(دوسری قسط)
نام عبدالقیوم، لقب مفسر قرآن، ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں حصہ لیا اس لئے مجاہد آزادی بھی کہے جاتے ہیں، مرحوم رحمانیہ دلی کے پڑھے ہوئے، شیخ الحدیث مولانا احمداللہ پرتاپ گڑھی کے عزیز شاگرد، سند عالی کا اعزاز رکھنے والے، ان کی قرآن فہمی بہت مشہور ہے لیکن زندگی کے آخری دنوں میں جب عرب ملکوں میں انہوں نے حدیث کے دروس دیئے تو معلوم یہ ہوا کہ مولانا رحمانی مفسر کے ساتھ محدث بھی ہیں، ہمارے دور کے زیادہ تر علماء یک فنے ہیں لیکن ایک انسان جو مفسر بھی ہے اور محدث بھی، وہ عربی داں اور زبان داں دونوں ہوتا ہے، جس کی نظر عربی زبان کے باریک سے باریک پہلوؤں پر رہتی ہے، جو ادب و معانی، لغت و بلاغت، صرف و نحو اور اسماء الرجال کے فن کا ماہر ہوتا ہے، ایسے آدمی کو علامۃ الدہر کہا جائے یا شیخ العالم، سب بجا ہے لیکن آج کل علامہ جیسے لفظ کو جس طرح سے سستا کر دیا گیا ہے ایسے میں ضروری ہے کہ بڑوں کو القاب و آداب سے دور رکھا جائے، بڑے القاب و آداب سے نہیں بڑے ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے علم و عمل سے بڑے ہوتے ہیں-
مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی دودھونیاں میں پیدا ہوئے، دودھونیاں ضلع سدھارتھ نگر یوپی کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، یہ گاؤں ہند نیپال سرحد پر واقع ہے، مولانا کے والد کا نام زین اللہ ہے، سلسلۂ نسب یہ ہے عبدالقیوم بن زین اللہ بن محمد سلیمان بن امانت بن مولی بخش بن خدا بخش، اسحاق بھٹی نے لکھا ہے ‘ (مولانا عبدالقیوم رحمانی کا تعلق) …….ایک غیر مسلم راجپوت گھرانے سے تھا، جسے ٹھاکر کہا جاتا ہے، یہ لوگ سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے، کئی پشت پہلے ان کے ایک بڑے شخص کا نام مل سنگھ ٹھاکر تھا لیکن یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ اس خاندان کا پہلا شخص کون تھا جس نے اسلام قبول کیا، ہماری معلومات کے مطابق وہ پہلا شخص جس نے اسلام قبول کیا اس کا نام محمد سلیم تھا، سلیم پور اسٹیشن انہیں کے نام پر ہے، مولانا کے خاندان میں اس شخص کا نام عام ہے، سب جانتے ہیں-
مولانا اپنے والد زین اللہ کے سب سے بڑے بیٹے تھے، مولانا کے علاوہ تین بھائی اور تھے لیکن علم و فضل اور سماج میں جو شہرت مولانا کو ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی، مولانا اپنے بھائیوں کیلئے برادر یوسف نہیں یوسف تھے، چھوٹے بھائی مولانا کا بڑا احترام کرتے تھے، عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ انسان غیروں کی نگاہ میں تو بڑا ہوتا ہے لیکن اپنوں کی نگاہ میں اپنی حرکتوں کی وجہ سے ‘چھوٹا، ہوتا ہے، دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں لیکن مولانا اپنے گھر میں، اپنے خاندان میں، اپنے گاؤں میں اور اپنے علاقے میں بھی بڑے تھے، علماء جہلا، ہندو مسلمان سب ہی انہیں احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے