نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نامور فقیہ، بہترین محقق، استاذ الاساتذہ مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کے شاگرد رشید، امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے استاذ گرامی قدر، جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق استاذ، امارت شرعیہ کے سابق مفتی و ناظم، جمعیت علماء کے ناظم، مسلم انڈپنڈنٹ پارٹی کے نگراں عام اور نائب امیر شریعت ثانی حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی ؒ بن شیخ سخاوت حسین نے 14مئی 1973ء مطابق 10ربیع الثانی 1393ھ ساڑھے گیارہ بجے دن بروز سوموار اس دنیا کو الوداع کہا،۲۰؍ فروری ۱۹۷۳ء کو مغرب کی نماز ادا کرتے ہوئے آتش دان سے آپ کے کپڑوں میں آگ لگ گئی، جس سے پیر، ہاتھ اور کمر کا حصہ جھلس گیا علاج کے بعد زخم ٹھیک ہو گیا، لیکن کمزوری بڑھتی چلی گئی، ۲۹؍ اپریل کو حضرت امیر شریعت رابع ؒ نے مانڈر سے خانقاہ بلا لیا، لیکن وہ کم وبیش چار ماہ مرض الموت میں گذار کر چل بسے، اس حادثہ پر ان کے کمرے میں ایک شعر لٹکا رہتا تھا، بعضے اسے حضرت کا ہی شعر کہتے ہیں، اگر ایسا ہے تو ہمیں ماننا ہوگا کہ حضرت شاعری بھی کرتے تھے اور تخلص ثمرؔ تھا، شعر یہ ہے:
محروم کرکے شرف شہادت سے اے ثمرؔ
شعلوں نے مرے جسم کو جھلسا کے رکھ دیا
چوں کہ وفات خانقاہ رحمانی میں ہوئی تھی اس لیے وہیں خانقاہ رحمانی کے قبرستان مخصوص پور میں تدفین عمل میں آئی۔اہلیہ پہلے ہی انتقال کر چکی تھیں، تین محل سے تین لڑکا اور دولڑکی کو چھوڑا، جنازہ کی نماز حضرت امیر شریعت رابعؒ ۱۵؍ مئی کو ساڑھے آٹھ بجے صبح پڑھائی اور ساڑحے نو بجے علم وفضل کایہ آفتاب زیر زمیں چلا گیا۔
مولانا کی ولادت ۱۸۹۰ء مطابق۱۳۰۰ فصلی میں بازید پور قصبہ باڑھ ضلع پٹنہ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد عربی کی ابتدائی کتابیں ہدایۃ النحو تک مولانا حکیم محمد صدیق صاحب باڑھ سے پڑھیں، آگے کی تعلیم کے لئے 1327ھ میں جامع العلوم ٹپکاپور کان پور پہونچے اور مختصر عرصہ کے بعد مدرسہ سبحانیہ الہٰ آباد یوپی چلے گئے، جہاں ابو المحاسن مولانا محمد سجادؒ کی صحبت انہیں میسر آئی آپ کی شاگردی نے مولانا کو فقہ، تفسیر وغیرہ میں ممتاز بنادیا، علوم عقلیہ کے حصول کی غرض سے مولانا غور غمشی پشاور تشریف لے گئے اور اس فن میں بھی طاق ہوئے۔
علوم متداولہ کی تکمیل کے بعد اصلاح باطن کی غرض سے مولانا نے اپنے کو قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ (م ۱۹۲۷)سے منسلک کرلیا اور فِرَقِ باطلہ قادیانیت، آریہ سماجی اور عیسائی مشنیریوں کے خلاف ان کے دست و باز بن گئے، جس کی وجہ سے ان فتنوں کا زور کم ہوا اور پورے علاقہ کو ان فتنوں سے نجات ملی۔
حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ کے وصال کے بعد مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کی دعوت پر پھلواری شریف تشریف لے آئے، امارت شرعیہ اس وقت اپنے قیام کے چھ سال مکمل کر چکاتھا، مولانا محمد سجادؒ امارت شرعیہ کے پیغام کو عام کرنے کے لئے سفر پر رہتے تھے، ایسے میں ضرورت دفتر کے نگراں کی تھی، مولانا محمد سجادؒ نے اپنے قابل اور انتہائی معتمد شاگرد کو امارت شرعیہ کا نگراں مقرر کردیا یہ کُل وقتی کام تھا؛چنانچہ مولانا نے اپنی پوری صلاحیت امارت شرعیہ کی علمی و فقہی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں لگادیا، امارت شرعیہ سے متعلق کتابوں کی ترتیب اور اس کو عام مسلمانوں تک پہنچانا، نقباء امارت شرعیہ کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا اور تنظیم کی اہمیت کو سمجھانا ان کی خدمات کے جلی عنوان ہیں، انہوں نے امارت شرعیہ کی تاریخ بھی لکھی۔