تجمل حسین راحت
ریسرچ اسکالر جے این یو
ملک کی کئی یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ دیش کی دو سب سے بڑی اور مشہور یونیورسیٹیزجے این یو اور ڈی یو اپنے اپنے مطالبات کیلیے اسٹرایک پر ہیں، جے این یو کے طلبہ فیس میں بے پناہ اضافہ کے خلاف ایک مہینے سے زاید عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں ـ اب تو انہوں نے سمیسٹر اگزام کا متفقہ طور پر بائکاٹ بھی کر دیا ہے، یعنی سر کار جے این یو کے طلبہ کے مسائل کو ابتک حل کرنے میں ناکام رہی ہے، معاملہ صرف طالب علم کا ہی نہیں ہے سرکار کی پالیسی سے اساتذہ بھی خوش نہیں ہیں، دہلی یونیورسٹی میں تقریباً ساڑھے چار ہزار ایڈہاک ٹیچر ہیں جنکی مستقل ملازمت تو نہیں ہے مگر ایڈہاک ہونے کی وجہ سے تنخواہ ٹھیک ٹھاک مل جاتی تھی اب ایک سرکلر جاری کرکے بتایا گیا ہے کہ اب ایڈہاک ٹیچروں کی تقرری نہیں ہوگی بلکہ وہ گیسٹ فیکلٹی رہ کر خدمات انجام دیں گے یعنی وہ کالج میں مہمان ٹیچر کی حیثیت سے آئیں گے پڑھائیں گے اور جتنی کلاس لینگے اس کے مطابق پیسے ملیں گے، یعنی پھر سے گرو دیو کا مستقبل غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہوگا ـ گیسٹ فیکلٹی ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ کالج کے پرنسپل اور شعبہ کے صدر کی جی حضوری میں ذرا سی کمی آنے پر گھر کا راستہ بھی دکھا یا جا سکتا ہے، اب ٹیچروں کی اتنی بڑی تعداد کے مستقبل کو خطرے میں دیکھ کر دہلی یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن نے جم کر احتجاج کیا وائس چانسلر کےآفس کا گھراؤ کیا اور پوری رات آفس کے باہر دھرنے پر بیٹھے رہے صبح جب وائس چانسلر سے کسی طرح ملاقات ہوئی تو انہوں نے انکے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا جس پر اساتذہ کا اسٹرائک اب تک جاری ہے انہوں نے اگزام کی نگرانی، اور کا پی چیک کرنے سے بھی منع کر دیا ہے یعنی جے این میں طلبہ نے اگزام کا بائکاٹ کیا اور ڈی یو میں اساتذہ نے.، پڑھنے پڑھانے کا پورا سسٹم تھپ پڑا ہے مگر سرکار اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے اور یہ سارا بحران پیسے کی وجہ سے ہو رہا ہےـ جے این یو میں بھی جم کر فیس بڑھائی گئ تاکہ طلبہ کے پیسے سے خزانہ بھرے اور ڈی یو میں بھی ایڈہولاک کو گیسٹ بنایا جا رہا ہے تاکہ کم پیسے میں نپٹا دیا جائے، بظاہر تو لگ رہا ہے کہ ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے جسکی وجہ سے سرکار طلبہ و اساتذہ کے مستقبل سے کھلواڑ کرکے بھی ملک کے وجود کو بچانا چاہ رہی ہے مگر جیسے ہی NRC اور CAB کا معاملہ سامنے آتا ہے تو اس کی نیت اور اور اس سے زیادہ اسکی عقل پر ماتم کرنے کا دل کرتا ہے، ایک ایسا معاملہ جو آئین کے سراسر خلاف ہے یعنی مذہبی بنیاد پر کسی کو شہریت دینا اور مذہبی بنیاد پر کسی کو غیر ملکی قرار دےکر ڈیٹینشن سینٹر میں قید کر دینا، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں ایک بڑی تعدادغریب، مزدور اور جاہل عوام کی ہے جنہیں کھانے کو کھانا نہیں تن ڈھکنے کو کپڑے نہیں اور جہاں ہر سال آنے والے سیلاب میں ہزاروں لوگ اپنی جان گنوا دیتے ہیں، ایسے ناقص سسٹم میں رہنے والے افراد سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے باپ دادوں کے دستاویزات دکھا کر اپنی شہریت ثابت کرو اور اس شہریت ثابت کرنے کے کھیل میں سرکار تقریباً80 ہزار کروڑ روپیہ خرچ کرنے کی حماقت کا ارادہ رکھتی ہے، یہ بل آئین مخالف اور ملک مخالف ہے اسلئے تمام لوگوں کو اسکا بائکاٹ کرنا چاہیےـ
حیدر آباد سے آئی انکاونٹر کی خبر اور اس پر جذباتی و سطحی فہم والے ہندوستانی عوام کی خوشی اور رد عمل پر بھی ماتم ہی کیا جا سکتا ہےـ ایک جمہوری ملک میں قانون کے سارے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ملزم کو گولی مار دی جاتی ہے اور عوام بغلیں بجاتے ہیں کہ واہ واہ پولس بہادر ہے، بہادری تو اس وقت ہوتی کہ قانون کی بالا دستی ہوتی، سسٹم سخت ہوتا کہ ایسا حادثہ ہی پیش نہ آتا، فریب خوردہ جذباتی ہندوستانی عوام کو پتہ ہی نہیں کہ ایک جمہوری ملک کے کیا تقاضے ہوتے ہیں ـ