اور وہ سب کے بڑے تھے، مولانا کی یہ محبوبیت خداداد تھی، مولانا کے والد زین اللہ کا انتقال غالباً 1976 میں ہوا، یہ مرد بزرگ بھی بڑے اچھے انسان تھے، غریب پرور تھے، مہمان نواز تھے، بڑھنی بازار تھا تو عشاء کے بعد مولانا کے والد نکل جاتے تھے کوئی بھولا بھٹکا مسافر اگر مل جائے تو اس کی ضیافت کر دوں، دعائیں بہت مانگتے تھے اور اپنی دعاؤں میں مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر کے طلباء کو بھی یاد رکھتے تھے، سراج العلوم سے انہیں بڑی محبت تھی، ان کی شاید ہی کوئی دعا ہو جس میں سراج العلوم شامل نہ ہو، خود مولانا کو اپنے والد سے بڑی محبت تھی، ایک بار مولانا کے والد نے مولانا سے کہا کہ سوچا تھا کہ پڑھ لکھ کر تم دین کی خدمت کرو گے لیکن تم تو سیاست میں پڑ گئے، ایسا لگتا ہے کہ تم دلی پڑھنے نہیں سیاست کرنے گئے تھے، والد کی بات مولانا کے دل کو لگ گئی، وہ پھر سیاست بھول گئے حالانکہ محفل ہستی کو مولانا کی ابھی ضرورت تھی، ملک تازہ تازہ آزاد ہوا تھا، تقسیم کا سانحہ گزر چکا تھا لیکن اپنے پیچھے بہت مسائل چھوڑ گیا تھا، مولانا آزادی سے پہلے سیاست میں متحرک تھے، کانگریس کی اعلی کمان سے ان کی یاد اللہ تھی، آج کسی کو کانگریسی کہنا گالی دینے کے مترادف ہے لیکن ایک زمانہ تھا کہ علماء کا تعلق کانگریس سے بڑا اچھا تھا، اہل دیوبند میں محمودحسن دیوبندی، حسین احمد مدنی (اسحاق بھٹی کی اطلاع کے مطابق ‘نقش حیات، میں مولانا نے مفسر قرآن کا ذکر خیر کیا ہے) اور حفظ الرحمان سیوہاروی جیسے علماء کانگریسی تھے تو علمائے اہل حدیث میں اسحاق بھٹی، اسماعیل گوجرانوالہ، ثناءاللہ امرتسری اور عطاءاللہ حنیف بھوجیانی کانگریسی تھے، مولانا آزاد کا نام ہم نے جان بوجھ کر نہیں لیا ہے، ان کا کانگریسی ہونا تو معروف ہے، ایک سوال مجھے بہت کچوکے لگاتا ہے کہ مولانا آزاد ترجمان القرآن تھے، مولانا رحمانی مفسر قرآن تھے، ایسے میں یہ بزرگ کیونکر کانگریس کے جھنڈے تلے جدوجہد آزادی میں شامل ہو گئے، کیا یہ بزرگ غلط تھے یا ہم غلط ہیں، اس سوال کا جواب بہت ضروری ہے، ان بزرگوں نے اپنے دین و ایمان، اپنی شناخت اور اپنی روایات سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، ان لوگوں کو دین میں فقاہت حاصل تھی اس کے باوجود یہ لوگ غیر مسلموں کے شانے سے شانہ ملا کر ملک و ملت کی تعمیر کر رہے تھے اور آج ہم انہیں شک و شبہے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، بات دور چلی گئی لیکن یہ باتیں ضروری تھیں اس لئے بیساختہ نوک قلم پر آ گیئں، آیئے پھر مولانا کا رخ کرتے ہیں، مولانا نے عملی سیاست تو چھوڑ دی لیکن جب جہاں مسلمانوں کو ان کی ضرورت پڑی وہ اپنے حجرے سے نکل کر فوراً میدان عمل میں مصروف کار ہو گئے، اب مولانا سیاست سے کنارہ کش ہو کر دعوت و ارشاد اور قرآن فہمی عام کرنے میں لگ گئے-
