معصوم مرادآبادی صاحب دہلی میں مقیم ان معدودے چند صحافیوں میں ہیں جن کی تحریریں ادبی رعنائیوں سے بھی آراستہ ہوتی ہیں۔ چار دہائیوں سے زائد عرصے کو محیط بھرپور صحافتی و تحریری تجربات رکھتے ہیں اور ادھر چار پانچ سال کے عرصے میں ان کے قلم کی جولانیاں خاصے عروج پر ہیں ، خصوصاً کورونا کے زمانے میں اور اس کے بعد اب تک ان کی دس کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں سے پانچ تصانیف اور اتنی ہیں تالیفات ہیں، ان کے علاوہ اس عرصے میں ان کی بعض پرانی کتابوں کے نئے ایڈیشن بھی شائع ہوئے اور اردو قارئین کے حلقے میں پذیرائیوں سے ہم کنار ہوئے ہیں۔
حال میں ان کی تین کتابیں میرے زیر مطالعہ رہی ہیں، جن میں سے ایک قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی سے شائع ہوئی، دوسری انجمن ترقی اردو ہند سے اور تیسری ایم آر پبلی کیشنز دہلی نے شائع کی ہے۔ ذیل میں تینوں کتابوں پر مختصر تاثرات پیش ہیں ۔
منشی عبدالقیوم خاں خطاط
200 صفحات پر مشتمل یہ ایک دلچسپ اور معلومات افزا کتاب ہے ، جس کی اشاعت قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام عمل میں آئی ہے۔ معصوم صاحب اس کے مرتب ہیں اور منشی عبدالقیوم خان خطاط کے نواسے ، جن سے ہندوستان کا علمی و ادبی حلقہ بالعموم نا آشنا ہے ، حالاں کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کے رفیقِ علمی اور ان کی تصنیفی زندگی کے عینی شاہد رہے ہیں، بطور خطاط انھوں نے مشہورِ زمانہ اخبار ‘مدینہ’ بجنور اور قرآن کریم کے ترجمۂ شیخ الہند و تفسیری افادات کی کتابت کے علاوہ ڈیڑھ سال ( اکتوبر 1934 تا مارچ 1936) مولانا آزاد کی رفاقت میں رہ کر ان کے شہرۂ آفاق ترجمہ و تفسیر ‘ترجمان القرآن’ کی کتابت کی ، اس کے علاوہ ان کے مشہور و مقبول ادبی شاہ کار ‘غبارِ خاطر’ کے پہلے ایڈیشن کی کتابت بھی منشی عبدالقیوم نے ہی کی ۔ ان کا ان تاریخ ساز تصانیف کا کاتب ہونا ہی کم اہمیت کا حامل نہیں، مگر اس سے بڑھ کر ان کا شخصی امتیاز یہ ہے کہ چوں کہ مولانا آزاد ان دنوں سخت مالی تنگیوں سے دوچار ؛ بلکہ اچھے خاصے مقروض بھی تھے اور مالی معاملات و انتظامات کی پیچیدگیوں سے نا آگاہ ؛ اس لیے منشی جی نے ‘ترجمان القرآن’ کی کتابت کے علاوہ اپنے بعض متعلقین کی مدد سے اس کی طباعت کا بھی اہتمام کیا ۔ اسی طرح’غبارِ خاطر’ ، جس کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ادبی دنیا میں اس کی دھوم مچ گئی اور ناقدین و اصحابِ دانش نے اس کی سطور و بین السطور کو کھنگالنے میں اپنی بے مثال علمی و ادبی توانائیاں صرف کیں اور آج بھی اس کتاب پر لوگ کیا کیا نہیں لکھتے اور اس کی خوبیوں کے نہ جانے کن کن خفی و جلی پہلووں کو آشکار کرتے ہیں، مگر اس کتاب کے کاتب اور مولانا آزاد کے معتمد منشی عبدالقیوم ہمیں بتاتے ہیں کہ ابتداءاً مولانا آزاد کے ذہن میں ان مکاتیب کی اشاعت کا خیال بھی نہ تھا؛ لیکن قرضوں کا بار کم کرنے کی تدبیر کے طور پر ان کی اشاعت کا فیصلہ کیا گیا اور پبلشر سے اس سلسلے کے جملہ معاملات انھی منشی جی کی وساطت سے طے پائے۔ مولانا آزاد کی ایک اور معرکۃ الآرا تصنیف ‘تذکرہ’ کے پہلے ایڈیشن کی کتابت بھی انھی منشی جی نے کی تھی۔ بیسویں صدی کے مشہور و معروف علمی ، فکری و اشاعتی ادارے ‘ ندوۃ المصنفین ‘ دہلی سے بھی منشی عبدالقیوم کی وابستگی رہی اور اس کی بہت سی دوسری مطبوعات کے علاوہ ماہنامہ ‘ برہان’ کی بھی انھوں نے کتابت کی۔