تنظیمی دورے بھی کیے اور امارت شرعیہ کو ہر سطح پر مضبوط کرنے میں اپنی ذمہ داری نبھائی۔۱۹۳۰ء میں جب اکابر جمعیت گرفتار ہو گیے تو انہیں جمعیت علماء کا ناظم مقرر کیا گیا۔
۱۹۳۷ء میں اس وقت کی حکمراں جماعت انڈی پنڈنٹ پارٹی کے نگران عام مقرر ہوئے، اور سیاسی ہمہ ہمی میں بھی مسلسل شریک رہے۔ بانی امارت شرعیہ اپنے عہدہ کے اعتبار سے نائب امیر شریعت تھے، ان کے انتقال کے چار سال کے بعد ۸؍ربیع الثانی۱۳۶۴ھ مطابق ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۳ء یوم جمعہ کو امیر شریعت ثانی حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادریؒ نے انہیں نائب امیر شریعت ثانی نامزد کردیا، آپ نے پورے تنتیس (33)سال اس منصب پر کام کیا، جس میں زیادہ ماہ و سال حضرت امیر شریعت رابع کا دور امارت ہے، مولانا مرحوم کی تواضع اور انکساری کا یہ عملی ثبوت ہے کہ انہوں نے ایک طویل مدت تک اپنے شاگر کی امارت میںکام کیا اور سنیر، جونیر کا ہلکا سا احساس بھی کبھی ان کے اندر نہیںپیدا ہوا، امیر شریعت رابعؒ بھی ان کا پورا اکرام واحترام ملحوظ رکھتے تھے، آج کے دور میں یہ چیز قابل تقلید بھی اور لائق ستائش بھی۔
مولانا کو اللہ رب العزت نے تحقیق، تصنیف اور تالیف کا بہترین ملکہ عطا فرمایا تھا، ان کی، کتاب الفسخ و التفریق، آداب قضا، تیسیر القرآن، قرآن محکم، وید کا بھید، اسلام میں عورت کا مقام، آریوں کا خوفناک ایشور، مسئلہ امارت اور ہندوستان، کتاب العشر و الزکوٰۃ، پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عالمگیر پیغام، فاطمہ کا چاند،حیات سجاد وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔وہ ایک زمانہ تک خانقاہ رحمانی مونگیر سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’الجامعۃ‘‘ کے مدیر بھی رہے۔
مولانا کی سسرال مانڈر موجودہ ضلع کھگڑیا تھی، چنانچہ مولانا باڑھ سے نقل مکانی کرکے مانڈر میں جا بسے، یہاں آپ کا بڑا قیمتی کتب خانہ تھا، زمانہ کے دست برد سے جو محفوظ نہیںرکھ سکا۔
مولانا ایک کثیر المطالعہ شخص تھے، اسلام کے اجتماعی نظام کی حقیقت و افادیت اپنی تفصیلات و جزئیات کے ساتھ حضرت کے ذہن و دماغ میں اس طرح منکشف ہوگئی تھی کہ انہوں نے امارت شرعیہ پر جتنے اعتراضات کیے گئے سب کا علمی جواب تحریر کیا اور لوگ ان کی تحریروں سے مطمئن ہوئے، وہ فقہ حنفی کے مسائل اور اس کے اصول و جزئیات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، ان کا علمی مقام بہت بلند تھا، لیکن مولانا کی کسر نفسی اور تواضع کی وجہ سے مخصوص حلقوں تک ہی ان کی علمی عبقریت کا ڈنکا بجتا رہا، ہندوستان نے ان کی علمی عظمت کو ان کی وفات کے بعد پہچانا، جب ان کے کئی مسودات چھپ کر منظرعام پر آئے۔
مولانا کے وصال کو عرصہ ہوا، لیکن علمی دنیا اور خود امارت شرعیہ ان کے احسانات و خدمات کو فراموش نہیں کرسکتی، اللہ رب العزت ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔مولانا محی الدین کامل رشیدی ساکن چھتر بر کوڈرما نے تاریخ وفات ’’روئے گل سیر ندیدم وبہار آخر شد‘‘ سے نکالی ہے۔