مولانا نے علم و فضل، رفاہ عامہ، انسان دوستی اور سیاست میں وہ نام پیدا کیا کہ اب ان کے گاؤں کا نام آتے ہی پہلا نام مولانا ہی کا ذہن میں ابھرتا ہے، مولانا کے گاؤں میں کوئی مکتب نہیں تھا اس لئے مولانا کی ابتدائی تعلیم بغل کے گاؤں سیورا کے پاٹھ شالہ میں ہوئی، سراج العلوم سے مولانا کے والد کو کتنی محبت تھی اس کا ذکر ہم کر چکے پھر مولانا کے گاؤں کے قریب سراج العلوم بھی واقع تھا، اس محبت اور قربت کی بنا پر مولانا نے سراج العلوم میں بھی پڑھا، آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک دور افتادہ گاؤں کا طالب علم کیسے دلی پہنچ گیا اور کیونکر اس نے ملکی سیاست میں حصہ لیا ہوگا تو عرض ہے کہ ہنوز دلی دور است دوسروں کیلئے رہا ہوگا مولانا کیلئے نہیں تھا، مولانا سراج العلوم میں زیر تعلیم ہیں، اس کے بانی اور ناظم حاجی نعمت اللہ خاں ہیں اور ان کے صاحبزادے مولانا عبدالرؤف رحمانی رحمانیہ میں پڑھ رہے ہیں تو کم از کم مفسر قرآن کیلئے رحمانیہ یا دلی علاقۂ غیر نہیں تھا، مولانا دلی پہنچتے ہیں، اس وقت کی دلی علم و تہذیب اور سیاست کا گڑھ تھی، جس طرح سے بہار و بنگال اور پنجاب وہابیوں کا گڑھ تھا اسی طرح سے آزادی سے پہلے دلی بھی وہابیوں کا گڑھ تھی، یہاں کا میئر وہابی تھا، یہاں کے سرمایہ دار زیادہ تر وہابی تھے، پھاٹک حبش خاں اور صدر بازار کے رؤسا اور حاجی علی جان کا گھرانہ یہ سب وہابی تھے، دلی میں وہابیوں کی اعانت کے بغیر کوئی جلسہ کامیاب نہیں ہو سکتا تھا، میر نے دلی کو اوراق مصور یوں ہی نہیں کہا تھا، یہاں ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے ایسے گوہر یکتا موجود رہے ہیں جنہوں نے دلی کا نام ہمیشہ اونچا کیا ہے، مولانا رحمانی نے یہ سب دیکھا ہوگا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ رات آخر ہوئی، سحر نمودار ہوئی لیکن شب گزیدگی نے اس کے اجالے میں داغ لگا دیا تھا، 1857 کی تباہی اتنی بڑی تھی کہ حالی کو دہلئ مرحوم کا مرثیہ لکھنا پڑا لیکن اس تباہی کے بعد بھی دلی میں مسلمانوں نے اپنے قدم پھر سے جما لئے تھے لیکن تقسیم کی تباہی ایسی ہے کہ اکھڑے قدم پھر نہ جم سکے، اس تقسیم نے مولانا کو بھی بہت متآثر کیا، پھاٹک حبش خاں اور صدر بازار کے چند وہابی گھرانے مولانا آزاد کے کہنے کی بناء پر اگر رک نہ گئے ہوتے تو دلی میں کوئی وہابی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا-
مولانا رحمانی دلی پہنچ چکے ہیں، اب یہاں پھر دلی سے مولانا کے گاؤں دودھونیاں چلتے ہیں، مولانا کے والد زین اللہ ایک سیدھے سادے اللہ والے بزرگ تھے، مولانا کا خاندان پہلوانی کیلئے ضرور مشہور تھا لیکن یہ پہلوان بھی بس ڈنڈ پیلتے تھے، کشتی لڑتے تھے، تیراک تھے لیکن ماہر نہیں تھے، گھڑسواری، نیزہ بازی، شمشیرزنی، بنوٹ اور گتکا نہیں جانتے تھے، اب مولانا کو دیکھیں، یہ پڑھ رہے ہیں رحمانیہ میں، اپنے درجے کے ذہین ترین طالب علم ہیں لیکن فن سپہ گری میں بھی طاق ہیں، ان کا یہ فن ان کے گھر والوں کیلئے اور علاقے والوں کیلئے حیرت کا باعث تھا کہ یہ پڑھنے گئے تھے یا لڑنے گئے تھے، اب یہاں ایک خاندانی روایت سنیں مولانا کی والدہ اپنے پوتوں کو بتلاتی تھیں کہ بابو دلی میں پتہ نہیں کس کے ہاتھ لگ گئے جس نے انہیں فن سپہ گری میں طاق کر دیا، اب آیئے پھر رحمانیہ چلتے ہیں، رحمانیہ میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ لڑنا بھی سکھایا جاتا تھا، کیوں سکھایا جاتا تھا آیئے کچھ اندازے لگائیں-