زیرِ نظر کتاب کے دوسرے باب میں مولانا آزاد کے منشی جی کے نام چودہ خطوط، جبکہ پہلے باب میں مولانا آزاد کی رفاقت اور ان کی چشم دید معاشی حالت پر منشی جی کی تحریریں شامل ہیں ۔ تیسرے باب میں منشی جی کی زندگی ، اخلاق ، معمولات و شخصیت وغیرہ کے تعلق سے مختلف اہل علم و قلم کی تحریریں ہیں اور چوتھے باب میں معصوم صاحب نے منشی جی کے وہ خطوط جمع کیے ہیں ، جو انھوں نے اپنے بیٹے عبدالملک جامعی کو لکھے تھے۔ یہ خطوط بھی خاصے دلچسپ، معلومات افزا ہیں ، ان کے مطالعے سے منشی جی کے بعض خانگی حالات کے ساتھ آزادی کے بعد دہلی پر جو بیتی اس کا ایک آنکھوں دیکھا نقش روشن ہوجاتا ہے۔
معصوم صاحب نے لکھا ہے کہ منشی عبدالقیوم محض کاتب اور خطاط ہی نہ تھے؛ بلکہ ایک ذی علم انسان تھے اور انھیں اردو کے علاوہ عربی ، فارسی اور ترکی زبان سے بھی واقفیت تھی۔ ان کی علمیت اور فہم و ذکا کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ ترجمان کی کتابت کے دوران انھیں بعض مقامات پر کچھ اشکال ہوا، جس کا اظہار انھوں نے مولانا آزاد سے کیا تو مولانا نے غور کرنے کے بعد ان کی راے درست جانی اور اس کے مطابق ترجمان کے متعلقہ مقامات پر ترمیم بھی کی۔ منشی جی کو شاعری کا بھی شوق تھا اور اس کا بھی نمونہ اس کتاب میں درج ہے، اسی طرح ان کی کتابت کے چند نمونے بھی آخر میں درج کیے گئے ہیں۔ بہر کیف یہ کتاب ابوالکلامیات کے حوالے سے بالکل اوریجنل، معلوماتی و تحقیقی مواد سامنے لاتی ہے اور ان کے ایک اہم رفیق کی زندگی و کردار کو اجالتی ہے ۔ معصوم صاحب نے یہ مواد بڑی محنت سے اکٹھا کیا ہے اور قومی اردو کونسل نے اسے اس کے شایانِ شان شائع کیا ہے، جس کے لیے مرتب اور ناشر دونوں تحسین و آفرین کے مستحق ہیں ۔ مولانا آزاد کی سیرت و شخصیت اور علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔
نگینے لوگ
معصوم صاحب کی یہ کتاب بھی اسی سال شائع ہوئی ہے اور یہ زندہ شخصیات کے خاکوں کا مجموعہ ہے ، اس میں اکیس تو خالص خاکے ہیں جبکہ چھ تحریریں در اصل چھ مختلف اہل علم و قلم کی کتابوں پر لکھے گئے تبصرے ہیں، جن میں صاحبانِ کتاب کی شخصیت کے بعض پہلو بھی اجاگر کیے گئے ہیں ۔ کتاب کے شروع میں ناشر یعنی انجمن ترقی اردو ہند کے سکریٹری اطہر فاروقی صاحب کا حرفِ آغاز ہے۔ تین صفحات اور سوا دو سطروں پر مشتمل یہ مضمون فاروقی صاحب نے غالباً املا کروایا ہے اور نظر ثانی کے بغیر شاملِ کتاب ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے اتنی مختصر سی تحریر میں زبان و قواعد کی بارہ تیرہ ایسی غلطیاں ہیں، جو نظر انداز نہیں کی جاسکتیں ، مثلاً لفظ ‘ صحافت’ اور ‘ نشأت ثانیہ’ اس میں بیشتر مقامات پر مذکر استعمال کیے گئے ہیں، بعض جگہوں پر واحد کی جگہ جمع اور جمع کی جگہ واحد کی ضمیر استعمال کی گئی ہے۔ ‘ مع مسلم لیڈر شپ کے قحط سمیت’ میں ‘ مع’ اور ‘ سمیت’ اور ‘ دو بڑے اسقفِ اعظم’ میں ‘ بڑے’ اور ‘ اعظم’ کا ایک ساتھ استعمال ایسا ہی ہے، جیسے ‘ آبِ زمزم کا پانی’ ۔
معصوم صاحب نے اپنے پیش لفظ میں کتاب میں شامل خاکوں کا پس منظر اور ان کے لکھے جانے کے جواز پر گفتگو کرنے کے ساتھ مختصراً اردو میں خاکہ نگاری کی روایت پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ایک تحریر معروف ادیب اور فکشن نگار پروفیسر غضنفر کی ہے، جس میں انھوں نے اپنے البیلے انداز میں پوری کتاب کا گویا حاصلِ مطالعہ پیش کردیا ہے۔
