یاسر ندیم الواجدی
بھارت کا حالیہ دورہ اس اعتبار سے مختلف رہا ہے کہ اس مرتبہ مختلف علاقوں اور اداروں میں جانے اور وہاں بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ الہ آباد کے قیام کے دوران جناب مولانا احمد متین صاحب نبیرہ مصلح الامت حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی رحمہ اللہ اور ان کے برادران جناب مولانا احمد مکین صاحب مولانا محمد امین صاحب کے مشورے سے یہ طے پایا کہ شاہ وصی اللہ کے آبائی وطن اور ان کی اولین خانقاہ فتح پور تال نرجا جو اب ضلع مئو میں واقع ہے کی زیارت کی جائے۔ اس دورافتادہ چھوٹے سے گاؤں میں ایک دور ایسا بھی آیا ہے جب بڑے بڑے علماء اور سالکین ومریدین کا تانتا لگا رہتا تھا۔ حضرت مولانا عبد الباری ندوی اور حضرت مولانا انظر کشمیری نے اپنے دوروں کی تفصیلات بڑے موثر انداز سے قلم بند کی ہیں۔ 16 مارچ 2020 کی شام ہم اعظم گڈھ ہوتے ہوے مئو میں واقع ندوہ سرائے نامی گاؤں میں پہنچے۔ مولانا احمد متین صاحب کے سسرالی مکان میں قیام تھا۔ رات کے وقت منزل مقصود پر پہنچے تو دیکھا کہ مکان کے سامنے واقع ایک بڑے میدان میں والی بال ٹورنامنٹ کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ اگلے دو دنوں تک اس میدان میں ٹورنامنٹ ہوتا رہا، کھیل کے آغاز سے پہلے گانے بڑے بڑے اسپیکرز لگاکر بجائے جاتے۔ سنا تھا کہ سی اے اے اور این آر سی جیسے حساس مسئلہ کے باوجود اس علاقے کے بہت سے لوگ فنون لطیفہ سے اپنی دلچسپی کو قابو میں نہیں رکھ پارہے ہیں۔ کھیلوں کا انعقاد بھی ہورہا ہے اور مشاعرے بھی اسی کروفر سے بپا کیے جارہے ہیں، مگر این پی آر اور این آر سی کو لیکر جو بیداری ہونی چاہیے تھی وہ بالکل نہیں ہے، اس میدان کے برابر میں قیام کرکے لگا کہ دنیا میں نہ کورونا کا خوف ہے اور نہی یہ امت کسی بحران سے گزر رہی ہے۔ صبح چند احباب بھی ملنے کے لیے آئے۔ انھی میں دیوبند سے فارغ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بی یو ایم ایس کے طالب علم مولانا ولی اللہ صاحب بھی تھے، جوعلیگڑھ یونیورسٹی کے سی اے اے مخالف احتجاج کی قیادت کرنے والوں میں شامل رہے ہیں۔ ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی، انھوں نے بتلایا کہ لوگ این پی آر کے بائکاٹ کو لیکر سخت کنفیوژن کا شکار ہیں، ان کے ساتھ باہمی مشاورت بھی ہوئی، اندازہ یہ ہے این پی آر کے تعلق سے امت سخت تقسیم کا شکار ہوجائے گی۔
17 تاریخ کی دوپہر میں چند کلومیٹر کی دوری پر واقع گاؤں فتح پور حاضری ہوئی۔ یہی گاؤں حضرت مصلح الامت کا وطن اول تھا، یہاں 1933 میں ان کا قائم کردہ مدرسہ بھی واقع ہے، جس کے برابر میں ایک ویران پڑی ہوئی خانقاہ بھی ہے، جہاں اساطین علم و فن تزکیہ وتربیت کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب کے بعد ان کی مسند پر بیٹھنے والے حضرت مولانا قاری مبین صاحب رحمہ اللہ بھی الہ آباد سے کبھی کبھار اس علاقے میں تشریف لاتے تھے۔ اب ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین مولانا احمد متین صاحب اس سلسلے کو باقی رکھے ہوے ہیں۔ مولانا کے بہت سے متعلقین مدرسے کی مسجد میں جمع تھے، ظہر کی نماز کے بعد کچھ دیر تک مولانا کا بیان ہوا اور پھر اعتدال فکر ونظر کے موضوع پر مجھے بھی کچھ باتیں کہنے کا موقع ملا۔