شاہ اسحاق محدث دہلوی کی ہجرت کے بعد ان کی جانشینی سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حصے میں آئی، دلی والے شاہ ولی اللہ کے خاندان کے افراد کو میاں صاحب کہتے تھے اور یہی دلی والے شاہ اسحاق کی ہجرت کے بعد سید نذیر حسین کو میاں صاحب کہنے لگے، بالاکوٹ میں سیدین کی شہادت کے بعد جماعت مجاہدین کی اعانت کا بار بھی تن تنہا وہابیوں نے اٹھایا، سرحد پر بھی وہابی اور میدان جنگ میں بھی وہابی، صادق پور کے وہابیوں کی قربانی کا اعتراف ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جی نے بھی کیا ہے، 1985 میں کانگریس کے صد سالہ اجلاس کے موقعے پر جماعت مجاہدین کو بھی شاندار خراج عقیدت پیش کیا گیا تھا، بھوپال کے نواب صدیق حسن خاں، بنارس کے ابوالقاسم سیف، غازی پور کے مولانا عبداللہ، آرہ کے مولانا ابراہیم اور رحیم آباد والے مولانا عبدالعزیز، یہ لوگ اندرون ملک میں جماعت مجاہدین کے سب سے بڑے معاون تھے اور یہ سب لوگ میاں صاحب سے منسلک تھے، میاں صاحب کے انتقال کے بعد دہلی کی مسند حدیث ہی نہیں اجڑی بلکہ جماعت مجاہدین اپنے ایک اہم معاون سے بھی محروم ہو گئی اور ایک مرکز ان کے ہاتھ سے جاتا رہا، دلی کی سپلائی لائن کو بحال کرنے کیلئے میاں صاحب کے ایک شاگرد عبدالعزیز رحیم آبادی نے دلی ہی کے ایک سرمایہ دار شیخ عبدالرحمن کو تیار کر لیا کہ وہ ایک مدرسہ قائم کریں، شیخ صاحب کے اجداد میاں صاحب کے معتقد تھے اور جماعت مجاہدین کے یہ بھی معاون تھے تو اب ظاہر ہے کہ جماعت مجاہدین کے معاونین کوئی مدرسہ قائم کریں گے تو تعلیم کے ساتھ ساتھ فن سپہ گری پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے سو ہم دیکھتے ہیں کہ مدرسہ رحمانیہ میں اس کا خاص انتظام تھا جہاں بچوں کو بنوٹ، کشتی، کبڈی اور لٹھ بازی سکھانے کیلئے جماعت مجاہدین ہی کے ایک اہم فرد خلیفہ عبدالقادر کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں، مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی انہیں خلیفہ صاحب کے خاص شاگرد تھے، خلیفہ صاحب نے شاگرد میں وہ جوہر قابل دیکھ لیا کہ یہ لڑکا تو خاص ہے، تیراکی سکھانے کیلئے وہ مفسر قرآن کو جمنا کی لہروں کے سپرد کر دیتے تھے بلکہ ڈبو دیتے تھے، حبس دم کا ایسا ماہر بنا دیا کہ مولانا آخری وقت میں بھی تقریباً پانچ منٹ تک اپنی سانس روک لیتے تھے، سرکش ہاتھیوں کو سدھانا مولانا کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، مولانا ایک بارات میں ہاتھی پر سوار ہو کر جا رہے تھے، دولہا بھی مولانا کے ساتھ تھا، دوران سفر ہاتھی اچانک سرکشی