خاکے اور خود نوشت سوانح میری مطالعاتی دلچسپیوں کا حصہ ہیں؛ اس لیے ایسی تحریریں بڑے ذوق و شوق سے پڑھتا رہا ہوں ۔ معصوم صاحب کے ان خاکوں میں سے کئی تو ان کی فیس بک وال پر پڑھ چکا تھا، اب کتابی صورت میں اشاعت کے بعد کچھ مزید خاکوں کے ساتھ انھیں بھی دوبارہ پڑھا گیا۔ ان کے تعلق سے میرا طالب علمانہ تاثر یہ ہے کہ یہ دلچسپ بھی ہیں، ادبیت سے لبریز بھی ہیں اور ان میں خاکے کے وہ تمام خصائص کم و بیش موجود ہیں جن کا ایک خاکہ نگار سے مطالبہ کیا جاتا ہے یا جو کسی خاکے میں ہونے چاہئیں ۔ معصوم مرادآبادی کا اسلوب سادہ و بے تکلف ہے، شخصیات کو دیکھنے اور برتنے کا واضح نظریہ رکھتے ہیں ، طویل ترین تحریری تجربات کی وجہ سے لفظوں کا ظاہر و باطن بھی ان پر بڑی حد تک روشن ہے؛ اس لیے انھوں نے اپنے خاکوں میں متعلقہ شخصیات کے اخلاق و کردار کی مختلف جہتوں کو الم نشرح کرنے کے لیے عموماً بہت موزوں الفاظ اور مناسب اندازِ نگارش اختیار کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ شخصیات کو دیکھنے ، سمجھنے اور پرکھنے کا ہر شخص کا اپنا اسٹائل اور زاویہ ہوتا ہے؛ اس لیے کوئی ضروری نہیں کہ معصوم صاحب نے جس کے بارے میں جو جانا اور سمجھا، وہی اس سے آگاہ ہر شخص جانتا اور سمجھتا ہو، مگر ایک بات تو ہے کہ اس حوالے سے اختلاف یا اتفاق کا حق محفوظ رکھنے کے باوجود جو شخص بھی ان خاکوں کو پڑھے گا، وہ ان سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہ رہے گا۔ کسی شاعر( غالباً جواد شیخ) کا بڑا اچھا شعر ہے:
تم کسی اور حوالے سے مجھے جانتے ہو
میں کسی اور حوالے سے بہت اچھا ہوں
تو یہ عنصر ہر انسان میں پایا جاتا ہے، اس کے کیرکٹر کا کوئی پہلو روشن ہوتا ہے تو کوئی تاریک اور کسی شخصیت کا جو وصف کسی کے لیے باعثِ کشش ہوتا ہے، وہی دوسرے کے لیے بسا اوقات باعثِ تشویش بن جاتا ہے۔
بہر کیف اس کتاب کے خاکے معصوم صاحب کے حسنِ نگارش کے نمونے ہیں اور یوں تو سبھی اچھے اور پڑھنے لائق ہیں، مگر کچھ خاکے اپنی جاذبیت، حلاوت ، طنزیہ و مزاحیہ اسلوب اور خاکہ نگار کی مشاہداتی قوت و دقت نظری کی وجہ خاص توجہ کے طالب ، لطف انگیز، فرحت خیز و انتعاش ریز ہیں۔ آخر میں خاکہ نگار یعنی معصوم صاحب کا خاکہ بقلم خود بھی دلچسپ ہے، جس سے ان کی زندگی کے اب تک کے سفر سے آگاہی ہوتی ہے۔ دو سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب انجمن ترقی اردو ہند کے ذریعے بہت خوب صورت شائع کی گئی ہے اور 250 روپے میں دستیاب ہے۔
چہرے پڑھا کرو
2025 میں شائع ہونے والی معصوم مرادآبادی کی ایک اور کتاب ‘ چہرے پڑھا کرو’ ہے ، اسے ایم آر پبلی کیشنز دہلی نے شائع کیا ہے اور اس کی ضخامت 408 صفحات ہے۔ اس کو معصوم صاحب نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے، پہلا باب ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے خاکوں پر مشتمل ہے ، دوسرے باب میں صحافیوں کے خاکے ہیں، تیسرے باب میں سماجی خدمت گاروں کے، چوتھے باب میں دینی و ملی شخصیات کے اور پانچویں باب میں سیاست دانوں کے خاکے ہیں۔ یہ میں نے ان ابواب میں مذکور زیادہ تر شخصیات کی عملی وابستگیوں کی روشنی میں لکھا ہے، بعض ابواب کی بعض شخصیات کے بارے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھیں دوسرے باب میں شامل کیا جانا چاہیے تھا۔ اسی طرح یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ مصنف نے شخصیات کی ترتیب / تقدیم و تاخیر کے حوالے سے کونسا طریقۂ کار اختیار کیا ہے، ایسی کتابوں میں عموماً الف بائی ترتیب اپنائی جاتی ہے یا پھر متعلقہ شخصیات کے سنین پیدایش یا وفات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، مگر اس کتاب میں غالباً کسی خاص طریقۂ ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔
بہر کیف ، اس میں کل 65 شخصیات کے خاکے ہیں ؛ بلکہ ان کی نوعیت زیادہ تر خاکے سے مختلف ہے ، کہ یہ عموماً متعلقہ شخصیات کی وفات کے فوراً بعد لکھے گئے ہیں اور ان میں روایتی خاکہ نگاری کے ساتھ کچھ اضافی خصوصیات سوانح نگاری کی بھی پائی جاتی ہیں؛ چنانچہ بیشتر مضامین کے مطالعے سے جہاں ہمیں زیر تحریر شخصیات کی اخلاقی و عملی خصوصیات، ان کے اطوار و افکار کی جھلکیاں ملتی ہیں، وہیں ان کی ذاتی زندگی سے متعلق کار آمد معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں، اس طرح یہ محض خاکوں کی بجاے خاص نوعیت کی سوانحی تحریریں قرار دی جاسکتی ہیں ، جن کے مطالعے سے بیسویں صدی کی 65 علمی، ادبی، سماجی ، دینی و سیاسی شخصیات کی زندگی اور ان کے کارناموں کے ساتھ ان کے شخصی اوصاف و امتیازات آشکار ہوتے ہیں اور یہ افزونیِ معلومات کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ ایک خاص بات جو ان کے مطالعے کے دوران محسوس ہوتی ہے، یہ ہے کہ مصنف نے ان شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے محض سرسری مشاہدے یا لفاظی سے کام نہیں لیا ہے؛ بلکہ اپنی تحریر کو مواد کے اعتبار سے بھی وقیع بنانے کی شعوری کوشش کی ہے، جس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کتاب کے بہت سے مضامین آیندہ کسی علمی تحقیقی تحریر یا متعلقہ شخصیات کی باضابطہ سوانح نگاری میں حوالے کا کام بھی دے سکتے ہیں ۔ کتاب کے شروع میں شامل معروف ناقد و دانش ور پروفیسر شافع قدوائی کا مقدمہ کتاب کی خوبیوں کی نشان دہی کرنے کے ساتھ اجمالی طور پر اس کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرتا ہے۔
ایک قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ مؤخر الذکر دونوں کتابوں کا مواد مختلف طویل و مختصر زمانی وقفوں میں لکھا اور ترتیب دیا گیا ہے، غالباً اس لیے مصنف نے دونوں کے لیے جو نام مناسب سمجھا، تجویز کیا اور اس میں شک نہیں کہ دونوں ہی نام پرکشش ہیں، مگر چوں کہ دونوں کی اشاعت تقریباً ساتھ ہی عمل میں آئی اور ان کا اجرا بھی ساتھ ہی ہوا ؛ اس لیے جب بہ یک وقت دونوں کتابیں پیشِ نگاہ ہوں، تو ذرا سا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ جس کتاب کا نام ‘ نگینے لوگ’ ہے، اس کا نام ‘ چہرے پڑھا کرو’ ہونا چاہیے تھا اور دوسری کتاب کا نام ‘ نگینے لوگ’ ہونا چاہیے تھا۔ قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال صاحب نے بھی ان کتابوں کی تقریبِ اجرا میں اس کی نشان دہی کی تھی اور اس کی معقول وجہ بھی بیان کی تھی ، جس پر معصوم صاحب نے بھی صاد کیا تھا؛ لہذا اگر اگلے ایڈیشن میں ان کتابوں کے نام بدل لیے جائیں تو مواد کے ساتھ ان کتابوں کے ناموں کی معنویت بھی فزوں تر ہو جائے گی۔