عصر کی نماز سے فراغت کے بعد ہم لوگ کوپا گنج کے لیے نکلے۔ حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی کا اس قصبے میں کثرت سے آنا جانا تھا۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ دو تین لوگوں سے ملاقات کرکے واپس ندوہ سرائے لوٹ جائیں گے جہاں رات میں قیام کرنا تھا۔ مغرب کی نماز ایک صاحب کے مکان پر پڑھی، ارادہ تھا کہ یہاں سے شاہ وصی اللہ رح کے معمر مرید وصحبت یافتہ حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب سے ملاقات کی جائے گی۔ میں میزبان کے مکان سے پہلے نکل آیا اور بقیہ رفقائے سفر کا انتظار کرنے لگا، اس گلی سے دارالعلوم دیوبند کے ایک فاضل جو مجھ سے ایک سال سینیر تھے گزر رہے تھے، وہ مجھے دیکھ کر رکے اور حیرت و استعجاب سے یہ پوچھتے ہوے آگے بڑھے کہ میں کوپا گنج کی اس تنگ گلی میں کھڑا کیا کررہا ہوں۔ علیک سلیک کے بعد ان کی اور بقیہ رفقائے سفر کی معیت میں مولانا محفوظ الرحمن صاحب کے مکان کی طرف بڑھے۔ حضرت اس علاقے کی ایک معتبر شخصیت اور صاحب فراش بزرگ ہیں۔ ان کے مکان پر مولانا احمد متین اور ان کے برادران کے استقبال کے لیے شہر کے کچھ سینیر علماء پہلے سے موجود تھے، یہ حضرات نہایت سادہ مزاج تھے، ان کو دیکھ کو یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا کہ وہ ایسے مدارس کے شیوخ الحدیث اور نظماء ہوں گے جہاں ہزار ہزار سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، انھی میں ایک شخصیت حضرت مولانا اخلاق احمد صاحب کی بھی تھی جو میرے نانا حضرت مولانا قاری عبد اللہ سلیم دامت برکاتہم کے ہم سبق تھے۔ ان حضرات کا اصرار ہوا کہ عشاء کے بعد شہر کی جامع مسجد میں ایک خطاب ہوجائے۔ چناں چہ حکم کی تعمیل کرتے ہوے کچھ دیر گفتگو کا موقع ملا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ موجودہ حالات اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہیں، اگر ہم ان حالات میں اپنے دینی تشخص کی حفاظت کرلیں تو کامیابی ہر حال میں قدم چومے گی۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل مولانا انس فلاحی بذریعہ واٹس ایپ اپنے مسلسل پیغامات کے ذریعے مصر تھے ان کی مادر علمی جامعہ الفلاح کا دورہ بھی کیا جائے۔ جامعہ کے استاذ مولانا عبید اللہ طاہر مدنی نے بھی فون کے ذریعے رابطہ کیا اور جامعہ آنے کی دعوت دی۔ مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور کے ناظم اعلیٰ مولانا یاسر قاسمی نے بھی اپنے ادارے میں آنے کی دعوت دی۔ وقت کی قلت کی بنا پر، اٹھارہ مارچ کو بارہ بجے دن میں الفلاح جانا طے کیا اور مبارک پور کے سفر کو اس امید سے ملتوی کردیا کہ اگلی بار اس ادارے میں ضرور حاضری ہوگی۔ ویسے بھی میں مدرسة الاصلاح سرائے میر اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور بھی جانا چاہتا تھا، مگر تنگ دامانی وقت نے ان تاریخی اداروں کی زیارت سے محروم رکھا۔