دکھانے لگا، پلوان کو پٹخ دیا، دولہا بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھاگا لیکن مولانا پورے صبر و سکون کے ساتھ ہاتھی پر بیٹھے رہے، ہاتھی نے بہت چاہا کہ مولانا کو گرا دے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا، جماعت مجاہدین کا یہ آخری یادگار آخری وقت تک ڈٹا رہ گیا، ہاتھی اپنی سونڈ سے جو مٹی مولانا کی طرف پھینکتا تھا مولانا اسی مٹی پر دعا پڑھ کر کے ہاتھی کے سونڈ کی طرف پھینکتے تھے بالآخر ہاتھی شانت ہوا، ہاتھی کی سواری مولانا کو اتنی پسند تھی کہ جھنگہوا جانے کیلئے جب کبھی اپنا گھوڑا نہیں ہوتا تو پرسا تک ٹرین سے جاتے، اسٹیشن پر اتر کر پچود کے پنڈت سادھو ناتھ ترپاٹھی کی طرف قاصد بھیجتے، وہ مولانا کے معتقدین میں سے تھے، فوراً وہ ہاتھی بھیج دیتے اور یہ ہاتھی اتنا سرکش تھا اور اتنا بدنام زمانہ تھا کہ کوئی اس پر سوار نہیں ہو پاتا تھا، راہ رو اسے دیکھ کر راہ چھوڑ دیتے تھے اس لئے کہ بہت ہی من بڑھ تھا اور مولانا کو اسی ہاتھی کی سواری مرغوب تھی، مولانا اس پر سوار ہو کر اپنے دوسرے گاؤں جھنگہوا جاتے، گھوڑوں کی سواری بھی مولانا کو بہت پسند تھی ہمیشہ اچھی نسل کا بہترین گھوڑا رکھتے تھے ، آزادی کے بعد بڑے کسانوں پر وکاس کر لگا، یہ ٹیکس پوت سے ایکسٹرا تھا، مولانا ڈومریا گنج کے تحصیل دار سے ملے، تحصیلدار نے کہا کہ وکاس کر جمع کیجئے معاف نہیں ہوگا، مولانا نے کہا کہ گھوڑا بچا ہے اسی کو بیچ کر جمع کر دوں گا، گھوڑا قیمتی تھا، راجستھان سے مولانا نے منگایا تھا، کَلَارَاس نسل کا تھا، تحصیلدار نے کہا کہ گھڑ دوڑ ہونے والا ہے جس میں بستی و گونڈہ (صاحب تحفۃ الاحوذی عبدالرحمن مبارک پوری نے تقی الدین ہلالی مراکشی سے کہا کہ آؤ گونڈہ و بستی کی ایسی ایسی جگہوں پر تمہیں لے چلوں کہ جنہیں دیکھ کر تمہیں صحابہ کی زندگیاں یاد آ جایئں گی) کے گھڑ سوار شرکت کر رہے ہیں، آپ بھی آیئں اور دوڑ میں شرکت کریں اگر آپ جیت گئے تو انعام کی رقم سے آپ کا وکاس کر جمع ہو جائے گا، مولانا نے حامی بھرلی، دوڑ میں شریک ہوئے سکھویئا ڈوڑوہیا(اس گاؤں کی اہمیت کوئی صاحب تحفہ سے پوچھے، مولانا مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی جب مکمل کر لی تو کلکتہ گئے، وہاں کے تاجروں کو طباعت کیلئے ترغیب دلائی، ان بنیوں نے مولانا سے کہا کہ آپ مسودہ چھوڑ جائیں، ہم مشورہ کر کے آپ کو بتائیں گے، یہ بات جب بونڈھیار والوں کو معلوم ہوئی تو ان لوگوں نے مولانا سے شکوہ کیا کہ آپ نے ہمیں اس لائق نہیں سمجھا اور پھر زر و جواہرات سے بھرا ہوا گھڑا مولانا کے سامنے الٹ دیا اور کہا کہ اس کے بعد بھی جو ضرورت ہوگی وہ بھی ہم دیں گے) کے صلاح الدین صاحب کی مشہور گھوڑی بھی اس ریس میں شامل تھی، یہ صاحب مولانا کے برادر نسبتی کے چچا تھے، مولانا بہت سنجیدہ تھے لیکن ایک عرصے تک وہ اپنے سسرالیوں کا مذاق اڑاتے رہے کہ میرے گھوڑے کے آگے تمہارے صاحب چچا کی گھوڑی کا کہیں پتہ بھی نہ لگا تھا-
(جاری)