Home تجزیہ ایرونڈل کی جامع مسجد پر دعویٰ سے اٹھتے سوال – شکیل رشید

ایرونڈل کی جامع مسجد پر دعویٰ سے اٹھتے سوال – شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

جلگاؤں کے ایرونڈل نامی شہر کی ۱۶۲ ، سالہ قدیم مسجد ملک کی دوسری بابری مسجد بننے سے بچا لی گئی ۔ منگل کے روز ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعے جلگاؤں کے کلکٹر امن متّل کے ، مسجد کے اندر نماز پر پابندی کے فیصلے پر اسٹے کا حکم دے دیا ، اور فریق ’ پانڈو واڑہ سنگھرش سمیتی ‘ کے اس اصرار کو کہ ’ معاملے کی سماعت مکمل ہونے تک مسجد میں صرف دو لوگوں کو ہی نماز ادا کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ مسجد عام لوگوں کے لیے کھولنے کی وجہ سے علاقے میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے ‘ ماننے سے انکار کر دیا ۔ اب قدیم مسجد میں حسبِ سابق پنچ وقتہ نماز اد ہو گی ۔ مسجد میں قدیم زمانے سے نمازیں ادا کی جا رہی تھیں ، کبھی کوئی مسٔلہ پیدا نہیں ہوا ، لیکن ایک دن اچانک اس مسجد کی اراضی پر دعویٰ کر دیا گیا ، اور دعویٰ کرنے والی جماعت ’ پانڈو واڑہ سنگھرش سمیتی ‘ کی عرضداشت پر کلکٹر نے سی آرپی سی کی دفعہ 145 کا استعمال کرتے ہوئے نماز پر بھی روک لگادی اور ریسیور بھی بٹھا دیا ۔ یہ عمل بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ بابری مسجد معاملے میں کیا گیا تھا ۔ جب یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بابری مسجد میں رام للّا پرکٹ ہوئے ہیں ، تو فیض آباد کے اُس وقت کے کلکٹر نے 145 کی دفعہ کا ہی استعمال کرتے ہوئے مسجد کو اپنے قبضہ میں لیا تھا ، اور ایک برہمن کو رام للّاکی پوجا ارچنا کے لیے مقرر کیا تھا ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اس ملک کی سیاہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ بابری مسجد شہید کی گئی اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس گگوئی نے ، جو اب راجیہ سبھا کے ایم پی ہیں ، یہ قبول کرنے کے باوجود کہ مسجد کی تعمیر کسی مندر کی بنیاد پر نہیں ہے ، بابری مسجد کی جگہ رام ندر کی تعمیر کے لیے سونپ دی ۔ اسی لیے جلگاؤں کی جامع مسجد پر اسٹے اور ریسیور مقرر کرنے کے کلکٹر کے فیصلے پر مقامی لوگوں کی تشویش بجا تھی ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مسجد انتظامیہ کے پاس تمام دستاویزات ہونے کے باوجود کلکٹر نے مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگانے کا فیصلہ جاری کیا ۔ بلاشبہ یہ ایک غیر آئینی فیصلہ تھا ، اور ہائی کورٹ نے اس پر اسٹے لگا کر کلکٹر کے فیصلے کی حقیقت کو واضح بھی کر دیا ۔ لیکن اب اسٹے لگنے کے باوجود جامع مسجد کی اراضی کا مقدمہ چلے گا ، اور فرقہ پرستوں کو اپنا ناپاک کھیل کھیلنے کا موقعہ حاصل ہوگا ۔ ممکن ہے کہ وہ سمیتی جس نے مسجد کی اراضی پر دعویٰ کیا ہے ، اس معاملے کو اُسی طرح اٹھائے جیسے ایودھیا کا معاملہ اٹھایا گیا تھا ۔ اور لوک سبھا کے آنے والے الیکشن کے مدنظریہ اندیشہ ہے کہ اس معاملے کو پوری طرح سے فرقہ وارانہ بنانے کی ، اور ووٹ کے حصول کے لیے شہریوں کو فرقوں میں بانٹنے کی ناپاک کوشش کی جا سکتی ہے ، اس لیے اس معاملہ سے نمٹنے کے لیے بہت احتیاط کی بھی ضرورت ہے ، اور تیاری کی بھی ۔ ایک سوال بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہی سے موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ بھلا کیا اس ملک میں اب مسجدیں ، خانقاہیں ، مزارات اور قبرستان وغیرہ محفوظ نہیں ہیں ؟ اس سوال کے اٹھنے کا سبب بابری مسجد کا قضیہ تو ہے ہی ، دیگر مسجدوں اور مسلم آثار پر کیے جانے والے دعوے بھی اس سوال کا ایک بڑا سبب ہیں ۔ کئی مسجدیں ہیں جن کے مقدمے چل رہے ہیں ، جیسے وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی مسجد ۔ وارانسی کی مسجد کو شیو استھان کہہ کر دعویٰ ہے ، اور متھرا کی شاہی مسجد کو کرشن جنم بھومی کہا جا رہا ہے ۔ ملک بھر کی تین ہزار عباد گاہوں پر دعوے ہیں ، حالانکہ مذہبی مقامات کے تحفظ کے لیے باقاعدہ ’ پلیس آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء ‘ کا قانون موجود ہے ۔ اس قانون کو نافذ کرنے کے دو مقصد تھے ، پہلا مقصد کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا ، اور دوسرا مقصد آزادی کے موقع پر ، یعنی ۱۹۴۷ء کے وقت ملک میں عبادت گاہیں جس حال میں تھیں اسی حال میں رہنے دینا ۔ واضح رہے کہ عدالت نے ، بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کے فیصلہ میں ، ان دونوں مقاصد کو مانا ہے ۔ پلیس آف ورشپ کا قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے ، اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ میں کیا گیا ہے ۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ اس قانون کے تحت تحفظ فراہم ہونے کے باوجود مسجدیں اور مسلم آثار نہ صرف نشانہ بنائے جا رہے ہیں ، بلکہ عبادت گاہوں پر قبضہ کرنے کے لیے نچلی عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے جا رہے ہیں ، اور نچلی عدالتیں مذکورہ قانون کو نظر انداز کر کے مقدمے سُن بھی رہی ہیں ۔ ایرونڈل کی جامع مسجد مذکورہ قانون کے تحت محفوظ مانی جانی چاہیے تھی ، اور اس کا معاملہ اوّل تو سُنا ہی نہیں جانا تھا ، اور اگر سُنا بھی جانا تھا تو کلکٹر کو نمازوں کی ادائیگی پر روک لگانے کا فیصلہ نہیں دینا تھا ۔ نچلی عدالتوں کے ذریعے جو عرضداشتیں سنی جا رہی ہیں اُن سے حالات بگڑ رہے ہیں ۔ جمعیتہ علما ہند ( ارشد مدنی ) نے سپریم کورٹ میں یہ درخواست دائر کر رکھی ہے کہ مذکورہ قانون کے تحت نچلی عدالتوں پر یہ پابندی لگائی جائے کہ وہ مسجدوں اور عید گاہوں وغیرہ کی ملکیت کے اور ان پر دعوؤں کے مقدمات نہ سُنیں ۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس درخواست پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں سُنایا ہے ۔ عدالتِ عظمیٰ کو چاہیے کہ وہ پلیس آف ورشپ قانون کا سختی سے نفاذ کرے تاکہ ۱۹۴۷ ء کے بعد عباد گاہیں جس حالت میں تھیں اُس حالت میں محفوظ رہ سکیں ، اور ایرونڈل کی جامع مسجد جیسے معاملات پیش نہ آئیں ، کیونکہ اس طرح کے معاملات سے فرقہ پرست عناصر کو شہ ملتی ہے ، اور مختلف فرقے آمنے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں ، اور ملک کا ماحول کششیدہ ہو جاتا ہے ۔ اس قانون کی حفاظت کرنا اور تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنا سیکولر ملک کی ذمہ داری ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like