لکھنؤ: ممتاز صحافی معصوم مرادآبادی کی کتاب ’بالمشافہ‘ جو کہ شاعروں ،ادیبوں اور اہم شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل ہے اس کی رسم رونمائی اورمذاکرہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں ہوا۔ جلسے کی صدارت ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے فرمائی اور نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے۔انھوں نے کہا کہ کتاب کا یہ ایڈیشن لکھنوسے نعمانی کیئر فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے،جس کے رو ح رواں اویس سنبھلی ہیں۔تین دہائی بعد کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہورہا ہے جو کہ بہت خوش آیند ہے۔ کیمپس کی انچارج ڈاکٹر ہما یعقوب نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک نہایت عمدہ اور کارآمد کتاب ہے۔قاری کو دوشخص کی گفتگو کے درمیان بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے۔ڈاکٹر نور فاطمہ نے کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” بالمشافہ ایک رنگین البم ہے جس میں مختلف شخصیات کے مزاج اور لہجوں کے متنوع رنگ ایک ساتھ جمع ہوگئے ہیں۔انھوں نے کہاکہ اس کتاب کے مطالعہ سے انٹرویو نگار کے ادبی سروکار کو خاص طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ان کے بقول معاصر ادبی منظرنامے سے واقفیت،بعض لسانی مسائل اور مختلف شخصیات کے متنوع مزاج اور لہجے کے مابین فرق کو بھی واضح طور پر کتاب کے مطالعہ کے دوران میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر نور فاطمہ نے اس بات پر خاص زور دیا کہ معصوم مرادآبادی نے ہر شاعر اور ادیب سے اس کے تخلیقی سفرکو سامنے رکھ کر نہایت موزوں سوال کیے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اخترالایمان،کیف بھوپالی،حبیب جالب،افتخار عارف،مظفر وارثی،ملک زادہ منظور احمد،صلاح الدین پرویز اور بشیر بدر کے انٹرویوز کو پڑھ کر یہ بات نہایت اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ معصوم مرادآبادی نے نہایت سلیقے سے گفتگو کی ہے۔
حمیرا عالیہ نے کہا کہ معصو م مرادآبادی کے صحافتی تجربات کی فنی جھلک ہمیں بالمشافہ کے انٹرویوز میں واضح طورپر دیکھنے کو ملتی ہے۔کیونکہ انھو ں نے انٹرویو کے لیے جن شخصیات کا انتخاب کیا ہے وہ اردو شعرو ادب کے ساتھ معاشرے میں بھی اہم حیثیت کی حامل ہیں۔انھوں نے مز ید کہا کہ جن لوگوں کے انٹرویوز اس کتاب میں شامل ہیں وہ کسی نہ کسی حوالے سے ادب اور زندگی کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
سینئرصحافی قطب اللہ نے کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب انٹرویو کے فن کے لحاظ سے بھی شاہ کار ہے کیونکہ معصوم مرادآبادی نے مختصر سوال کیا ہے اور زیادہ موقع شخصیات کو دیا ہے تاکہ ان کا پورا موقف سامنے آجائے۔انھوں نے کہا کہ ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ سماجی شخصیات کی شمولیت نے کتاب کی اہمیت کودو چند کردیا ہے۔
ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے کہا کہ بالمشافہ سے انٹرویو کے فن کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔معصوم مرادآبادی نے نہایت عمدہ طریقے سے لوگوں سے گفتگو کی ہے اور ان کی پیش کش اور زبان بھی عمدہ ہے۔میں انھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے خود نمائی سے ہر ممکن پرہیز کیا ہے اور سامنے والے کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بہت مشکل فن ہے۔
صدارتی گفتگو میں ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے کہا کہ معصوم مرادآبادی کی یہ کتاب دراصل ادب اورسماج دونوں کا آئینہ ہے کیونکہ اس میں ادیبوں کے ساتھ ساتھ سماجی شخصیات اور دیگر فن کاروں سے بھی انٹر ویو لیے گئے ہیں جو نہایت کارآمد ہیں۔
اس موقع پر کیمپس کے اساتذہ،ریسرچ اسکالرز اور طلبہ کے علاوہ شہر نگاراں کی اہم شخصیات میں حکیم وسیم احمد اعظمی،پروفیسر جمال نصرت،محی بخش قادری،محبوب عالم خاں،منظور وقار،اویس سنبھلی، راجیوپرکاش ساحر،راشد خاں،ضیاء اللہ ندوی، ڈاکٹر طارق منظور وغیرہ موجود تھے۔ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی نے شکریہ ادا کیا۔