے چھینٹوں سے ہولی بھی منائی لوگوں نے
اس قدر ستم ہونے کے باوجود آپ کبھی مایوسی کاشکار نہیں ہوئے، اور نئے جوش وولولہ کے ساتھ دعوت و تبلیغ اور خدمتِ خلق کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ ایک مرتبہ دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں کہیں جارہے تھے کہ اچانک پولس نے آپ کی کار روک کر تلاشی لینی شروع کردی۔ نتیجتاً آپ پروگرام میں شرکت نہ کرسکے ۔ اس خبر کا عام ہونا تھا کہ آپ کے چاہنے والے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوگئے۔ مولانا محترم نے آگے آکر لوگوں کو سمجھایا۔ اس کے بعد حالات معمول پر آئے۔ اس موقع پر آپ نے صبر واستقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس طرح کی حرکتوں سے ہم اپنے مشن سے باز نہیں آسکتے‘‘ آپ کو ایمانی شجاعت اور بلند ہمتی ورثے میں ملی تھی۔ آپ اکثر دعوت و تبلیغ کی محفلوں میں یہ فرماتے ہوئے سنے گئے: ــ
’’ ہم اپنی جنت نما زندگی چھوڑکر یہاں آرام کرنے کے لیے نہیں آئے ہیں۔‘‘ ص: 17
مدرسہ اصلاح المسلمین (جدید نام جامعہ اصلاحیہ سلفیہ پٹنہ ) آپ کے بزرگوں کی یادگار اور آپ کی مادری درس گاہ تھی۔ آپ کی دورامارت میں یہ ادارہ روزافزوں ترقی کی شاہراہ پرگامزن تھا۔ قوم کے نونہال کثیر تعداد میں اس مرکزعلم دین سے کسب فیض کررہے تھے۔ امارت اور جامعہ کی کامیابی سے حوصلہ پاکر مولانا محترم نے ’’ مریم ہسپتال ــ‘‘ کاقیام عمل میں لایا۔ بقول مصنف: ’’ مریم ہسپتال کو وجود میں لانے کا بڑا مقصد ملت کے غرباو مساکین ۔۔۔۔کی خاطر خواہ رعایت کے ساتھ مناسب علاج کرناتھا۔۔۔۔بفضلہ تعالیٰ مولانا اپنے اس نیک ارادے میں سو فیصد کامیاب رہے۔‘‘ ص: 176
آپ قوم وملت کی دنیوی واخروی فلاح و بہبودی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے۔ وہ اکثر برادران وطن تک بھی اسلام کا پیغام امن پہونچانے کی سعی کرتے۔ مولانا کے ذریعہ کیے گیے دینی ودعوتی اسفار کی تعداد بے شمارہے۔ آپ کے درس قرآن کا انداز اس قدر دلنشین تھا کہ لوگ اس میں شریک ہونے کے لیے دور دور سے پٹنہ کی مرکزی جامع مسجد آتے۔اخلاق وکردار اور ضبط نفس کے معاملے میں آپ کی شخصیت مثالی تھی۔
خلاصہ بحث یہ کہ مولانا عبدالسمیع صادق پوری رحمہ اﷲ ملت اسلامیہ ہند کے لیے شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی مثالی شخصیت اور عالمانہ زندگی کے مختلف گوشوں سے قاری کو روشناس کراتی اس ارمغان علمی کی اشاعت کے لیے میں انظار احمد صادقؔ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔یہ کتاب بک امپوریم ،سبزی باغ پٹنہ سے اور کتاب کے مصنف انظار احمد صادقؔ کے اس نمبر7091816277 پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔

 

You may also like

Leave a Comment