جامعہ الفلاح میں مولانا عبید اللہ مدنی اور ان کے رفقاء نے استقبال کیا۔ مولانا کے والد گرامی مولانا طاہر مدنی ان باتوفیق لوگوں میں شامل ہیں جو سی اے اے کے خلاف احتجاج کے تناظر میں کئی ماہ سے جیل میں بند ہیں اور حکومت کے ظلم کا شکار ہیں۔ ان کی ضمانت سیشن کورٹ سے گیارہ بجے ہی مسترد ہوئی تھی۔ اس کے باوجود ان کے صاحب زادے مولانا عبید اللہ فلاحی ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ مولانا اور ان کے رفقاء نے مدرسے کا معائنہ کرایا اور پھر ظہر کی نماز کے بعد طلبہ سے خطاب کے لیے کہا۔ کورونا وائرس کا رونا پوری دنیا میں جاری ہے اس لیے جامعہ کے بہت سے طلبہ گھروں کو روانہ ہوچکے تھے، اس کے باوجود طلبہ کی اچھی خاصی تعداد مسجد میں موجود تھی۔ مدرسے کے ایک استاذ نے مجھے بتایا تھا کہ کچھ طلبہ یہاں اس فکر کے حامل ہیں کہ حدیث کی قبولیت کا معیار یہ ہے کہ وہ عقل کے موافق ہو۔ اسی مناسبت سے میں نے اسباب علم یعنی حواس خمسہ، عقل اور وحی نیز ان کے دائرہ کار پر گفتگو مناسب سمجھی۔ مختصرا کانٹ، جان لاک اور ڈیوڈ ہیوم کے اسباب علم کے حوالے سے اختلاف کا بھی ذکر کیا، نیز کشش ثقل اور نظریہ ارتقاء پر بھی ضمنا روشنی ڈالی۔ خطاب کے بعد طلبہ کی جانب سے سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا اور انھوں نے مختلف سائنسی وفکری سوالات کیے، جن سے اندازہ ہوا کہ سوال کرنے والے طلبہ کا خارجی مطالعہ اچھا ہے اور ان کی فکر وسیع ہوسکتی ہے، بشرطیکہ ان کے مطالعہ کو ایسے دروس اور لیکچرز سے مہمیز کردیا جائے جو فلاسفی آف سائنس اور علم کلام کے ماہرین کی جانب سے وقتا فوقتاً دیے جاتے رہیں، بلکہ اس جامعہ میں اسلامی تناظر میں فلاسفی آف سائنس پڑھانے کے لیے ایک خاص شعبہ بآسانی قائم کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہاں کے طلبہ فضیلت کے سال تک پہنچتے پہنچتے بی اے کے مساوی انگریزی زبان سیکھ لیتے ہیں، انھی جدید مباحث پڑھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے اپنی گفتگو میں عمدا انگریزی اصطلاحات کا بکثرت استعمال کیا اور مجھے محسوس ہوا کہ طلبہ ان کو سمجھ رہے ہیں۔ موجودہ دور کے تناظر میں ہر ادارے میں ایسے انقلابی قدم کی ضرورت ہے جس سے تشکیک والحاد کے بڑھتے فتنے کا مقابلہ کیا جاسکے۔
ظہرانے کے بعد الفلاح کے اساتذہ سے اجازت لیکر ہم آلہ آباد کے لیے رخصت ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اعظم گڈھ اور مئو کا یہ مردم خیز خطہ اپنے مدارس اور جامعات کی کثرت کی بنا پر اس بات کا متقاضی ہے کہ کئی دن یہاں رہا جائے اور یہاں کے مختلف الفکر علماء سے استفادہ کیا جائے۔
اسی سفر میں بروز سنیچر آئی آئی ٹی کانپور میں کچھ ملحدین کی دعوت پر ایک پروگرام بھی تھا جو کورونا کی نذر ہوگیا۔ مجھے ایسے مکالموں کا شدت سے انتظار رہتا ہے جن سے مجھے یہ جاننے کا موقع ملے کہ بہترین تعلیم حاصل کرنے والے سائنس زدہ لوگوں کے ذہن میں کیا سوالات جنم لے رہے ہیں، مگر اس سفر میں یہ ممکن نہ ہوسکا، لعل الله يُحدث بعد ذلك أمراـ